اکرم کنجاہی ۔۔۔ شہناز پروین

شہناز پروین

شہناز پروین ہمارے عہد کی ’’خالص افسانہ نگار‘‘ ہیں۔یہ خالص کا لفظ اُن کی تخلیقی ہُنر مندی کو واضح کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے جتنے بھی افسانے لکھے ہیں، وہ ایک صاحبِ اسلوب مصنفہ کے رنگ میں لکھے ہیں۔ اُنہوں نے ادبی منظر نامے میں ہلچل پیدا کرنے یا اپنے قاری پر اپنی ڈکشن یا علمیت کا رعب قائم کرنے کے لیے کہیں زیادہ فلسفیانہ مکالمے لکھے ہیں اور نہ ہی افسانوں کووعظ و نصیحت کے مضامین بننے دیا ہے۔ مزید براں کہیں ذہنی و فکری انبساط کے لیے، مزاح کی سی آنچ پر ایسا شگفتہ ادب تخلیق نہیں کیا ہے جسے ہم انشائیے کا نام دیں۔ اُن کا افسانہ اوّل و آخر بس افسانہ ہے۔اُن کا تازہ افسانوی مجموعہ ’’روشنی چاہیے‘‘ کے نام سے ۲۰۱۸ء میں منظر عام پر آیا۔ قبل ازیں اُن کے دو افسانوی مجموعے ’’سنّاٹا بولتا ہے‘‘ اور ’’آنکھ سمندر‘‘ شائع ہو چکے تھے۔ اُن کا تحقیقی مقالہ ’’اقبال شناسی اور ماہنامہ نگار؍نگارِ پاکستان‘‘ ۱۹۲۲ ء سے ۲۰۰۸ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔وہ زیادہ تر بیانیہ انداز میں واحد متکلم کے صیغے میں افسانہ لکھتی ہیں۔اِس سے انہیں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصنفہ خود پلاٹ کا ایک کردار بن جاتی ہے، یوں کہانی آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔جب تخلیق کار خود کہانی کا کردار بن جاتا ہے تو قاری کہانی کو جگ بیتی سے زیادہ ہڈ بیتی یا آپ بیتی سمجھنے لگتا ہے جس سے افسانے کا تاثر بہت بڑھ جاتا ہے۔کسی بھی ادیب کے لیے مشاہدہ از حد ضروری ہوتا ہے۔دراصل یہ ہمارے مشاہدات ہی تو ہوتے ہیں جن کو ہم اپنے اپنے اسلوب رقم کر کے قاری تک پہنچاتے ہیں۔شہناز پروین اُن فکشن نگاروں میں سے ہیں جنہیں مختلف ممالک میںدیگر تہذیبوں کا مشاہدہ کرنے اور اُنہیں پرکھنے کا موقع ملا ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے موصوفہ نے کئی افسانے تخلیق کیے ہیں لیکن اِس خوبی کے ساتھ کہ کوئی وعظ نہیں کیا نتیجہ اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ ماضی قریب میں دہشت گردی، قتل و غارت اور لوٹ مار کراچی کا اہم مسئلہ رہا ہے۔انہوں نے اِس پس منظر میں بھی کہیں راست انداز میں اور کہیں تہہ داری کے ساتھ افسانے لکھے ہیں، اِس طرح ایک حساس لکھاری کی طرح وہ مکمل طور پر اپنے گردو پیش سے جڑی ہوئی ہیں۔اپنے عہد اور اُس کے مسائل کا کامل ادراک رکھتی ہیں۔
٭

Related posts

Leave a Comment