عذرا اصغر
عذرا اصغر کا شمار اِس وقت ہمارے سینئر اور منجھے ہوئے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ تقسیمِ ہند سے پہلے ۱۹۴۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔گھر میں ایک بڑی بہن اور دو بڑے بھائیوں کے بعد چھوٹی اولاد تھیں یعنی بچپن میں گھر بھر کاپیار ملا مگر والد کی دوسری شادی کی وجہ سے ہجرتیں بھی مقدر بنیں۔علمی تربیت دادا نے کی۔مسافرت اتنی رہی کہ تعلیمی سلسلہ بار بار ٹوٹتا جڑتا رہا۔ پاکستان ہجرت کی تو گوجرانوالہ سے سرگودھا اور پھر فیصل آباد میں آباد ہوئیں۔بعد ازاں لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے درمیان بھی مسلسل آمد و رفت رہی۔لاہور میں اُن کی بڑی ادبی مصروفیت ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کی ادارت تھی۔ بامقصد ادب کی قائل ہیں۔سوچ ترقی پسندانہ ہے مگر کسی ادبی تحریک یا گروہ سے وابستہ نہیں رہیں۔لاہور میں مقیم تھیں تب بھی دونوں بڑے ادبی گروپوں سے منسلک نہیں تھیں۔وہ اپنے شوہر اصغر مہدی کے ۱۹۸۵ء میں اسلام آباد تبادلے تک ’’تخلیق‘‘ سے منسلک رہیں۔ اسلام آبادمیں حلقۂ اربابِ ذوق اور اکادمی ادبیات میں منعقد ہو نے والی تقریبات کے علاوہ‘‘بزم تجدید’’کی وجہ سے زیادہ متحرک رہیں۔ اسلام آباد ہی سے انہوں نے ادبی پرچہ ’’تجدیدِ نو‘‘ ۱۹۸۹ میںشاعر وفا براہی کے مشورے پر جاری کیا۔ایک بار کسی صحافی نے اُن سے گھر کے ماحول سے متعلق سوال پوچھا تھاتو انہوں نے صرف اتنا کہا۔کون سا گھر؟
۱۹۶۲ء میںنیا پیام میں پہلا افسانہ ’’اشائیں سو گئیں‘‘ شائع ہوا۔بعد ازاں اُردو ڈائجسٹ، ادبِ لطیف، چترا ویکلی (بھارت) اور دیگر اہم جرائد میں بھی تواتر سے لکھتی رہیں۔کالم نگاری کا تجربہ بھی کیا۔ابتدا میںغالباً ۶۸ ۱۹ء میں خواتین کے ایک پرچے ’’نورونار’’کی ادارت بھی کی۔ اُن کا ناول ’’دل کے رشتے‘‘ ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا جوگھریلو خواتین کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے لکھا گیا تھا۔ پہلا افسانوی مجموعے،’’پت جھڑ کا آخری پتا’’(۱۹۸۰ء)،’’دوسرا مجموعہ بیسویں صدی کی لڑکی’’(۱۹۸۹ء)،’’تنہا بر گد کا دُکھ’’(۱۹۹۰ء)،’’گدلا سمندر‘‘ (۱۹۹۹ء)، ’’مسا فتوں کی تھکن’’(ناولٹ مطبوعہ۲۰۰۷ء)،’’مشرق و مغرب کے سیاسی افکار’’(تالیف ۱۹۷۲ء)، تیری آنکھوں کے ساتھ (۲۰۱۱ء)میں، بعد ازاں ’’کھڑکی میں بیٹھا وقت‘‘ اور ’’یادوں کے طاق پہ رکھی کہانیاں‘‘ بھی اشاعت پذیر ہوئیں۔اگرچہ انہوں نے پنجابی زبان میں بھی افسانے تخلیق کیے ہیں مگر ادب کے قارئین اُن کے پنجابی افسانوی مجموعے کے منتظر ہیں۔کہنہ مشق تخلیق کاروں میں کرشن چندر،الطاف فاطمہ،قرۃ العین حیدر،نشاط فا طمہ انہیں مرغوب ہیں جب کہ عصر حاضرمیں محمد امین الدین اور شبہ طراز کی تخلیقات انہیں پسند آ رہی ہیں۔ ماضی قریب اور حالیہ دور کے ناولوں میں انہیں رضیہ فصیح احمد کا‘‘زخم تنہائی’’،نسیم انجم کا‘‘نرک’’اور شمیم منظر کا‘‘زوال پسند آئے ہیں۔
عذرا اصغر کا اسلوبِ بیاں بے حد پختہ اور فنکارانہ ہے۔انہوں نے اپنے افسانے ’’اندھا کنواں‘ میںمحبت، فن و فن کار،معاشی تضادو سماجی نا ہمواری کو خوب پیش کیا ہے۔ محب کومحبوب جس کا سراپا مولسری کا نازک پھول لگتا ہے ہاتھ لگاؤ تو بتیاں بکھر کر دامن میں آ جائیں۔ محبت اُٹھ جائے تو مولسری کے پیڑ بھی لنج منج لگنے لگتے ہیں اور محبوب کی آواز بھی کسی اجڑے، ویران اور غلیظ اندھے کنویں کی تہہ سے آتی محسوس ہوتی ہے۔ خوب صورتیاں محبت ہی کے تصور سے قائم رہتی ہیں۔بے محبت دل کی آنکھ کے دیکھنے کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ اس افسانے میں مصنفہ نے ایک روایتی موضوع کو اپنی ہُنر مندانہ پیش کش سے تازہ کاری عطاکی ہے۔ محبت کے دائمی موضوع کو انہوں نے ’’جھڑ بیری کا بیر‘‘ میں بھی مختلف انداز سے پرکھا ہے۔مرد اور عورت کے درمیان فطری جنسی کشش کو بھی ’’چندر کلا‘‘ میں بھی پیش کیا ہے۔
۲۰۱۴ء میں اُنہوں نے اپنا تازہ افسانوی مجموعہ ’’کھڑکی میں بیٹھا وقت‘‘ عنایت کیا۔۱۶۰؍ صفحات کے اُس مجموعہ میں کُل ۳۴؍ افسانے شامل تھے۔اگرچہ اُن کی طویل فنی ریاضت اِس بات کی مظہر ہے کہ اُن کے ہاںہجرت، تجربات اور مشاہدات کی کمی نہیں لہذا لازمی بات ہے کہ فکری و موضوعاتی تنوع بھی موجود ہے مگر مذکورہ افسانوی مجموعے سے متعلق میرا فوری تاثراتی ردِ عمل یہ تھا کہ اِس میں لا شعور و وجدان کا عمل دخل زیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ مجموعہ ایک جہاں دیدہ خاتون کی عمر بھرکے تجربات کا نچوڑ ہے ایک طرح سے جسے آپ سوانحی افسانوی مجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔مجموعے کے پہلے ہی افسانے ’’شاخِ بُریدہ‘‘ کو لے لیجیے۔ایک عمر زندگی کی مسافت میں ساتھ نبھانے والا سر کا سائیں راستے میں چھوڑ جائے تو بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی ہے۔انسان اپنے ہی پیڑ کی ’’شاخِ بریدہ‘‘ بن کے رہ جاتا ہے۔’’اُداسی درد کے جنگل میں گاتی ہے‘‘ نیم تجریدی اسلوب کا ایک پُر اثر افسانہ ہے جس میں کہانی پن تو نہیں ہے مگر فکر مربوط ہونے کی وجہ سے ابلاغ کامل ہے اوروہ بھی کہانی پن ہی کی ایک صورت ہے۔عورت اپنے گلشن کی آبیاری کرتی ہے۔ ایک ایک نو نہال کے تناور درخت بننے تک اُن کو اپنے خون سے سینچتی ہے اور دل و جان سے حفاظت کرتی ہے مگر مضبوط درخت اگر اِس سارے عمل کو اپنے نمو کی صلاحیت قرار دے کرباغبان کی شب و روز کی محنتوں سے انکار کر دیں تو اُس کے کرب کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔اِس افسانے میں کسی مکالمے کی بجائے خود کلامی کا تاثر نمایاں ہے۔’’کھڑکی میں بیٹھا وقت‘‘ کبھی کبھی مرکزی کردار کو ماضی میں لے جاتا ہے اور وہ سہانے دنوں کو یاد کر کے دکھی ہو جاتی ہیں۔یہ سوانحی افسانہ محسوس ہو رہا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’وہ تو یہ گیت اپنے ابا جی کے لیے گایا کرتی تھیں۔ انہیں تو گیت کے دوسرے مصرعے کی طرح یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ابا جی ہیں کہاں؟ کس شہر میں ہیں؟ بس اماں کی زبانی سنا تھا کہ انہوں نے شادی کر لی ہے۔ گتھی اُن کے ذہن میں الجھ کر رہ گئی۔ ’’ابا شادی کیوں کرتے ہیں؟‘‘ یقینا اِس افسانے کی کوئی نسبت عذرا اصغر کی ذاتی زندگی سے بھی ضرور ہے۔اِن افسانوں میں داخلیت اپنی جگہ مگر انہوں نے افسانوں میں ایسے فقرے ضرور ٹانکے ہیں جو اُن کے سیاسی و سماجی شعور کی عکاسی کرتے ہیں۔اِسی افسانے میں لکھتی ہیں’’ہفتہ بھر سے معزول چیف جسٹس نے نا انصافی کا چھلاوا بن کر پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا تھا‘‘مزید لکھتی ہیں:’’خود کش حملے میں دس نمازی شہید۔اسکول کے پندرہ بچے…یا اللہ… وحشت… بربریت…!یہ دو ہزار سات ہے۔نہیں! ہم قبل از مسیح کے دور میں زندہ ہیں۔انسان انسان کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کررہا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ نے دی اور انسان لے رہا ہے۔‘‘
اِس کتاب میں انہوں نے بعض بے جان اشیا مثلاً مکان اور لیٹر باکس وغیرہ کو بھی کردار یا فاعل بنا کر دلچسپ افسانے تخلیق کیے ہیں۔جیسے ’’آخری خط‘‘ میں لیٹر باکس کردار کے طور پر ابھرتا ہے ایک زمانہ تھا کہ گلی محلے میں نصب لیٹر باکس تمام علاقے کے لوگوں کی سہولت کا باعث تھا۔ یہ ہماری ایک مٹتی ہوئی خوب صورت روایت اور یاد کا حصہ ہی رہ گیا ہے کہ اب ای میل،وٹس اپ اور فیس بُک وغیرہ نے لیٹر باکس کا کردار ختم کر دیا ہے۔لیکن مالک مکان اور کرائے دار کی کشمکش آج بھی جاری ہے۔لاکھوں کروڑوں افراد مالک مکان کے بڑھتے ہوئے مطالبات کی وجہ سے مکان تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیںاور اپنے پُرانے گھر میں کئی کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں (افسانہ آخری خط)
٭