شبہ طراز
علم وادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے محترمہ شبہ طراز کا نام نیا نہیں ہے۔وہ شاعرہ، مصورہ، مدیرہ اور افسانہ نویس ہیں۔’اُن کی طبع شدہ کتب میں ’’جگنو ہنستے ہیں‘‘ (ہائیکو اور ماہیے)، ’’جھیل جھیل اداسی‘‘ (نظمیں)، ’’چاندنی میں رقص‘‘ (ہائیکو تراجم)، درد کا لمس (افسانے)، ریپنزل (نظمیں، غزلیں) شامل ہیں۔عذرا اصغر کے کراچی چلے جانے کے بعد ماہ نامہ تجدیدِ نو کو سہ ماہی جریدے میں بدل کر اس کا دوبارہ اجرا کیا لیکن کچھ مشکلات آڑے آئیں تو پرچہ بند کرنا پڑا۔کرشن چندر اِن کے پسندیدہ فکشن نگار ہیں۔حال ہی میں خالقِ حقیقی سے جا ملنے والے حامد سراج، شمشاد احمد،ڈاکڑ رشید امجد، طاہرہ اقبال، اور صدیق عالم (بھارت) اُن کے دیگر پسندیدہ لکھاری ہیں۔’’آدھا خواب‘‘ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔۱۴۴؍ صفحات کی کتاب میں کُل ۳۰؍ افسانے شامل ہیںجس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ افسانہ نگارہ نے کہانی؍ افسانے کو غیر ضروری طوالت نہیں دی اور وہ بات کو سمیٹنے کے فن سے آشنا ہیں۔وہ اب خاصے عرصے سے افسانہ لکھ رہی ہیں، اُن کے افسانے موقر ادبی جرائد کی زینت بن رہے ہیں، اس لیے اس فن کے رموز سے نہ صرف پوری طرح واقف ہیں بلکہ کہانی کے ہنر پر گرفت رکھتی ہیں۔اُن کی قوتِ مشاہدہ عمیق ہے اور انہیں کہانی ؍افسانے کے لیے موضوعات تلاش نہیں کرنا پڑتے۔زبان و بیان کے حوالے سے اتنا کہوں گا کہ کتاب اور قلم کی محبت انہیں ورثے میں ملی ہے۔اُن کے ایک طرف والد اصغر مہدی کا تغزل اور شعریت سے بھر پور غزلیہ اثاثہ ہے تو دوسری طرف والدہ عذرا اصغرکا درد، سوز اور گداز سے بھر پور افسانوی گنج ہائے گراںمایہ ہے۔اِس ادبی ماحول نے اُن کی فکر و نظر کو نہ صرف وسعت دی ہے بلکہ فن میں پختہ کاری بھی عطا کی ہے۔اُ ن کا سلوبِ بیاںمحض راست صحافتی نہیں بلکہ خالصتاً ادیبانہ ہے،اُس میں تجربے اور ریاضت کا نکھار محسوس کیا جا سکتا ہے۔اُن کی ڈکشن میں زبان کی چاشنی بھی ہے اور فقرہ سازی کا ہُنر بھی۔
شبہ طراز کے موضوعات میں تنوع ہے۔قلم سماجی اور معاشرتی اقدار سے جڑا ہوا ہے۔وہ اپنے گرد و پیش کا بغور مشاہدہ کرتی ہیں اور ماحول اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر لیتے ہوئے،سماج کے رستے ہوئے زخموں پر قلم اُٹھاتی ہیں۔معاشرے کے بالا دست طبقے کی منافقت، ریا کاری، جھوٹ اور فریب سے پردہ چاک کرتی ہیں۔اُن کی نسائی آواز میں عورت کا دکھ درد اور کرب بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔اُن کی کتاب ’’آدھا خواب‘‘ کا پہلا ہی افسانہ ’’آگ‘‘ اپنے طرزِ اظہار، مقصدیت، احساسات کی درد مندی کی وجہ سے ایک بہترین تخلیق ہے۔اگرچہ اُس میں کوئی مربوط کہانی نہیں ہے مگر ایک تہہ داری میں جو پیغام وہ قاری تک منتقل کرنا چاہتی تھیں وہ عدم ترسیل کا شکار نہیں ہوا۔قاری کی نظر میں وہ بھی کہانی ہی کی ایک صورت ہے۔مذکورہ افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’اس نے تو کبھی اپنے ڈرائیور سے بھی فون کے مسلسل مصروف ہونے پر باز پرس نہیں کی تھی۔ جبکہ اُس(بیوی) سے جو ایک وسیع و عریض محل نما گھر کی مالکہ تھی، فون کے بلا سبب اور تا دیر مصروف رہنے پر باز پُرس کی جا رہی تھی۔در اصل فون اس کو بچوں سے ان کے سکولوں کے اوقات اور بروقت پک اپ اور رابطے کے لیے لے کر دیا گیا تھا۔ ویسے اس بات کی کوئی لکھت پڑھت تو ہوئی نہیں تھی۔ یہ تو بس اسی خاموش معاہدے کی ایک شق کے طور پر تھا جس کے تحت وہ مختلف اوقات میں مختلف کام سرانجام دینے پر مامور تھی۔
چاہتے یا نا چاہتے ہوئے منٹ منٹ کا حساب رکھنے کے لیے اُس کی دائیں کلائی پر ایک بڑے ڈائل کی وزنی گھڑی سجی رہتی تھی۔گھڑی کی سوئیوں کی مدہم لیکن مسلسل ٹک ٹک بچوں کی چھٹی کے اوقات ذہن سے محو نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ فرض شناس تھی۔گھر کو گھر بنا کر رہنا اس کی اولین ترجیح تھی اور ایک آدھ انتہائی مجبوری کے علاوہ اس سے کبھی کوتاہی نہیں ہوئی تھی۔ بس ایک دفعہ اپنے دور پار کے کزن کا فون سنتے ہوئے وہ کچھ لمحوں کے لیے بھول گئی کہ وہ عمر کے کس حصے میں ہے اور اس کے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی گنجائش کسی کنجوس کے دل جتنی بھی نہیں۔ بس اسی دن الزامات کی فہرست سنتے سنتے اس کے کانوں میں لفظ سیسہ بن کر پگھلنے لگے تو اس نے فون کھینچ کر دیوار پر دے ماراتھا۔اُسی دن اُس نے پہلی مرتبہ موت کے بارے میں سوچا… اُس کے اثرات اور نتائج پر غور و خوض کیا۔‘‘
یوں اِس افسانے میںتانیثیت کو منفرد انداز سے پیش کیا گیا ہے۔
وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی متمنی ہیں جہاں احترامِ آدمیت ہو، جہاں انسان کی توقیر کا معیار دولت و ثروت نہ ہو۔اِس مقصد کے لیے فنی طور پر انہوں نے ہر طرح کے تاثراتی، نفسیاتی،سائنسی، جذباتی اور علامتی افسانے تخلیق کیے ہیں۔اُن کا افسانہ خواہ علامتی ہی کیوں نہ ہو اس میں ابلاغ کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔وہ اپنا پیغام بڑی کامیابی سے قاری کے ذہن تک منتقل کرنے پر قادر ہیں۔یہی چیز کسی بھی فن پارے کی سماجی افادیت متعین کرتی ہے۔ وہ کسی فیمنسٹ یا تانیثی تحریک سے وابستہ رہی ہوں یا نہیں، یہ الگ بات ہے مگر اُن کا خیال ہے کہ ہمارے پدر سری معاشرے میںصنفی تفریق بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے اپنے عہد کے مسائل سے پہلو تہی نہیں کی۔مذہبی انتہا پسندی ماضی قریب میں ہمارے ملک کا ایک اہم اور تکلیف دہ مسئلہ رہا ہے۔ لا قانونیت، دہشت گردی اور مذہب کے نام پر خود کش حملے۔ افسانہ ’’بیس سال بعد کی کہانی‘‘ ایک ایسے شخص کی افسانوی رنگ میں بپتا ہے جس کی ماں کسی مذہبی انتہا پسند تنظیم سے وابستہ ہو جاتی ہے اورنام نہاد نیک مقصد اور صراطِ مستقیم جس پر وہ چل پڑتی ہے، اس کی وجہ سے اپنے بچے کو بھی فراموش کر دیتی ہے اور وہ اپنی دادی کے ہاں پرورش پاتا ہے اور اُس کی ماں کہیں خود کش حملہ کر کے خود کو جہنم واصل کر لیتی ہے (اُس کی اپنی نظر میں وہ شہادت کا راستہ ہو گا۔ہمارے ہاں سیاست دانوں کے گھٹیا کردار کی وجہ سے سیاست کو ایک غلیظ چیز سمجھا جانے لگا ہے۔ہمارے نام نہاد سیاسی راہنماؤں کی ریا کاری، منافقت، جھوٹ اور دغا بازی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔میڈیا پر تشہیر کے لیے یہ بڑے پاپڑ بیلتے ہیں۔ اِن کی سیکیوریٹی اور پروٹو کول پر نہ صرف کروڑوں روپے کی اخراجات ہوتے ہیں بلکہ ٹریفک کا نظام بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور عامتہ الناس کو سفر میں بے حد دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے افسانوں ’’بے رنگ وعدے‘‘ اور ’’دبے پاؤں‘‘ میں اِن ہی باتوں کو اپنے مخصوص افسانوی رنگ میں پیش کیا ہے۔آخر الذکر افسانے میں مرکزی کردار جو ایک امیر کبیر سیاست دان ہے، وہ اپنے محل نما گھر اور سیاسی جلسوں میں اپنی سیکیوریٹی پر بھر پور توجہ دیتا ہے۔ہمیشہ محافظوں کے جلو میں چلتا ہے مگر ایک دن ایک ترقیاتی منصوبے کی افتتاح کے بعد اپنے محافظوں کے حصار میں گھر پہنچتا ہے۔آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں جاتا ہے اور موت کا خوف ناک فرشتہ ’’دبے پاؤں‘‘ آ کر روح قبض کر لیتا ہے۔ اِس افسانے کا اختتامیہ لا جواب، بھر پور اور خلافِ توقع انجام لیے ہوئے ہے۔ملاحظہ کیجیے:
’’محل سرا کے باہر سیکیوریٹی فورس مستعد رہی، مسلح سپاہی محل کی دیواروں کے ساتھ ساتھ اور چھت کے اوپر ذرا ذرا سے فاصلے پر موجود رہے، کلوز سرکٹ کیمرے ادھر سے اُدھر حرکت کرتے رہے، پر وہ خوفناک شکل نہ تو کسی سپاہی نے دیکھی اور نہ ہی وہ کسی کلوز سرکٹ کیمرے کی آنکھ میں قید ہو سکی…‘‘ گویا’’دبے پاؤں‘‘ فرشتۂ اجل آ کر اُسے دبوچ لیتا ہے، تمام حفاظتی حصاراور انتظامات خدا کی طاقت کے سامنے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔‘‘
٭