اکرم کنجاہی ۔۔۔ عصمت چغتائی

عصمت چغتائی

عصمت سے قبل ، اُردو ادب میں پندرہ سے بیس ناول نگار خواتین موجود ہیں اور اُن کے پچاس ساٹھ ناولوں کا ذکر بھی تاریخِ ادب میں ملتا ہے مگرعصمت چغتائی اُن ناول نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے اُردو میں پہلی بار متوسط گھرانے کی عورتوں کی جنسی گھٹن پر قلم اٹھایا ہے لیکن انہوں نے کہیں بھی اُن کے پس منظر میں سماجی عوامل کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس لیے ان کے فن میں داخلیت، نفسیات کی پیچیدگیوں کے ساتھ گرد و پیش کے اثرات کا ایک خوب صورت امتزاج ملتا ہے۔انہوں نے سماج کی ڈری ہوئی، سہمی ہوئی اور بے بس عورت کو بولنا سکھایا۔عورت کے مسائل پر عورت کی نظر ڈالی۔جب شاہد احمد دہلوی نے ساقی میں پہلی بار اُن کا افسانہ ’’منادی‘‘ شائع کیا تو ہر طرف ایک کہرام مچ گیا۔۹۴۲ا میں اُن کا مجموعہ ’’چوٹیں‘‘ شائع ہوا۔ کرشن چندر نے پیش لفظ میں لکھا:۔
’’پہلے پہل جب عصمت کے افسانے اردو رسائل میں چھپے تو لوگوں نے کہا اجی کوئی مرد لکھ رہا ہے۔اِن کہانیوں کو ہماری شریف بہو بیٹیاں کیا جانیںافسانے کیسے لکھے جاتے ہیں۔لیکنجب عصمت برابر افسانے لکھتی رہیں تو ارشاد ہوا، اجی ہٹاؤ بھی یہ کیا افسانے لکھیں گی۔سڑن کہیں کی ! جب دیکھو جلی کٹی سناتی ہیں۔لاحول ولا قوۃ ایسی بھی کیا بے باکی‘‘۔
عصمت نے ناولوں کی بنیاد اس نفسیاتی حقیقت پر رکھی ہے کہ زندگی کی مختلف منزلوں میں پیش آنے والے واقعات سیرت و کردارکی تعمیرکرتے ہیں۔انسان کے تحت شعور کی الجھنوں اور اس کے عمل کا رشتہ سیاست،اقتصادیات، مروجہ اخلاقی اقدار اور مذہب سے جا ملتا ہے۔ترقی پسند دور کا آغاز ہوا تو حقیقت نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔اس تحریک سے منسلک عصمت چغتائی نے زندگی کے اَن گنت گھریلو مسائل کو حقیقت نگاری کے رنگ میں پیش کیا چونکہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں جنسی حقیقت نگاری کو جگہ دی ہے۔ اس نے پوری آزادی اور بے باکی سے مسلم متوسط گھرانے کی جنسی زندگی کو اپنی تخلیقی فن پاروںکے موضوعات کے طور پر اپنایا ہے۔ اس نے فکر و تخیل اورذاتی مشاہدات کی گہرائیوں سے نفسیاتی الجھنوں کو جس انداز سے پیش کیا ہے اس حیثیت سے کوئی اور خاتون ناول نگار پیش نہیں کرسکی۔ فضیل جعفری نے اُں سے متعلق ایک اہم بات لکھی ہے:۔
’’عصمت نے اپنے افسانوں میں وہی ما حول پیش کیا ہے جو اُن کا اپنا ماحول تھا اور جس کی حقیقی عکاسی کے لیے وہ مشہور ہیں یعنی ایسا متوسط یا غریب متوسط مشترکہ خاندان جہاں عموماََِ دولت، علمیت اور افرادِ خاندان کی غیر معمولی صلاحیتوں کی فراوانی کے بجائے خاندانی محبتوں، نفرتوں ، عداوتوں، معاشی بد حالی،بے ضرر گالیوں اور جائز و نا جائز بچوں کی فراوانی پائی جاتی ہے‘‘۔ مزید براں بات صرف ماحول کی نہیں، عصمت کے جنسی افسانے کنواری، ہیر، شادی، گیندا اور جال وغیرہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ شعوری اور لا شعوعری طور پر فرائڈ کے نظریات کی قائل تھیں۔اُن کی نزدیک جنس فطری جذبہ ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔جس نے انہیں جنسی نا آسودگی اور تشنگی کے افسانوی اظہار پر مجبور کیا۔اُن کے نزدیک معاشرہ بے شک جکڑ بندیوں میں ہو کسی نہ کسی صورت جنسی تلذذ بھی حاسل کی اجا رہا ہوتا ہے۔ افسانہ پنکچر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔لہذا یہ ایک حقیقت ہے کہ سوچ مولویانہ ہو یا ترقی پسندانہ جنسی خواہش کسی نہ کسی پیرائے میں اپنا آپ ظاہر کرتی ہے۔
دراصل عصمت چغتائی مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی اَن گنت برائیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو بے نقاب کرنا چاہتی ہیں اور اپنے ناولوں کے کرداروں کو حقیقی صورت میں پیش کرنے میں کامیابی سے کوشش کرتی ہیں۔ اس طرح عصمت معاشرے کے رجحانات کو غور و فکر سے نئے نگار خانوں میں سجا کے تلخ حقائق کو واضح کرتی ہیں اور متوسط طبقے کے مسلمان لڑکے اور لڑکیوں کی ذہنی اور جنسی نا آسودگی کو پیش کرتی ہیں۔ایک انٹرویو میں عصمت نے خود کہا تھا: دوپہر کو محلے کی عورتیں جمع ہو کر بیٹھ جاتی تھیں اور ہم لڑکیوں سے کہا جاتا تھا چلو بھاگو۔ہم لوگ چھپ کے پلنگ کے نیچے گھس کے کہیں سے ان کی باتیں سن لیا کرتی تھیں، جس کا موضوع گزرے ہوئے ماحول اور پردے میں رہنے والی بیویوں کے لیے بہت اہم نہ سہی پر وہ اس پر بہت بات چیت کیا کرتی تھیں۔ اس طرح عصمت نے سماج کی جنسی کج رویوں کو اپنی تخلیقات کے موضوعات بنا کر پیش کیا ہے۔ان کے ناولوں میں ضدی،ٹیڑھی لکیر، معصومہ،سودائی،عجیب لوگ، دل کی دنیا اور ایک قطرے خون شامل ہیں۔ اُن کے بیشتر افسانوں کا موضوع جنس ہے اور اس کا اظہار اس قدر بے باکی سے کیا ہے کہ آگے چل کر اُن پر سرکاری مقدمہ بھی دائر کیا گیا۔ منٹو اور عصمت نے حقیقت کی تلاش صرف اس حد تک نہیں کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے بلکہ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ زندگی ایسی کیوں ہے۔
عصمت چغتائی نے اُس زمانے میں ادبی زندگی کا آغاز کیا جب رومانیت کی جگہ حقیقت نگاری کی طرف رجحان بڑھ رہا تھا۔ جدید تعلیم اور مغرب کے اثر سے کچھ لوگوں میں زندگی سے نظر ملانے کی جرأت پیدا ہو رہی تھی۔ اس دور کا پہلا افسانوی مجموعہ انگارے ۱۹۳۲ء کی شکل میں سامنے آیا۔ انگارے اس انداز کی کہانیوں کامجموعہ ہے جن میں ہندوستانی سماج کے بعض پہلوؤں کی حقیقی تصویر کشی کی گئی تھی۔ چند ایسے موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا گیا جن پر قلم اٹھانا غیر اخلاقی بھی خیال کیا جاتا تھا۔ جھوٹی مذہبیت، ریاکاری، قوم پرستی کا ڈھونگ ان سب پر انگارے کے مصنفین نے اپنے طنز کے تیر برسائے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے دوران حقیقت نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ منٹو اور عصمت کے افسانے جنسی حقیقت نگاری کی اچھی مثال ہیں۔
۱۹۴۰ء میں ضدی سے اُن کا ادبی سفر شروع ہوا۔ ناول کا ہیرو پورن ایک جاگیردار گھرانے کا نوجوان ہے جو ایک لڑکی آشنا سے محبت کرتا ہے لیکن خاندانی روایات کی پابندی دونوں کو یکجا نہیں ہونے دیتی ہیں۔وہ بوجوہ بغاوت نہیں کرتا، اسی لیے ہیروئن آخر میں جل کر مر جاتی ہے۔ اس کی کہانی فلمی انداز کی ہے اور فلم اس پر بنی بھی تھی تاہم ناول میں جاگیردارانہ طبقے کی سخت گیری اور سماجی درجہ بندی اور جھوٹے پندار کو موضوع بنایا گیا ہے، جس کے خلاف ناول کی ہیروئن جل کر احتجاج کرتی ہے اور ہیرو دیوانہ ہو جاتا ہے۔ عصمت چغتائی کا ٹیڑھی لکیر ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے وہ بحیثیت افسانہ نگار مقبول ہو چکی تھیں۔ ٹیڑھی لکیر مصنفہ کا نیم سوانحی ناول ہے۔ اس کا مرکزی کردار سمن نام کی دوشیزہ ہے جو اپنے بزرگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے ایک بڑا کردار بن گئی ہے۔سمن انتہائی اکیلے پن اور جذباتی عدم تحفظ کا شکار بن کر خود روپودے کی طرح پروان چڑھتی جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ سے محبت و توجہ کی طلبگار رہی ہے۔وہ ایک کے بعد دوسرے مرد کی طرف بڑھتی ہے۔ہم جنسی سے لے کراسکول کی استانی اور کالج یونین کے صدر سے لے کر سہیلی کا باپ تک ۔ اپنی سہیلی کے باپ رائے صاحب کی شخصیت اور مردانگی سے بھی متاثر ہو تی ہے۔ رائے صاحب سے یہ لگاؤ بھی اس کی حقیقت کا مظہر ہے کہ وہ باپ کی موجود ہوتے ہوئے بھی پدرانہ شفقت سے محروم رہی تھی۔مردا ساس معاشرے میں مجبور و مظلوم عورت کی فطری کمزوریوں ، جنسی اور نفسیاتی الجھنوں اور ذہنے و جذباتی دباؤ کو ٹیڑحی لکیر میں پیش کرتے ہوئے ، اُن کا لہجہ بہت بولڈ اور بلند آہنگ ہے۔
عصمت پر بھی منٹو کی طرف فحاشی کے الزامات لگائے گئے لحاف کے سلسلہ میں ان پر بھی مقدمہ چلا۔کچھ نقادوں نے ان کی بے باکی اور جرأت کوا صلاح اور اس کو صحت مند ترقی پسندانہ حقیقت نگاری اور رجحان قرار دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ عصمت چغتائی نے اپنے ذاتی مشاہدہ اور اپنی قوت تخیل کی مدد سے سمن کی شکل میں اکثر فکشن کو ایک لافانی کردار دیا ہے۔ مصنفہ کا انداز بیاں ان محدود ذہنوں کو جھنجوڑنے کا کام انجام دیتا ہے جو جنسی جذبے کے ذکر اور جسم انسانی کے حسن کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اُردو میں پہلی بار نفسیاتی ناول نگاری کی ابتدا ہوئی اور یہی عصمت کی اُردو ناول کو اصل دین ہے کہ انہوں نے ناول کو زیادہ بے باکی اور جرأت اظہار عطا کی۔
عصمت نے معصومہ ناول ایک ایسے متوسط گھرانے کی لڑکی کی کہانی بیان کی ہے جو غربت و افلاس سے مجبور ہوکر کال گرل بن جاتی ہے۔ حیدرآباد کے زوال کے بعد ناول کی ہیروئن معصومہ کا باپ اپنی بیوی بچوں سے یہ کہہ کر پاکستان چلا جاتا ہے کہ وہاں قدم جمنے کے بعد وہ انہیں پاکستان بلائے گا۔ باپ کے پاکستان چلے جانے کے بعد یہ چھوٹا سا کنبہ بے یارو مددگار ہو جاتا ہے۔ معصومہ کی ماں اپنے گزرے ہوئے ایام میں آرام طلبی کی زندگی بسر کرنے کی عادی بن چکی تھی۔ اس لیے گزر بسر کے لیے محنت مزدوری بھی نہیں کرسکتی چنانچہ اس کی ماں اپنے بچوں کو لے کر بمبئی چلی آتی ہے۔ معصومہ جو بڑے ارمانوں کے بعد پیدا ہوئی تھی بمبئی آکر تنگ دستی اور ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہو کر وہاں کے سیٹھوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتی ہے۔ پوری طرح اُس زندگی میں ملوث ہونے کے بعد اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے کیونکہ وہ ہر طرح سے مشرقی لڑکی ہے۔سہیلیوں کی خوش گپیاں، بہن کی ہمدردی،شہر کی ناز برداری، بیوی کا تصور، باعزت زندگی، ماں کی عظمت اور اولاد کی خوشیاں گویا اس نے کون سا خواب نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے تمام خواب دولت مند لوگوں کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر بکھر جاتے ہیں۔’’سودائی‘‘ عصمت چغتائی کا کمرشل ناول ہے جس کی عکاسی فلمی طور طریقے پر کی گئی ہے۔ عجیب آدمی میں ایک فلم ڈائریکٹر کی زندگی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور دل کی دنیا سماجی مسائل پر مبنی ناول ہے۔
اُن کے ناولوں میں ’’دل کی دنیا‘‘ اور ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ کا لب و لہجہ اور اسلوب ِ بیاں خالصتاََ تانیثی تھا۔ دونوں میں سماج و معاشرت میں عورت کے مقام و مرتبے ، جذبات و احساسات اور نفسیاتی گتھیوں کو کامیابی سے پیش کیا گیا تھا۔’’قدسیہ بیگم ‘‘ کا کردار بہت اہم ہے جسے مرد اساس معاشرے میں اپنا وجود بے معانی اور بے مقصد محسوس ہوتا ہے ۔ وہ اس سماج کی عائد کردہ بے جا پابندیوں اور اپنی ذات کی شکست و ریخت کا شدید احساس رکھتی ہے۔ایک مختصر سے ناول میں عصمت نے عورت کے جنسی استحصال اور تنہائی کو اپنے م،خصوص انداز میں پیش کیا ہے۔
’’انہوں نے پہلے پہل تو شادی نہ کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ بعد میں اُن کی زندگی میں شاہد لطیف آئے۔شادی سے پہلے ہی اپنی ضدی، بے باک ، خود سر، بے مروت طبیعت اور پردہ سمیت کسی بھی پابندی سے بلند ہونے کے بارے میں شاہد لطیف کو آگاہ کر دیا۔شادی سے پہلے اور بعد میں بھی اُن کی تنخواہ شوہر سے زیادہ تھی۔ بہر حال اُن کی زندگی اچھی گزری۔ اپنے کئی انٹرویوز میں بھی انہوں نے اعتراف کیا کہ شاہد نے انہیں برابری کا درجہ دیا۔وہ اس بات سے خوش تھیں کہ شاہد نے انہیں برابر سمجھا ۔ وہ شادی کے خلاف تھیں کہ پدر سری معاشرے میں عورت کا استحصال ہوتا ہے۔شاہد لطیف اُن کے لیے کتب کا تحفہ لاتے تھے تو نفسیاتی طور پر انہیں آسودگی ملتی تھی کہ وہ اُن کے لیے کچھ کر رہے ہیں‘‘۔(حوالہ اُردو کی معروف افسانہ نگار خواتین:ڈاکٹر نعیم انیس)
آئیے اُن کے دو تین مشہور افسانوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ ’’چوتھی کا جوڑا‘‘ اپن کا ایک جانا پہچانا افسانہ ہے۔ ایک متوسط گھرانے کی کہانی، محبت میں اٹھکھیلیاں اور امنگیں، چہل پہل، چھیڑ چھاڑ، تازہ محبتیں سب کچھ ہے۔ کبری راحٹ کو چاہنے لگتی ہے جو اپص کا رشتہ دار ہے اور اپنی نوکری کے سلسلے میں اُن کا ہاں ٹھہرا ہے۔ اماں بھی بڑے جتن کرتی ہے مگر وہ نہ ٹھہرا اپص کی نسبت کہیں اور طے ہو گئی۔ اِس افسانے میں عصمت میں جذبات نگاری اور کردار نگار میں بڑی مہارت دکھائی ہے۔افسانے کی فضا کچھ ایسی ہے کہ ہماری معاشرتی زندگی اِس میں اپنی تمام تر رعنائیوں اور حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔عصمت کو عورتوں کی نفسیات کو پیش کرنے میں کمال حاصل ہے۔ اِس سلسلے میں ’’ساس‘‘ اُن کا ایک اچھا افسانہ ہے۔عورت چاہے کتنی پتھر دل اور اکھڑ و بد مزاج ہو، جہاں معاملہ خون کے رشتوں کا آ جاتا ہے تو دکھ، تکلیف اور پریشانی میں وہ سب کچھ بھلا کر نرم دل اور شفقت کی دیوی کا روپ دھار لیتی ہے۔یہ بھی ساس بہو کی ایک روایتی کہانی ہے۔ساس کے بات بات پر بہو کو طعنے، غم و غصہ اور زبان درازی مگر ایک بار جب چوٹ لگنے سے بہو کے جسم سے خون رسنے لگتا ہے تو وہی ساس پیار کے سمندر میں ڈھل جاتی ہے۔
برصغیر کی تقسیم ایک ایسا تکلیف دہ سانحہ اور ادبی موضوع ہے جس پر اُردو زبان کے ہر فکشن نگار نے بڑے کرب ناک افسانے تخلیق کیے ہیں۔ عصمت کا افسانہ ’’جڑیں‘‘ بھی ا،ص سلسلہ کی کڑی ہے کہ تقسیم سے پہلے محلے میں رہتے ہوئے ہندو مسلم خاندانوں کے درمیان بے انتہا دوستیاں تھیں۔ بھر انگریز نے آ کر نفرت کا وہ بیج بویا کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روا دار نہ رہے۔ تقسیم کے بعد ہجرت کا عمل شروع ہوا تو مسلمان خاندان پاکستان جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ مگر ایک بوڑھی عورت کنے پاکستان جانے سے انکار کر دیا لہذا خاندان اپص کے بغیر ہی روانہ ہو گیا۔ اب اپص خاتون کے دل میں طرح طرح کے وسوسے سر اٹھتے ہیں کہ پتا نہیں اپں کے ساتھ راستے میں اور پاکستان میں میں کیا سلوک ہوتا ہے۔ ٹرینوں کی ٹرینیں کٹ رہی ہیں۔ رات کو جب وہ اکیلی رہ جاتی ہے تو روپ چند جی کی بیوی خاموشی سے آتی ہے اور کھانا رکھ جاتی ہے۔ سب خاموش کوئی بات نہیں کرتے مگر پھر محبت کلا وہ درخت جس کی شاخیں جلی تھیں، جڑیں ہری بھری تھیں۔ روپ چند کا خاندان ، مسلمان دوست گھرانے کو جا کر تراستے ہی میں واپس لے آتا ہے۔ تقسیم کے وقت ہمارے بیشتر فکشن نگاروں کے افکار یہی تھے مگر آج بہتر سال بعد بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، جس طرح کے قوانین مسلمانوں کے خلاف لائے جا رہے ہیں، اُس نے دو قومی نظریے کی حقّانیت ثابت کر دی ہے۔
دیکھا جائے تو ادب میں یہ موضوعات اور اپں کی پیش کش نئی نہیں ہے۔ مثنویوں میں کیا انہیں بیان نہیں کیا جاتا تھا؟۔ہمارے ہاں سارے جنسی مباحث شہر کے سڑکوں اور عوامی ٹائلٹس کی دیواروں کے لیے مخصوص کر دئیے گئے ہیں یا پھر اِن معاملات پر حکیم اٹھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ ہم ہر طرح کی اخلاقی کمزوری میں مبتلا ہونے کے باوجود اُن موضوعات پر ادب میں قدغن لگا دیتے ہیں مگر ۱۹۳۰ء کے عشرے میں اور اُس کے بعد اُن جنسی مسائل اور موضوعات کو بہر حال ادب کا موضوع بنایا گیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہمارے ہاں پیدا ہو گئے تھے۔یوں قابلِ غور بات یہ ہے کہ عصمت کے اسلوبِ بیاں میں کسی کو جنسی تلذذ محسوس ہوتا ہے تو قصور کس کا ہے؟۔ یہاں تک کہ ’’لحاف‘‘ جس پر فحش نگاری اور عریانیت کے زیادپ الزامات آئے تو وہاں اپں عورتوں کی محرومیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جن کی جوانیاں جنسی طور پر نا کارہ جاگیر دار اور وڈیرے خرید لیتے ہیں اور یہ بھی اپنا ہی احسان سمجھتے ہیں کہ اُن کو پاؤں ٹکانے کے لیے زمین اور سر چھپانے کو چھت دے دی۔اُن کی تمنّاؤں، خواشوں اور آرزوؤں پر بھی کسی نے غور کیا۔جسم و جاں کے تقاضوں کو تو دین بھی فراموش نہیں کرتا۔ کیا اُن کی جنسی نا آسودگی پر کبھی کسی نے غور کیا۔

Related posts

Leave a Comment