اکرم کنجاہی ۔۔۔ ڈاکٹر رشید جہاں

ڈاکٹر رشید جہاں

ڈاکٹر رشید جہاں پہلی ترقی پسند خاتون تھیں جو عملی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئیں بل کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اِس تحریک کے بانی اراکین میں شامل تھیں۔۱۹۰۵ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔اُن کے والد شیخ عبداللہ علی گڑھ کے معروف ماہر تعلیم اور علی گڑھ کالج برائے خواتین کے بانی تھے۔حکومتِ ہند کی طرف سے تعلیمی خدمات پر انہیں پدم بوشن ایوارڈ بھی دیا گیا۔اُن کی والدہ وحید شاہجہاں بیگم ایک رسالہ ’’خاتون‘‘ نکالتی تھیں۔رشید جہاں پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھیں۔اُن کے شوہر محمود الظفر امرتسر میں ایک کالج کے پرنسپل اور معروف ترقی پسند ادیب تھے۔’’انگارے‘‘ میں اُن کا بھی ایک افسانہ ’’جواں مردی‘‘ شامل تھا۔رشید جہان کا پہلا افسانہ ’’سلمیٰ‘‘ کے نام سے ۱۹۲۳ء میں انگریزی زبان میں شائع ہوا تھا جس کا ترجمہ ممتاز ناقدِ ادب آل احمد سرور نے کیا تھا۔یہ ادبی دنیا میں گویا اپں کا پہلا تعرف تھا۔انہوں نے اپنی بیس سالہ زندگی میں کل ۱۹ افسانے لکھے۔ ویسے وہ ڈرامہ نگا ر،مترجم،مضمون نگار اور فیچر نگار بھی تھیں۔انہوں نے حقیقت میں توہم پرستی اور فرسودہ رسوم کے خلاف قلمی اور عملی جہاد کیا۔ دسمبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہونے والے معروف افسانوی مجموعے ’’انگارے‘‘ میں جن پانچ افسانہ نگاروں کی تخلیقات شامل تھیں، اُن میں رشید جہاں بھی ہیں۔ اُن کا ایک افسانہ ’’دلی کی سیر‘‘ اُس کتاب میں شامل تھا۔۱۹۳۱ء میں ابتدائی طور پر سجاد ظہیر نے جب ’’انگارے‘‘ مرتب کی تو اُس میں اُن کا ایک اور افسانہ ’’پردے کے پیچھے‘‘ بھی شامل تھا۔اِس طرح اُردو فکشن میں بولڈ اسلوبِ بیان کی پہلی نقیب عصمت چغتائی نہیں رشید جہاں تھیں۔ مذکورہ کتاب میں شامل دیگر افسانوں کی طرح فنی اعتبار سے یہ بھی کوئی بہت اعلیٰ پائے کا افسانہ نہیں تھا مگر یہ تخلیقات ایک خاص مقصد کے تحت وجود میں آئی تھیں۔ سماج میں رواج پانے والے غلط مذہبی عقائد، توہم پرستی، شدید مذہبی اور معاشرتی گھٹن اُن افسانوں کے موضوعات تھے۔اُن میں اظہارِ بیاں کی کوملتا اور تخلیقی حسن نا پید تھا مگر سماجی و معاشرتی حقیقت نگاری بے حد موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ رشید جہاں سے متاثر ہونے اور اثر قبول کرنے والوں میں عصمت چغتائی اور فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔حقیقت نگاری، طبقاتی شعور، سماجی گھٹن پر واشگاف انداز میں پہلے لکھنے کا رواج نہیں تھا۔لہٰذا اُس کے خلاف مسجدوں میں قرار دادیں منظور ہوئیں، افسانہ نگاروں کو قتل کی دھمکیاں دی گئیںجس کی وجہ سے اُس کتاب پر پابندی لگا دی گئی۔موصوفہ کے دیگر اہم افسانوں میں ’’مجرم کون‘‘ اور ’’نئی مصیبتیں‘‘ شامل ہیں۔وہ خواتین میں ذہنی بیداری پیدا کرنے کے لیے ایک پرچہ ’’چنگاری‘‘ بھی جاری کرتی تھیں ۔ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’عورت‘‘ اُن کی زندگی میں جب کہ دوسرا مجموعہ ’’شعلۂ جوالہ‘‘ ۱۹۶۸ء میں لاہور سے اور تیسرا’’وہ اور دوسرے افسانے‘‘ ۱۹۷۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔لکھنو میں میڈیکل پریکٹس کرتی تھیں، وہاں انہوں نے کئی ڈرامے بھی لکھے جو اسٹیج پر پیش کیے گئے۔ اُنہیں کینسرتھا، علاج کے لیے ماسکو لے جایا گیا مگر جانبر نہ ہو سکیں اور ۱۹۵۲ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
وہ اُردو فکشن میں نسائی احتجاج کی پہلی با قاعدہ آواز تھیں۔انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے جن موضوعات کو اٹھایا وہ کہیں نہ کہیں آج بھی ہمارا مسئلہ ہیں۔اُنہوں نے نہ صرف لکھا بل کہ عملی طور پر انسانیت کی خدمت کی۔رسالہ خاتون نومبر۲۰۰۵ٔ میںہاجرہ بیگم نے اُن سے متعلق کچھ یوں لکھا:۔
’’دہرہ دون میں رشید جہاں پورے طور پر سیاسی کارکن بن گئیں۔ اپنے ڈاکٹری اصولوں کو ایک طرف رکھ کر ، وہ مہتروں کی بستیوں میں جا کر بالغوں کو پڑھاتی تھیں۔ آریا سماج کے مندروں میں جا کر ہندو عورتوں کو تنظیم میں لاتی تھیں۔شہر کے مزدوروں کی تنظیم، طلبا کی تنظیم میں حصہ لیتی تھیں۔ پھر روپوش ساتھیوں کی رہائش اور خرچ کا انتظام ، بیماروں کا علاج، پارٹی اسکول کا انتظام، الغرض وہ رشید جہاں سے کامریڈ رشید جہاں بن گئیں‘‘۔

Related posts

Leave a Comment