رضیہ فصیح احمد
پاکستانی ناول نگار خواتین میں رضیہ فصیح احمد کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔وہ مراد آباد (متحدہ ہندوستان) میں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہو گئیں۔پہلا افسانہ ’’نا تمام تصویر‘‘ ۱۹۴۸ء عصمت کراچی میں شائع ہوا۔افسانوی مجموعے دو پاٹن کے بیچ، بے سمت مسافر، یہ خواب سارے، بارش کا آخری قطرہ، کالی برف کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔یوں ان کی ابتدائی شہرت ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوئی۔وہ اپنے افسانوں کی بنیادی اپنے گردو پیش کی کسی کہانی پر رکھتی ہیں۔ابتدائی طور پر انہوں نے صرف رومانوی موضوعات پر لکھا بعد ازاں قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی تو موضوعات میں سماجی حقیقت نگاری بھی در آئی۔جن کو انہوں نے مثبت انداز سے پیش کیا ہے۔اُن کا ایک بہت اہم موضوع متوسط طبقے کی سفید پوش خواتین کے عمومی مسائل ہیں۔ پہلا ناول ’’سیمیں‘‘ ۱۹۶۴ء میں سامنے آیا۔ یہی ناول ۲۰۱۴ء میں دوبارہ ’’راستے اور منزلیں‘‘ کے نام سے طبع ہوا۔اِس میں لڑکیوں کی اس نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے کہ جب ایک بیٹی کو دوسری پر ترجیح دی جائے تو کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں۔سیمیں کے اہم کرداروں میں سیمیں، اماں، امتیاز، اختر، زبیدہ، روشن باجی، رخسانہ، نسرین، جاوید وغیرہ شامل ہیں۔
دیگر ناولوں میں ’’آبلہ پا‘‘ ۱۹۶۴ء، ’’انتظارِ موسمِ گُل‘‘ ۱۹۶۵ء،’’اک جہاں اور بھی ہے‘‘ ۱۹۶۶ء، ’’متاعِ درد‘‘ ۱۹۶۹ء، ’’آزارِ عشق‘‘ ۱۹۷۰ء، ’’صدیوں کی زنجیر‘‘ ۱۹۸۸ء۔انہوں نے سوانحی تاریخی ناول بھی لکھا ہے۔
ان کا ’’آبلہ پا‘‘ ان ناولوں میں سے ایک ہے جسے آدم جی ادبی انعام حاصل ہوا۔ اس ناول کے موضوع پر انسانی زندگی کی نفسیاتی گر ہیں یعنی ایک انسان اپنی زندگی میں انفرادی عظمت کو برقرار رکھنے یا اسے حاصل کرنے کے لیے کس طرح کی تگ و دو یا جدوجہد کرتا ہے۔ اس ناول میں واقعات کی بجائے کرداروں پر توجہ صرف کی گئی ہے بلکہ اس طرح کہ کرداروں کی اپ بیتی اور ان کی خطوط نگاری پر مشتمل ہے۔ اس ناول میں صبا نام کی ایک لڑکی کی داستان حیات کو بیان کیا گیا ہے جو حساس ہونے کے ساتھ ساتھ رومان پرور بھی ہے۔ ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات، خون ریزی اور قتل و غارت گری سے بچ بچا کر ہندوستان سے پاکستان چلی جاتی ہے۔ وہ چمنستان ہوٹل میں اپنے والد کے ساتھ آ کر ٹھہرتی ہے جہاں اُس کی ملاقات اسد سے ہوتی ہے۔صبا کا تعلق فارغ البال گھرانے سے ہے۔ ناول کا ہیرو اسد ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے۔ جس کی شرارتوں اورمعصومیت سے وہ بے حد متاثر ہوتی ہے۔ دونوں رفتہ رفتہ ایک دوسرے کے قریب ہو کر شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔شادی کے بعد اُسے اسد کی خامیاں نظر آتی ہیں۔وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عورت کو مارنے پیٹنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔وہ اُسے طلاق بھی دے دیتا ہے اور بھر بھی اُسے نیچا دکھانا چاہتا ہے۔در اصل اس ناول میں شخصی آزادی اور جیون ساتھ کے غلط انتخاب کو موضوع بنایا گیا ہے۔
رضیہ فصیح احمد مرد کرداروں کے مقابلے میں نسوانی کرداروں کو زیادہ صحت مند سلیقہ اور فکر سے پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔ اس ناول کے تقریبا سبھی کردار زندگی کے جیتے جاگتے نمونے پیش کرتے ہیں۔ رضیہ فصیح احمد نے صرف ایک ناول نگار کے فرائض انجام نہیں دیئے بلکہ سوچتی سلگتی تڑپتی ہوئی شخصیت پر سے نقاب اٹھا یا ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ اس ناول کا مرکزی کردار خود اپنی زبان سے اپنے خیالات و تاثرات پیش کرتا ہے۔ اس میں نہ صرف جاگیرداری نظام کے استحصالی رویہ اور جابرانہ حکومت کو پیش کیا گیا ہے بلکہ اس نظام کے خلاف بغاوت کر تی جذباتی لڑکی کی داستان بیان کی گئی ہے اور اس کی موت کے المناک حادثے پر ہی ناول ختم ہو جاتا ہے۔ ’’انتظار موسمِ گُل‘‘ میںپاکستان کی نو تشکیل سماج کا دوغلہ پن اور سرمایہ دارانہ اقدار و روایات کی نئی شکل کو پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار تارا ہے جو نئی صورتِ حال سے پیدا شدہ کلاس معاشرے کی تنگ و تاریک ذہنیت کے کی نذر ہو جاتی ہے جہاں اس کی تعلیم اس کا حسن اس کی تمام ترقی نہ صرف بے معنی اور بے مقصد ہو جاتی ہے بلکہ وہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام نے گھٹ کر مر جاتی ہے۔ مردوں کی بالادستی اور ان کا حکم ماننا اور ان کے جابرانہ رویے کے سامنے تمام اخلاقی اقدار بکھر جاتی ہیں۔ غرض پاکستان کے معاشرتی زندگی کی گہرائیوں میں دوغلے پن اور دوسرے منفی نظریات کی مضبوطی کو اکھاڑ پھینکنے کی شدید خواہش مند ہیں۔ ان کا ناول انتظار موسم گل درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا شدہ ظلم و ستم اور جبر و تشددو ظالمانہ برتاؤ کی بھرپور عکاسی ہے۔تارا جو ایک شاعرہ ہے، زندگی کے خواب دیکھتی ہے، طاہر میں اُسے اپنے خوبوں کی تکمیل ہوتی نظر آتی ہے مگر جب اُسے طاہر کی اصلیت کا پتا چلتا ہے تو جلتی اور کڑھتی ہے۔
’’زخمِ تنہائی‘‘ انگریزی ادب کی وکٹورین عہد کی دو مشہور ناول نگار بہنیں شارلت برونٹے اور ایملی برونٹے تھیں۔یہ اُن کا سوانح ناول ہے۔وہ ۱۹۷۶ ء میں اُن کے گاؤں گئی تھیں اور وہاں انہوں نے شارلٹ کی کتابوں اور خطوط کی مدد سے ناول کا پلاٹ تیار کیا تھا۔اِس حوالے سے یہ ایک تاریخی ناول ہے جس میں ڈکنز، تھیکرے اور جارج ایلیٹ کے عہد کو سامنے لایا گیا ہے۔ شارلٹ کی زندگی میں تین مرد آئے موسیو ایژی، جارج اسمتھ اور آرتھر نکلسن۔تینوں اپنے مزاج اور شخصیت کے اعتبار سے مختلف تھے۔اس حوالے سے ناول میں محبت کے جذبات اور پیش کش بھی اہم ہے۔ایملی کے کردار کو بھی ناول میں مہارت سے اجاگر کیا گیا ہے۔
ناول’’صدیوں کی زنجیر‘‘ میں تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کے حالات کے ساتھ ساتھ مغربی اور مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو موضوع بنایا گیاہے۔ایک فوجی افسر ظاہر حق جو بغاوت کر کے بنگالی بن جاتا ہے اور شاعر جسیم الدین کی کہانی بھی ناول کا حصہ ہے۔مختصر یہ کہ ایک معاشرے میں فرد کی معاشرے کے مقابل مجبوریاں اور بے بسی پر بات کی گئی ہے۔