اکرم کنجاہی ۔۔۔ نیلم احمد بشیر ( مضمون)

نیلم احمد بشیر

نیلم احمد بشیر کا تعلق ایک علمی اور فنکار گھرانے سے ہے۔اُن کے والد احمد بشیر متعدد کتابوں کے مصنف، اپنے زمانے کے نام ور صحافی، انگریزی اور اُردو کے ناول نگار اور خاکہ نگار تھے۔ انہوں نے ایک فلم بھی بنائی تھی۔اُن کی تمام بیٹیاں ادب و فن سے وابستہ ہیں۔نیلم بڑی بیٹی اور اپنے والد کے ادبی ورثے کی جانشین ثابت ہوئیں۔ وہ پنجابی اور اُردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ ان کے افسانوں کے پانچ مجموعے، ’’جگنوؤں کے قافلے‘‘، ’’ستم گر ستمبر‘‘، ’’ایک تھی ملکہ‘‘، ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اور ’’وحشت ہی سہی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ایک ناول ’’طاؤس فقط رنگ‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا ہے۔ خاکوں کا ایک مجموعہ، ’’چار چاند‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ وہ 1972ء میں امریکا چلی گئی تھیں، جہاں اُن کی شادی ڈاکٹر سراج سے ہوئی۔ یوں اب وہ امریکا اور پاکستان کے درمیان سفر کرتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانوں کے علاوہ تازہ ناول’’طاؤس فقط رنگ‘‘ میں بھی وہاں کے ماحول اور مشاہدات کا کافی اثر ملتا ہے۔
اُن کی افسانے صرف کہانی پن نہیں ہیں، اگرچہ اُن کے ہاں کہانی اور پلاٹ کی بنیادی اہمیت ہے مگرجہاں جہاں مناسب خیال کریں منظر کشی اور جزئیات کا سہارا ضرور لیتی ہیں۔سہ ماہی غنیمت ۶؍ میں طبع شدہ افسانے ’’شمیم اور نسیم‘‘ میں منظر کشی:
’’ہم نے اس محلے کی طرف ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ پرانی وضع کے بے ڈھنگے، بے ترتیب سے مکان ایک دوسرے سے جڑے، گلے ملے شاید عہد رفتہ کی کہانیاں کہہ رہے تھے۔ کئی گھروں کی بوسیدگی دیکھنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں مرمت اور دیکھ بھال ایک عرصے سے نصیب نہیں ہوئی۔ کسی کا پلستر اُکھڑ رہا تھا تو کسی کی دیوار ڈھے گئی تھی۔ کسی چوبارے کا چھجہ اپنی جگہ سے ہلا ہوا تھا تو کسی شہ نشین سے اینٹیں کھسکتی دکھائی دے رہی تھیں۔‘‘
انہوں نے منٹو کی طرح ہماری سماجی اور معاشرتی منافقت اور جنسی رویوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔تخلیقات میں حقیقت نگاری اور جرأتِ اظہار نمایاں ہیں۔ وہ بغیر کسی مصلحت کے، بے دھڑک، بے خوف، اپنے سچ کا اظہار کرنے والی ادیبہ ہیں۔غنیمت ۱۰؍ میں طبع شدہ افسانہ ’’پھول میرا وطن‘‘ سے اقتباس:
’’اذا ن کی آوا ز سنتے  ہی لمبی لمبی دا ڑھیو ں وا لے اہل ایما ن شلو ا روں کے پا ئینچے اوپر چڑھا ئے مسجد وں کی طر ف بھا گتے اور کل عالم کے جا ن و ما ل کے ما لک کے آگے سر بسجو د ہو جا تے ہیں۔ نا ئن الیو ن کے بعد سبھی امریکہ کی سیا ہ کا ریو ں کے شا کی مگر گرین کا رڈ کے بدستو ر خوا ہا ں ہیں۔
خوب صو رت شہر لا ہو ر کی بڑی بڑی شا ہرا ہوں پر گا ڑیا ں رکیں تو ما نگنے و الے شہد کی مکھیو ں کی طر ح حملہ آور ہو جا تے ہیں اور پیسے لیے بغیر جا ن نہیں چھوڑتے۔  اتنے خو ب صو رت ملک میں اتنی بد صو رت غریبی دیکھ کر بہت کو فت اور دکھ ہو تا ہے۔صرا ط مستقیم پر چلنے کے درس کا بھی بہت شو ر ہے حا لا ں کہ سٹرکو ں پر اکثر لو گ یک طرفہ ٹر یفک میں غلط سمت سے آنے کو با لکل جا ئز اور اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن خیر تضا دا ت کس معا شرے میں نہیں ہو تے۔ میں بھی یہ سب دیکھ کر کو شش کر رہا ہو ں کہ چو نکوں نہیں اور ان سب با تو ں کو اسی طر ح ہلکے پھلکے اند ا ز میں لو ں جیسے کہ میر ی سا ری پیا ری پا کستا نی قو م لیتی ہے اور چین کی نیند سو بھی جا تی ہے۔
نزدیکی مسجد سے اذا ن کی رو ح پر ور آواز آرہی ہے۔ لمبی لمبی دا ڑھیو ں و الے عبادت گزا ر، زیر لب کلمے پڑھتے، تسبیحیں رولتے، بغلو ں میں جو تے تھا مے مسجد میں داخل ہو تے نظر آرہے ہیں۔ مغر ب کے بعد بتدریج گہر ے ہو نے وا لے اندھیر ے میں کچھ نقاب پو ش لڑکیا ں اور لڑکی نما مخلو ق سڑکو ں کے کو نو ں میں کھڑے انتظا ر کر تی دیکھ رہا ہوں۔ شاید کسی اچھے وقت کا…؟
وقفے وقفے سے گا ڑیا ں مو ٹر سا ئیکلیں رکتی ہیں، اپنی پسند کی سوا ریا ں بٹھا لینے کے بعد ایک پرا سرا ر، میکا نکی اندا ز میں دوبا رہ سے چل پڑتی ہیں۔ لگتا ہے جیسے یہ کسی سا ئنس فکشن فلم کا سین ہو۔ حا لا ں کہ یہ کو ئی سا ئنس ہے نہ ہی فکشن۔ یہ توحقیقت ہی حقیقت ہے۔‘‘
یہ افسانہ واضح کرتا ہے کہ نیلم نے ہمارے اپنے پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے مسائل اور اُن سے جنم لینے والی معاشرتی و سماجی بُرائیوں کو بھی بیان کیا ہے۔ہم یورپ اور امریکا جیسے آزاد معاشروں میں پائی جانے والی جنسی بے راہ روی پر گفتگو کرتے نہیں تھکتے  مگر ذکر اپنے معاشرے کا ہو تو مسائل سے آنکھ نہیں ملا پاتے، بہت سی باتوں سے پہلو بچا کر گزر جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا اپنا معاشرہ ناک تک  غلاظت میں دھنسا ہوا ہے۔
منٹو اُن کے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں، اُن کے حوالے سے سہ ماہی غنیمت ۳ میں طبع شدہ اپنے ایک مضمون ’’بے چین منٹو‘‘ میں لکھتی ہیں:
’’آج منٹوصاحب کوری ڈسکورکیاجارہاہے،ان کی کہانیوں کے تجزیے ہورہے ہیں۔ ان کی شخصیت کی پرتیں کُھل کرسامنے آرہی ہیں اوران کوزندہ رکھا اور سمجھاجارہاہے۔مگر اے کاش یہ سب کچھ ان کے سامنے ہواہوتاتووہ اس دنیاسے یہ اطمینان لے کرجاتے کہ آخرکاردنیاکوان کے فن اورہنرکی قدرومنزلت کااحساس ہوہی گیا۔بہرطور اب انہیں وہ مقام دیاجارہاہے جس کے وہ واقعی حق دارتھے۔اوریہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ان کی تحریریں آج بھی اتنی ہی تازہ، دبنگ، جانداراورریلی وینٹ ہیں جتنی پچاس برس قبل تھیں اس لیے کہ زمانہ آگے کوتوجاچکاہے مگرزمانہ بدلا نہیں۔مسائل جوں کے توںکھڑے ہیں اورنسلِ انسانی اسی طرح دکھی اورپریشان ہے۔وہ لیکن اپناکام خوش اسلوبی سے کرگئے جس کے لیے ہی غالباًپیداہوئے تھے،اس دنیامیں انہوں نے پل بھرکوقیام کیااوراگلی بڑی کہانی کی تلاش میں آگے کوچل دیئے ۔میں خودکومنٹو صاحب کے فن پرلکھنے کے قابل تونہیں سمجھتی مگر ان کی ایک ادنیٰ قاری کی حیثیت سے یہ ضرورسوچتی ہوںکیادنیابھرکے عاشقانِ ادب انہیں صحیح طرح پہچان بھی سکے ہیں یاابھی ہمیں ان کے فن کی گہرائی ماپنے کواورسفرطے کرناباقی ہے؟‘‘
اپنے افسانوں میں بھی کہیں نہ کہیں منٹو کا ذکر کرنا نہیں بھولتیں۔ افسانے ’’شمیم اور نسیم‘‘ میں اُن کا ایک کردار یوں گویا ہے’’یار، اگر منٹو صاحب زندہ ہوتے تو دیکھتے۔ آج کی سوگندھی، موذیل، کتنی بہتر اور مختلف زندگی گزار رہی ہیں اسکول کالج جاتی ہیں، تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ باشعور ہو گئی ہیں۔ اقبال صاحب صحیح کہتے ہیں واقعی بہت تبدیلی آگئی ہے۔ پر اگر یس…‘‘فواد نے اپنے پسندیدہ ادیب سعادت حسن منٹو کے کرداروں کا حوالہ دے کر مجھے بھی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے ہاتھ اب کوئی نیا فریم ڈھونڈنے میں مصروف ہو چکے تھے۔‘‘اِس افسانے میں انہوں نے لاہور کے ممتاز آرٹسٹ پینٹر اقبال حسین کا ذکر کیا ہے، وہ اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ انسان کو کسی بناوٹ اور تصنع کے بغیر ویسا دیکھنا چاہتی ہیں جیسا وہ ہے۔انسان اُن کے نزدیک قابلِ احترام ہے۔
وہ کم عمری ہی میں امریکا چلی گئی تھیں۔کافی عرصہ وہاں مقیم رہیں تو دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مشاہدہ کرنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔اُن تہذیبوں سے وابستہ افراد سے ملنے اور اُن کے کردار و افعال کا جائزہ لینے کا تجرباتی فائدہ اٹھایااور کئی مقامات پر افسانوں میں تہذیبوں کا موازنہ بھی کیا:افسانہ ’’پھول میرا وطن‘‘ سے اقتباس :
’’ٹی وی پہ دنیا کے سب سے طا قتو ر اور امیر ملک کے نئے منتخب شدہ صدر کی تصویر اور تقریر چل رہی ہے۔ غلا م زا دو ں کی نسل میں سے ایک نے آگے بڑھ کر سونے کا تا ج اپنے سر پہ سجا لیا ہے اور اپنی رعا یا سے کہہ رہا ہے۔’’فکرنہ کرو…؟ہم اپنی اکا نو می کو جلد ہی سنبھا لا دیں گے۔اپنے ملک کی بر تری اور با دشا ہت ہر قیمت پر قا ئم رکھیں گے۔ تیسر ی دنیا کے،چیتھڑو ں میں لپٹے ملکو ں اور ان کے فرسٹ کلا س مہنگے سو ٹو ں میں ملبو س حکمرا نو ں کو ہماری ہی مرضی پہ چلنا ہو گا،ہماری شرا ئط ما نناہو ں گی وہ بھو کے مر یں گے‘‘میں سو چ میں پڑا ہو ں کہ میرا تعلق خا ند ان غلا ما ں سے ہے یا غلا م با دشا ہ  کی امیر ریا ست سے؟‘‘
(سہ ماہی غنیمت ۱۰)
معاشرے میں عورت کے جنسی استحصال کو انہوں نے نہایت درد مندی سے بیان کیا ہے۔ افسانے ’’شمیم اور نسیم‘‘ میں اُن کا کرب اوردرد مندی جھلکتی ہیں۔
اُن کا ایک ناول ’’طاؤس فقط رنگ‘‘ کے نام سے منظرعام پر آ یا ہے۔وہ نفسیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اِس لیے ناول میں انہوں نے اپنی اِس صلاحیت کا خوب استعمال کیا ہے۔ناول کے کرداروں مراد، ڈیلائلہ، شیری اور اُن کے والدین کی نفسیات کا نہ صرف مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اُن پر بھی گہری نظر رکھی ہے۔اُنہوں نے مغربی معاشرت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو واضح کیے ہیں۔اُس معاشرت میں رہتے ہوئے ناول کے بعض کرداروں کی جنسی بھوک، ڈرگز اور حسد و جلن کو پیش کیا ہے اور کسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے روز پیش آنے والے حادثے کے بعد مسلمان تارکینِ وطن خاص طور پر پاکستانیوں کو تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ اُنہیں بے حد مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ تارکینِ وطن کی وہ نسل جو امریکا ہی میں پلی بڑھی اور کبھی اپنے ابا و آجداد کا وطن دیکھا تک نہیں ہو گا، وہ بھی تعصب سے محفوظ نہ رہے۔اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو گئے۔انہوں نے اپنے ناول  میں موجودہ دور کے اہم مسئلے سوشل میڈیا، فیس بک اور انٹرنیٹ کی نفسیات کو بھی گرفت میں لیا ہے۔

Related posts

Leave a Comment