اعجاز گل کا ’’گمان آباد‘‘
اعجاز گل نے گمان کی دنیا بسائی تو اُسے گمان آباد کا نام دیا۔ شاعری میں گمان آباد جیسے تجربے بہت کم ہوئے ہیں۔خواجہ میر درد نے کہا تھا:
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
اعجاز گل نے اپنے گماں آباد کا آغاز ہی ازلی تجسس سے کیا ہے۔ تجسس انسانی طبیعت میں شامل ہے۔ اور اسی تجسس نے اسے جنت سے ازلی ہجرت پر مجبور کیا:
ذرا بتلا زماں کیا ہے، مکاں کے اُس طرف کیا ہے
اگر یہ سب گماں ہے تو گماں کے اُس کے طرف کیا ہے
اعجاز گل پھر سوال کرتے ہیں:
کوئی گردش تھی کہ ساکت تھے زمین و خورشید
گنبد ِ وقت میں دن رات سے پہلے کیا تھا
میں اگر پہلا تماشا تھا تماشا گہ میں
مشغلہ اس کا مری ذات سے پہلے کیا تھا
گمان ہی گمان ہے چہارسو، سوچ کا ایک سمندر اعجاز گل کی ذات میںموج زن ہے:
کیا خبر کتنے جہاں ہیں اس جہاں کے بعد بھی
یا گماں اندر گماں ہے ہر گماں کے بعد بھی
منتظر بعد ِ فنا کیا ہے، کسے معلوم ہو
گردشِ ہفت آسماں، ہفت آسماں کے بعد بھی
انسان اپنی ہجرتِ زمینی کے بعد سے اسی قسم کے گمان میں مبتلا ہے۔ سوالات کا ایک انبوہ ہے۔ ربِ عظیم نے اگرچہ سب کچھ انسان کو سکھایا لیکن یہ انسان پھر بھی سوچ میں ڈوبا رہا۔ اس زمین پر اتارے جانے کے بعد جب مشرق سے سورج نے سر اٹھایا تو اس نے سمجھا کہ یہ میرا رب ہے، اور اس نے اس کے سامنے سر جھکا دیا، لیکن جب رات کے سیاہ بادل مغرب میں ڈوب گئے تو انسان نے کہا ، یہ میرا رب نہیں ہو سکتا کیوں کہ میرے رب کو فنا نہیں ہے۔ یہی سوچ ازل سے انسان کے ساتھ ہے۔ایسا بہت کم ہے کہ ادب میں تشکیک کو شاعروں نے اپنا موضوع بنایا ہو۔اعجاز گل انسانی نفسیات میں پیدا ہونے والے تشکیکی رویے کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔
خیال آفرینی ایک پیٹرن کا نام ہے ، ایک ایسا پیٹرن جو ہمہ وقت تغیر پذیر رہتا ہے، مگر اس تغیر پذیر پیٹرن کے اندر ایسا اتار چڑھاؤ ہے جو تغیرات کے باوجود پیٹرن کی ساخت کو قائم رکھتا ہے۔
خیال آفرینی کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ دوئی پر استوار ہوتاہے۔ ’’ایک‘‘ کی کوئی ساخت نہیں ہوتی لیکن جب ’’ایک‘‘ ’’دو‘‘ میں تقسیم ہوتا ہے اور دونوں حصے ایک دوسرے کے رو بہ رُو آ جاتے ہیںتو ایک ایسا رشتہ ابھرتا ہے جس سے لاتعداد نئے رشتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ایک آئینے کے مقابلے میں دوسرا آئینہ رکھ دیا جائے تو عکسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جنم لیتا ہے اور اس طرح ایک کے اندر دوئی کے جنم اور پھر اس دائرہ در دائرہ پھیلاؤ سے رشتوں کی ایک پوری دنیا آباد ہو جاتی ہے جسے ہم پیٹرن کہتے ہیں:
داخلہ ممنوع ٹھہرا میرا، میری ذات میں
دائرہ کھینچا کسی نے جب سے اپنے نام کا
معکوس و عکس کیسے ہیں پیوست، دیکھ تو
آئینہ کر رہا ہے سنگھار آئنے کے ساتھ
دوئی کے یہ سارے مظاہر خود انسانی ذہن کے پیٹرن سے ماخوذ نظر آئیں گے،کیوں کہ انسانی ذہن کا پیٹرن یا سٹرکچر بجائے خود شے کو اُس کی ضد سے پہچانتا ہے۔ ذہن کے سوچنے کا انداز ہی یہ ہے کہ وہ شے کی پہچان اس فرق کی بنا پر کرتا ہےجو اس نے دیگر اشیا کے ساتھ قائم کر رکھا ہے، یعنی تضاد کا رشتہ۔ انسان نے رب کا تصور بھی اسی تضاد میں تلاش کیا ہے۔ اس نے سورج کو طاقت کا مظہر جان کر اُس کے سامنے سر جھکایا لیکن جب سورج کی روشنی رات کی سیاہی میں ڈوب گئی تو انسانی ذہن نے اس تضاد کی بنیاد پر کہ یہ میرا رب نہیں ہو سکتا کیوں کہ اسے فنا نہیں ہے، اعجاز گل کا گمان بنیادی طور پر اسی خیال آفرینی پر استوار ہوا ہے:
پھیلا عجب غبار ہے آئینہ گاہ میں
مشکل ہے خود کو ڈھونڈنا عکسِ تباہ میں
حیرت ہے، سب تلاش پہ اس کی رہے مصر
پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا
عجیب ہے یہ تری کائناتِ صد اسرار
کھلی نہ مجھ پہ کسی اسمِ انکشاف سے بھی
نہیں جواب سوالوں کے میرے پاس، سو میں
کلام خود سے زیادہ کبھو نہیں کرتا ہے
بیسویں صدی میں دوئی کے جس تصور کو اہمیت ملی وہ مذہب، فلسفہ اور تصوف میں پہلے سے موجود دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً خیر و شر کے فرق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ صوفیا نے جز اور کل کے مابہ الامتیاز کو مرکز مان کر اپنی بات کی ابتدا کی۔ یہ دراصل خیال آفرینی کے دو چہرے ہیں۔ ایک وہ جو باہر کی طرف دکھائی دیتا ہے، اور دوسرا جو اندر کی طرف ہے، اور نظر نہیں آتا مگر جس کی عدم موجودگی کا علم ظاہر چہرے کی کارکردگی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ تخلیق کار کا ایک چہرہ تو وہ ہے جس سے وہ دنیا کا ہر رنگ دیکھتا ہے، جسے مشاہدہ بھی کہا جا سکتا ہے اور مشاہدے کے نتیجے میں جو چیز تخلیق ہوتی ہے، وہ کارکردگی ہے جس سے دوسرا چہرہ نمایاں ہوتا ہے۔ اعجاز گل کے گمان آباد میں مشاہدے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اعجاز گل کا یہ چہرہ بھی گہرائی لیے ہوئے ہے لیکن یہ چہرہ ایک متفکر فلسفی کا چہرہ ہے:
گنگ تھیں سب کی زبانیں خوفِ حاکم کے سبب
لوگ ہونٹوں میں دبائے گفتگو پھرتے رہے
دشمنوں نے جو کیا تھا، سو کیا تھا لیکن
اک نگر تھا کہ مکینوں نے بھی برباد رکھا
درونِ ذات سجا محفلِ کہن سالی
زمانہ تجھ سے اگر گفتگو نہیں کرتا
یہ عمر مناسب ہے تناسب کے ہنر سے
دشوار زیادہ ہے نہ آسان بہت کم
اعجاز گل کے ہاں شعر کی معنویت کا پھیلاؤ پیشِ نظر رہتا ہے۔ کلاسیکی شاعری کی پختگی کے ساتھ ساتھ اُن کے ہاں تازہ کاری کے اوصاف نمایاں نظر آتے ہیں۔ گمان آباد میں محبت کا بیان بھی ہے لیکن دبا دبا سا:
قریبِ سنگِ منزل آ گیا تھا
نظر رخسار کا تِل آ گیا تھا
مہک اٹھے ہیں مرے باغ کے خس و خاشاک
کوئی ٹہلتا ہوا صورتِ صبا گیا ہے
اسے بھی اپنے مشاغل سے فرصتیں کم ہیں
یہ واقعہ ہے کہ میں بھی اُدھر نہیں جاتا
نہیں کرتا وہ دل جوئی کبھی کاغذ کے ٹکڑے سے
مکاں کے سامنے سے روز نامہ بر نکلتا ہے
گلی میں آیا ہے قاصد ذرا خبر تو لے
ترے علاوہ وہ کس کس کے گھر نہیں جاتا
کوئی پلٹ کے نہ آیا اِدھر، برس گزرے
کوئی چراغ جلاتا کنارِ بام کے ہے
اعجاز گل کے ہاں ہجر و وصال کا بیان بھی ہے لیکن ایک بات جو حیرت انگیز ہے ، وہ یہ کہ دیارِ غیر میں جا کر بسنے والوں کے ہاں بے وطنی کا احساس نمایاں ہوتا ہے لیکن اعجاز گل کے ہاں وطن سے دُوری کا احساس اس شدت سے موجود نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان ہی میںمقیم ہیں اور ہماری ہی طرح ملکی حالات پر اپنی حساسیت کا اظہار بھی کرتے ہیں:
ہم تماشائی ہیں جب اپنی زبوں حالی کے
دوسرا کوئی نگہبان ہمارا کیوں ہے
ہوں وہ اجل نصیب کہ قاتل ہوں اپنا آپ
ہوتا ہوں روز قتل کسی قتل گاہ میں
اعجاز گل وہ فلسفی شاعر ہے جو انسانی نفسیات میں پیدا تشکیکِ وجود کی حقیقت، انسانی زندگی میں موجود تضادات اور زندگی میں شکست و ریخت کو اپنے اشعار کا موضوع بناتے ہیں اس لیے ہم سیاسی،سماجی اور معاشی اعتبار سے سخت انتشار اور افراتفری کے دور میں زندہ ہیں:
کیا خبر کتنے جہاں ہیں اس جہاں کے بعد بھی
یا گماں اندر گماں ہے ہر گماں کے بعد بھی
جو اَبد تھا، وہ رہا دائم گمانوں سے پرے
اس گماں کے لامکاں کا لامکیں گم ہو گیا