اکرم کنجاہی ۔۔۔ شاہدہ لطیف

شاہدہ لطیف

شاہدہ لطیف کا تخلیقی کینوس بہت وسیع ہے۔ وہ شاعرہ، ادیبہ،فکشن نگار، صحافی، سفر نامہ نگار اورمورخ ہیں۔وہ تاریخِ ادب کی اُن چند فکشن نگار خواتین مثلاً عصمت چغتائی، جمیلہ ہاشمی اور رضیہ فصیح احمد میں سے ایک ہیں جنہوں نے تاریخی ناول لکھے ہیں۔مذکورہ خواتین کی فکشن نگار کی حیثیت سے گراں قدر خدمات ہیں اور اُن میں سے ہر کسی کا اپنا اسلوب بیان ہے۔اِن خواتین کی تاریخی تخلیقات کے مطالعے کے بعد جب گزشتہ دنوں مجھے شاہدہ لطیف کے تاریخی ناول ’’سلطان محمد فاتح‘‘ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو مجھ پر خوش گوار حیرتوں کے کئی در وا ہوئے۔ میں خود تاریخ و ادب کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں، اِس حوالے سے جائزہ لیا تو مصنفہ کی تحقیق نے حیرت زدہ کر دیا، ناول تحریر کرنے سے پہلے تاریخی مقامات اور شخصیات کے حوالے سے اُنہوں نے جتنی عرق ریزی سے کام لیا ہے، اُس کا اعتراف نہ کرنا ادبی نا انصافی کے مترادف ہے۔ اُن کا یہ ناول قاری کو ابتدا ہی سے اِس قدر تجسس میں مبتلا کر دیتا ہے کہ آپ ایک ہی نشست میں ضخیم ناول پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ جو کالج کے زمانے میں نسیم حجازی کے ناولوں کو پڑھتے وقت ہوتی تھی۔ ناول عظیم سلطنتِ عثمانیہ کے عہدِ زریں کی داستان سناتا ہے۔ثانوی کہانیاں اور کردارمرکزی کہانی اور کردار سے مکمل مربوط ہیں۔اِس ناول میںمحلاتی سازشیں، بغاوتیں، وفا داری، وطن پرستی، جاسوسی، ایمان فروشی، فتوحات، بہادری و جرأت مندی وہ سب کچھ ہے جو ایک اسلامی تاریخی ناول میں ہوتا ہے۔کتاب کا ایک مثبت رخ یہ بھی ہے کہ اختتامیہ رجائیت سے بھر پور ہے۔ شاہدہ لطیف نے کچھ تاریخی شخصیات کی حقیقی محبتوں کو بھی افسانوی روپ میں پیش کر کے خود کو ایک عمدہ کہانی نویس ثابت کیا ہے۔

Related posts

Leave a Comment