ممتاز شیریں
ممتاز شیریں نے اُردو افسانے ہی میں کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑے بلکہ حسن عسکری کی ٹھریک پر وہ ایک بہترین ادبی ناقد کے طور پر بھی نمایاں ہوئیں۔اکثر ناقدین فن کا خیال ہے کہ اُں کے اکثر افسانوں میں سوانحی رنگ، ذاتی زندگی، میاں بیوی کی والہانہ محبت، خوش گوار زندگی، استوار تعلقات کا ذکر ملتا ہے۔بہر حال اگر ذاتی زندگی اور تجربات کو بھی افسانوں کا موضوع بنایا جائے تو اِس میں بھی کوئی قباحت نہیں۔اُن کے افسانوں میں اکثر پلاٹ اسی نوعیت کے ہیں۔جیسے اُنہوں نے عورت کے فلسفۂ حیات کے نازک گوشوں پر بات کی ہے کہ اُس کی زندگی میں شوہر کا مقام اور اُس کی ترجیحات کی فہرست میں اپس کا نمبر پہلا ہے۔ ’’ّآئینہ‘‘ سے آگے بڑھتے ہیں تو ’’ انگڑائی‘‘ اپں کا ایک مشہور اور اہم افسانہ ہے جس میں ایامِ بلوغت کی عکاسی اور ہم جنسی کے رجحان کو نمایان کیا گیا ہے۔ایسے موضوع پر قلم اٹھانا از خود ایک بڑا کام تھا۔انہوں نے ہمت ، صداقت شعاری اور فکر پر کسی آلائش کے بغیر یہ مہم سر کی ہے۔ایک عہد کے رجحان اور رغبت کو انہوں نے کمال ہنر مندی کے ساتھ ’’انگڑائی‘‘ سے منسوب کیا ہے۔
ممتاز شیریں کے ہاں سماجی موضوعات کی بھی کمی نہیں۔ اِس سلسلے میں ایک اہم افسانہ ’’رانی‘‘ ہے ۔جس کا مرکزی کردار رانی ہے۔ وہ نصیبوں جلی نام کی تو رانی ہے مگر کسی کارخانے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بستر پر پڑے بیمار شوہر کی تیمار داری میں بھی مگن رہتی ہے۔وہ خود بھی بھوکی ہے مگر ایک دن جب گھر آ کر اپنے شوہر کے لیے ’’گیدہ‘‘ تیار کرتی ہے اور وہ اُسے پسندیدہ نظروں سے دیکھتا ہے تو وہ خود کو سچ مچ کی’’ رانی‘‘ خیال کرتی ہے۔ایک مسلمان عورت کی یہی عظمت ہے۔
ممتاز شیریں ۱۲؍ ستمبر ۱۹۲۴ء کے روز ہندو پور، یو پی، متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم و تربیت نانا کے ہاں میسور میں ہوئی۔وہ اُردو کی بلند قامت افسانہ نگار اور تنقید نگار ہیں۔انہوں نے اُردو افسانے کو انگریزی افسانے کی سطح پر لانے کی شعوری کوشش کی۔انہوں نے اپنے شوہر صمد شاہین کے ساتھ مل کر ۹۴۴اء میںبنگلور سے ’’نیا دور‘‘ کے نام سے ایک ادبی پرچے کا اجرا بھی کیا تھا، تقسیم، ہند کے بعدشیریں نے کراچی سے بھی ادبی پرچے کادوبارہ ا جرا کیا جو بعد ازاں، اُن کے بیرونِ ملک چلے جانے اور پھر درپیش صحت کے مسائل کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا۔
اُن کی خواہش تھی کہ آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کریں۔وہ لیکچرز میں شرکت تو کرتی رہی مگر اُن کی یہ خواہش ادھوری ہی رہی کیوں کہ اُن کے شوہر کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا۔حسن عسکری اُن کو تنقید نگاری کی طرف لے آئے۔یوں اُردو کو ایک بہترین خاتون تنقید نگار تو میسر آ گئی مگر پھر وہ اپنے افسانوں پر پہلے سے توجہ مرکوز نہ رکھ سکیں اور اُردو ادب ایک اعلی ٰپائے کی افسانہ نگار سے محروم ہو گیا۔ ’’انگڑائی‘‘ کے نام سے اُن کا پہلا ہی افسانہ جو ۱۹۴۴ء میں ساقی میں شائع ہوا، بہت مقبول ہوا۔اُن کے طبع شدہ افسانوی مجموعوں میں ’’اپنی نگریا‘‘، ’’حدیثِ دیگراں‘‘ اور میگھ ملہار شامل ہیں۔۱۹۴۷ء کے فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے افسانوں کا انتخاب ’’ظلمتَ نیم روز‘‘ کے نام سے اُن کے انتقال کے بعد۱۹۹۰ء میں منظرعام پر آیا جسے آصف فرخی نے ترتیب دیا۔اُن کے افسانوں میں ہاجرہ مسرور کی طرح ترقی پسند تانیثیت نہیں ہے۔اُن کا ابتدائی طرزِ احساس رومانوی تھا جس میں رجائی لہجہ تھا اور موضوع متوسط طبقے کی خوش حال ازدواجی زندگی تھا۔
وہ ادب میں حریت فکر اور جان دار سلوبِ بیاں کی علامت تھیں۔کرشن چندر سے متاثر ہونے کے باوجود جب اُنہوں نے اپنی تخلیقات میں کانگرسی سوچ کو نمایاں کیا تو ممتاز شیریں نے اُس روش کو نا پسند کیا اور اُس کی گرفت کی۔وہ منٹو اور عصمت پر منفی تنقید کو بلا جواز سمجھتی تھیں۔ اُن کی تنقیدی کتب معیار اور منٹو نوری نا ناری اہم ہیں۔اُن کے تراجم میں درِ شہوار (جان اسٹین بیک کا ناول دی پرل کا ترجمہ) اور باپ کی زندگی (امریکی افسانوں کا مجموعہ)