اردو شاعری میں انوکھی مثال ۔۔۔ ’سرِ زنداں‘ کی شاعری
سرزنداں پاکستان کے ایک شاعر عطا محمد خاں کا شعری مجموعہ ہے۔ اسے میں نے اردو شاعری کی انوکھی اور اکلوتی مثال اس لیے کہا کہ اس قسم کا دوسرا کوئی شعری مجموعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ عالمی ادب میں حبسیہ شاعری کی تو بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جب شعرا نے حریت فکر کا علم بلند کیا تو انہیں داخلِ زنداں کیا گیا اور وہاں انہوں نے شاعری کی شمع روشن کی۔ اردو میں بھی ایسی متعدد مثالیں ہیں۔ زندانی شاعری کا ذائقہ ہی الگ ہے۔ ہمارے بہت سے شعرا کو جیل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے شاعری کی۔ چاہے وہ مولانا حسرت موہانی ہوں یا اشفاق اللہ خاں وارثی یا پھر فیض احمد فیض۔ لیکن عطا محمد خاں کی شاعری اس لحاظ سے الگ ہے کہ مبحوس ہو نے سے قبل وہ شاعر نہیں تھے۔ لیکن انہیں اتنی درد ناک اور المناک اذیتوں سے گزرنا پڑا کہ زخموں کے دہان سے ان کا کرب شاعری بن کر نکلا۔
اس مجموعے کی شان نزول یہ ہے کہ اس کے خالق کیپٹن عطا محمد خاں 1994ءمیں پاکستان کے سرحدی شہر زیارت کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اتفاقاً افغان سردار ملا عبد السلام راکٹی نے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عطا کا اغوا کر لیا او رانہیں پانچ ماہ تک افغانستان کے زابل مقام پر نظر بند رکھا۔ انہیں بے پناہ اذیتیں دیں۔ یہاں تک کہ ان کے جسم پر سیکڑوں زخم لگائے نوبت یہ ہو گئی کہ
ایک دو زخم کہاں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
اس کربناک المناک اور دردناک تجربے کو عطا محمد خاں نے تخلیقی شکل دے دی۔ عطا پانچ ماہ تک ملا راکٹی کے عقوبت خانے میں ر ہے۔ ان کے یہی تجربات ان کی شاعری میں جو درد و کرب کی بھٹی میں تپنے کے بعد کندن بن کر نکلے ہیں:
آگ بہت زخموں سے نکلی آج عقوبت خانے میں
فصل جنوں کچھ ایسی مہکی آج عقوبت خانے میں
عطا محمد خاں اپنے تجربات” انگلیاں فگار اپنی“ میں یوں بیان کرتے ہیں:
’سر زنداں کی تمام شاعری دکھ کا وہ اظہاریہ ہے جو ایک خاص ماحول اور خاص کیفیات کی کوکھ سے ابھرا اور جس نے مجھے انسان کی پہچان کا گیان عطا کیا ۔۔۔ میں نے زابل کے زنداں کی دیواروں سے ٹیک لگا کر پونے پانچ ماہ تک شاعری کی اور ڈائری بھی لکھتا رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی یہ قید ابھی جاری ہے۔۔۔ صیاد کی یہ نشانیاں آج بھی میرے بدن کے مختلف حصوں پر تلخ لمحوں کی المناک یادوں کی طرح چسپاں ہے جو مجھے آج بھی زندگی کا اصل مفہوم سمجھانے کے لیے دعوت فکر دیتی ہے۔ اب ہمارا مہمان خانہ لوہے کا ایک تنگ و تاریک کنٹینر قرار پایا۔ میرے پیروں میں لوہے کی زنجیریں پہنا دی گئیں۔‘
یہی عطا محمد کی شاعری کی تفسیر ہے اس لیے میں نے پہلے ہی کہاکہ عطا کی حبسیہ شاعری دوسرے زندانی شعرا سے مختلف ہے۔ ان کے تجربات اور احساسات بھی الگ ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری کے لیے جس پیرایہ کی ضرورت ہوئی، وہ اس نے خود بخود اختیار کر لیا۔ ان کا کرب اپنی لفظیات آپ لے کر آیا۔ وہ خود بھی کہتے ہیں:
’میں نے اس دکھ کے اظہا رکے لیے یہ منظوم کہانی بیان کی ہے۔ یہ کتھا صرف میری نہیں بلکہ ہر اس انسان کی ہے جو کسی نہ کسی قید میں مصرو ف آزادی کی یاد میں زندہ ہے۔ ‘
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ملا راکٹی جس نے عطا محمد کے جسم پر سیکڑوں زخم لگائے وہ سر نامہ کی نظم ’سر زنداں‘ اسی کی نذر کرتے ہیں۔ جو اس مجموعے کی سب سے طویل نظم ہے۔ ظالم صیاد سے ایسی وارفتگی کی مثال کم ہی ملے گی۔
ازل سے تابہ ابد اور عدم سے ظاہر تک
اس آئینے میں کہیں میں کہیں تھا عکس میرا
قدیم میں بھی ہوں اس کائینات کی صورت
خدا کے ہاتھ پہ رکھا ہوا دیا ہوں میں
کہ تیز چلتی ہوا کیا مجھے بجھائے گی
اور سرنامہ کا یہ شعر تو پورے مجموعے کی تفسیر ہے:
جھکنا پڑا عدو کو میرے سامنے عطا
مشکل تھا میرے پاؤں میں زنجیر ڈالنا
جن اعصاب شکن تجربات سے عطا محمد گزرے ہیں۔ ہم انہیں ان کے اشعار میں محسوس کر سکتے ہیں۔
ان کے تجربات حقیقی ہیں اس لیے اظہار میں بڑی شدت ہے۔ بعض اشعار تو احساس کے زخم کی کھرنڈیں تک نوچ ڈالتے ہیں:
ہم نے کلام لکھا ہے زنداں کی قید میں
یوں ماہتاب ہم نے سجائے سر قفس
بدن پہ داغ اسیری سجا لیا ہم نے
ترے قفس کو تو گھر ہی بنا لیا ہم نے
ہم نے دل کی بات کہی ہے بندوقوں کے سائے میں
اپنے لہو کی لاج نبھائی آج عقوبت خانہ میں
وہ لو گ اور ہیں دستار بیچنے والے
یہ ہم ہیں سر کو سرِ دار بیچنے والے
قفس میں قید سپاہی کا حال کیا جانیں
قلم کی حرمت و افکاربیچنے والے
قفس میں خون کے چھینٹے بہت ہیں
ہمارا زخم خنجر سے اٹھا ہے
پڑا ہوں قید میں پاؤں میں بیڑیاں پہنے
کہ جیسے کوئی پرندہ اڑان چھوڑ گیا
اعصاب شکن یورشوں کے باوجود قنوطیت یا مایوسی عطا کے قریب نہیں پھٹک نہیں پاتی وہ امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔ انکا لہجہ سر تا سر رجائی ہے اور تاریک تر راہوں میں بھی امید کی قندیلیں روشن کی ہیں:
ہم آئے ہیں تو چراغاں ہوا ہے گلیوں میں
جو ہم نہ آتے تو یہ رونقیں بڑھاتا کون
چراغ تھام کے میں نے اندھیرے قتل کیے
یہ میں نہ کرتا تو صیقل مجھے بناتا کون
سوچ رہا ہوں بیٹھا اک بندوق اگر مل جائے
مرنا ہے تو ایک سپاہی موت سے کیا گھبرائے
عطا محمد خاں پر جو کچھ گزری ا س کے اظہا رکے لیے وافر الفاظ تو موجود تھے مگر ان کے منفرد تجربات اظہا رکے لیے نئی لفظیات اور نیا ڈکشن بھی لے کر آئے۔ اسی لیے ان کے کلام کی بے ساختگی اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے:
دلوں کی بر ف میں اک آگ سی لگاتا کون
جو ہم نہ ہوتے تو روداد غم سناتا کون
سر کی جگہ صلیب ہے شانو ں کے درمیاں
یہ کس کا جرم کون سے ہاتھوں پر رکھ دیا
میرے بدن کی کاٹ عطا تیز ہے بہت
چھو کر میرے بدن کو تبر کٹ کے گر گئے
عطا نہ تو ملا راکٹی سے کسی طرح کی رحم کی درخواست کرتے ہیں اور نہ کسی نرمی کے خواہاں ہو تے ہیں بلکہ اپنے پندار کا مظاہرہ کرتے ہیں:
میں مانتا ہوں میرے دونوں ہاتھ خالی ہیں
کوئی بھی ساتھ نہیں ہے کہ جس کو اپناکہیں
تمام جسم میرا زخم زخم ہے لیکن
میں ان اندھیروں سے پھر بھی ہوں بر سر پیکار
ان انگلیوں کو ہے عادت دیا جلانے کی
ہر اک غنیم مرے حوصلے سے ڈرتا ہے
میں وہ سپاہی ہوں جو شاعری بھی کرتا ہے
سپاہی کے شاعر ہونے کے سبب ہی عطا محمد خان کی داستان دنیا تک پہنچ سکی، ورنہ ملا راکٹی کے عقوبت خانہ میں گزارے گئے روز و شب داستان پارینہ بن جاتے۔ عطا قلم کے بھی سپاہی ہیں اور حریت فکر کی حرمت کا پاس رکھنے والے بھی۔ قلم کی حرمت کا عطا نے جو پاس رکھا ہے اسے عملی طور پر کر دکھایا ہے۔ ہمارے متعدد ادباء اور شعراء نے اپنی فکر کو کتنی ارزانی سے فرو خت کر دیا اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ مگرعطا تو جھکنے والی نہیں ٹوٹنے والی لکڑی ہے ان کی کج کلاہی دیکھیئے:
وہ لوگ اور ہیں دستار بیچنے والے
یہ ہم ہیں سر کو سرِ دار بیچنے والے
عدو کے پاس یہ آنکھوں کو رہن رکھ آئے
یہ اپنے خوابوں کی جھنکار بیچنے والے
دیے کے ساتھ تعلق نبھا نہیں سکتے
ہوا کے ہاتھ میں کردار بیچنے والے
اٹھائے پھرتے ہیں اپنے سروں پہ بوجھ سدا
یہ اپنا گھر درو دیوار بیچنے والے
یہ ساتھ دیتے ہیں یوں بھی سلگتے سورج کا
چرا کے شہر کے اشجار بیچنے والے
عطا یہ لوگ یہ قامت انا کی کیا جانیں
عطا یہ جبہ و دستار بیچنے والے
میرا مقصد عطا محمد خاں کی شاعری کے معیار کا تعین کرنا نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اردو شعرا کی صف میں یکہ و تنہا اور منفرد مثال ہیں۔ ان کا کہنا درست ہے:
وقت نے چاند کی صورت ہے اچھالا مجھ کو
ہاں بہت ہے سر زنداں کا حوالہ مجھ کو
عطا کی شاعری در اصل ان کے دہان زخم سے نکلی ہوئی صدائیں ہیں جنہیں آپ کسی مخصوص صنف کے خانے میں محصور نہیں کر سکتے۔