خورشید رضوی کا ناسٹلجیا ۔۔۔ نوید صادق

خورشید رضوی کا ناسٹلجیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی دن تھے جب ناسٹلجیا کو ایک نفسیاتی بگاڑ جانا جاتا تھا۔ لیکن یہ سترھویں صدی کی باتیں ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ اُن دنوں گھر یا وطن سے دوری کو اس بیماری کا سبب جانا جاتا تھا۔ لیکن علمِ نفسیات نے ترقی کے مدارج طے کیے تو صورت حال نے پلٹا کھایا، Home Sickness اور ناسٹلجیا کو ایک دوسرے سے الگ گردانا جانے لگا۔اس شعبہ میں مزید کام ہوا اور ناسٹلجیا کی بابت یہ بات سامنے آئی کہ یہ اچھا بھی ہو سکتاہے اور برا بھی۔ ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ والی صورت حال بھی پیش آ سکتی ہے اور انسانی مزاج اس کے باعث بہتر صورتِ احوال بھی پیش کر سکتا ہے۔ ایسے لمحات بھی یادوں کے کواڑوں پر دستک دے سکتے ہیں جن کی دوبارہ رونمائی کی خواہش دل و دماغ میں انگڑائیاں لینے لگ جائے اور ایسی صورت بھی کہ : ’’چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘۔۔۔ انسان یہ تک نہیں چاہتا کہ ایسے لمحات دوبارہ یادوں کے کینوس کے قریب سے بھی گزریں۔ لیکن اس سب کا تعلق ہمارے ماضی کے متعلق زاویۂ نظر سے ہے۔ ہم ماضی کو کس رخ سے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور کس رُخ سے دیکھ رہے ہیں۔ ماضی کی وہ یادیں جو ہمارے لیے تلخی کا سامان کرتی ہیں، اور ماضی کی وہ یادیں جو ہمیں خوشی بہم پہنچاتی ہیں۔
ناسٹلجیا کی دو بنیادی اقسام ۔۔۔ Restorative Nostalgia جس میں انسان ماضی کی یادوں کی بازیافت چاہتا ہے۔زندگی میں بیتے لمحوں میں ازسرِ نو گزر بسر کی خواہش زور کرنے لگتی ہے۔ وہ تجربات ۔۔۔ جیسے بھی تھے ان سے دوبارہ گزرنے کی آرزو سر اٹھانے لگتی ہے۔ ناسٹلجیا کی دوسری قسم Reflective Nostalgia ہے۔ اس میں انسان یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ماضی تو ماضی ہے، اس کی بازیافت ممکن نہیں۔ سو اِنسان ان جذبات کی بازیافت کی بجائے ان جذبات سے لطف اندوز ہونے کو فوقیت دیتا ہے جو ان حسین یادوں سے اُبھرتے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کر لینا کہ ماضی کی بازیافت غیر ممکن ہے، ایک جمالیاتی بُعد کا سبب ہو کر ایک جمالیاتی کل کی تشکیل کرتی ہے جس کے توسط سے ہم ان یادوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ بالکل کسی لطف انگیز فلم دیکھنے یا ایک اچھی کتاب پڑھنے کے مترادف ہے۔ ہم فلم میں ہیرو کو دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اصل میں ہمارے دل و دماغ میں خود اپنی ہی شبیہ ہیرو کے روپ میں کوئی کارنامہ سرانجام دے رہی ہوتی ہے۔ ماضی کی فلم سے انسان اسی طور لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ ناسٹلجیا منفی مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب کر سکتا ہے لیکن یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ اس کے مثبت اثرات منفی اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ Psychodynamics میں ناسٹلجیا کا مثبت یا منفی ہونا فرد کی متعلقہ یاد سے وابستگی کی نوعیت اور اسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے زاویہ سے عبارت ہے۔پھریہ بھی کہ ماضی کی یادیں، ماضی میں گھومتے پھرتے رہنا ۔۔۔فرد کے مزاج کی تشکیل کرتی ہیں۔ روزمرہ معاملاتِ زندگی میں تحریک و ترغیب ۔۔۔ ناسٹلجیا کے اثرات فرد کے موجودہ ماحول، عمر، افزایش، شخصیت وغیرہ کے اعتبار سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ جذبات و احساسات، اور سب سے بڑھ کر کردار کے حوالہ سے اس کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔
اس ساری گفتگو کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ خورشید رضوی کی شاعری میں یہ ناسٹلجیائی منظرنامہ یا اس سے جڑا احساس اپنے ہم عصر شعرا کی نسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں تو یہ احساس کم و بیش ہر شاعر کے ہاںکسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے مگر خورشید رضوی کے ہاں اِس سے متعلقہ کیفیتوں کا اظہار جس شدتِ احساس کے ساتھ ہوا ہے وہ دوسروں کے ہاں خال خال نظر آتا ہے۔خورشید رضوی ماضی میں بہت وقت گزارتے ہیں۔ ان کی تحقیق و تنقید ہو کہ شاعری، ماضی ۔۔۔ واضح رہے کہ یہ ماضی صرف خورشید رضوی کا ماضی نہیں، یہ ماضی صرف اُن کے آباؤ اجداد کا ماضی نہیں، یہ تو پوری انسانیت کا ماضی ہے۔وہ سب جو پیچھے رہ گیا، جو گزر گیا، کسی فلم کی طرح ان کے ذہن میں چلتا رہتا ہے۔ ماضی کی بابت ان کا ایک اپنا رویہ ہے۔ یہ رویہ جو آج اپنی کلی حالت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کی تشکیل کوئی ایک دو روز کی بات نہیں، اس میں اُن کے وسیع علم اور کم و بیش نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے۔ ماضی ان کے نزدیک محض اس لیے نہیں کہ اسے یاد کر کے رویا پیٹا جائے یا جشن منائے جائیں، ماضی تو اُن کے لیے جذبات و احساسات کی تہذیب و ترویج کا بنیادی مآخذ ہے۔اور اس حقیقت کے ادراک میں انھیں تاخیر یوں نہیں ہوئی کہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’شاخ تنہا‘‘ ہی میں وہ اِس حقیقت کو پا گئے تھے:

سیلِ ماضی کو نشیبِ جاں میں بھرنے دیجیے
آج پھر احساس کو دُھلنے سنورنے دیجیے

لیکن ماضی صرف دل فریب یادوں ہی سے مزین نہیں ہوتا۔ اس میں تلخیاں بھی ہوتی ہیں اور بعض ایسی یادیں بھی جو دل پذیر تو ہیں لیکن ان کا دہرانا انسان کی آنکھوں میں نمی کا باعث بن جاتا ہے۔ ’’شاخِ تنہا‘‘ ہی سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

نفس نفس وہی یادوں کی ہشت پہلو کٹار
کہ جس کی دھار پہ کٹ کٹ کے دل پگھلتا جائے

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے، نہیں، ایسا نہیں

فضا میں آج بہت دیر یاد آتے رہے
مجھے بہارِ گزشتہ کے بال و پر اپنے
چلو کہ دیکھ تو آئیں زمینِ اعدا میں
وہ اپنی جان سے پیارے مکاں، وہ گھر اپنے

یوں ہی، کہیں کہیں، تری یادوں کے پھول تھے
تھی ورنہ زندگی کسی بَن باس کی طرح

ثبت ہیں اِس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں
رو رہا ہوں ہر پرانی چیز کو پہچان کر
جانے کس کی روح میرے روپ میں لائی گئی

آخری شعر میں پرانی چیزوں کو پہچاننا اور پھر رونے کا عمل یوں ہی نہیں، اس شعر میں ایک مکمل داستان پوشیدہ ہے۔ ایک تہذیب جس نے عروج دیکھا، لیکن شاعر کو جب مشاہدہ کے لیے دستیاب ہوئی تو اس عالمِ خرابی میں کہ اسے پہچاننا تک ایک مشکل عمل ہو گیا ہے۔ اس تہذیب کے کھنڈر دیکھ کر اپنی تاریخ سے جڑا ایک حساس انسان روئے گا نہیں تو اور کیا کرے گا۔ اسے خورشید رضوی کا المیہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ المیہ شکلیں بدل بدل کر ان کے ہاں رونما ہوتا ہے۔ پھر غور طلب بات یہ ہے کہ اس شعر میں جس ماضی کی طرف اشارہ ہے، وہ محض وہ ماضی نہیں جو وہ خود گزار آئے ہیں بلکہ اس میں وہ ماضی بھی شامل ہے جو ان سے بہت پہلے روایات و حکایات یا تاریخ کے ذریعے اُن تک پہنچا۔
ماضی کے معاملات انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں خورشید صاحب کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ کہیں حال کی رایگانی کا ماضی کی تابناک اقدرار و روایت سے تقابل ہے تو کہیں کسی خوش گوار لمحے کی یاد دِل و دماغ کو معطر کیے دیتی ہے، کہیں کسی لمحۂ خاص میں اپنی کسی کوتاہی پر نگاہ دوڑائی جا رہی ہے تو کہیں سرخوشی کا عالم کہ وصال و فراق باہم مدغم ہو کرایک مستقل ہیئت اختیار کر گئے ہیں، کہیں ماضی میں قصداً داخلہ کی سی صورت نظر پڑتی ہے تو کہیں عالمِ موجود میں کوئی واقعہ، کوئی چیز ماضی کی طرف سفر کا محرک ٹھیرتی ہے۔ ماضی میں تاک جھانک کے حوالہ سے ’’شاخِ تنہا‘‘ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

ہائے وہ ساعتِ خوں گشتہ کہ تو پیشِ نظر
تھا، مگر بہرِ تکلم کوئی تقریب نہ تھی

دیدہ و دل اب بھی جاگ اُٹھتے ہیں تیرے نام پر
حسرتِ تعمیر اب تک خانہ بربادوں میں ہے

یادِ ایّامے، کوئی وجہِ پریشانی تو تھی
آنکھ یوں خالی نہیں تھی، اِس میں حیرانی تو تھی
کڑی ہے دھوپ، گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں
کسی کو یاد کریں، اَوس میں نہاتے جائیں

گزرے کہاں ہیں دوست! زمانے وصال کے
اب وہ شبِ فراق میں ضم کر دیے گئے

بہت دنوں میں کل آئینہ سامنے پا کر
ہوئی ہے عمرِ گذشتہ کی تعزیت کیا کیا

’’شاخِ تنہا‘‘ میں ناسٹلجیا کی دوسری قسم یعنی Reflective Nostalgia کی کارفرمائی زیادہ نظر آتی ہے۔ اس دعوے پر بطورِ دلیل اگر میں اس مجموعۂ کلام سے ایک غزل : رہینِ صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں، کا حوالہ دوں تو بے جا نہ ہو گا کہ اس غزل میں Reflective Nostalgia اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قاری کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔حال میں اپنی رایگانی سے شروع ہونے والی داستان ماضی میں لے جاتی ہے، مناظر کا انتہائی بے تکلف بیان کہ جو دیکھا جا رہا ہے، دکھا دیا جاتا ہے اور بات نقش ہاے رفتگاں تک جا پہنچتی ہے اور پھر جب شاعر اس کیفیت سے باہر نکلتا ہے تو اعلان کر ڈالتا ہے کہ ’’ہمیں چاہو، ہماری قدر کر لو‘‘ کہ اب اس تہذیب اور اُس ماضی کو یاد کرنے والے بھی خال خال نظر آتے ہیں۔ خورشید صاحب کے ہاں غزل میں اس تجربہ کی مختلف صورتیں ان کے پہلے چار شعری مجموعوں میں بکثرت دستیاب ہوتی ہیں:

رہینِ صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں
مگر ہم رایگاں بیٹھے ہوئے ہیں
بظاہر ہیں بھری محفل میں، لیکن
خدا جانے کہاں بیٹھے ہوئے ہیں
اِدھر صحنِ چمن میں مجھ سے کچھ دُور
وہ مجھ سے سرگراں بیٹھے ہوئے ہیں
اُدھر شاخِ شجر پر دو پرندے
مثالِ جسم و جاں بیٹھے ہوئے ہیں
ستارے ہیں کہ صحراے فلک میں
بھٹک کر کارواں بیٹھے ہوئے ہیں
کنویں کی تہہ میں جھانکو، عکس در عکس
یہاں سات آسماں بیٹھے ہوئے ہیں
کھنچی ہیں دل پہ پتھر کی لکیریں
نقوشِ رفتگاں بیٹھے ہوئے ہیں
ہمیں چاہو، ہماری قدر کر لو
تمھارے درمیاں بیٹھے ہوئے ہیں

اور ایسے میں ایک خواہش دل میں جنم لیتی ہے کہ جو وقت گزر گیا وہی اچھا تھا، رابرٹ براؤننگ کہتا ہے:

How sad and bad and mad it was-but then, how it was sweet.

یوں دوسرے لفظوں میں خورشید رضوی کے ہاں یہ کیفیت نشاطِ غم کا پہلو بھی رکھتی ہے:

گو نظر اکثر وہ حسنِ لازوال آ جائے گا
راہ میں لیکن سرابِ ماہ و سال آ جائے گا

زیست کے خستہ شکستہ گنبدوں میں گاہ گاہ
گونجتا ہے تیری آوازوں کا جادو آج بھی
زُلف کب کی آتشِ ایّام سے کُمھلا گئی
زُلف کا سایہ نہیں ڈھلتا سرِمُو آج بھی
مدتیں گذریں، مگر اے دوست! تیرے نام پر
ڈول جاتی ہے مرے دل کی ترازو آج بھی
دم بہ دم جلتے ہیں چوبِ خشکِ صحرا کی طرح
کاروانِ رفتہ! ہم تیری نشانی ہو گئے

اقدار کا زوال شاعر کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ تہذیب و تمدن گویا ماضی ہی کے قصے ہو کر رہ گئے ہیں۔ شاعر ماضی کو دھیان میں لاتا ہے، حال سے اس کا تقابل کرتا ہے تو جو صورتِ احوال سامنے آتی ہے اُسے خون کے آنسو رُلواتی ہے۔ ایسے میں وہ اقدار سے مالا مال ماضی ہی میں گزربسر کا خواہاں نظر آتا ہے:

کسے ملے گی لرزتی لوئوں کی راہ بری
کہاں رہی ہیں وہ بام و چراغ کی رسمیں

دل آج بھی چراغ اُسی انجمن کا ہے
صدیاں گزر گئیں جسے زیر و زبر ہوئے

بند آنکھ کیے کانِ جواہر میں کھڑا ہوں
گوہر مجھے یاد آتے ہیں گنجینے کے اپنے

جو آنکھ دیکھنے میں خرابہ دکھائی دے
سمجھو کہ اُس میں کوئی امانت ہے تہہ بہ تہہ

اُس اِک ستوں کی کیفیتِ گومگو نہ پوچھ
ملبے کے ڈھیر میں ہو جو تنہا کھڑا ہوا

اور حال میں اجنبیت کا احساس کہ جن لوگوں میں شاعر اپنے شب و روز گزارتا ہے، ماضی کے جن دریچوں سے اسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میسر آتے ہیں، اس کے آس پاس کچھ بھی تو ویسا نہیں، ایک احساسِ مغائرت جنم لینے لگتا ہے:

جن لوگوں میں رہتا ہوںمَیں، اُن میں سے نہیں ہوں
ہوں کون، مجھے اپنا زمانہ نہیں ملتا
دیوار تو اس دور میں ملتی ہے بہ ہر گام
لیکن تہِہ دیوار خزانہ نہیں ملتا
مدت سے تمنا ہے کہ یہ بوجھ اتاریں
مدت سے کوئی دوست پرانا نہیں ملتا
ہے رخش، سبک سیر بہت عمرِ رواں کا
گر جائے کوئی شے تو اٹھانا نہیں ملتا

لیکن جہاں تک ہم خورشید صاحب کو سمجھ پائے ہیں، وہ کسی بھی ایسے احساس کو بیماری کی حد تک خود پر طاری نہیں ہونے دیتے اور ان کے پاس ان تمام خرابیوں کا واحد حل یہی ہے کہ وہ ماضی کو بہترین جان کر اس کو خود سے دور نہیں ہونے دیتے۔ اور یہ بار بار کی ماضی یاترا ان کی توانائیوں میں اضافہ کا باعث ٹھیرتی ہے:

خرد سے دُور غمِ تُند خُو میں اچھے تھے
اُسی جنوں میں، اُسی ہاؤ ہُو میں اچھے تھے
ہَوا ہوئی ہے موافق، ہمیں وہیں لے چل
سفینہ راں! ہم اُسی آب جُو میں اچھے تھے

’’شاخِ تنہا‘‘ کے جائزہ کے بعد دیکھنا ہو گا کہ’’سرابوں کے صدف‘‘ تک آتے آتے خورشید رضوی کے ہاں ماضی کے حوالہ سے فکر و نظرمیں کیا بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ’’سرابوں کے صدف‘‘ میں ’’شاخِ تنہا‘‘ کے برعکس ماضی میں برپا واقعات کے بیان میں ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ بیان زیادہ واضح لیکن جذبات کی شدت دھیمے سروں میں اظہار پاتی ہے۔ ایک خواب کا سا عالم غالب نظر آتا ہے۔ کھٹی میٹھی یادوں سے مملو چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

یاد ہے ہم کو وہ دن جب ہم تیری گلی سے گزرے تھے
چلمن چلمن سرگوشی تھی، روزن روزن آنکھیں تھیں
لاکھ ادائیں پاؤں پڑیں، ہم روپ نگر میں نہ ٹھہریں گے
کیا کیا جی میں ٹھانی تھی، پر ساتھ یہ بیرن آنکھیں تھیں

اب کبھی سوچیں تو خود کو بھی یقیں آتا نہیں
اُس سنہرے دور میں کیا کیا، کیا کرتے تھے ہم

اب تک اُسی طلسمِ مکرر میں قید ہوں
اب تک تری بنائی ہوئی کھائیوں میں ہوں

خون رُلواتی رہی گزرے زمانوں کی شبیہ
تھک گئیں آنکھیں تو غرقِ ساتگیں کر دی گئی

ایک چاپ، ایک صدا، ایک حنائی دستک
اور پٹ کھول دیے اُٹھ کے کسی نے دل کے

’’شاخِ تنہا‘‘ میں Reflective Nostalgia کی معجز نمائیاں ہیں تو’’سرابوں کے صدف‘‘ میں ماضی کی بازیافت یعنی Restorative Nostalgia نمایاں ہے۔زمانۂ گذشتہ کہ رنگوں اور خوشبوؤں سے عبارت تھا، کاش ۔۔۔ کاش وہ خوشبوئیں، وہ رنگ زمانۂ حال کو بھی معطر کر دیں۔ کاش وہ دن پلٹ آئیں جن میں سب بھلا محسوس ہوتا تھا۔ وہ سب جو گزرتے وقت کے ہاتھوں تہس نہس ہو گیا، دوبارہ میسر آ جائے۔ معروف امریکی شاعر Kris Kristofferson کہتا ہے:

".I’d trade all my tomorrows for one single yesterday‘‘

 ذرا دیکھیے:

میں شب و روز کا حاصل اُسے لوٹا دوں گا
وقت اگر میرے کھلونے مجھے واپس کر دے
مجھ سے لے لے صدف و گوہر و مرجاں کا حساب
اور وہ غرقاب سفینے مجھے واپس کر دے

کبھی مِلو تو چلیں پھر اُنھی پہاڑوں میں
کہ پتھروں پہ پرانی عبارتیں جاگیں

کھو گئی دُور کہیں بانگِ درا، ڈھونڈ کے لائیں
دشتِ ماضی میں چلیں، اپنا پتہ ڈھونڈ کے لائیں
اب بھی صحرا میں ہو شاید وہ امانت باقی
وہی گم گشتہ نشانِ کفِ پا ڈھونڈ کے لائیں

لیکن ایک متوازن شخصیت کے حامل خورشید رضوی اس حقیقت کو بھی ذہن سے فراموش نہیں ہونے دیتے کہ گیا وقت کسی طور واپس نہیں آ سکتا:

واپس نہ کبھی پلٹ کے آیا
لمحہ، شطرنج کا پیادہ

خورشید رضوی اپنے تیسرے شعری مجموعہ ’’رایگاں‘‘ میں ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ جیسا کہ مجموعے کے نام ہی سے مترشح ہے، یہاں رایگانی کا احساس بہت نمایاں ہے۔ خورشید صاحب اپنے اشعار میں گذشتہ کی ناکامیوں کا تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں۔اپنی خامیوں، اپنی کوتاہیوں ۔۔۔ یہ سب انفرادی سطح پر ہوں کہ اجتماعی معاملہ ۔۔۔بصیرت افروز تجزیات اس شعری مجموعہ کی کلیدی خوبی ہیں۔ اب اس ایک غزل ہی کا مجموعی احساس دیکھیے:

یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے، مجھے کھا گئے
یہ خیالِ پختہ جو خام تھے، مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے، مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے، مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی،وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے، مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آبِ حیات ہے، اِسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے، مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہِ دام تھے، مجھے کھا گئے
جو کُھلی کُھلی تھیں عداوتیں، مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے، مجھے کھا گئے

’’سرابوں کے صدف میں‘‘ استعارات کی زبان میں ماضی کے حوالہ سے منظر نگاری ملتی ہے لیکن ’’رایگاں‘‘ میں تشبیہات و علامات و استعارات کا ایک جہان یادوں اور ان یادوں کے حوالے سے اخذ شدہ نتائج کو بامعنی انداز میں قارئین تک پہنچاتا ہے۔ استعارات معانی کو وسعت بخشتے ہیں۔ خوب صورت اور مکمل تلازمہ کاری ان کی بات کو مزید موثر بناتی ہے:

یوں تو وہ شکل کھو گئی، گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کھلا ہوا حاشیۂ خیال میں

کچھ پھول تھے، کچھ ابر تھا، کچھ بادِ صبا تھی
کچھ وقت تھا، کچھ وقت سے باہر کی فضا تھی

ابروئے اَبر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو
جھلک اُس آنکھ کی دکھلا کے ستارہ مجھ کو

نمِ ابرِ بہار میں چلنا
سایۂ یادِ یار میں چلنا

ہو کے بے نقشِ پا، مثالِ صبا
خلوتِ شاخسار میں چلنا

بس دریچے سے لگے بیٹھے رہے اہلِ سفر
سبزہ چلتا رہا اور یادِ وطن آتی رہی

ماضی کی فلم تو پہلے بھی ذہن میں چل رہی تھی لیکن اب تبدیلی یہ آئی کہ اظہار و بیان کے وہ پیرائے قاری کو بھی اپنے ساتھ ماضی کی سیر پر لے کر نکل پڑتے ہیں۔ اور اس ساری سیر و تفریح کے بعد شاعر کسی نہ کسی نتیجہ سے اپنے قاری کو ضرور آگاہ کرتا ہے۔ ایک غزل کے یہ دو شعر دیکھیے:

پھر دورِ شباب یاد آیا
ڈھلوان پہ پھول کھل  رہے ہیں
اک ہم ہیں کہ موسمِ جنوں میں
یخ بستہ و پا بہ گِل رہے ہیں

بات یہاں تک آ پہنچتی ہے کہ استعارات کی زبان میں ماضی میں لاحق خدشات، تصاویر اشعار میں در آتے ہیں:

سفرِ شام نے رہ رہ کے ڈرایا مجھ کو
جی اُٹھے سنگ و شجر دیکھ کے تنہا مجھ کو
چودھویں شب کے طلسمات بھی ہوتے ہیں عجیب
سایۂ شاخ لگا شاخ سے اچھا مجھ کو

وہ میرے پاس سے گزرے تو آج پھر میں نے
نگاہِ دشت سے ابرِ رواں کو دیکھ لیا

یہ فیض بھی تو انھی ظلمتوں سے پایا ہے
کبھی کبھی مہِ کامل کو جا لگا مرا ہاتھ

وہ برگ، وہ بار کتنے خوش تھے
مرغانِ بہار کتنے خوش تھے
ساحل پر جس طرح سفینہ
سرکش، سرِدار کتنے خوش تھے
اب گریہ کناں یہ ابرپارے
کہسار کے پار کتنے خوش تھے
جب تجھ میں گزر نہ تھا خوشی کا
ہم، اے دلِ زار! کتنے خوش تھے

پھر وہ فضا نہیں ملی، اُس شبِ مرمریں کے بعد
وہ تری بات کی مہک، نکہت ِ یاسمیں کے بعد
کیا کہوں، کیا طلسم تھا، شاخ و صبا کے درمیاں
جیسے بدن میں کپکپی، بوسۂ اوّلیں کے بعد

خورشید صاحب کے چوتھے مجموعہ کلام ’’امکان‘‘ میں ماضی کو سامنے رکھ کر حال کا تجزیہ بہت نمایاں ہے۔ کہیں ماضی سے ملتے جلتے حالات پر تشویش کا اظہار ہے تو کہیں کرب کا اظہار کہ ماضی میں درپیش مسائل کا حل نکالنے والے موجود تھے لیکن اب ایسا نہیں۔ اس مجموعہ کلام میں ڈاکٹر صاحب کا طرز کچھ کچھ حکیمانہ ہو چلا ہے۔تجزیاتی نکتہ ٔ نظر، مسائل کی طرف بصیرت افروز نظر اور کہیں کہیں مسائل کا حل بھی:

وہی موسم ہے، وہی گُل، وہی خوں ریز ہَوا
مار ہی ڈالے نہ ہم کو یہ جنوں خیز ہَوا
دلِ آشفتہ! شجر ہیں نہ فصیلیں، نہ پہاڑ
کچھ نہیں راہ میں، آتی ہے بہت تیز ہَوا

گُل کھلاتی ہے، کبھی خاک اُڑاتی ہے یہ خاک
شعبدے کرتی ہے، نیرنگ دکھاتی ہے یہ خاک
میں تو خود خاک ہوں، میرا تو بھلا کیا مذکور
آسمانوں سے ستاروں کو بلاتی ہے یہ خاک
سال ہا سال کھلاتی ہے جسے رزق اپنا
آخرِ کار اُس انسان کو کھاتی ہے یہ خاک
سب سے آخر میں اُبھارے تھے جو رفتہ رفتہ
سب سے پہلے وہ خد و خال مٹاتی ہے یہ خاک
ہے کبھی جسم، کبھی قبر کی مٹّی خورشیدؔ!
جس طرف جاؤں، مری راہ میں آتی ہے یہ خاک

ہر دیکھنے والے کا مقدّر، یہی حیرت
ہر سوچنے والا اِسی پیچاک سے گزرا

ہم کھوئے ہوے لوگوں کو ڈھونڈے گا بھلا کون
اب اپنی خبر خود ہمیں لانی ہی پڑے گی

مجھے بھی اپنا دلِ رفتہ یاد آتا ہے
کبھی کبھی، کسی بازار سے گزرتے ہوئے

جو صفحۂ دہر پر نہیں تھا
کیوں خواب میں وہ چمن دکھایا

دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا
اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنھیں آتا تھا
خاک سے دل جو اَٹے ہوں، انھیں جاری کرنا
موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا

فُرصت ہی نہ تھی نغمۂ تارِ رگِ جاں سے
ہنگامۂ دنیا کو سُنا گوشِ گراں سے

ہاں وہی دشت، وہی گم شدگی اچھی تھی
اب کے بھٹکوں تو مجھے راہ پہ لائے نہ کوئی

خواب میں دیکھ لیا، کھو دیا بے داری میں
کہیں معلوم ہے تُو اور کہیں نامعلوم

نہ موجِ بادِ صبا گُل کھلانے آئے گی
نہ اب چمن میں خزاں خاک اُڑانے آئے گی
نکل گیا ہے سفینہ کُھلے سمندر میں
نہ کوئی غم، نہ خوشی دل دکھانے آئے گی
وہ جاں کنی کی کم آمیز نیلگوں ساعت
دبے قدم جو کسی دن سرھانے آئے گی
وہ اپنے سرد لبوں کے اُداس بوسے سے
مرے لہو کی حرارت چرانے آئے گی
بس ایک لمحۂ لرزاں میں اختصار کے ساتھ
وہ عمر بھر کی کہانی سنانے آئے گی

چیتے کی جست جیسے، اک چشمِ مست جیسے
کیا کیا خیال آئے جنگل کی بارشوں میں
پَو پُھوٹتے ہی دوڑا چاندی کا حاشیہ سا
جلتے ہوئے دیوں کی بُجھتی ہوئی لوؤں میں
لرزاں ہے شاخِ دل پر اک یاد کا نشیمن
تپتے ہوئے دنوں کی مہکی ہوئی شبوں میں
کب زندگی ہوئی ہے اُس کے اثر سے خالی
رہتا ہے وہ ابھی تک اندر کے ولولوں میں

اب بھی کبھی یاد آئے جو وہ سروِ خراماں
دل میں کوئی طائر پرِ پرواز نکالے

اب تک میں نے اس مضمون میں جہاں بھی خورشید صاحب کے مجموعہ ہائے کلام کی بات کی، صرف چار عدد مجموعوں کے حوالے سے کی، اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ میرا موضوع خورشید صاحب کی شاعری میں ان کا ماضی کی طرف رویہ دیکھنا مقصود تھا اور پانچواں شعری مجموعہ واحد مجموعہ ہے جس میں ماضی کے حوالہ سے اشعار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا ہےکہ ان کی ایک نعتیہ نظم ’’مدینہ میں ایک آرزو‘‘ میں Restorative Nostalgia بڑی شدت کے ساتھ نظر آتا ہے اور اس کے بعد غزل میں یہ مفقود ۔۔۔ اس دعائیہ نظم سے چند ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:

کاش پھر سے وہی مدینہ ہو
پھر وہی شہرِ پُرسکینہ ہو
کچی گلیاں ہوں، کچی دیواریں
اور کھجوروں کے شاخچوں کی چھتیں
کو بہ کو نقشِ پائے احمدؐ ہو
سو بہ سو خوشبوے محمدؐ ہو
آنکھ روشن ہو روئے انور سے
چھو سکیں ہاتھ، پائے اطہر سے

اور یہ سب اس لیے کہ:

نہ دلیلوں کی ٹھوکریں کھائیں
جو سنیں دوڑ کر بجا لائیں

میں نے کہا کہ ’’دیریاب‘‘ میں ماضی کے حوالہ سے کچھ نہیں تو بات کچھ یوں ہے کہ خورشید صاحب کے اگر تمام شعری مجموعوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ رمز کھلتی ہے کہ ان کا شعر مسلسل سفر میں ہے۔ وہ شعری سفر جو’’ شاخِ تنہا‘‘ سے آغاز ہوا،’’ دیریاب‘‘ تک آتے آتے مکمل حکیمانہ لب و لہجہ اختیار کر گیا ہے۔ اس طرز کے پیچھے ان کا پورا سفر ہے، ماضی میں طویل سفر، حال پر بھر پور نظر اور مستقبل پر عقابی نگاہیں ۔۔۔ ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ ناسٹلجیا ۔۔۔  مثبت ناسٹلجیا انسان کے ارادوں کو قوی کرتا ہے، مستقبل کے حوالہ سے اسے رجائیت پسند بنا دیتا ہے، خوداعتمادی عطا کرتا ہے تو دیریاب میں ہمیں یہ تمام باتیں درست محسوس ہو رہی ہیں۔ چند اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا:

ابھی اس راہ سے گزری ہے وہ پھولوں بھری رُت
اے صبا نقشِ قدم دیکھ کے چلتی چلی جا

مری نظر میں یہ دیوار و در نہیں ہیں درست
سو میں گرا کے مکاں پھر بنانا چاہتا ہوں

نظر کریں تہِ دل پر تو ہیں وہی کے وہی
کبھی جو آئنہ دیکھیں تو کیا سے کیا ہوئے ہم

دلوں میں حیثیتِ رفتگاں بدل جائے
اگر یہ وہمِ زمان و مکاں بدل جائے

کہاں سے لائیے خود کو کہ خود کو دیکھ سکیں
جب اپنے آپ سے گزرے تو رونما ہوئے ہم

خورشید! آج ایک خرابے کے سائے میں
سو بار ہم پہ عمرِ گذشتہ گزر گئی

یہ عمرِ گزشتہ خورشید صاحب کی یادوں کی بازیافت ہےجو اُن کے کلیات سے تاحال مجموعہ کلام ’’دیریاب‘‘ میں بھی ان گنت اور ہمہ پہلو اشعار کے ساتھ ہمارے دل و دماغ کو معطر کرتی ہے۔ بے شمار ایسے اشعار جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے، کئی بار سنا جا سکتا ہے مگر مجھے ’’حکایت دراز تر گفتم‘‘ کی بے جا طول بیانی سے زیادہ اُس اختصار کا لحاظ بھی ہے جو اگرچہ اجمالی پیرایہ اختیار نہ کر سکا مگر میں یہ قیاس ضرور کر سکتا ہوں کہ کم از کم اس جمال کا اظہار ضرور ہے جو خورشید رضوی کی شاعری میں معنوی و صؤری اِجمال کے طور پرتوِ جمال بن کرموجود ہے۔

Related posts

Leave a Comment