ملا وجہی کا شمار دکن میں اردو کے ابتدائی مصنفین میں ہوتا ہے ۔ان کی داستان سب رس کو اردو کی قدیم اور قابل ذکر داستانوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ملاوجہی کو اردو ،فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وجہی کے زمانے میں اردو ترقی یافتہ شکل میں نہیں تھی۔انہوں نے اسے عام بول چال کی زبان کی سطح سے اٹھا کر ادبی زبان بنانے کی اولین کوشش کی۔ان کی کتاب سب رس عشق و محبت کی داستاں ہونے کے ساتھ ساتھ پند و نصائح کا مرقع ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے قاری کی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ داستاں میں اخلاقیات کی پاس داری اور مقصدیت کا بھی لحاظ رکھا ہے۔
سب رس عشق اور عقل اور دل کی داستان ہے۔جسے تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔عقل مغرب کا بادشاہ ہے جب کہ عشق کا تعلق مشرق سے ہے۔عقل کا ملک شبستان ہے۔عشق کی ایک بیٹی ہے جس کانام حسن ہے۔جب کہ دل عقل کا بیٹا ہے۔دل جب جوان ہوا تو اس نے کسی سے آب حیات کا ذکر سنا۔اس کے دل میں اسے حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ پتہ چلا کہ کوہ قاف میں ایک دیدار نام کا شہر ہے اور وہاں ایک باغ ہے جس کانام رخسار ہے۔اسی باغ میں کہیں ایک آب حیات کا چشمہ بہتا ہے۔اس نے اپنے جاسوس نظر کو بھیجا کہ وہ خبر لے کر آئے۔ںظر مصائب برداشت کرتا ہوا وہاں پہنچا اور حسن سے ملا اور دل کے تڑپنے کی داستاں بیاں کی۔حسن نے اپنے غلام خیال کو نظر کے ساتھ بھیج دیا۔خیال نے دل کو حسن کی ایسی تصویر کھینچ کے دکھائی کہ دل مزید دیوانہ ہو گیا۔ دل اپنے جاسوس نظر سے مشورہ کرکے شہردیدار کا رخ کرتا ہے۔مگر عقل اور عشق کی افواج میں جنگ ہوجاتی ہے۔جس میں عشق کو میدان چھوڑنا پڑجاتا ہے۔حسن دوبارہ چڑھائی کرتا ہے اور دل اس کے تیر کا شکار ہوجاتا ہے۔اسے گرفتار کر کے حسن کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے۔یوں حسن اور عشق کی ملاقات تو ہوجاتی ہے لیکن رقیب پیچھے لگ جاتے ہیں۔داستاں کے آخر میں عقل عشق بادشاہ کا وزیر بن جاتا ہے اور دونوں کے صلاح و مشورے سے حسن اور عشق کی شادی کا فیصلہ ہو تاہے۔ ۔اس طرح قصہ تمام ہوجاتاہے۔
سب رس کا اسلوب اپنے زمانے کی دیگر داستانوں سے جدا ہے اس میں مصنف نے زباں کے رکھ رکھائو پر خاص توجہ صرف کی ہے۔ یہی خوبی اسے اس دور کے دیگر فن پاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
کہانی میں پند و نصائح سے کام لیا گیا ہے یوں یہ داستاں مجازی عشق کی کہانی ہوتے ہوئے بھی مقصدیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔۔
ملاوجہی اگر چہ دکن کے ابتدائی دور کے لکھاری ہیں لیکن انہوں نے اس قصے میں اپنی فنی مہارت کاثبوت دیا ہے۔جس سے قصہ پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہی ہے۔قصے میں بتاہیا گیا ہے کہ عقل ہمیشہ اعتدال پسندی کی راہ دکھاتی ہے مگر دل جذبات کا شکار ہو کر ہر حد پار کر جانے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر چہ یہ قصہ اپنے آپ میں ایک عجیب و غریب اور اپنے وقت کی منفرد داستاں ہے لیکن اس کی کہانی میں فنی حوالے سے سقم پائے جاتے ہہیں
ملاوجہی کہانی بیان کرتے ہوئے جابجا نصیحت کے دفتر کھول دیتے ہیں جس سے کہانی کا مزی کرکرا ہوجاتا ہے۔
اس قصے میں کرداروں کی بھرمار کردی گئی ہے۔پڑھنے والے کی توجہ ذرا سی ادھر ہوئی اور سارے کردار آپس میں گڈ مڈ ہوگئے۔
یہ کہانی چوں کہ ایک تمثیل ہے اس میں علامتی کرداردل،حسن،نظر،عشق وغیرہ پیش کئے گئے ہیں۔ایسے کرداروں پر مبنی داستاں پڑھتے ہوئے وہ حقیقی ماحول اور تاثر پیدا نہیں ہوتا جو جیتے جاگتے انسانوں پر مشتمل کہانی پرھتے ہوئے ابھرتا ہے۔
ساری داستاں میں ایک عجیب اور نامانوس فضا چھائی رہی ہے۔
داستاں میں صرفی و نحوی حوالے سے خامیاں پائی جاتی ہیں
اس داستاں کو آنے والے دیگر ادوار کےی داستانوں کے مقابلے میں نہیں رکھا جاسکتا کیوں کہ اس وقت زباں سانچے میں ڈھلی ڈھلائی نہیں تھی۔