دیباچہ ’’خواب دریچہ‘‘ ۔۔۔ احمد ندیم قاسمی

پیش گفتار
جلیل عالی نے اپنے دل کی لوح پر سچائی کا اسم روشن کر رکھا ہے۔یہ اس کے اپنے الفاظ ہیں مگر خود ستائی سے مبرا،اس لئے سچے اور دیانت دارانہ ہیں۔اس نے مرئی اور ظاہری سچائیوں پر ہی اکتفا نہیں کیابلکہ ڈھکی چھپی سچائیوں کابھی کھوج لگایا ہے۔ان سچائیوں کو ہر جہت سے پرکھا اور برتا ہے۔ہر سچے شاعر کی طرح اس کی منزل بھی وہ آخری سچائی، وہ آخری صداقت یا وہ آخری حقیقت ہے، جس کے لئے انسان نے مہذب ہونا سیکھا ۔کون کہہ سکتا ہے کہ اس منزل تک کون پہنچ پایا ہے ۔اور شاید یہ نارسائی ہی سب فنون کی بنیاد ہے۔مگر یہ جو مسلسل جستجو کی کیفیت ہے اور یہ جو اپنے معیاروں تک بلند ہونے کا کیف ہے،اور اس کیف میں جو بے چینی اور اضطراب ہے ،وہی جلیل عالی کے فن کا محور ہے۔
بس رہا  تھا مری سوچ  کے آسمانوں پہ جو
اور ہی شہر تھا اُس کے سب بام و در اور تھے
جو قوتیں جلیل عالی کو اس کی سوچ کے آسمانوں پر بسنے والے اس نرالے شہر تک پہنچنے سے روکتی ہیں،ان سے نبرد آزمائی اس کا ایمان ہے۔مگر یقین و گمان کی اس جنگ میں،جب شاعر کی انا بھی ایک معقول وزن رکھتی ہو ،ایسے مقامات آتے رہتے ہیں جب سب کچھ بے معنی معلوم ہونے لگتا ہے۔
حقیقتوں کے عذاب صحراؤں میں اماں ڈھونڈتی نگاہیں 
لگی  ہوئی ہیں  سراب دیوار گرد  اپنے  اسارنے میں
حقیقت سے تصور تک کایہ سفر جلیل عالی کی شناخت کا سفر ہے۔مگر اپنی ذات کی پہچان کا یہ عمل عالی کو کسی مرحلے پر شکست خوردہ نہیں کر سکا ۔ورنہ ذات کے مقام و مفہوم کی یہ جستجو اس نسل کے کتنے ہی ذہین نوجوانوں کو بے معنویت، لایعنیت اور انفعالیت کے غاروں میں اتار لے گئی،اور وہ عمر بھر اسی بھول بھلیاں میں بھٹکتے رہ گئے۔جلیل عالی نے ذات کو ہمیشہ کائنات کے تناظر میں رکھ کر پرکھا ہے۔اس لئے نہ تو اس کے ہاں ابہام ہے اور نہ بے سر و پا رمزیت جس کا کھوج لگاتے لگاتے شعر کے قاری کو شعر کے حسن سے بہت دور کے سفر کرنے پڑتے ہیں۔جلیل عالی جانتا ہے کہ رمز میں غزل کا حسن پوشیدہ ہے۔مگر اس کے ہاں رمز ایک معمے کی بجائے ایک انکشاف بن کر وارد ہوتی ہے۔
باہر سب جانی پہچانی سی تصویریں 
اندر میلہ  پُر اسرار جہانوں  جیسا
اس رمزیت میںجو نفسیاتی بصیرت ہے،وہ جلیل عالی کی غزل کا ایک حیرت انگیز عنصر ہے۔اس پہلو سے وہ بڑا بڑا گمبھیر شعر کہہ چکا ہے۔
جو  دوسروں کی نگاہ کے آئینے  نہ  ہوتے 
تو دل کہاں ڈھونڈتے خد و خال اپنے اپنے
۔۔۔
اک دوسرے سے بچ کے نکلنا محال تھا
اک دوسرے کو روند کے جانا  پڑا ہمیں
۔۔۔
کھڑی ہیں درمیاں کتنی انائیں
یہ  جنگل راہ سے کیسے  ہٹائیں
۔۔۔
کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں 
خود  ڈر گئے تو سب کو ڈرانا پڑا ہمیں
اس بصیرت کا اظہار ہر اہم غزل گو کے ہاں موجود ہے ۔مگر اس دور کے جن شعرا کے ہاں یہ بصیرت ان کی نمایاں ترین صفت بن کر ابھری ہے ،وہ شہزاد احمداور جلیل عالی ہیں۔یہی بصیرت جلیل عالی سے حقائقِ حیات ،سیاست ، معاشرت اور قوم و وطن کے حوالے سے ایسے ایسے شعر کہلواتی ہے۔
اپنے دِیے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا  ہر چراغ  بجھانا  پڑا  ہمیں
جواز کیا ہے کہ اُس شہرکی تباہی نہ ہو
جہاں کسی نے بھی رسمِ وفا نباہی نہ ہو
۔۔۔
سو رہا تھا روز میں فٹ پاتھ پر 
میرا اپنا گھر تھا میرے سامنے
۔۔۔
شہر میں چاہے سو ترمیم ضروری ہو 
شہر پناہ  پہ ضرب  لگانا ٹھیک نہیں
۔۔۔
رموزِ خیمہ زنی  یاد تھے  تو پھر کیسے
اکھڑ گئی ہیں طنابیں قیام سے پہلے
اور ہمارے وطن کی تاریخ پہ لکھی جانے والی موٹی موٹی کتابوں اور لمبی لمبی نظموں کے سامنے ذرا یہ شعر رکھ کر دیکھئے۔
ہم بھی کیا معصوم تھے بچوں کی صورت
کھیلتے کھیلتے  انگاروں  تک  آ پہنچے
یہ منفی معیار جو لاکھوں کروڑوں کا معمولِ حیات بن چکے ہیں جلیل عالی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔اگر اس کے باطن میں یقین کی صلابت نہ ہوتی تو اس کی شخصیت ریزہ ریزہ ہو چکی ہوتی۔یہ منفیت اس کا سب سے شدید درد ہے۔
کیا کیا سوچیں لے کر نکلے تھے عالی
کیسے کیسے  معیاروں  تک  آپہنچے
۔۔۔
عالی سب انصاف ترازو  ٹوٹ چکے
کیا  پاؤ گے  اب  زنجیر ہلا  کر بھی
میں دیواروں پہ تصویریں سجانے میں مگن تھا 
خبر کیا تھی کہ  ویرانے  مرا گھر دیکھ لیں گے
۔۔۔
راستہ آگے بھی لے جاتا نہیں 
لوٹ کر جانا بھی مشکل ہو گیا 
۔۔۔
لُوٹنے والے زباں کاٹ گئے ہیں میری
گھر پہ کیا  بیت گئی ہے  یہ  بتاؤں کیسے
۔۔۔
عالی  دانش  کی  بستی میں  اب سردار وہی
ڈھونڈ نکالے کچھ اندھیارے جو تنویروں سے
شکستِ معیار کی اس کیفیت سے ایک خوف ایک عالمِ گو مگو جنم لیتا ہے۔
بستی میں کس عذاب کے ڈر جاگنے لگے
شب بھر پسِ فصیل بھی گھر جاگنے  لگے
مگر جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے جلیل عالی کو اس کا یقین ان سب عذابوں میں سے نکال لاتا ہے۔
اک ہمدرد یقین پناہ میں لے لیتا ہے
زرد گمانوں کی ہر گھات سے پہلے پہلے
اس یقین کو شاعر کی ذات کی توانائی کہہ لیجئے،اس کی قوم اس کا وطن قرار دے لیجئے، اس کے نظریے اس کے عقیدے کا نام دے لیجئے،یہ طے ہے کہ کسی نہ کسی حوالے سے جلیل عالی کے ہاتھ میں یہ تلوار موجود ہے جو ہر رکاوٹ ،ہر جبر اور ظلم کو کاٹتی ہوئی نکلی چلی جاتی ہے۔
میں جب بھی کہیں دل کا سکوں ہار کے آیا
سینے سے سدا مجھ کو لگایا مرے گھر نے
کہیں یہ ’’گھر‘‘ عالی کے اس ’’ہمدرد یقین‘‘کی علامت تو نہیں ہے جس نے اسے اعتماد کے ساتھ زندہ رہنے کا فن سکھایا ہے۔
عالی نے نظمیں بھی کہی ہیں مگر اس کی شناخت اس کی غزل ہے۔ غزل روایت کے مثبت پہلوؤں کو اپناتی ،رسمی اضافوں سے کتراتی اور جدید حسیت اور عصری شعور سے اپنے آپ کو اُجالتی ہوئی غزل ۔عالی کی غزلیں پڑھئے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے غزل کی قدیم روایت کے کنارے جگمگانے لگے ہیں ۔
اُسے سب موسموں ملنے کے کتنے راستے تھے
مگر  دل کی  رُتیں اپنی تھیں  اپنے فیصلے تھے
۔۔۔
گزرے کیسے کیسے  ظالم  لمحوں کے لشکر
کھودی یاد زمیں تو نکلے خواب کھنڈر کتنے
عالی غزل کے اس با لکل جدید اور قطعی منفرد لہجے کو جب تغزل آشنا کرتا ہے تو اس کا منفرد اسلوب زیادہ روشن اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔
دل کے آنگن میں اترے کہاں سے کوئی روشنی کی کرن
آسمانِ  وفا  پر  بجھے  سورجوں  کا  دھواں  رہ  گیا 
۔۔۔
وقت کی آندھیوں سے سبھی چاہتوں کے شجر گر گئے
زندگی  کا  نشاں اک  تری  یاد کا سائباں رہ گیا 
۔۔۔
وہ بچھڑا تو چہرہ چہرہ اس کے عکس کھِلے
اک خورشید بجھا تو روشن ہوئے قمر کتنے
عالی اس سراسر اپنے اندازِ تغزل اور اندازِ فکر کا جو جواز اپنے ایک شعر میں پیش کرتا ہے وہ ہر اہم شاعر اور ادیب کے اپنے اپنے منفرد اسلوبِ اظہار کی کتنی بلیغ ترجمانی کرتا ہے۔
فضا  میں  ہر کسی  آواز  کا  اپنا   بھنور  تھا 
سمندر میں ہر اک پتھر کے اپنے دائرے تھے
جلیل عالی کے فن کی ایک منفرد خصوصیت اس کا ایک زندہ رہنے والا لسانی اجتہاد ہے۔اضافت اور حروفِ اضافت سے اس نے ایک طرح سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی ہے۔اوروہ اس کوشش میں کامیاب رہا ہے ۔کیونکہ حروفِ اضافت کے ایک دم غائب ہو جانے سے الفاظ میں جو اجنبیت در آنی چاہئے،اس سے عالی کی غزل بالکل پاک رہی ہے۔اگرکوئی ’وفا کے سفر ‘ یا’ سفرِ وفا‘ کو ’وفا سفر‘ کہنے لگے ،’شوق کے شجر‘ یا ’شجرِ شوق‘کو’ شوق شجر‘لکھنے لگے تو اضافتوں اور حروفِ اضافت کے عادی لوگ متحیر ضرور ہوں گے مگر بدکیں گے نہیں۔اور اس کے عادی ہو جائیں گے۔ چنانچہ ادب پڑھنے والے اب خیال ستارہ، درد ثمر، یاد زمین ، خواب کھنڈر،خوف سمندر،نشاط لمحے،سوچ سیلاب ،شوق تتلی وغیرہ کے عادی ہو چکے ہیں ۔اور جب اضافتوں اور حروفِ اضافت کے ساتھ یہ سلوک کرنے والے جلیل عالی کے ہاں اس طرح کا مصرع وارد ہوتا ہے کہ
یہ دیوارِ انا اک دن گرا کر دیکھ لیں گے
تو قاری اس اضافت سے پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ ’دیوارِ انا‘  ’انا دیوار‘ کیوں نہیں بن سکی۔جلیل عالی کو اضافت سے کد نہیں۔ اس نے تو شعری اظہار میں ایک سہولت پیدا کی ہے۔اور یہ سہولت سراسر جائز بلکہ خوبصورت ہے۔ہمارے بعض ذہین نوجوان اگر اظہار میں جلیل عالی کے سے اجتہادات برتنے کا حوصلہ کر لیتے تو انہیں ’نثری نظم ‘کے زیرِ زمین غاروں میں پناہ لینے کے لئے نہ اترنا پڑتا ۔
جلیل عالی نے ایک یہ اجتہاد بھی برتا ہے کہ اردو میں افعال کی جو کمی ہے اسے پورا کرنے کا ایک سہل طریقہ تجویز کر دیا ہے۔’تنویرنا ‘ اور ’شمارنا ‘اور ’شکارنا‘کے سے مصادر اس کی اسی مثبت جرأت مندی کا نتیجہ ہیں۔جس زبان میں مصادر و افعال کی کمی ہو وہ جامد رہتی ہے یا پھر رک رک کر آگے بڑھتی ہے۔شاید اسی لئے عالی نے کہا ہے۔
زندہ لفظ کی شاخ کہاں مرجھاتی ہے
نئے نئے  مفہوم  نکلتے  رہتے  ہیں
یوں جلیل عالی نے زبان کے تخلیقی استعمال کی ایک مثال قائم کی ہے۔ عالی کے اس اجتہاد سے الفاظ کے مروجہ مفہوم میں کشادگی پیدا ہوئی ہے اور وہ روشن روشن نظر آنے لگے ہیں ۔شعرا کے لئے فرہنگ و لغت پر دسترس مفید ہوتی ہے مگر اس کی غلامی ان کی شاعری کو مار ڈالتی ہے ۔عالی کی غزل کے بعض کلیدی الفاظ ہی لے لیجئے ۔
شوق ، سوچ ، سچ ، حیرت،اسم وغیرہ۔آپ دیکھیں گے کہ ان میں ایک الگ نوعیت کی جمالیاتی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔اسی کو زبان کا تخلیقی استعمال کہتے ہیں۔عالی ان بحور میںغزل کہنے سے(شاید شعوری طور پر) اجتناب برتتا ہے جنہیں گذشتہ دو تین صدیوں سے سینکڑوںشعرا نے برتا ہے اور برت رہے ہیں ۔عالی کی پسندیدہ بحریں رک رک کر چلتی ہیں، ٹھٹکتی ہوئی اور سوچتی ہوئی بحریں۔پھر اس کی غزل مختصر بھی ہوتی ہے۔ اظہار کا اختصار غزل کی جان ہے۔اس اختصار میں غزل کی رمزیت اپنے اعجاز دکھاتی ہے۔عالی نے صد فیصد درست کہا ہے۔
پڑھے جو اس نے کبھی نقطۂ نظر سے مرے
بہت رہیں گے یہی  لفط مختصر سے مرے
شاعر کو (وہ غزل کہتا ہو یا نظم)ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ زبان اس کے خیالات کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔یا الفاظ اس کی سوچ کی کماحقہ ترجمانی نہیں کر پاتے ۔اظہار کے باوجود پوری طرح اظہار نہ کر سکنے کی کسک نے کتنے ہی شاعروں کو بے چین کر رکھا ہے۔ عالی نے بھی کہا ہے ۔
درد لکھے تو جانا کہ کیا کچھ برونِ  بیاں رہ گیا 
بات کی تو کھلا کس قدر فاصلہ درمیاں رہ گیا
یہ ہر اس شاعر کی نفسیات ہے جو بہت کچھ کہنا چاہتا ہے چنانچہ اپنے دل اور زبان ،اپنے ذہن اور نطق کے درمیان کے فاصلے اس سے سمیٹے نہیں سمٹتے۔عالی بھی اس لئے دعا مانگتا ہے۔
منکشف کر سوچ سے پہلے کی بات
لفظ سے  آگے  رسائی دے مجھے
اس کے باوجود اظہار کی سرشاری کی ایک اپنی کیفیت ہوتی ہے۔
عالی طلوعِ  فن کی نشانی یہی تو ہے
لفظوں میں ان کہی کا اثر جاگنے لگے
اس کیفیت میں عالی نے اپنے ایک شعر میں نشے کی سی تسکین کا اظہار کیا ہے۔اور یہ اظہار اتنا بلیغ ہے کہ اس شعر کو عالی کے تمام کلام پر پھیلا کر رخصت چاہوں گا۔
جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے
خوشہ خوشہ حرف کی بیلیں بھر گئیں  ہیروں  سے
۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment