خدیجہ مستور
خدیجہ مستور اور قرۃ العین حیدر دو ایسی خواتین ہیں جن سے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے بعد اُنہوں نے ایک عہد کو متاثر کیا تو چنداں غلط نہ ہو گا۔خدیجہ نے اوّل اوّل شعر گوئی کی کوشش بھی کی مگر اُس میں انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی کہ اللہ کریم نے انہیں ایک مختلف کلام کے لیے منتخب کیا تھا۔ اُن کے ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’آگ کا دریا ‘‘ میں مشترک قدر یہ ہے کہ قرۃ العین نے ہندوستان کی اڑھائی ہزار سال کی مشترکہ تہذیب کو موضوع بنایا جب کہ آنگن کا موضوع ہندوستان کے سیاسی حالات کے گھریلو زندگی پر اثرات سے ہے کہ ایک خاندان میں مختلف سیاسی نظریات کے حامل افراد حالات کے سلجھاتے سلجھاتے تباہی کے دہانے پر آ جاتے ہیں۔ادبی اعتبار سے اِس ناول کی زبان اگرچہ اُن کے ناول زمین سے بہتر ہے مگر اُنہوں نے کہیں بھی غیر ضروری فلسفے یا دقیق اور گہرے تجربات و مشاہدات کو بیان نہیں کیا۔بوجھل الفاظ سے اجتناب کیا ہے۔
خدیجہ مستور ۱۹۲۷ ء میں لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اُردو ادب کو چند بہترین ناول اور افسانوی مجموعے دئیے۔۱۹۴۱ء میںاُن کی ابتدائی کہانیاں ’’خیام‘‘ اور ’’عالمگیر‘‘ رسائل میں شائع ہوئیں۔ اُن کے افسانوی مجموعے ’’ٹھنڈا اور میٹھا پانی‘‘، ’’کھیل‘‘، ’’بو چھاڑ‘‘، ’’چند تروز‘‘، ’’تھکے ہارے‘‘، ’’رات کی روشنی‘‘، اور ’’شیشے کی آبلے‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔اُن کے افسانوی اسلوب کے ارتقا کو تین ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے۔پہلے دور میں رومانوی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھیں جن میں کہیں کہیں معاشرتی حقائق بھی در آتے تھے۔ ’’بوچھاڑ‘‘ اور ’’چند روز‘‘ اُس طرزِ فکر کے نمائندہ مجموعے ہیں جن میں ترقی پسندی کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ یہ فکر تقسیمِ ہند سے پہلے کی تخلیقات میں نمایاں ہے۔ تقسیم کے بعد قلم بہت سے نئے مگر تکلیف دہ موضوعات سے آشنا ہوا۔ خواتین پر جنسی تشدد، گھریلے مسائل اور معاشرے کے جسم میں زہر کے طرح پھیلتے ہوئے نا سور، ایسے میں اِس ماحول کو بدلنے کی ایک درد مندانہ اور ادیبانہ کوشش۔ تیسرے دور میں اُن کے فکر و فن میں مکالمہ نگاری، کردار نگاری اور اپنے گردو پیش رونما ہونے والے واقعات کی بہترین پیش کش نمایاں ہے۔ اِس دور میں استحصال اور ظلم و جبر سے پاک معاشرت کا قیام اور سماج کی بہتر انداز میں تعمیر کی خواہش دکھائی دیتے ہے۔
’’آنگن‘‘ پاکستان میں لکھے گئے ناولوں میں اہم ناول شمار ہوتا ہے اس پر بات کرتے ہوئے ٹالسٹائی کا مشہور ناول وار اینڈ پیس ذہن میں آتا کیونکہ دونوں میں افراد کی زندگیوں کے بحرانی لمحات کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ وار اینڈ پیس کے کردار جنگ اور دیگر خارجی حالات کے محض تماشائی نہیں بلکہ ان کے اثرات ان کی داخلی زندگی میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہ اثرات اتنے واضح ہیں کہ محبت و خلوص کے جذبات پر ان کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔یہی کیفیت آنگن میں بھی ہے۔ یہاں بھی تحریکِ آزادی کے ایام میں کرداروںکا عمل اور سوچ بھی خارجی حالات کے تابع نظر آتی ہے۔ یہاں دونوں ناولوں کو ہم پلہ قرار دینا مقصد نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ دونوں میں افراد کی نفسیات اول تا آخر خارجی حالات کا شکار رہتی ہیں۔ زمین ناول کی کہانی میں سیاست کا بھی بڑی حد تک دخل رہا تھا مگر خدیجہ مستور نے حیرت انگیز حد تک غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور جو کردار اپنے تہذیبی، سماجی اور معاشرتی فریم ورک میں جیسا اور جس طرح تھا اس کو معروضی انداز سے انہوں نے تخلیق کیا۔ پھر اس پر آشوب دور کی عکاسی اس قدر موثر اور دل کو چھو کر گزر جانے والی تھی کہ قاری عجب سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے ہے۔
آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں میں خدیجہ مستور کا آنگن ۱۹۶۲ء ایک اہم ناول ہے۔یہ یو پی میں آباد متوسط طبقے کے ایک گھر کی کہانی ہے جو تقسیمِ ہند سے کچھ پہلے سے قیام پاکستان کے کچھ بعد تک کے زمانے سے متعلق ہے۔ اس گھر کے افراد تحریک آزادی سے کسی نہ کسی طور پر وابستہ ہیں۔گھر سیاسی نظریات کا اکھاڑہ بنا رہتا ہے۔ گھر کے سربراہ انگریزوں کے خلاف تحریکات میں آئے دن جیل جاتے ہیں، ان کا بیٹا جمیل ہے جو مسلم لیگی ہے اور کانگریس کی ہندو پرستی کا نکتہ چیں ہے۔ عالیہ کی پھوپھی کی ناجائز اولاد صفدر ہے جو کیمونسٹ ہے۔ بڑے چچا کے باپ کی نچلی ذات کی بیوی کی اولاد اسرار میاں ہیں جو بڑے چچا کی کپڑے کی دکان کو جیسے تیسے چلا کر گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں روٹیاں اور جھوٹا سالن پاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور کردار ہیں۔ اس آنگن میں جہاں ایک مستقل نظریاتی آویزش کی فضا پیدا کر دی ہے، وہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اس گھر کے افلاس میں مزید اضافہ کردیاہے۔جہاں مختلف سیاسی نظریات کے ماننے والے لوگ ایک ہی آنگن میں بستے ہیں اور ہندوستانی معاشرے کے مختلف مسائل کو آنگن کی حدود میں واضح کیا ہے جو گھر کا نا قابل تقسیم حصہ ہوتا ہے۔ خدیجہ مستور کی پیش کردہ کہانی صرف ایک آنگن کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی معاشرے کے تقریبا ہر گھرکی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ آنگن میں ہونے والی سیاست میں سرکاری اور سیاسی شعور کی کارفرمائی آنگن میں رہنے والے افراد کے درمیان بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہیں اور ایک ہی آنگن میں اٹھنے بیٹھنے والے مختلف سیاسی نظریات کے حامل نظر آتے ہیں۔
آزادی کے لیے عوام کی شدید جدوجہد پورے ناول کی فضا میں جاری و ساری دکھائی دیتی ہے کہ مذہب کے تحت بڑے چچا ہر چیز کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ دادی اماں کی جاگیردار تہذیب کے زوال پر نوحہ گری کا سماں، ہندو مسلم کے مابین فرقہ وارانہ تشدد اور کشمکش، معاشی بدحالی، یہ تمام حالات و عوامل اسی طریقے سے ابھرتے ہیں جن سے حالات کی ستم ظریفی، اندرونی انتشار، داخلی کرب سے پیدا شدہ محرومی،بے بسی اور لاچاری کا نقشہ آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے۔ آنگن میں زوال پذیر زمینداروں کے طرز زندگی اور اس ماحول میں پلنے والے مختلف رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
تقسیم کے بعد یہ گھر منتشر ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے کچھ افراد پاکستان چلے جاتے اور بقیہ ترکِ وطن کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔آزادی کے حصول سے پہلے تقسیم وطن کی گونج آنگن میں بھی سنائی دینے لگتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب فسادات شروع نہیں ہوئے تھے لیکن ہر طرف افواہوں کا بازار گرم تھا۔گھر کے افراد اپنے طور پر اس صورتِ حال کے باعث فکرمند اور خوفزدہ ہیں کیونکہ اپنے دیس اور اپنی مٹی کو چھوڑ کر ہجرت کرنا ان کے لیے ناقابل قبول ہے۔عالیہ اور اس کی ماں لاہور ہجرت کر جاتے ہیں۔عالیہ کے ماموں نے ایک ہندو کی متروکہ کوٹھی کا تالا توڑ کر ان دونوں کو بسا دیا اور کسی نہ کسی طور متعلقہ احکام سے مل کر کوٹھی اور اُس میں موجود آرائش کے سامان کی جعلی رسیدیں بنواکر کوٹھی ان کے نام لگوا دی۔ عالیہ کی ماں کوٹھی نام لگنے اور بیٹی کی ملازمت لگنے سے اور زیادہ مغرور ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی ماں کی خود غرضی کو پسند نہیں کرتی۔ ناول کے خاتمے پر وہ پہلے والٹن کیمپ کے ڈاکٹر اور پھر صفدر سے شادی کرنے کا اقرار کرتے کرتے انکار کر دیتی ہے کیوں کہ یہ دونوں اس کے قدموں میں دولت سمیٹ کر ڈال دینے کے وعدے کرتے ہیںلیکن اپنے باپ اور بڑے چچا کا آدرش اور خودداری اس کو ورثے میں ملے تھے۔وہ اِس نئی سوسائٹی میںڈاکٹر یا صفدر کی جائز و ناجائز طریقوں سے کمائی جانے والی دولت میں حصہ دار بننے کے لیے راضی نہیں ہوئی۔
خدیجہ مستور کا ناول’’زمین‘‘ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔اپنے موضوع کے اعتبار سے اسے آنگن کی توسیع قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ ناول در اصل قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ہاں کی خود غرضی، نفسا نفسی اور لوٹ کھسوٹ کے حالات پر مبنی ہے کہ کس طرح لوگوں نے اثاثوں کو لوٹنے اور راتوں رات امیر ہونے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا۔ایک غریب اور نو زائیدہ ریاست میں اپنے ایمان کا سودا کیا۔کہانی مہاجرین کے کیمپ سے شروع ہوتی ہے۔اس کا آغاز لاہور کے والٹن کیمپ سے ہوتا ہے جہاں مرکزی کردار ساجدہ اپنے باپ رمضان کے ساتھ پناہ گزیں ہے۔ ان کی ملاقات ناظم سے ہوتی ہے جو محکمہ بحالیات میں ملازم ہے۔ باپ کی موت ہو جانے پر ساجدہ بے یارومددگار ہو جاتی ہے اوروہ اس کو اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے۔ انتہائی ایماندار تھا جبکہ اس کے برعکس ناظم کا بھائی کاظم حاکمیت اور اس فرعونیت کا حامل ہے۔مقابلے کا امتحان پاس کرنے سے پہلے ہی وہ خود غرض اور بدتمیز انسان تھا لیکن امتحان پاس کر لینے کے بعد جب وہ حکام بالا کے مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہو جاتا ہے تواُس کی فرعونیت انگریز حکام سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ کاظم گھر میں قیام پذیر ایک اور پناہ گزین لڑکی تاجی کو موقع بے موقع استعمال کرتا ہے۔ڈپٹی کمشنر بن کر وہ اور بھی خود غرض اور بے رحم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ دوسری بار ناجائز اولاد کو پیٹ میں ختم کرنے کے سلسلے میں تاجی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ناظم اور ساجدہ شادی کرکے گھر بسا لیتے ہیں۔وہ اپنے مخصوص سیاسی نظریات کی بنا پر جیل چلا جاتا ہے اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلی رہ جاتی ہے۔وہ سب کا دکھ درد محسوس کرتی ہے اور کے دل میں کیا ہے اُس سے بالاتر ہو کر وہ ہر کسی سے ہم دردی رکھتی ہے۔ وہ جھوٹ اور غلط بات پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہتی۔جب ایک اچھا گھر لینے کی خاطر اُس کے باپ نے پاکستانی زندگی کا پہلا بھرپور جھوٹ بولا تو یہ ساجدہ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ ساجدہ کے والد نے اس عمر تک کبھی مکروفریب اور جعل سازی نہیں کی تھی وہ خود کو اس نئے ماحول سے الگ نہ کرسکے تو وہ بھی جعلسازی اور مکر و فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ساجدہ یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کا غریب باپ نئے ملک میں جھوٹ سے زندگی کا آغاز کرے۔ اسی لیے ساجدہ نے ناظم کو معاف نہ کیا کہ ناظم نے اس کے باپ کا حساب کتاب غلط کر دیا تھا۔یہ اُن کا دوسرا ناول ہے، اس میں تقسیم وطن کے بعد پاکستان کے مسلمان مہاجرین کے مسائل اور قیامِ پاکستان کے بعد اخلاقی، سماجی اور سیاسی ابتری کو موضوع بنایا گیاہے۔ لیاقت علی خان کا قتل، حکومت کی ناکامی، قادیانی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کا قتل عام، دستور سازی وغیرہ کی بنیاد پر مرتب ہوتا ہے۔ ہجرت کے بعدساجدہ اپنی آنکھوں سے تمام معاملات کو دیکھتی ہے۔
واقعات کی بناوٹ کے لحاظ سے اگرچہ زمین میں سیدھے سادے کردار نظر آتے ہیں لیکن خدیجہ مستور کے فن کا کمال ہے کہ اس نے کہا نیوں میں بلیغ انداز میں ان عوامل کی طرف بھی اشارے کر دیے ہیں جنہوں نے اگست ۱۹۴۷ء کے پاکستان کو اگست ۱۹۸۸ء کے پاکستان میں تبدیل کردیا۔ زمین کو پورا پڑھنے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس ناول میں کہانی کہنے کا انداز ویسا نہیں ہے جیسا کہ آنگن میں تھا۔ آنگن میں ایک ایک لفظ اور ہر منظر بولتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ اس میں پہلے ہی جملے سے قاری عجیب و غریب سحر مبتلا ہوجاتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کہ گہرائی میں خدیجہ خود اتر رہی ہے اور اس میں قاری کو بھی لے کر جا رہی ہیں۔ اس میں ان کا اسلوب اتنا سست رو اور تاثر سے بھرپور لگتا تھا جیسے ہر منظر اور چھوٹے بڑے کردار ہمارے حافظے کا حصہ بن گئے ہوں لیکن زمین میں انہوں نے کہانی بالکل سیدھی سیدھی بیان کی ہے یعنی ایسے جیسے کہ کچھ سوچتی جا رہی ہوں اور وہی کچھ لکھتی جا رہی ہوں۔زمین کے پلاٹ میں بالکل سادگی ہے، پیچیدگی اور گہرائی کے عناصر اتنے موثر یا گہرے نہیں کہ کہا کچھ اور سمجھا کچھ جائے۔