پروین شاکر
پروین شاکر کے ہاں بھی اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات زیادہ ہے مگر اظہارِ بیاں کی ایسی خوب صورتی کے ساتھ کہ اُن کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہی درد کی کائنات بن گیا۔اگرچہ وہ خود اپنے ہم عصروں میں پروین فنا سید،کشور ناہیداورفہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں مگراُن کے کلام کی تاثیر اور مقبولیت نے انہیں دورِ جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام پر لا کھڑا کیا۔یوں اُنہیں کم عرصے اور کم عمری ہی میں ایسی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ پیش روؤں اور معاصرین کے نام اُن کے سامنے گہنا گئے اور آئندگان اُن کا ذکر کیے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔فہمیدہ ریاض کے کلام سے متعلق پسندیدگی کا اظہار اپنی جگہ مگر پروین کے ہاںلہجے کا بانکپن ہے، بے باکانہ انداز نہیں اور نہ ہی اُنہوں نے جنسی خواہشات کی نا آسودگی کو اُس طرح پیش کیا ہے بلکہ پروین کے ہاں ایمائیت ہے مگر اِس انداز سے کہ ابلاغ و تفہیم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اُن کے ہاں بھی فکر و اُسلوب کا ارتقا بہت عمدہ ہے یعنی پہلے مجموعۂ کلام ’’خوشبو‘‘ میں جس طرح ایک نوخیز لڑکی کے عنفوانِ شباب کے شوخ جذبات کا رمزیاتی اظہار ہے، تجربات و مشاہدات کی دھوپ اور تپش نے اُن کو ایک نئی سمت سے آشنا کیا۔اُنہیں جب جیون کی کٹھنائیوں اور سفر کے پتھریلے راستوں کی سختی کا پتا چلا تو طرزِ فکرو احساس میں بھی تبدیلی آئی۔جس کا اظہار دیگر مجموعہ ہائے کلام میں ملتا ہے۔ بعد ازاں جن موضوعات و مسائل نے اُن کے کلام میں جگہ بنائی اُن میں شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ماں کے جذبات،ورکنگ وومن وغیرہ اہم تھے مگر اُن کے پہلے شعری اظہار کی خوشبو ادبی فضاؤں میں کچھ ایسے بکھری کہ باذوق احباب اور عامتہ الناس بھی اُس کی لطافت و نزاکت کو مشامِ جاں میں تا دیر محسوس کرتے رہے۔اُنہوں نے نسائی جذبات و احساسات اور مرد ذات کی بے وفائی کا ذکر کیا بھی تو لہجے میں دھیمے پن اور وقار کے ساتھ۔ اُن کی ہر جذباتی کیفیت اگلے پڑاؤ کی طرف اُن کا سفر محسوس ہوتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ خوشبو سے انکار تک اُن کا شعری سفر متنوع تجربات اور سوچ کی بے شمار جہتوں کا پتا دیتا ہے۔وہ ایک ذہین اور با شعور شاعرہ تھیں۔جن کے کلام میں شعورِ عصر بھی واضح ہے،کتنی ہی سیاسی و سماجی نا ہمواریاں، صدائے احتجاج کی صورت اُن کے کلام میں سمٹ آئی تھیں۔اِس ارتقائی ادبی سفر کے دوران اُنہوں نے ڈکشن کے اعتبار سے عام فہم لفظیات کااستعمال کیا ہے۔عربی اور فارسی کے ایسے بوجھل الفاظ سے بہت حد تک اجتناب کیا کہ جو قاری کی طبع نازک پر گراں گزر سکتے تھے۔البتہ اُنہوں نے ہندی کے کچھ میٹھے الفاظ کی آمیزش ضرور کی ہے۔اُن کی ایک معروف و مقبول غزل ملاحظہ کیجیے:
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گرانِ شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریبِ شاہ رگ گاہ بعیدِ وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی ناسمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی
پروین نے آزاد اور نثری نظمیں بھی کہی ہیں اور نثری نظم اُس عہد میں کہی جب اکثریت شاعری کی اِس ہئیت کی شدید مخالفت کر رہی تھی۔کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ خوشبو کے بعد پُر گوئی نے اُن کے کلام کو متاثر کیا۔وہ اُن کی نظموں کے معیار پر بھی معترض ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اُن کی غزل کی طرح ہم اُن کی نظموں کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آخر اُن میں ’’اے رنج بھری شام‘‘، ’’ایک خط‘‘، سرشاری‘‘، ’’ورکنگ ویمن‘‘، ’’سفر اب جتنا باقی ہے‘‘، خلش‘‘، ’’پہلے پہل‘‘ ، ’’مجھے مت بتانا‘‘، ’’انہونی کی ایک دعا‘‘ جیسی موضوعاتی تنوع اور نازک احساسات کی حامل نظمیں بھی شامل ہیں۔اُن کے مجموعۂ کلام ’’انکار‘‘ میں شامل ایک نظم ’’نشیرے کی گھر والی‘‘ کا اکثر ناقدین تذکرہ کرتے ہیں کہ ایک بہترین طنزیہ نظم ہے جس میں ہندی الفاظ کی خوب صورت آمیزش بھی ہے۔ عورت کے حوالے سے خاندان کی نا انصافی ، معاشرے کے ستم اور اُس کی ازلی مظلومیت کو بھر پور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اُن کی نظم ’’مُراد‘‘ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ہم بظاہر ایک اسلامی اور تہذیب یافتہ معاشرہ ہیں جس کی اپنی سلجھی ہوئی اقدار ہیں جن کی جڑیں مضبوط ہیں مگر ہم کس طرف جا رہے ہیں کہ ایک عورت محسوس کرتی ہے کہ چاروں سمت بھیڑیوں کے غول ہیں جو میری تھوڑی بے احتیاطی کے منتظر ہیں کہ مجھے غافل پا کر جھپٹ پڑیں مگر وہ ایک ایسی عورت ہے جس کے اعتماد نے اُس کے ہر سمت آگ کا الاؤ روشن ہے جس کی وجہ سے بھڑئیے دور ہیں کہ وہ آگ میں پاؤں نہیں رکھتے:
اے رنج بھری شام (آزاد نظم مشمولہ انکار)
دہلیزِ سماعت پہ کسی وعدے کی آہٹ
اُترے کہ نہ اُترے
اے رنج بھری شام
دکھتے ہوئے دل پر
کوئی آہستہ سے آ کر
اک حرفِ تسلی تو رکھے پھول کی مانند
اُن کی ایک نثری نظم ’’ایک دفنائی ہوئی آواز‘‘ میں عورت کا کرب ملاحظہ کیجیے اور داد دیجیے۔ابلاغ کامل اور تفہیم آسان ہے:
پھولوں اور کتابوں سے آراستہ گھر ہے
تن کی ہر آسائش دینے والا ساتھی
آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا بچہ
لیکن اِس آسائش، اِس ٹھنڈک کے رنگ محل میں
جہاں کہیں جاتی ہوں
بنیادوں میں بے حد گہری چُنی ہوئی
اک آواز برابر گریہ کرتی ہے
مجھے نکالو!
مجھے نکالو!
احمد ندیم قاسمی اور اُن کے ادبی پرچے ’’فنون‘‘ نے پروین شاکر کو صفِ اوّل کی تخلیق کاروں میں لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ان کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔خوشبو (1976ء)،صد برگ (1980ء)،خود کلامی (1990ء)،انکار (1990ء)،ماہ ِتمام (1994ء)
24 ؍نومبر1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔اُن کے خاندان میں علم و ادب کا چرچہ تھا۔ بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند پایا ہے۔پروین کی ادبی تربیت میں اُن کے نانا حسن عسکری کا بڑا کردار رہا جو خود اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے اور انہوں نے ہی پروین کو اچھے شعرا کے کلام سے متعارف کروایا۔ زمانۂ طالب علمی کے دوران وہ اُردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کی۔ انگریزی زبان و ادب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ انہی مضامین میں ۹؍ سال تک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں۔بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا ،سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جو طلاق پر منتج ہوئی۔بیٹے کا نام مراد علی ہے۔۲۶؍ دسمبر ۱۹۹۴ء کے روز ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں،صرف بیالیس سال کی عمر میں مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔