غالِب کا ایک مقبول و معروف شعر ہے:
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
اردو کے مقبول ترین شاعر اسد اللہ خاں غالب کو دنیا ایک شاعر کی حیثیت سے جانتی اور مانتی ہے لیکن ان کے خطوط ان کے دور کی بہترین عکاسی کرتے ہیں جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔
غالب کی شاعری ان کی شخصیت کی پہچان ہے لیکن غالب نے اپنے دوستوں، شاگردوں اور نوابوں کو بہت سے خطوط لکھے۔ یہ خطوط انھیں سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کی ہی طرح اہم ہیں۔
ان خطوط میں خوشی ہے، شفقت ہے، بے بسی ہے، التجا ہے، تعصب ہے، پریشانیوں کا ذکر ہے، دل کی جلن ہے، آب و ہوا کا احساس ہے، شراب ہے، مرُغیوں کے انڈوں کے برابر گرنے والے اولے ہیں، بارش ہے۔ کھیت ہیں، ربیع و خریف کی فصلیں ہیں، گھر کی دیواروں کی دراڑیں ہیں، دیواروں تلے دب کر مرنے والے لوگ ہیں، انسان کے سکھ چین پر ٹوٹ پڑنے والے لشکر ہیں۔
قحط ہیں، سیلاب ہیں، وبائیں ہیں، بخار ہیں، رات کی تاریکیاں ہیں، رات کی تاریکیوں میں نقب لگا کر تختے، دروازے اور چوکھٹیں نکال کر لے جانے والے چور ہیں، اس چوری سے پریشان غریب غربا ہیں، جیشٹھ یعنی مئی جون کی گرمی اور گرم ہوائیں ہیں، گرمیوں کی شدت کم کرنے کے لیے خس ہے، شاعری اور ادب کے تعلق سے مباحثے ہیں، مالی تنگیوں کا رونا ہے، گندم، چنے، باجرے، بیسن اور گھی کی آسمان چھوتی قیمتیں ہيں۔ قبل از وقت مرگ کا نوحہ ہے، دوستوں سے بچھڑنے کا رنج ہے، یادیں، افسردگی، اجڑے اور ویران بازار ہیں، حویلیوں کا ذکر ہے۔ گزرے ہوئے ماضی اور آنے والے مستقبل کا ذکر ہے۔
غالب کے خطوط کا ایک دلکش حصہ کاغذ پر بکھرے ہوئے موسم کے رنگ ہیں، یہ خطوط آب و ہوا کے مرقعے ہیں، یہ اس دہلی کا منظر پیش کرتے ہیں جس کے اوپر کے آسمان اور آنکھوں کے درمیان گرد کا پردہ نہیں تھا۔
رات ہوتے ہی انجمِ رخشندہ یعنی کہکشاں اس طرح پھیل جاتی تھی جیسے کوئی روشنیوں سے جگمگاتا ہوا مندر اپنے دروازے کھول رہا ہو اور اس کی روشنی سے سارا ماحول روشنیوں میں نہا گیا ہو۔ شاید اسی طرح کے کسی منظر کے تحت مرزا غالب کے دل نے یہ کہا ہوگا۔
شب ہوئی پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
کچے راستوں سے دھول ضرور اڑتی تھی لیکن ہوا میں دم نہیں گھٹتا تھا۔ زندگی سخت تھی لیکن آسمان زہریلا نہیں تھا، گرمی ہو یا سردی غریبوں کے لیے سارے موسم سخت تھے۔ برسات آج ہی کی طرح تھی۔ جھلسی ہوئی زندگی کو اپنی بوندوں سے شرابور کر کے ہرا بھرا کر دینے والی۔
غالب کے دور میں دہلی میں موجود بہت سارے ‘صاحبوں اور میم صاحبوں’ نے انڈیا کے جن موسموں کو پہچانا تھا غالب کے خطوط میں ان موسموں کے بھر پور حوالے ہیں۔ غالب نے نئے معانی میں فطرت سے دوری کو اپنے خطوط کے ذریعے پورا کیا ہے۔
غالب کے اشعار میں موسم کا تذکرہ اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ وہ روزمرہ کی زندگی کے اس وقت کی سختی کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ غالب کے دور میں، ڈوری کی مدد سے چھت سے لٹکے ہوئے پنکھے، جو ہاتھ سے چلائے جاتے تھے، عام نہیں تھے۔ گرمی سے لڑنے کے لیے ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے ہی سب سے بڑا سہارا تھے۔
مصنف پرسیول اسپیئر کے مطابق انگریزوں نے چھت سے جھولنے والے پنکھے سنہ 1785 میں کلکتہ میں استعمال کیے تھے لیکن اس کے باوجود بھی بڑے پیمانے پر ان کا استعمال بہت دیر میں شروع ہوا۔
ایک برطانوی صحافی ولیم ہککی نے اس کے استعمال کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق یہ مسلسل چلنے والا پنکھا اپنے آپ میں عیش کا سامان سمجھا جاتا تھا۔ بمبئی میں پلی اور ایکسل سے چلنے والے پنکھےکا پہلی بار سنہ 1809 میں ذکر ملتا ہے۔ مور کے پنکھوں یا خس سے بنے پنکھے ہی زیادہ استعمال کیے جاتے تھے۔
گرمی کی تپش اور غالب کی تکلیف
موسم گرما میں مئی اور جون کے میہنے کاٹنا آسان نہیں تھا۔ وہ آگ برسنے اور لو چلنے کے دن ہوا کرتے تھے۔
جون سنہ 1867 میں غالب نے نواب امین الدین احمد خان کو لکھا ‘شب و روز آگ برستی ہے خاک، نہ دن کو سورج نظر آتا ہے اور نہ رات کو تارے۔ زمین سے اٹھتے ہیں شعلے اور آسمان سے گرتے ہیں شرارے، چاہا تھا کہ کچھ گرمی کا حال لکھوں، عقل نے کہا دیکھ ناداں، قلم انگریزی دیاسلائی کی طرح جل اٹھے گی اور کاغذ کو جلا دیگی۔ بھائی، ہوا کی گرمی تو بڑی بلا ہے ،گاہے بگاہے جو ہوا بند ہو جاتی ہے، وہ تو اور بھی جاں گزاں ہے۔ (غالب لیٹرز، جلد 2، صفحہ 268)
وقفے وقفے سے فاقہ کشی اور قرضوں کے بوجھ کے باوجود، غالب کھاتے پیتے اعلی خاندان سے تھے اور بغیر چھت والوں کا جو حال ہوتا ہوگا اس کا تصور غالب کے خطوط سے کیا جا سکتا ہے۔ ‘شب و روز’ چلنے والی اس گرم ہوا کی تصدیق غالب کی ہم عصر اور ہندوستان کے گورنر لارڈ آکلینڈ کی بہن ایملی ایڈن نے بھی کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ‘یہاں تک کہ مقامی لوگ بھی دن میں چل پھر نہیں کرتے تھے۔’
غالب نے ایک خط میں لکھا ہے ‘گرمیوں میں میری حال وہ ہوجاتا جیسا زبان سے پانی پینے والے جانوروں کا’۔ خط میں وہ اپنا ہی ایک شعر لکھتے ہیں:
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
(غالب لیٹرز، جلد 1، صفحہ 192)
خس زندگی کا اہم حصہ
اُس آتش دوزخ کی طرح کی گرمی سے لڑنے میں خس کا بہت بڑا کردار تھا، وہی خس جو آج بھی کولر میں استعمال ہوتا ہے۔ پانی میں مسلسل بھیگنے کے بعد خس سے گذر کر آنے والی گرم ہوا ٹھنڈی ہو کر 19 ویں صدی کے شاعر کا مزاج بہتر بنا سکتی تھی۔
ایک خط میں غالب لکھتے ہیں: ‘کوٹھری میں بیٹھا ہوا ہوں، ٹٹی لگی ہوئی ہے۔ ہوا آ رہی ہے، پانی کا جھجھر (برتن) دھرا ہوا ہے، حقہ پی رہا ہوں اور یہ خط لکھ رہا ہوں تم سے بات کرنے کو جی چاہا تو یہ باتیں کر لیں۔ (غالب لیٹرز، جلد 1، صفحہ نمبر 336)
غالب نے اس خس کو راحت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے جب وہ سنہ 1861 میں میر مہدی حسین ‘مجروح’ کو لکھتے ہیں: ‘خس کی ٹٹی ، پوروا ہوا اب کہاں’۔ (غالب کے خطوط – صفحہ 113)
موسم کبھی کبھی چور کی طرح دبے پاؤں اور بن بلائے داخل ہوتا اور لوگوں کو اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق انتظامات کرنے پر مجبور کرتا۔ اکتوبر کے مہینے میں سردی شروع ہو جاتی، غالب لکھتے ہیں ‘شام ہوتے ہوتے وہ سردی ہوتی کہ اغنیا توشہ خانے سے دوشالے نکلواتے اور غربا گٹھریاں کھول کھول کر رضائی اور پٹے نکالتے (غالب لیٹرز، جلد 2، صفحہ نمبر 63)
غالب ایک ہی موسم میں دونوں طرح کی صورتیں پیش کرتے ہیں۔ ایک میں توشہ خانہ ہے اور دوسرے میں گٹھریاں ہیں۔ ایک ہی موسم سے لڑنے کی حیثیت کے مطابق یہ دو ترکیبیں نہ جانے کب سے چلی آ رہی ہیں۔
موسموں سے متعلق ان کی گفتگو اس وقت اور زیادہ دلچسپ ہو جاتی جب ان کی تیز اور سرد ہوائیں مذہب کے سالانہ کیلینڈر سے ٹکراتی تھیں۔ جب رمضان جون میں پڑتا تھا تو روزہ رکھنے کی جگہ ’بہلانا‘ پڑتا۔
غالب لکھتے ہیں ’دھوپ بہت تیز ہے میں روزہ رکھتا ہوں لیکن میں روزے کو بہلائے رکھتا ہوں، کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا کھا لیا۔(غالب لیٹرز، جلد 1، صفحہ نمبر 54)
گرمیوں میں غالب سے روزہ نہیں رکھا جاتا تھا۔ ایک خط میں انھوں نے لکھا ’کہاں تک دہی کھاؤں؟ کیا کروں؟ تاب مجھ میں روزہ رکھنے کی کہاں۔‘
گرمی کے روزے سے متعلق ایک اور خط میں غالب منشی نبی بخش حقیر سے کہتے ہیں: ’کہیے کیسی گرمی پڑتی ہے اور کیونکر گزرتی ہے، خوب ہوا جو بیگم کو روزہ نہ رکھوایا۔‘
گرمیوں میں غالب کو خس خانہ اور برف کا پانی یاد آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’یہ پریشانی اور یہ بے سامانی، نہ خسخانہ نہ برفاب’ (غالب لیٹرز، جلد 2 ، صفحہ 71)
برسات میں برساتی مینہ
گرمی کی تپش والے طویل دن کے بعد آنے والی بارش دوسرے لوگوں کی طرح غالب کو بھی دیوانہ بنا دیتی، ان کی طبیعت کھل جاتی۔ بارش کے دنوں کا ذکر ان کے بہت سارے خطوط میں ملتا ہے۔
غالب نے منشی نبی بخش ’حقیر‘ کو لکھا: ’ہوا خوب ہو گئی ہے، مینہ روز برستا ہے۔ یکم جولائی سے آج تک جھڑی کی صورت ہے۔ یقین ہے کہ وہاں بھی وہی موسم ہو گیا ہو گا۔‘
اسی خط میں اپنی رو میں بہتے ہوئے غالب نے فارسی زبان کا ایک شعر لکھا ہے:
نہ کشت و ازرا شنا سیم و نے حدیق و باغ
ز بہر وعدہ طلبگار باد و بارانیم
یعنی ہم نہ تو کھیتی باڑی سے واقف ہیں اور نہ ہی باغات سے، ہوا اور پانی کی ہماری طلب شراب پینے کے لیے ہے۔ (غالب لیٹرز، جلد 2 ، صفحہ 104)
دیہات اور کاشتکاری کی باتیں
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ غالب کے خطوط میں قلعہ بند شہر سے باہر کی پھیلی دنیا ہے جسے برطانوی بیوروکریٹ ’موفصل‘ کہتے تھے۔ اس کے رنگ انتہائی محدود پیمانے پر ملتے ہیں۔لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ اس سے پوری طرح ناواقف تھے چنانچہ ان کے خطوط میں دیہاتی زندگی کی جھلک بھی ملتی ہے۔
جیشٹھ مہینے کے کمزور ہوتے ہی کھیت بوائی کے لیے تیار ہو جاتے تھے، جولائی 1860 کے ایک خط میں وہ موسم کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں: ‘برسات یہاں بھی اچھی ہوئی ہے لیکن ایسی نہیں جیسی کالپی اور بنارس میں، زمیندار خوش، کھیتیاں تیار ہے۔ خریف کا بیڑا پار ہے۔ ربیع کے واسطے پوہ (پوس) ماہ درکار ہے۔’ (غالب لیٹرز)
کاشتکاری اتنی آسان بھی نہیں تھی، بارش کی بوندوں کے ساتھ اولے بھی پڑتے تھے۔ کسان اور موسم کے تعلقات کے راگ بہت ہی پرانے ہیں۔ بارش نپے تلے انداز سے کب ہوتی ہے۔ کبھی جم کر برسے اور کبھی بے دلی سے۔ ساون کا مہینہ تھا، غالب نے لکھا: ’لو اب دس بارہ دن سے مینہ کا نام نہیں رہا، دھوپ آگ سے زیادہ تیز ہے، اب روتے پھرتے ہیں کہ کھیتیاں جلی جاتی ہیں، اگر مینہ نہ برسے تو کال پڑے گا۔‘ (غالب لیٹرز، جلد 1، صفحہ -203)
آج کی سہولت بھری زندگی گزارنے والوں کے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہو گا کہ قحط کا احساس انسان کی زندگی میں کتنا خوفناک رہا ہے۔
جس صدی کے آخر میں جب غالب کی پیدائش ہوئی اسی اٹھارہویں صدی کی ابتدا ایک قحط سالی سے ہوئی تھی۔ نکولائے منوچی (1638-1717) ایک اطالوی سیاح ہیں جو مغل دور میں ہندوستان آئے تھے۔ ان کے مطابق سنہ 1702 سے 1704 کے درمیان قحط سے تقریباً 20 کے لاکھ افراد کی موت ہوگئی تھی، بھوک میں مبتلا افراد اپنے بچوں کو ایک چونی کی قیمت پر بیچنے کی پیشکش کر رہے تھے اس کے باوجود بھوکے رہتے تھے کیونکہ ان کو خریدنے والا کوئی نہیں تھا۔
کسان کے لیے اکال لفظ کا متضاد ’پنکال‘ تھا، یہ وہ صورتحال تھی جس میں پانی اتنا ہوتا تھا کہ کھڑی فصل پانی کی زیادہ مقدار سے تباہ ہو جاتی تھی۔
غالب نے میر مہندی کے نام اپنے خط میں دہلی کا حال بیان کیا ہے۔ ’وہ ان کال تھا کہ مینہ نہ برسا اناج نہ پیدا ہوا۔ یہ پن کال ہے پانی ایسا برسا کہ بوئے ہوئے دانے بہہ گئے، جنھوں نے ابھی نہیں بویا تھا وہ بونے سے رہ گئے۔‘ (غالب لیٹرز، جلد 1 ، صفحہ نمبر 353)
غالب کے تخیلات نے زندگی کی حالتِ زار کی منظر کشی ان سے حاصل کی جن کی آرزوں نے دم توڑ دیا ہو۔ ایک کسان کے علاوہ کون ہے جسے غالب ’آرزو خرامی‘ یعنی چلتی پھرتی آرزو کہتے! عاشق کا دل آنسو (جوشِ گریہ) میں ڈوبتا ہے اور ’آسامی‘ کی فصل تباہی میں۔
غالب نے لکھا ایک جگہ لکھا:
خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سو بار ابر آوے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو
غالب نے یہ بھی لکھا تھا:
غالب کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے
خرمن جلے اگر نہ ملخ کھائے کشت کو
کسان ہونا گویا مصیبتوں کا انتخاب کرنا ہے۔
غالب کے ہاں خرمن کا استعارہ ہمیشہ بربادی کا خاکہ بناتا ہے۔ ایک جگہ وہ ہنسی خوشی کی زندگی بر گرنے والی بجلی ‘برق خرمن راحت’ کا موازنہ خون گرمی دہقاں یعنی کسان کے گرم خون سے کرتے ہیں۔ یہ زندگی کی صوفیانہ ترکیب ہے کہ ہر چیز کا خاتمہ بگاڑ ہے۔ تعمیر میں ہی تباہی کا عنصر پوشیدہ ہے۔
غالب نے ایک خط میں شہر پر پے در پے حملہ کرنے والے ان پانچ لشکروں کی شناخت کی جنہوں نے ہزاروں انسانوں کو بھوکوں ہلاک کیا۔ شہر کا اعتبار لوٹ لیا تھا۔ غالب نے ان لشکروں کی شناخت کسی سیاسی یا جدید لحاظ سے کسی ترقی پسند فلسفے سے متاثر ہو کر نہیں کی تھی۔
جولائی 1860 کا یہ خط بہت اہم ہے جس میں غالب دہلی والوں پر ٹوٹ پڑنے والے ان ’لشکروں‘کی شناخت کرتے ہیں۔
’پانچ لشکروں کا حملہ پے در پے اس شہر پر ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر (1857) ناس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا اور دوسرا لشکر خاکیوں (انگریزی فوج) کا۔ اس میں جان و مال و ناموس مکان و مکین و آسمان و زمین و آثار ہستی لٹ گئے، تیسرا لشکر کال کا، اس میں ہزار ہا آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضے کا، اس میں بہت سے پیٹ بھرے مرے، پانچواں لشکر تپ [بخار] کا، اس میں تاب و طاقت عموماً لٹ گئی۔‘
(غالب بے نقاب، ہنس راج رہبر، صفحہ 99)
یہ سچ ہے کہ غالب کا ایک خاص طبقاتی کردار تھا جسے انھوں نے ساری زندگی ادا کیا لیکن یہ طبقاتی کردار نہ تو غیر حساس تھا اور نہ ہی اپنے گردونواح سے بالکل منقطع تھا۔
اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے منشی ہرگوپال تفتہ کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں انھوں نے لکھا: ’نہ تو میں آزاد ہوں، نہ قید ہوں، نہ بیمار ہوں، نہ صحت مند ہوں۔ نہ خوش ہوں نہ ناخوش۔ نہ زندہ ہوں، نہ مرا۔ بس جیے جاتا ہوں، اب بھی ہر روز روٹی کھاتا ہوں، اور شراب اگر مل جائے تو پی لیتا ہوں۔ جب موت آئے گی تو مر جاؤں گا، چلا جاؤں گا، نہ تو میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور نہ ہی اس سے شکایت کرتا ہوں۔‘ (غالب کے خطوط)
دلی میں 71 سال کی عمر میں غالب نے 15 فروری سنہ 1869 کو دنیا کو الوداع کہا۔ غالب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہر موقع کے کوئی نہ کوئی شعر پیش کیا ہے۔
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا