واجدہ تبسم
واجدہ تبسم ۱۶؍ مارچ ۱۹۳۵ء کے روز امراؤتی میں پیدا ہوئیں۔اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’شہرِ ممنوع‘‘ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں توبہ توبہ، آیا بسنت سکھی، اُترن، نتھ کا بوجھ، محبت، دھنک کے رنگ نہیں، جیسے دریا، گلی گلی کہانیاں، پھول کھلنے دو، نتھ کا غرور، چٹنی وغیرہ اشاعت پذیر ہوئے۔اُن کا ناول ’’کیسے کاٹوں رین اندھیری‘‘ ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا۔’’پھول کھلنے دو‘‘ ۱۹۷۷ء، ’’زن، زر اور زمین‘‘ ۱۹۹۲ء۔ علاوہ ازیں قصاص اور نتھ کی عزت کے نام سے بھی اُن کے ناول شائع ہوئے۔’’بند دروازے‘‘ کے نام سے بچوں کی کہانیاں ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئیں۔
اسلامی سماج اور مذہب میں جنس کو ایک شہر ممنوعہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جس کا اظہار کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن انگارے۱۹۳۲ ء کی اشاعت کے بعد جب جدید تعلیم عام ہوئی اور سماج کی بے جا پابندیوں کی گرفت ڈھیلی پڑی تو ادیبوں اور فنکاروں نے جنس کا برملا اظہار کیا۔خواتین میں رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے نام سرفہرست ہیں۔ان کے بعد واجدہ تبسم نے اپنی تخلیقات میں جنسی جذبات کی تشنگی کو اپنے مخصوص اندازِ بیاں کے ساتھ واضح کیا ہے اور قارئین کا ایک بڑا حلقہ ان کی تخلیقات کا بڑی دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے۔واجدہ تبسم کی بیشتر تخلیقات جو بہت حد تک کمرشل نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہیں، ان تخلیقات میں بعض ایسی بھی ہیں جن میں جنس کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ اگرچہ خواتین ناول نگاروں نے جنس پرستی پر مبنی ناول بہت ہی کم تعداد میں لکھے ہیں لیکن جنہوں نے اس کو خاص موضوع بنا کر پیش کیا ہے ان میں واضح طور پر واجدہ تبسم کا نام اہم ہے۔انہوں نے جرأت مندی کے ساتھ اپنی تخلیقات میں جنس کو جگہ دی ہے۔
ناول پڑھنے والوں کابڑا طبقہ جس میں خواتین اور مرد دونوں ہی شامل ہیں واجدہ تبسم کے افسانوں اور ناولوں کو بڑے شوق سے پڑھتا ہے۔ واجدہ تبسم کے کئی ناول اور افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ان کے یہاں نتھ کے عنوان سے پوری سیریز موجود ہیں نتھ کا زخم،نتھ کی عزت، نتھ کا بوجھ وغیرہ۔ اترن اور پھول کھلنے دو وغیرہ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ نتھ کو عورت یا طوائف کی زندگی کا بنیادی محور ہے۔ واجدہ تبسم نے حیدرآباد کے نواحی گاؤں کی بے شمار کہانیاں بیان کی ہیں۔ انہوں نے بیشتر ناول اور افسانوںمیں نوابین کی طوائف بازیاں اور ان محلوں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کی داستان پیش کی ہے۔ انہوں نے حیدرآباد کے نواحی تہذیب کو اپنے ناولوں اور افسانوں میں اس مخصوص اور رنگ کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن واجدہ تبسم نوابوں کی عیاشیوں کو کچھ اس انداز سے پیش کرتی ہیں کہ قاری اُن سے نفرت کرنا بھول کر عیاشی کے بیان میں دلچسپی لیتا ہے، یہی چیز واجد تبسم کے افسانے کو مضبوط بناتی ہے۔ اس نے اپنے اس کمرشل رویے سے مادی فائدہ تو حاصل کیا، ادبی نہیں۔ اُن کے ناول ’’پکول کھلنے دو‘‘ کا ایک مثالی کردار دھرم راج ہے جو راتوں رات کروڑ پتی بننے کے بعد نچلی ذات کے لوگوں کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔بے گھر وں میں زمین لے کر بانٹ دیتا ہے۔ناول میں ایک ایسی دنیا تخلیق کرنے کی کوشش ملتی ہے جو عام زندگی میں ممکن نظر نہیں آتی۔