بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت

(دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر کی دہائی میں جہاں تک پہنچ سکے اس سے آگے بڑھنے کی انھوں نے کوشش ہی نہیں کی۔وہ آج بھی اُسی دائرۂ فکر میں مقیّد ہیں جس سے انھیں شہرت نصیب ہوئی۔ شاید اُن کے لاشعور کے کسی گوشے میں یہ خوف موجود ہے کہ اگر انھوں نے کسی نئے راگ کا تجربہ کیا تووہ اپنی بنی بنائی ساکھ سے محروم ہو جائیں گے۔ لیکن غلام حسین ساجد کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ انھوں نے ستر کی دہائی میں غزل میں تبدیلی لانے بلکہ یوں کہیے کہ کامیاب اور موثر تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اِس روش کو، جسے ایک مخصوص قسم کی تبدیلی یا انقلاب کا نام دیا گیا، اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا، تمام عمر کا حاصل نہیں بننے دیا بلکہ بدلتے وقت کے ساتھ ہر آن نئے روپ دھارتی غزل کے ہراول دستے میں شامل ہو گئے۔ یہ اور بات کہ اردو غزل کی کلاسیکیت سے قلبی لگاؤ اور تاریخِ غزل پر اُن کی بصارت کی نگاہ نے انھیں کسی بھی محاذ پربے راہ روی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ یوں کلاسیکیت اور جدت کے امتزاج کے وصف کو اپنا وتیرہ بنا کر انھوں نے اپنے ہر نئے مجموعۂ کلام میں ثابت کر دکھایا کہ لو، میاں! یوں بھی ہوسکتا ہے۔ مختصراً یہ کہ انھوں نے اپنے پہلے سے کہے کلام کو حرفِ آخر سمجھ کر آئندہ کی طرف سے کہیں بھی آنکھیں بند نہیں کیں۔
غلام حسین ساجد کی کتابوں کے عنوانات اپنے اندر ایک خاص معنویت لے کر آتے ہیں۔’موسم‘ ’عناصر‘، ’ کتابِ صبح‘، ’آئندہ‘، ’معاملہ‘، ’روداد‘،  ’چہار دریا‘ اور اب ’اعادہ‘، ہم اس نام کو کس بات پرتعبیر کریں؟ کیا وہ اپنی کسی کیفیت یا نظریے کی طرف پلٹ رہے ہیں؟ اپنے کیے ہوئے کام کو دُہرانے جا رہے ہیں؟ لیکن یہ تو ان کے رویّے اور عادات سے باہر ہے۔ ویسے ایک ملاقات میں ساجد صاحب نے اشارہ دیا تھا کہ یہ اُن کا تازہ کلام نہیں، اب اس کتاب میں شامل غزلیں کب کہی گئیں، اس پر بحث کو محققین پر چھوڑیے کہ یہ ہمارا منصب نہیں۔ لفظ ’’اعادہ‘‘ کی معنوی تشریح سے کہیں بہتر ہو گا کہ کتاب کا ایک جائزہ لیا جائے اور اس نام کا جواز تلاش کیا جائے۔
’’اعادہ‘‘ کا پہلا شعر دیکھیے:

عجیب خوف سا طاری ہے گھر بدلتے ہوئے
مَیں سر اُٹھا نہ سکوں گا   گلی میں چلتے ہوئے

اعادہ کا لفظ کچھ اور کہہ رہا تھا لیکن اس شعر میں تو کوئی اور کیفیت سامنے آ رہی ہے۔غلام حسین ساجد کہ جن کا شعری سفر اِس بات کا غماض ہے کہ ان کے اندر کا تخلیقی وفور زور کرتا ہے تو وہ شعر کہتے ہیں۔ اپنے اِس تخلیقی دورانیے میں وہ اپنے آس پاس سے کٹ جاتے ہیں۔ ان کے معاصرین نے اپنے گرد جو حصار کھینچ رکھے ہیں، وہ ان کو اختیار کرنے کی کوشش تو ایک طرف، اُن کی سمت دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ کہیں کہیں تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ انھوں نے اپنی تنہائی میں ( اب اسے تنہائی کہیے کہ تخلیقِ شعر کا خاص دورانیہ) اپنا ایک جہان آباد کر رکھا ہے، یہ الگ بات کہ اس جہان میں انھوں نے بہت کچھ کیا، اور بہت کچھ سمیٹ رکھا ہے۔ میں اپنی اور آپ کی سہولت کے لیے اسے ’’غلام حسین ساجد کی شعری کائنات‘‘ کا نام دینا زیادہ پسند کروں گا، اِس کی ایک بنیادی وجہ میرے نزدیک یہ بھی ٹھیرتی ہے کہ ساجد صاحب تو اس جہانِ شعر میں اپنی فکر کے پھول کھلا کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس کے بعد جب میری اور آپ (یعنی قارئین) کی باری آتی ہے اور ہم اس کائناتِ شعر میں داخلے کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایک طلسم ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔یہ طلسم اُسلوب سے شروع ہو کر کیفیات کے راستے داستانِ معانی تک ہمیں ایک بھول بھلیاں میں ڈال دیتا ہے اور واپسی کا راستہ کہیں بہت پیچھے، بہت مبہم ہو جاتا ہے۔ غلام حسین ساجد کو اِس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ جس مشاہدہ اور تجربہ سے وہ گزر رہے ہیں، دوسرے تخلیق کار اِس پر کس طور نگاہ ڈالتے ہیں یا ڈال چکے ہیں:

خود اپنے آپ سے سودا ہے ہم کلامی کا
کسی سے کوئی غرض ہے ، نہ مدعا ہے کچھ

پکارتے ہیں سفیرانِ عالمِ ایجاد
مگر ہم اپنے قفس سے کہاں نکلتے ہیں

مست ہوں اپنی کھال میں کب کا
کٹتے جاتے ہیں دن، مہینے، سال

میں نے اوپر جس شعر سے بات شروع کی تھی اُس میں بدلتے وقت کے ساتھ چلنے کی خواہش چٹکیاں لیتی نظر آتی ہے لیکن ایک خوف بھی لاشعور میں پنہاں ہے کہ شاید وہ بدلتے وقت میں اس طرح سر اٹھا کر نہ چل پائیں، جیسے کہ اپنے وقتوں میں کیا کرتے تھے۔ اِک ذرا توقف کہ میں شعر کے ظاہری مفہوم ہی میں الجھ کر رہ گیا، شعر بہ باطن کسی اور چیز کی طرف بھی تو اشارہ کر رہا ہے۔ یہ تو ایک اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پرانے عہد کا انسان یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنے کلچر، اپنی روایات سے جڑا انسان بے جہتی اور بے چہرگی کے ہجوم میں شامل ہونے سے خوف زدہ ہے کہ وہاں اس کی پہچان مر جاتی ہے۔اور ایک کلچر سے جڑے انسان کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے۔ نفسیاتی حوالہ سے بات کی جائے تو اسے اقداری یا تہذیبی جبلت کا شاخسانہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ اقداری یا تہذیبی جبلت ہمارے پیش پا عہد کے صاحبانِ بصیرت نے جس شدت سے محسوس کی یا اب تک کر رہے ہیں ان میں انتظار حسین اور ناصر کاظمی جیسے اہلِ دانش اور شاعر نمایاں ترین ہیں۔ ناصر کاظمی کو ہنگامہ پرور شہر بھی پورے کا پورا اُداس نظر آتا ہے تو اس کے پس منظر میں ایک جاگتی بستی ۔۔۔ پوری ایک تہذیب کے ملیامیٹ ہونے کا نوحہ سنائی دیتا ہے۔ انتظار حسین کے افسانہ میں اسی تہذیب و اقدار کے کھوجانے کی دہائی واضح سنائی دیتی ہے۔ نئے عہد کے شہروں اور ان میں موہوم ہجوم کے بجائے وہ درختوں، پتوں کے دھڑکتے وجود اور بے جان اشیا کے مظاہر میں اپنا کھویا ہوا ماضی تلاش کرنے پر آمادہ رہے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جو تہذیبوں کی شکستگی سے نمودار ہوتی ہے اور حساسیت کے در و بست سے غلام حسین ساجد کے شعری اظہار میں کھلتی چلی جاتی ہے۔ان کی اسی غزل کا ایک اور شعر میری اس بات کی تائید کرتا نظر آتا ہے:

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت
بہت اُداس ہوں میں سیر کو نکلتے ہوئے

آپ نے دیکھا، تبدیلی شاعر کو ناگوار محسوس ہو رہی ہے۔ کیوں کہ اس میں شاعر کے نقطۂ نظر سے منفیت کا عنصر سامنے آتا ہے۔ یہ تبدیلی شاعر سے بہت کچھ چھین لے گئی ہے۔ ماضی سے جڑا یادوں کا خزانہ محو ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ لیکن یہ اُداسی ہماری بنیادی تہذیبی اقدار کی گم شدگی کا نوحہ نہیں تو کیا ہے، جب کہ یہ اُداسی  روزمرہ زندگی میں نئے طور طریقوں سے بے زاری کے ساتھ ساتھ ادب میں دَر آنے والی تبدیلیوں پر بے اطمینانی کا اظہاریہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے:

باغ خوشبو سے، نگر بادِ صبا سے محروم
ہو چکی آج زمیں فصلِ دعا سے محروم

غالب آنے لگی ہے تک بندی
پڑنے والا ہے شاعروں کا کال

زیرِ بحث غزل کا ایک اور شعر دیکھیے کہ معاملات کھل کر سامنے آتے جا رہے ہیں:

جنم دیا تھا جنھیں رات کی سیاہی نے
مجھے وہ پھول ملے طاقچوں میں جلتے ہوئے

فرائیڈین تنقید کے پیمانہ سے ماپا جائے تو ’رات کی سیاہی‘، ’پھول‘ اور ’طاقچے‘ بات کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں لیکن کیا ہے کہ فرائیڈ کو خضرِ راہ جان کر علامتوں اور استعارات کی تفسیر آج کل لوگوں کو کچھ زیادہ ہی کَھلنے لگی ہے، حال آں کہ ہمارے ایک ذی فہم دوست کا خیال ہے کہ ہم سب لوگ اندر کھاتے وہی پسند کرتے اور چاہتے ہیں، جس کی بظاہر تردید میں لگے رہتے ہیں۔ کاش ۔۔۔ خیر فی الحال ہم فرائیڈین نکتہ نگاہ سے تھوڑا گریز کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس شعر کی تفسیر کی کوشش کرتے ہیں۔ رات کی سیاہی کے پھولوں کو جنم دینے کا معاملہ اُردو شاعری میں کم از کم مجھے تو پہلی بار مذکورہ بالا شعر میں نظر آیا۔ کہتے ہیں کہ کسی چیز کی نفی کرنے کا حق اُسی شخص کو ہوتا ہے جو اس کی حقیقت ِ اصلی سے واقف ہو۔ لیکن کیا ہم اِس شعر سے یہ نتیجہ اخذ کر لیں کہ غلام حسین ساجد اپنے سے پیش ترکے دور کو رات کی سیاہی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ایک شخص جو اپنی روایات و اقدار سے مضبوطی سے چمٹا ہوا ہو ہم اُس سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کے اَدوار کو رات کی سیاہی سے تعبیرکرے گا۔ لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ ترقی کے اعتبار سے ہر دور پچھلے دور سے بہتر ہوتا ہے، ماضی کی ایجادات حال میں غیر اہم ہوچکی ہیں، حال آں کہ وہ ایجادات اُس دورکے حساب سے اہم تھیں، جو چیزیں آج کچرا بن چکی ہیں، کوئی وقتوں میں پھولوں سے کم نہ تھیں۔بات شعر و ادب کے حوالہ سے بھی تو ہو سکتی ہے۔ یوں ہے کہ وہ دَور جو عام لوگوں کے نزدیک اب ’ تاریک‘ کہلائے جانے کا مستحق ہے، اس میں تخلیق کاروں نے کشتِ شعر و ادب میں ایسے ایسے پھول کھلائے، جن کی نظیر لانا کارِ ناممکن ہے۔دراصل ادبی ذوق اور بدلتے وقت میں ناقدری اور ناشناسی کے رویہ کے باعث اب وہ پھول لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں ٹھیرتے ۔۔۔ ماضی بہت سے حوالوں سے تاریک تھا لیکن شعر و ادب کے میدان میں ہمارے لوگوں نے جو کہا، اُسے پھول کہا جانا ایک خوب صورت امر ہے۔جدت اور انفرادیت کے نام پر ۔۔۔ لیکن اسی شعر کو ایک دوسرے رخ سے دیکھیں توروایت سے بغاوت کے اظہار کے لیے اسے ایک دل کش پیرایہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ ساتھ ہی ساتھ ادب کی ناقدری کا گلہ بھی۔ لیکن میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ ساجد صاحب روایت کی انگلی کہیں نہیں چھوڑتے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس شعر کی کیا تعبیر کی جائے۔بات دراصل یوں ہے کہ سارا معاملہ شاعر کے شعور اور لاشعور کا ہے۔ شعور اور لاشعور دونوں کے درمیان ایک کش مکش جاری ہے اور یہ کش مکش اس شعر ہی میں نہیں، اس کا اشاریہ ساجد صاحب کی شاعری میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ یہی کش مکش شاعر کے اندر ایک اضطراب، ایک بے چینی کی ترویج کا باعث بھی بنتی ہے۔ شعر دیکھیے:

پاؤں پڑتے ہیں کہیں اور کہیں رکھتا ہوں
یعنی میں اَب بھی روایت پہ یقیں رکھتا ہوں

حامیِ میرؔ    بھی، غالبؔ کا طرف دار بھی مَیں
اور اِن کہنہ روایات سے بے زار بھی مَیں

جڑ ہے مضبوط اِس عداوت کی
میرؔ و مرزاؔ ہیں وہ تو مَیں سنپال

ممکن نہ ہوا ترکِ روایت کسی صورت
ہر چند میسر تھا ایاغ اور طرح کا

لیکن غلام حسین ساجد شاید یہ بھول رہے ہیں کہ انھوں نے اس ’’اور طرح کے ایاغ‘‘ سے بھرپور بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’بالکل اور طرح کا‘‘ فایدہ اٹھایا ہے اور وہ خود اِس بات سے بخوبی آگاہ بھی ہیں:

جو خلق کرتی ہے کچھ اور ہی طرح کے خواب
وہ بے دماغیٔ کارِ نشاط ہے مجھ میں

رات اور طرح کی ہے چراغ اور طرح کا
یعنی ہے مری نیند کا باغ اور طرح کا

بات روایت کی چلی تو ضروری محسوس ہو رہا ہے کہ تھوڑی وضاحت روایت، جدت اور انفرادیت وغیرہ کے حوالہ سے بھی ہو جائے کہ ہمارے ہاں ان چیزوں کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کی کوششیں زیادہ ہوئی ہیں۔عارف عبدالمتین لکھتے ہیں:

’’فکر و عمل کے وہ سانچے جو آبا و اجداد اپنے جاں نشینوں کو منتقل کرتے ہیں، روایت (Tradition) کہلاتے ہیں۔ادب کے نقطۂ نظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ ادبا کے خیالات و نظریات، ان کے تراشے ہوئے اسالیب اور ان کی وضع کردہ ہیئتوں کی پیروی کو روایت کہا جاتا ہے۔‘‘

اِسی مضمون میں آگے چل کر ’’انفرادیت‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

’’انفرادیت (Individuality) کے مفہوم کو متعین کرنے سے پہلے ہمیں شخصیت (Personality) کے مفہوم کا تعین کر لینا چاہیے۔ جدید نفسیات کے حوالے سے کسی شخص کی تمام جسمانی اور ذہنی خصوصیات کے اجتماع سے رونما ہونے والی وحدت کو اُس کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔میری ذاتی رائے میں اس وحدت کی بدولت کسی شخصیت کے اندر دوسری تمام شخصیتوں کے مقابلہ میں جو اختلاف رونما ہوتا ہے، اسے ہم انفرادیت کا نام دے سکتے ہیں۔لہذا اَدب میں جب ہم کسی ادیب کی انفرادیت کا ذکر کریں گے تو لامحالہ ہمارے ذہن میں اس ادیب کی شخصیت کے وہی پہلو ہوں گے جو اُسے دوسرے تمام ادیبوں سے ممتاز کرتے ہیں۔‘‘
میں عموماً اپنے مقالہ جات میں جا بجا اقتباسات کا قائل نہیں لیکن یہاں معاملہ یہ آن پڑا ہے کہ اگر درپیش معاملات کی وضاحت اپنے الفاظ میں شروع کر دی تو بات کے کچھ زیادہ ہی طول پکڑ جانے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سو اپنے مقامی قسم کے بزرگوں کی Compact قسم کی آرا سے استفادہ ضروری محسوس ہوتا ہے اور یوں ’’روایت اور انفرادیت کی ہم آہنگی‘‘ کے حوالہ سے ظہیر کاشمیری کے ایک مضمون سے اقتباس بھی ضروری ٹھیرتا ہے:

’’روایت اور انفرادیت میں ہم آہنگی اسی صورت میں پیدا ہو گی جب فنکار، پرانے فن کے سماجی تقاضوں کو سمجھ کر نئے سماجی تقاضوں کے مطابق فن تخلیق کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ جب ہم کسی شاعر کو روایت پرست کہتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے شعر و ادب میں منفرد اسلوب بالکل ہی نہیں بل کہ اس سے ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے شعر و ادب میں موجودہ سماجی تقاضوں کے بجائے کسی گزرے ہوئے دور کے سماجی تقاضوں کا زیادہ احترام کیا گیا ہے۔‘‘

تواس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ غلام حسین ساجد کے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال نظر پڑتی ہے۔ انھیں جو روایتیں وراثتاً ملیں، ان کا بھرپور احترام اُن کی شاعری اور شخصیت دونوں میں بدجہ اتم موجود ہے، لیکن انھوں نے اِن وراثتوں پر اکتفا نہیں کیا، انھوں نے ان وراثتوں کو سینے سے چمٹا کر اپنے اڑوس پڑوس سے آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ موجودہ عہد کے سماجی تقاضوں، موجودہ انسان کی نفسیات اور اس کے روزافزوں مسائل کو اپنے فکر و عمل کا محور بنا کر اسلوبِ شعر و موضوع کے حوالہ سے اپنی پہچان بنائی بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اُردو شعر و ادب کو ایک نئے اور قطعی منفرد لب و لہجہ سے آشنا کیا۔ اور حقیقی معنوں میں ایک جدید اور منفرد شاعر کہلانے کے حق دار ٹھیرے۔ میرے نزدیک تو جدیدیت اور انفرادیت کی درست تعریف یہی بنتی ہے، باقی جس کے جی میں جو آتا ہے، کہے جاتا ہے :

سب کچھ ہی نیا ہے نئے سیارے پہ ساجدؔ
کام اور طرح کا ہے فراغ اور طرح کا

میں بلا شک و ریب اس امر کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ غلام حسین ساجد کا اُسلوب اپنے عہد کے دیگر شعرا سے قطعی مختلف ہے۔ ایک مخصوص پرُ کیف انداز کے ساتھ جذباتِ محبت کے معمولی اظہار میں بھی کوئی ایسی پیچیدگی پیدا کر دیتے ہیں جو دل کش ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ انسان کی نفسیات کے حوالہ سے واقعیت کا عنصر اپنے اندر لیے ہوتی ہے۔تمام انسان کچھ بنیادی جبلتیں ساتھ لے کر اس دنیا میں آتے ہیں، لیکن گزرتے وقت اور درپیش ماحول میں ان جبلتوں کا پروان چڑھنا انسان کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہر شخصیت اپنے ماحول سے اپنے حساب سے اثر لیتی ہے۔ اور نتیجتاً ہُو بہ ہُو ایک جیسے حالات و واقعات پر مختلف شخصیات کا ردِ عمل مختلف ہوتا ہے۔
کہیں کہیں وہ جان بوجھ کر خیالات کی کڑیاں ملانے سے گریز کرتے ہیں، اور مقصد یہ ٹھیرتا ہے کہ قاری کا جذبۂ تجسس و تحقیق پروان چڑھے۔ ان کی غزل میں حسین بے ساختگی، لذت اور کیف کی فراوانی ہے جو فکر کا بدل بن جاتی ہے۔ ایسی شاعری لاشعور کے تابع رہ کر تو ہرگز ممکن نہیں،ا ور سلیم احمد کے اُس مشہورِ زمانہ بیان سے تو آپ یقیناً واقف ہوں گے :
’’ میں شاعری کو شعور کی اولاد سمجھتا ہوں،رہ گئی لاشعوری کیفیت تو گزارش یہ ہے کہ زندگی اور ادب دونوں میں ہمارا سلسلۂ نسب ماں سے نہیں، باپ سے چلتا ہے‘‘:

جی میں آتا ہے کسی روز اُسے کہہ دیکھوں
ایسی باتیں جو مرے بعد نہیں ہو سکتیں

میرے کس کام آئیں گے ساجدؔ
مل گئے وہ اگر بفرضِ محال

خبر اڑتی چلی آتی ہے دشتِ نجد میں بھی
کہ تم کیا کیا ہمارے بعد ہوتے جا رہے ہو

ہم بھی چراغِ قریۂ محمود ہیں، مگر
بجھتے ہیں اُس کے ساتھ نہ جلتے ہیں اُس کے ساتھ

اک پری وش کے تعاقب میں رہوں اور خوش رہوں
بچ رہا ہے کیا یہی دیوانہ پن میرے لیے

محبوب کے بارے میں اِس رویہ کی توقع کم از کم میرؔ سے تو نہیں کہ جا سکتی تھی کہ میرؔ کے زمانہ میں محبت کے معانی جو کچھ بھی رہے ہوں، کم از کم آج کے عہد میں صورت ہزار ر درجہ مختلف ہے۔ 

غلام حسین ساجد آج کے شاعر ہیں۔ ان کے پیشِ نظر آج کا انسان ہے، میرؔ یا غالبؔ کے عہد کا انسان نہیں۔ میرؔ کے عہد میں محبت ایک قدری اور تہذیبی جذبہ تھا لیکن آج بقول محمد حسن عسکری ’حیاتیاتی آنکھ مچولی‘ کا دور دورہ ہے، بلکہ اب شاید بات اِس ’حیاتیاتی آنکھ مچولی‘ سے بھی کہیں آگے جا چکی ہے، اورمجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ غلام حسین ساجد جسمانی صداقتوں کے شاعر ہیں:

ایک خطے پر حکومت ہے ابھی اُس شوخ کی
اک نگر اب تک مرے زیرِ نگیں آیا نہیں

اور ظاہر ہوئے نشیب و فراز
اس نے کس کر لپیٹ لی جب شال

نیند میں انگڑائی لیتی شاخ سے مجھ پر کھلا
ہے بہت بے چین اس گل کا بدن میرے لیے

جذبۂ شوق سے سرشار محبت کے احساسات میں عموماً جنسی احساسات، محبوبہ سے وصال کی شدید خواہش ، جذبہ کی تکمیل اور سرمستی کی کیفیات کا دخل زیادہ ہوتا ہے۔ جنسی خواہشات و جذبات عاشق کے دل و دماغ میں ہیجان برپا کر دیتے ہیں۔ قرب و اتصال کی خواہشات حاوی ہو جاتی ہیں،اور وہ وعدہ و پیمان، یگانگت، اعتماد اور لگاؤ جیسی باتیں جو کبھی معاملاتِ عاشق و معشوق میں زیادہ اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھیں، کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، اور اصل محرک جنسی خواہشات ہی ٹھیرتی ہیں ۔۔۔ لیکن اک ذرا توقف کہ اوپر دیے گئے اشعار میں جنسی خواہشات تو سامنے آ رہی ہیں لیکن کرب کی ایک زیریں لہر بھی ساتھ ساتھ ہے۔ اِک نگر اَب تک مرے زیرِ نگیں آیا نہیں: اس طلب یا حسرت میں کرب کا ایک پہلو بھی موجود ہے۔ یہ اور بات کہ بعض رنج اپنے اندر ایک عجیب سا کیف یا نشاط بھی لیے ہوتے ہیں۔ بس یوں جانیے کہ ترسنے کی سی ایک کیفیت ہے۔ اُس نے کس کر لپیٹ لی ہے شال ۔۔۔ جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے ، تو مصحفی کے دل پر کیا گزری، کیا کیا خواہشات بیدار ہوئیں، یہ حسرت کے عاشق و معشوق کے ذکر کا محل تو ہرگز نہیں بنتا، لیکن غلام حسین ساجد نے محض ایک منظر دے کر بہت کچھ کہہ چھوڑا ہے۔ شال کے ساتھ جسم کے نشیب و فراز یقیناً شاعر کے دل میں نفسانی محرکات کا باعث بن رہے ہیں۔مصحفی کو بتانا پڑا لیکن غلام حسین ساجد نے رمزیت کی تہہ میں مدعاے اظہار پیش کر دیا۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ عام طور پر قرب و اتصال کی ابتدا مرد کی طرف سے ہوتی ہے لیکن آخری شعر میں شاعر کے لیے اس ساری تحریک اور ہیجان کا اصل محرک محبوبہ کی انگڑائی ہے۔ یہاں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ ’نیند میں انگڑائی لیتی شاخ‘ کا استعارہ نہ صرف یہ کہ اِس شعر کی بنیادی خوبی ہے بلکہ جہانِ استعارہ میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایک دل کش منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، ویسے شال والے شعر میں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال درپیش ہے۔ اِسی قبیل کے کچھ مزید اشعار دیکھیے:

برف سی گھلنے لگی تھی مری شریانوں میں
دہنِ زخم پہ جب اس نے زباں رکھی تھی

کسی دن اب اُسے آغوش میں بھر کر بھی دیکھوں گا
بڑھا ہے اس کی آنکھیں چومنے سے حوصلہ میرا

ثمر آئے ہیں اک سروِ سہی کی ڈالیوں پر
گرفتارِ بتِ شمشاد رہنے کی خوشی میں

جس کی مہک سے آگ لگی ہے دماغ میں
وہ پھول کھل رہا ہے کہیں پائیں باغ میں

اُس کے راحت کدے سے جڑے باغ میں جھانکنے کی مجھے جب اجازت ملی
بے خبر، اپنے نعلین اتارے ہوئے نیند میں چل رہا تھا وہ میری طرح

لو دینے لگی ہیں مری شریانوں میں یادیں
چھوڑا ہے کسی گل نے سراغ اور طرح کا

لہو میں سرسراتی ہے ابھی تک کوئی وحشت
رگوں میں خوابِ طغیانی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے

پھر ایک بار کسی رَس بھرے بدن کا خواب
گزر گیا ہے مری نیند کو کچلتے ہوئے

مَیں اپنے عشق میں کل تک بہت مخلص تھا ساجد
مگر اب میرے دل میں بھی برائی آ گئی ہے

فرائیڈ تو ان خواہشات و جذبات کو لاشعور سے تعبیر کرتا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ خواہشات و جذبات لاشعور سے زیادہ شعور کی دین ہیں۔ رہے لاشعوری معاملات در معاملاتِ محبت تو اس کی جھلکیاں بھی ہمارے شاعر کے ہاں وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ایک چاہنے والے کی خواہش، محبوب کی تحسین، محبت میں مایوسی کے عنصر کا در آنا، خوفِ استرداد، شدید کیفیاتِ الم، وصال کی ناآسودہ خواہشیں اور انتظار اور سب سے بڑھ کر سماجی جکڑ بندیاں ۔۔۔ یہ اور اسی نوع کی بے شمار کیفیات انسان کے روزمرہ کے معمولات میں خلل ڈالنے کا باعث بنتی ہیں، لیکن ایسی کیفیات کے بیان میں بھی غلام حسین ساجد نے اپنی انفرادیت کو کہیں بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا:

ساجد بلا رہا ہے کوئی خوب رُو مجھے
میٹھی سی اک چبھن ہے مرے دل کے داغ میں

دل میں رہ رہ کے جاگ اٹھتی ہے
ایک تیکھی کسک بنامِ وصال

آسان نہیں دامِ محبت سے نکلنا
دیوار نکل آتی، جہاں سے بھی نکلتے

ابھی میں خواب کی جاگیر سے باہر نہیں نکلا
نہیں ہے اس کی آنکھوں سے ابھی کچھ واسطہ میرا
میں اس کے دھیان میں جب صحنِ گلشن سے نکل آیا
تعاقب کر رہی تھی کس لیے بادِ صبا میرا

ہرچند مجھے گھر کا بھی دھیان آتا ہے، لیکن
اک دھن میں نکل جاتا ہوں ہر بار کہیں اور

پہنچ جاتا ہوں گہری نیند میں چل کر جہاں ساجدؔ
میں اکثر سوچتا ہوں اس گلی میں کون تھا میرا

عشقِ نفسانی بھی ایک ابتلا ہے۔ اسی موضوع کے حوالہ سے مصحفیؔ کا شعر دیکھیے:

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا

لیکن میر کا شعر بہرطورمصحفیؔ کے شعر پر سبقت لے گیا ہے:

چلا نہ پھر تو وہیں اُٹھ کے چپکے چپکے میرؔ
ابھی تو اُس کی گلی سے پکار لایا ہوں

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے میں نے غلام حسین ساجد کے شعر پر بات کرتے کرتے اچانک موازنہء مصحفیؔ و میرؔ کیوں شروع کر دیا تو بات کچھ یوں ہے کہ غلام حسین ساجد نے مذکورہ بالا شعر میں اساتذہ سے استفادہ کرتے ہوئے معنویت و شعریت کو ترقی دی ہے۔ ’ گہری نیند‘ اور ’کون تھا میرا‘ نے شعر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ معنویت و شعریت میں ترقی کے حوالہ سے غلام حسین ساجد کے ہاں متعدد اشعار نظر آتے ہیں، جن پر آگے چل کر بات ہو گی۔
غلام حسین ساجد حُسن کے موضوع کے بیان کے لیے روایتی اندازِ بیان اختیار کرنے کی بجائے اپنا ایک نظام ترتیب دیتے ہیں، کہیں کہیں وہ حسنِ تضاد (Paradox) سے بھی کام لیتے ہیں۔ تضاد گوئی کا استعمال اگر مہارت سے ہو تو حقیقتوں کی وضاحت میں انتہائی کارگر ثابت ہوتا ہے:

سروقد پھرتی ہیں دن رات گلی کوچوں میں
پر وہ تجھ سی بتِ شمشاد نہیں ہو سکتیں

اُتر چکی ہے مرے ذہن سے بھی اب یہ بات
کھڑا ہوا ہوں مَیں اس گل کے رو بہ رو کب سے
برنگِ خواب کوئی پھر رہا ہے گلیوں میں
تمام شہر کو چھوتا ہوا گلِ شب سے

نا وقت آ گئی جو کبھی اس پری کی یاد
آنکھوں کو بند کر کے ذرا مسکرا لیا

نکل آئی کبھی گھر سے جو وہ نمکین صورت
فضا بوجھل رہے گی اور ہوا کھاری رہے گی

اِسی مٹی نے بخشی ہے صباحت اُس کی آنکھوں کو
یمن سے کوئی نسبت ہے نہ ملکِ شام سے اُس کو

جس رنگ نے بھی اپنی خبر دی کسی طرح
میں نے اُسی کو اپنی نظر میں سما لیا

کسی گل کے طلسمی خواب سے وابستہ رہ کر
بہت خوش ہوں زرِ نایاب سے وابستہ رہ کر

لیکن ایک جدید انسان ہونے کے ناتے حقیقت پسندی کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے:

ستارے صرف اپنی آرزو سے جھلملاتے ہیں
سمندر اُس پری کے روٹھ جانے سے نہیں اُترا

’آرزو‘، ’ستارے‘ اور’ سمندر‘ کے علامتی مفہوم کو سامنے رکھ کر اس شعر کو پڑھا جائے تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ستارے: خواہشوں کا اظہاریہ ۔۔۔ سمندر: شاعر کا باطن یا اگر مزید کھل کر بات کی جائے تو نفسانی خواہشات کا انبوہِ گراں۔ نفسانی خواہشات کے اُتار چڑھاؤ کو کسی ایک خاص محبوب کے حسن وغیرہ سے لاتعلق کر دینے سے انفرادیت جلوہ گر ہوئی ہے۔ خواہشات کے اِس اُتار چڑھاؤ کو شاعر کے باطن سے بھی مشروط قرار دیا جا سکتا ہے۔ اِسی نوع کے مزید اشعار ملاحظہ کیجیے:

اپنی خوشی سے جاگتی سوتی ہیں خواہشیں
آباد ہے یہ گھر کسی ترتیب کے بغیر

اُترتے ہیں ستارے رات بھر میرے لہو میں
کھلی رہتی ہے گویا خواب کی بارہ دری سی

پیچھے پڑی ہوئی تھیں کئی دن سے خواہشیں
آج ایک بدسرشت مرے ساتھ چل پڑی

حسنِ زوال پذیر کا لازوال احساسِ کیف انگیز کہ شاعر کے لیے ایک نایاب اثاثہ سے کم نہیں ، اظہار کے لیے ایک دل نشیں پیرایہ ہے:

شگفتِ خواب سے دُکھتی ہیں آج بھی آنکھیں
وہ آگ سرد ہوئی ہے مگر دُھواں نہ گیا

ہماری شاعری میں عموماً محبوب کی طرف سے عاشق کے لیے بے نیازی اور لاپروائی کا گلہ ملتا ہے، دیوان کے دیوان کھنگال کر دیکھ لیجیے، اسی کیفیت کا سامنا ہو گا کہ محبوب ،عاشق کو خاطر خواہ توجہ کا اہل نہیں جانتا۔ لیکن غلام حسین ساجد کے ہاں بات بالکل اُلٹ گئی ہے۔ اُن کے جہانِ شعر میں عاشق محبوب کے لیے لاپروائی اور بے نیازی کا رویہ اختیار کرتا نظر آتا ہے:

مجھے دعویٰ نہیں ہے استقامت کا محبت میں
بُھلا دوں گا کسی دن میں بہت آرام سے اُس کو

اُس دَر سے کیا اٹھا کہ مَیں خود سے بچھڑ گیا
صد شکر کچھ کمی تو ہوئی ہے فراغ میں

اوراس شعر میں:

مل رہے گا ایک دن شاید مجھے وہ کم سخن بھی
لوگ کہتے ہیں کہ چاہت میں اثر رکھا گیا ہے

شاعر نے جدید انسان کی نفسیاتِ محبت کی کامیاب ترجمانی کر چھوڑی ہے کہ قدریں تبدیل ہو چکی ہیں، محبوب پر مر مٹنے کا دور لََد چکا، محبوب کے مل جانے کی اُمید کا بنیادی سبب محض یہ ہے کہ دوسروں یا بڑوں وغیرہ سے سن رکھا ہے کہ چاہت میں اثر ہوتا ہے۔ آپ کسی کو یاد کریں تو اُسے بھی آپ کی یاد آئے گی، آپ کسی کو چاہیں تو اُس کے دل میں بھی آپ کے لیے چاہت پیدا ہو گی ۔۔۔ یہ باتیں شاید اب ہمارے عہد میں چلنے کی نہیں۔ مزے کی بات یہ کہ شعر موضوع کے حساب سے حزنیہ ہونا چاہیے تھا لیکن شاعر نے اِسے بے نیازی کا تڑکا لگا چھوڑا ہے۔ اور پھر ذرا اس شعر کی معنویت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے:

پھر جستجو اگر مجھے اُس دل ربا کی ہے
نکلوں کبھی صباحتِ گل کے سراغ میں

صباحتِ گل کے سراغ میں نکلنے کے لیے پہلے مصرعہ میں ’’اگر‘‘ لگا کر اچھا خاصا پُرتشکیک ماحول پیدا کر چھوڑا ہے، ایک لفظ شعر کے موضوع کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ اب لطف یہ کہ شاعر کو خود نہیں معلوم کہ صباحتِ گل کے سراغ کی خواہش ہے بھی کہ نہیں اور بالفرضِ محال اگر ہے بھی تو اس کی شدت کس قدر ہے۔ محبوب کو بھلا دینا تو گویا کوئی خاص بڑی بات ہی نہیں۔ محبوب کے دَر پر براجمان رہنا کوئی فراغ کی ایک صورت تھی یعنی دنیا جہان کے کاموں سے فرصت۔ دنیا جہان کے کام ایک طرف اور محبوب کے در پر پڑا رہنا ایک طرف ۔۔۔ ہمارے اساتذہ کے ہاں تو اس سے بڑی مصروفیت کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی لیکن غلام حسین ساجد محبوب کے در پر پڑا رہنے کو فراغ سے منسوب کرتے ہیں اور وہاں سے اٹھ آنے کو فراغ میں کمی کہ اب تصورِ محبوب یا انتظارِ محبوب سے چھٹکارہ کے بعد دنیا جہان کے کاموں کے لیے وقت وافر مقدار میں نکل آئے گا۔ یہاں مجنونانہ عشق پر کارِ زمانہ بلکہ کارِ روزمرہ کو ترجیح دی گئی ہے۔لیکن کارِ زمانہ کے علاوہ:

کچھ فرق پڑا ہے ترے اندازِ ستم میں
ہے روح کے آئینے پہ داغ اور طرح کا

اور یہی باتیں، یہی اندازِ نظر عہدِ موجود کے انسان کے مخصوص لمحوں میں خالی پن کا احساس بھی دلانے لگتا ہے، ایک خلش سر اٹھانے لگتی ہے، زندگی میں موجود کمیوں کا احساس ۔۔۔ اس رویہ کو ایک قسم کے احساسِ تشنگی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں شاعر کا دھیما اندازِ بیان بات کو ’ہائے ہائے‘ تک نہیں پہنچنے دیتا۔ بس یوں جانیے کہ ایک ہلکا ہلکا میٹھا میٹھا کرب ہے:

عارض و لب ہیں نہ وہ آنکھیں ہیں ساجد میرے پاس
آئنے میں رنگ بھرنے کے لیے کچھ بھی نہیں

وہ آنکھیں چوم دیکھی ہیں نہ وہ زلفیں سنواری ہیں
کسی اقلیمِ حیرت سے گزر کر کے نہیں دیکھا
عجب کچھ خواب سی اِک شے مرے دل تک تو آئی ہے
مگر اس نے مری آنکھوں میں گھر کر کے نہیں دیکھا

’’عجب کچھ خواب سی‘‘ کہہ کر شاعر نے شعر کو وسیع تر معانی کا حامل کر دیا ہے۔ اِسی وسعت کی بنا پر شعر موضوعِ زیرِ نظر سے ہٹ کر بھی لیا جاسکتا ہے۔یہی احساسِ تشنگی ایک شدید لیکن دھیمے سروں پر اُستوار ملال کی آمیزش کے ساتھ یادوں کی بازیافت سے ایک پُر درد لیکن پُرتاثیر خواب ناک دُھندلکے کا سماں پیدا کرتا ہے:

بہت آسودگی دیکھی ہے میں نے بھی مگر، ساجد
کوئی غم ہے جو مدت سے کہیں داخل میں رہتا ہے

سسک رہا تھا کوئی خواب کے جھروکے میں
صدا سنی تھی شبِ ممکنات کی میں نے

مٹھی میں آ گیا ہے جہاں آ کے دل مرا
ممکن ہے شامِ ہجر کا کوئی کنارہ ہو

راستہ پہچانتے ہیں نیند میں اٹھتے قدم
سو وہ پہنچا ہے مگر اپنے تئیں آیا نہیں

قمریاں صحنِ گلستاں سے چلی آتی تھیں
رنگ کس پیکرِ گل کا مری آواز میں تھا

کوئی انجان مہک سی تھی مرے چاروں طرف
کیسی نعمت مری آنکھوں سے نہاں رکھی تھی

شکست کر کے ارادت کسی پری وش کی
قدم بڑھایا نہ کچھ واردات کی مَیں نے

اِس شعر کو اپنے موضوع اور کرافٹ کے اعتبار سے غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر محبوب پر ایک غیر معمولی تجربہ کا اطلاق کر کے اس کی نفسیات کا مطالعہ کرنا چاہ رہا ہے۔
معاملاتِ محبت کے حوالہ سے کچھ مزید اشعار دیکھیے کہ شاعر کا رویہ اپنے پیش رووں اور معاصرین سے کس قدر مختلف ہے:

آگ بہنے لگی رگ و پے میں
رنگ لانے لگی کسی کی یاد

کسی سے اُس کی اگر کوئی بات کی میں نے
تو گفتگو میں بہت احتیاط کی میں نے

محبت کچھ دنوں اعصاب پر طاری رہے گی
پھر اُس کے بعد سر ہو گا نہ بیماری رہے گی
مہکتی ہی رہیں گی غیب کی خوشبو سے گلیاں
عطا اُس گل بدن کی جاری و ساری رہے گی

ہٹا دیتا ہوں اپنی میز سے تصویر اُس کی
میں اپنے آپ کو جب گھر میں تنہا دیکھتا ہوں

ابھی رہنا ہے ان بے مہر آنکھوں کو ہدف میرا
کہ جتنا شوق تھا، اب تک ٹھکانے سے نہیں اُترا
مجھے کیا علم، نفرت بھی ہے اک صورت محبت کی
کہ میرے دل میں کوئی اس بہانے سے نہیں اترا

مڈ بھیڑ ہو گئی جو کبھی اُس پری کے ساتھ
میں کیا سکھاؤں گا اُسے تہذیب کے بغیر
کچھ بھی نیا نہیں یہاں معمول کے سوا
کیا آ سکے گا وہ کسی تقریب کے بغیر

علاج اپنی اُداسی کا کیا کرتا ہوں ساجد
کسی خوش رنگ جوئے آب سے وابستہ رہ کر

کاٹنی ہو گی مجھے آنکھوں میں کیا یہ سرد رات
نیند سی محسوس ہوتی ہے مگر آتی نہیں

فقط ترستا ہوں اک شخص کی محبت کو
اداس رکھتی نہیں اور کوئی بات مجھے
نہیں ہے دل سے کوئی خاص اختلاف مرا
جگائے رکھتا ہے لیکن تمام رات مجھے

شاعرنے اپنی قلبی بے سکونی کے اظہار کے لیے کیا دل کش پیرایہ اختیار کیا ہے۔یوں ہے کہ دل کو اپنا غیر قرار دے کرگلہ کیا جا رہا ہے کہ یوں تو مجھے ان صاحب سے کوئی خاص اختلاف نہیں، بس اتنا ہے کہ کچھ ایسا ہے جس کے سبب یہ میری نیند کے دشمن ہوئے پڑے ہیں۔ مجھے بے اطمینان رکھتے ہیں۔مزید لطف یہ کہ شعر ہذا میں یہ وضاحت جان بوجھ کر پسِ پشت ڈال دی گئی ہے کہ دل شاعر کو کس کارن بے اطمینان رکھتا ہے۔لیکن جدید غزل میں اکثر مسلسل غزل کہ مربوط خیالی پر مشتمل ہوتی ہے، کی سی کیفیت شعر کی اسی انفرادیت کی دشمن ہے، اس غزل کا ایک شعر جو اس سے پہلے درج کر دیا ہے، تمام معاملہ کھول کر بیان کر رہا ہے۔
میں نے اب تک غلام حسین ساجد کے ہاں محض اُن اشعارپر بات کی جن میں محب، محبوب اور ان سے متعلقات کے حوالہ سے گفتگو تھی، اِس سے کہیں یہ گمان نہ کر لیا جائے کہ ان کے ہاں محبت کے علاوہ اور کوئی موضوع وجود ہی نہیں رکھتا۔ یوں بھی ہم ایک جیتے جاگتے باشعور انسان، معاشرے میں اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھانے والے انسان سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ انسان اور انسان کے مسائل پر غور و فکر نہیں کرے گا:

شکستِ آرزو پر تلملانے سے نہیں اُترا
مرا چہرہ کسی کے مسکرانے سے نہیں اُترا

’انسان‘ کہ اس کائنات کی سب سے بڑی اور واضح حقیقت رہا ہے، انسان ہی اس کائنات کا اصل مدعا و مقصود ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ انسان کی بلندی اور اس کی پستی دونوں اس کے اپنے اختیار میں ہیں۔ اسے انسانی زندگی کے حوالے سے قطبین کے امکانات سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ انسان کے سامنے ممکنات کی ایک وسیع دنیا ہے۔ انسانی ترقی کہیں اسے انسانیت کی معراج معلوم ہوتی ہے تو کہیں یہی ترقی اسے معراجِ انسانی سے گرانے کا باعث نظر آتی ہے ۔غلام حسین ساجد کے ہاں اس حوالہ سے کچھ اشعار دیکھیے:

یہ سپیدی، یہ سیاہی ہے مرے ہونے سے
صبحِ گل رنگ بھی مَیں اور شبِ تار بھی مَیں

مَیں اپنا اگلا قدم آسماں پہ رکھوں گا
پھلانگ لی ہیں حدیں مشکلات کی مَیں نے

کوئی باہر نکالے گا مجھے کس طرح ساجد
میں اس گھر میں کسی تدبیر سے لایا گیا ہوں

مگن ہو گا رداے خوابِ آیندہ کے بُننے میں
پرندہ جو ابھی تک آشیانے سے نہیں اُترا

کسی چراغ کے دل سے اتر نہیں پایا
خبر نہیں ہے مگر کوئی بات ہے مجھ میں
کہیں کہیں وہی رنگِ ثبات ہے مجھ میں
کھلا کہ ایک الگ کائنات ہے مجھ میں

اسے بھی قوتِ بازو سے پایا ہے
زمیں آئی نہیں تھی میرے حصے میں

پل بھر میں گزر جاتی ہے ہر شے مجھے چھو کر
کس درجہ گراں اب مری رفتار ہے مجھ پر

انسانی ترقی کے ایک منفی پہلو کو اجاگر کرتا یہ شعر بھی شعریت و معنویت کو ترقی دینے کے کامیاب عمل کی بہترین مثال ٹھیرتا ہے۔

 استحصالی اور مصنوعی معاشرتی رویے شاعر کو بے چین کر دیتے ہیں۔ یہ منفی رویے عہدِ موجود کے افراد میں شکست و ریخت کا باعث بنتے ہیں۔ غلام حسین ساجد محض اپنے مشاہدات و تجربات کو نظم نہیں کرتے بلکہ امکانی نتائج کا استنباط بھی کرتے ہیں۔ان کے ہاں انسان کا انسان سے تعلق کمزور پڑ چکا ہے۔ تفریق، عداوت، مصائب، تعصب، خود غرضی اور رنگ بدلتی روایات ۔۔۔ وحشت اور دہشت پیدا کرنے لگتی ہیں۔ رواداری، اخلاص اور عجز و نیاز تو بس یوں جانیے کہ خواب ہو کر رہ گئے ہیں۔ قول و فعل میں تضاد اس پر مستزاد ہے:

ہر شے پہ جم رہی ہے یہاں بے کسی کی دھول
کس طرح اس دیار میں اپنا گزارہ ہو

نکل جاتے ہیں صحرا کی طرف اس سرخوشی میں
کہ گھر ہو گا نہ کوئی چاردیواری رہے گی

یہ کس نواح میں بھولے سے آ گئے ہیں ہم
قدم قدم پہ کئی مہرباں نکلتے ہیں

ہمارے ساتھ رہے ناؤ کے مسافر بھی
ہمارے ہاتھ سے جب تک وہ بادباں نہ گیا

کچھ روز تو شریک رہے میرے غم میں لوگ
پھر اپنا اپنا، بعدِ دُعا، راستہ لیا

ناتواں غم سے نگر اور مکیں آزردہ
کون بے زار نہیں، کون نہیں آزردہ

بچھتا ہی چلا جاتا ہوں ہر شخص کے آگے
کیا ختم مری جرأتِ انکار ہے مجھ پر

کچھ بھی تو نہیں اپنی جگہ پر دمِ رخصت
شمشیر کہیں اور ہے رہوار کہیں اور

کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا ہنسوں یا رو دُوں
ہار کر جب مرے دشمن نے کماں رکھی تھی

میں اس زمین سے اٹھ کر کہاں کہاں نہ گیا
مرے لہو سے مگر رنجِ رفتگاں نہ گیا

کل جہاں کارِ مسرت سے غرض تھی ہم کو
آ کے بیٹھے ہیں مگر آج وہیں آزردہ

نیک و بد میں تمیز کیا ہو گی
کی نہیں ہے کسی نے جب پڑتال

محبت ٹوٹ کر جس سے کبھی کی تھی، اُسی سے جنگ کی ہے
بہر صورت زمیں ہم نے بہت اک دوسرے پر تنگ کی ہے
بہت سے راز ہیں جن کا بیاں کرنا بہت آساں رہے گا
مجھے پروا مگر کچھ چاہنے والوں کے نام و ننگ کی ہے

اور کہیں کہیں تو یہ تلخی اس حد تک چلی جاتی ہے:

میں گھر میں بیٹھ رہا، اپنے کان بند کیے
مرے نگر سے جب آوازہء سگاں نہ گیا

لیکن یہ لہجہ غلام حسین ساجد کی شاعری میں خال خال ہی نظر پڑتا ہے۔ اُن کے یہاں اُبھر کر سامنے آنے والی ایک اور جہت ہے۔بے سمت سفر کا احساس ۔۔۔ ایسے میں لاحاصلی اور رایگانی ہی رایگانی نظر آتی ہے۔ایمان و ایقان کی پرسکون فضا میں ہیجان برپا ہو جاتا ہے اور اوہام سر اٹھانے لگتے ہیں۔ کہیں کہیں سب کچھ بے بنیاد نظر آنے لگتا ہے، تمام عقیدے، تمام تعینات بے معنی ٹھیرنے لگتے ہیں:

خاک پر تھی کہ سرِ آبِ رواں رکھی تھی
مَیں نے اس خواب کی بنیاد کہاں رکھی تھی

کھو کے آیا ہوں وہاں کچھ اور نہ کچھ لایا ہوں مَیں
صرف اُس وحشی اندھیرے سے نکل آیا ہوں مَیں

اُتر جائے گی اک بے مہر قریے کے اندھیرے میں
یہ دنیا ہے متاعِ گفتگو کے خواب ہونے تک

مَیں کچھ نہیں ہوں ایسے قصیدے سے مختلف
بے کیف رہ گیا ہو جو تشبیب کے بغیر

طے کر سکا نہ سمتِ سفر کوئی بدرقہ
آخر ہمیں غنیم نے رستے میں آ لیا

یقیں دلاتی ہے دنیا کسی کے ہونے کا
اگرچہ گھر سے بہت بدگماں نکلتے ہیں

کسی کی ذات سے اٹھنے لگا یقیں میرا
کبھی جو میں نے کوئی کام کر لیا ڈھب سے

عرش والے ہیں سزاوار تری رحمت کے
اور ہیں کب سے ترے خاک نشیں آزردہ

ہنسی اپنے مقدر پر نہیں آتی ہے جب تک
کسی کنجِ قفس میں بیٹھ کر روتا رہوں گا

رم کیوں نہ کریں دشت سے، اے یار! کہیں اور
جب سایہ کہیں اور ہے دیوار کہیں اور

عجیب رنگ میں ہوتی ہے گفتگو سب سے
غرض نہیں ہے کسی کو بھی حرفِ مطلب سے

اور ہوئی میرے تجاوز سے مری ارضِ وطن
خواب و خوشبو سے تہی، آب و ہوا سے محروم

موجود کبھی ایک سی حالت میں نہیں ہوں
وحدت میں نہیں ہوں، کبھی کثرت میں نہیں ہوں

نیند اُکھڑی تو وہی میں تھا وہی دشتِ طلب
اور پہلو میں وہی تیغِ زیاں رکھی تھی

بہت اندھیرا اُترنے لگا ہے آنکھوں میں
بجھا دیا ہو کسی نے چراغ، کیا معلوم

مَیں جانتا ہوں کہ بے چہرہ ہو رہا ہوں مَیں
کسی نے کھیل رچایا ہے خوب کثرت کا

اور کبھی شاعر کو یہ احساس بھی ستانے لگتا ہے کہ کوئی اسے سمجھ نہیں پایا۔ اس کے باطن کی دنیاؤں تک کسی کی رسائی ہی نہیں ہو پائی:

عبور کر نہیں پایا جسے کوئی اب تک
بچھا ہوا وہی صحراے ذات ہے مجھ مَیں

لیکن ایک رجائیت پسند اور سنبھلی ہوئی شخصیت ہونے کے ناتے وہ حالات کی سنگینی سے نا اُمید بھی نہیں ہوتے اور ایک ترنگ اٹھتی ہے کہ:

کسی کویل نے دیپک راگ گایا ہے
دیے جلنے لگے ہیں پتے پتے میں

آج تو بہتی ہے اک ندی مرے اندر کہیں
پھیل جائے گی مگر یہ کل مرے چاروں طرف

بہے گا ایک دن میرے لہو کے ساتھ مل کر
میں اپنی راہ میں جو خشک دریا دیکھتا ہوں

اور اس اعتماد کی بنیادی وجہ شاعر کے نزدیک یہ ٹھیرتی ہے کہ:

عیاں کیا ہے زمانے پر اصل قصے کو
تلاش کر کے جڑیں واقعات کی مَیں نے

مجھے چراغ جلانے میں لطف آتا ہے
یہ چیز ٹھیک نہ ہو آپ کے تئیں شاید

میں نے اس مقالہ کے شروع کے حصہ میں کہا تھا کہ غلام حسین ساجد کے اشعار میں ایک خاص قسم کا طلسم ہے، ایک ایسا طلسم جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، لیکن اس طلسم کے لیے وہ ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرتے جو طلسمی ماحول کے پیدا کرنے میں سامنے کی چیز ہوں۔ ویرانے میں کھڑے شخص کے لیے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں ایک سحر یا خوف سے کم نہیں، یا ایک ایسی خوشبو جو محسوس ہو رہی ہو لیکن اس کے ماخذ کا قطعی کوئی علم نہ ہو۔ساجد صاحب ایسے ماحول کی تشکیل کے لیے روزمرہ زندگی سے سامنے کے الفاظ چن کر شعر کو اچھا خاصا طلسماتی بھول بھلیاں بنا دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں نیند، خواب، دھند وغیرہ سے انھوں نے بھرپور کام لیا ہے، استعارات کا بھرپور اور جامع استعمال اور مکمل تلازمۂ خیال ان کے اشعار میں ندرت کا باعث ٹھیرتے ہیں:

کوئی انجان مہک سی تھی مرے چاروں طرف
کیسی نعمت مری آنکھوں سے نہاں رکھی تھی

پہنچ جاتا ہوں گہری نیند میں چل کر جہاں ساجدؔ
میں اکثر سوچتا ہوں اس گلی میں کون تھا میرا

عجیب نیند سی چھائی ہے اس محلے پر
گلی میں اور نہ کسی گھر میں ہو رہا ہے کچھ

نظر ٹکتی نہیں ہے اس پری کے خال و خد پر
بھڑکتی ہے سنہری جھلملاہٹ سی کہیں سے

باندھ رکھا ہے کسی بے مہر نے ایسا طلسم
رات ڈھل جاتی ہے چپکے سے، سحر آتی نہیں

سحر ہوئی تو درختوں کو ڈھانپنے نکلی
گلی کے سبز اندھیرے سے کوئی چادر سی

طلسمی پھول رکھ جاتا ہے کوئی آئنے پر
ملے گا کیا مجھے اس خواب کی تعبیر کر کے

پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سی کہیں سے
ابھی تک آ رہی ہے کوئی آہٹ سی کہیں سے

دھواں سا گھل رہا ہے سایے کے اندر کہیں ساجدؔ
سحر کا رنگ اب تک شامیانے سے نہیں اُترا

محسوس کر رہا ہوں اُسے اپنے آس پاس
ہو گی کسی طلسم سے اُس کی نمود آج

ابھی ابھی کوئی خوشبو سی اُڑ رہی تھی یہاں
ابھی ابھی کوئی موجود تھا یہیں شاید

نیند سی آئی ہوئی ہے اُس پری کو
دھند سی چھائی ہوئی ہے گلستاں پر

ٹوٹنے والی ہے میرے پاؤں کی زنجیر اب
گھر رہا ہے آج پھر بادل مرے چاروں طرف

شعریت و معنویت کی ترقی کے حوالے سے یہ شعر بھی ایک عمدہ مثال کے طور پر درج کیا گیا ہے:

قریب آ گیا ہے وہ شہرِ الم
پرندے نمودار ہونے لگے

عجیب شعر ہے، شہرِ الم کے اردگرد پرندوں کا منڈلانا ۔۔۔ تباہی و بربادی کا منظر آئینہ کرنے کے لیے کیا خوب استعارہ چن کر لائے ہیں۔
غلام حسین ساجد کی شاعری کے بارے میں ایک عام اور سطحی بات یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ ان کے ہاں وہ بے چینی اور وہ بے قراری نہیں پائی جاتی جسے اکابرِ غزل پُرتاثیر غزل کے لیے ضروری خیال کرتے چلے آئے ہیں۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ بے قراری اور یہ بے چینی جسے غزل کا جزوِ لانیفک کہا جاتا ہے، اس کی عدم موجودی ساجد صاحب کی غزل کو پھیکا یا بے مزہ تو نہیں کر رہی۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس دیباچہ کے لکھنے میں اس قدر تاخیر ( اور اس تاخیر سے شاعر اور دیباچہ نگار ہی آگاہ ہیں) کی ایک بنیادی وجہ ساجد صاحب کی شاعری سے حاصل ہونے والا ایک عجیب و غریب کیف ہے، یہ کیف کچھ اس نوعیت کا ہے کہ فی الوقت میں اسے کوئی نام دینے سے قاصر ہوں، بس یوں جانیے کہ مسودہ کا مطالعہ کیا، لکھنے بیٹھا، لیکن دماغ کسی نہ کسی شعر میں الجھ کر رہ گیا، شعر کی فضا نے اپنا اسیر کر لیا، مسودہ کا دوبارہ مطالعہ کیا تو اپنے پہلے سے اخذ شدہ نتائج بے معنی نظر آنے لگے اور ایک نیا منظر، ایک نیا جہانِ معنی اپنا اسیر کرنے لگا ۔۔۔ اب کیا کیا جائے، اسی سوال نے الجھائے رکھا اور نتیجہ ایک عدد غیر ضروری تاخیر۔۔۔! لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ کہ غلام حسین ساجد کی شاعری سے جو شخصیت برآمد ہوتی ہے، اس کا بنیادی وصف سنجیدگی، حد درجہ ضبط اور متانت ہے، اس میں تلخی کم کم اور فکر زیادہ ہے۔ یہ صفت غلام حسین ساجد کی دوسری کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے، شاید اسی لیے اُنھوں نے اس کتاب کا نام "اعادہ” رکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیباچہ:  مجموعہء کلام "اعادہ”

Related posts

Leave a Comment