اکرم کنجاہی ۔۔۔ زیتون بانو

زیتون بانو

اُردو اور پشتو کی نام ورشاعرہ، ادیبہ، ڈراما نگار ۱۸؍ جون ۱۹۳۸ء کے روز پشاور میں پیدا ہوئیں۔اُن کے والد بھی اپنے زمانے کے معروف روشن خیال ادیب تھے۔وہ ابتدا میں فرضی ناموں سے ادبی جریدوں میں لکھتی رہیں۔پشتو اور اُردو میں اعلیٰ تعلیم کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہیں۔ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے لکھے۔ابھی طالبہ ہی تھیں کہ اُن کا پشتو افسانوں کا مجموعہ ہُنڈارہ (آئینہ ۱۹۵۸ء) شائع ہوا۔دوسرا مجموعہ مات بنگری (ٹوٹی چوڑیاں) شائع ہوا۔ مجموعی طور پر اُن کی پشتو میں آٹھ اور اُردو میں پانچ کتابیں وقت کی دہلیز پر، خوشحال شناسی، برگِ آرزو ۱۹۸۶ء (ناول، ہفت روزہ تقاضے لاہور میں شائع ہوا کرتا تھا) اور شیشم کا پتّا وغیرہ شائع ہوئیں۔اُردو، پشتو اور ہندکو کے معروف ادیب تاج سعید (اُن کے شوہر)کے ساتھ مل کر ایک پرچہ ’’جریدہ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ ۱۹۹۶ ء میں حکومت کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ اُن کے افسانوں کا پلاٹ لازمی طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ماحول اور معاشرت کے گرد گھومتا ہے۔اُن کے افسانے لازمی طور پر اصلاحٰ پہلو رکھتے ہیں جن میںمشاہدہ اہم ہے۔پشتو تہذیب و ثقافت کا کے حوالے سے اُن کا مشاہدہ، کام اور نام اہم ہے۔اُن کا زیادہ کام افسانے اور ڈرامے میں ہے۔ زیتون بانو کا کہنا ہے کہ خواتین کے مسائل کو اِن اصناف میں شاعری کی نسبت بہتر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔مجھ پر مضامین آسمان سے نازل نہیں ہوتے، میں جو دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں وہ اپنی تحریر کا موضوع بناتی ہوںاور معاشرے کے حقائق کو سامنے لا کر مثبت بحث مباحثے کو فروغ دینے پر یقین رکھتی ہوں۔بانو نے پختون معاشرت کا بغور مشاہدہ کیا اور رسم و رواج کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر دلیری اور جرأت مندی سے اظہارِ خیال کیا۔انہوں نے جو لکھا بلا شبہ وہ قلمی جہاد ہے۔ جس طرح شہنا زشورو نے اپنے گردو پیش عورت پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر آواز اُٹھائی اسی طرح خیبر پختونخوان میں زیتون بانو نے معاشرتی اور سماجی برائیوں کے خلاف قلم اٹھایا۔انہوں نے عورت کے المیے ہی رقم نہیں کیے، اُس کے زخم ہی نہیں دکھائے بلکہ اُس کی امنگوں، تمناؤں اور تشنہ آرزوؤں کی بات کی ہے۔اُن کے افسانے’’پہچان‘‘ کی مثال دی جا سکتی ہے جس کے مرکزی کردار شمع کو منحوس قرار دیا جاتا ہے مگر وہ عزم اور حوصلے سے اِس الزام کو رد کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے، کٹھن منزلوں کو سر کر کے کامیاب ہوتی ہے۔اِس طرح کے اور بھی افسانے ہیں جن میں رجائیت بھی واضح ہے جو تخلیقات کو گراں قدر بناتی ہے۔ ایک افسانہ ’’موم کے آنسو‘‘ لکھا تھا۔ جس سے متعلق کہا گیا کہ اگر اُس افسانے کے علاوہ وہ کچھ بھی نہ لکھتیں تو افسانہ نگاری میں اُن کا نام زندہ رہتا۔ مذکورہ افسانے میں اُنہوں نے اِس بات کو موضوع بنایا ہے کہ وقت بڑا مرہم ہے۔وہ ہمیں بہت کچھ بھلا دیتا ہے۔ ہمیں زندگی جو زخم، دکھ اور درد دیتی ہے، ایک وقت آتا ہے کہ انسان اُن کو بھول کر اپنے دیگر کاموں میں لگ جاتا ہے۔یہاں تک کہ انسان اپنے پیاروں کی ہمیشہ کی جدائی کو بھی بھول جاتا ہے۔ یہ در اصل دائمی صداقت ہے۔جس کا اظہار اِس ہُنر مندی سے کیا گیا ہے کہ قاری اُس پر یقین کرتا چلا جاتا ہے۔بانو نے جن علاقوں کی معاشرت پرلکھا ہے عام طور پر اُن علاقوں کے افراد کو سخت گیر، کرخت اور نسبتاً کم تعلیم یافتہ خیال کیا جاتا ہے مگر بانو نے اُن لوگوں اور افراد کے مثبت پہلوؤں کو بھی روشناس کروایا ہے۔ادب ماحول اور سماج سے الگ تھلگ کوئی چیز نہیں بلکہ دنیا کے بہترین فن پارے وہی قرار پاتے ہیں جن میں مقامی مٹی کی بو باس ہوتی ہیں۔جن میں اپنا بیانیہ ہوتا ہے۔انسان تو ہر جگہ ایک سے ہوتے ہیں۔ اس کی امنگیں اور تمنائیں بھی ہوتی ہیں۔ہر جگہ خواہشات و مسائل زیادہ اور وسائل کم ہوتے ہیں۔یہ صرف تخلیق کار پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ مقامی رنگ کو آفاقی رنگ میں کیسے بدلتا ہے۔زیتون بانو اِس مرتبے کی لکھاری ہیں کہ وہ اُس ہُنر سے آشنا ہیں۔مزید براں بانو کہانیاں گھڑتی نہیں ہیں، اُن کا ایمان رہا ہے کہ افسانہ نگار کے لیے ہر ہر قدم پرنت نئی کہانیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں زیادہ تر پلاٹ گھریلو زندگی، رشتہ داریوں، خاندانی دشمنیوں، حسد و رقابت، ماموں ممانیوں، چچا چاچی،بھائی بھاوج، دیور نند، ساس سسر جیسے رشتوں کے گرد گھومتی ہیں۔

Related posts

Leave a Comment