شمس الرحمٰن فاروقی کا فکشن(مقدمہ مجموعۂ شمس الرحمن فاروقی)  ۔ ۔ ۔ محمد حمید شاہد

شمس الرحمٰن فاروقی کا فکشن اُردو ادب کا ایک مکمل باب ہے۔
اس باب کا مطالعہ تب ہی ڈھنگ سے ممکن ہو پائے گا کہ اُردوادب کی اس جید شخصیت کے فکشن کو مکمل صورت میں پڑھا جائے۔ فاروقی صاحب کے اس مجموعے کو مرتب کرنے کا خیال اُن کی زندگی ہی میں زیرِبحث آیا تھا مگر فیصلہ ہوا تھا کہ اس کی ابتدا اُن کے تہذیبی دستاویز ہو جانے والے ناول ”کئی چاند تھے سرِآسماں” سے کی جائے۔ اس ناول کی نئی اشاعت ان کی زندگی میں ہوئی مگر اس مجموعے کی ترتیب سے پہلے ہی وہ کووڈ19 کا شکار ہو کر ہسپتال جا پہنچے ۔ کووڈ سے نپٹ چکے تو بھی صحت بحال نہ ہوئی اور 25 دسمبر 2020ء کو وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے اور اس باب میں ہمیں ان کی وہ رہنمائی اور معاونت میسر نہیں جو اُن کے ہوتے ہوئے ممکن تھی۔
اُردو تنقید میں اپنے عہد کا سب سے بڑا نام ہوجانے والے شمس الرحمٰن فاروقی کی شاعری کے علاوہ ایک اور تخلیقی جہت ان کا فکشن ہے۔ ان کے فکشن نے ادبی حلقوں کو تب متوجہ کیا تھا جب وہ اپنی عمر کے لگ بھگ باسٹھ تریسٹھ سال بتا چکے تھے۔ لیکن کیا یہ واقعہ اچانک ایک روشن صبح کو ہو گیا تھا۔ یقیناً ایسا نہیں تھا ۔ اپنی ادبی زندگی کے آغاز سے ہی وہ فکشن کی طرف متوجہ تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ جیسا فکشن وہ لکھنا چاہتے تھے اس کی صورت انھیں نہیں سوجھ رہی تھی۔ یہ سارے مراحل کیسے طے ہوئے اور تنقید کا بڑا نام فکشن کا بھی بڑا نام کیسے بنا، یہ جاننے کے لیے اُن سب تحریروں کی جستجو ہوئی جو اُن کے قلم سے فکشن کی ذیل میں نکلیں۔
فاروقی صاحب کے افسانوں کا مجموعہ اور دونوں ناول تو دسترس میں تھے مگر اُن کا وہ کام جو ان کی زندگی میں کسی مجموعے کا حصہ نہیں بن پایا تھا اُسے ڈھونڈ نکالنے کا مرحلہ درپیش تھا۔اُنھوں نے مختلف اوقات میں خود مجھ سے اپنے فکشن کی کچھ تخلیقات کا ذِکر کیا تھا۔ ان میں سے دو تو ناول ہیں جو چھپ کر قبولِ عام کی سند پا چکے ہیں: ”کئی چاند تھے سرِ آسماں” اور”قبض زماں” اور تیسرا وہ طویل افسانہ جو ان کے مجموعے کی اشاعت کے بعد لکھا گیا تھا۔ یہ افسانہ”باقی فانی” تھا جو بھارت میں اپنے دوستوں کی مدد سے محترمہ شہناز نبی کی ادارت میں کلکتہ سے شائع ہونے والے ”رہروانِ ادب” کے جنوری تا جون 2020ء کے شمارے سے ڈھونڈ نکالا گیا۔ میری نظر میں یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ ”سوار اور دوسرے افسانے” کے دیباچے میں فاروقی صاحب نے ”گلستان” کے لیے لکھے گئے افسانوں اور کچھ اور افسانوں کے علاوہ ایک ناولٹ”دلدل سے باہر”کا ذکر کیا تھا جسے انھوں نے تین بار لکھا اور میرٹھ سے شائع ہونے والے رسالے معیار میں 1950ء یا 1951ء کے چار شماروں میں قسط وار شائع کروایا تھا مگر یہ افسانے ملے اور نہ ناول۔ پاکستان میں بیٹھ کر وہاں کے دوستوں کو جتنی مشقت میں ڈالا جا سکتا تھا ڈالاگیا مگر شاید ابھی ان تحریروںکے سامنے آنے کا وقت نہ آیا تھا ۔
” سوار اور دوسرے افسانے”کے دیباچے ہی میں فاروقی صاحب نے یہ بھی بتارکھا ہے کہ” شب خون” کے پہلے ہی شمارے میں کئی چیزیں ایسی شامل تھیں جو لکھی تو انھوں نے تھیں لیکن ان پر نام کچھ اور تھے۔ان میں سے دو نام جو بتائے گئے ” شہرزاد” اور ”جاوید جمیل” تھے۔ فاروقی صاحب نے اسی تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ:
”گویا افسانہ نگار بننے کا موقع مجھے دوبارہ ہاتھ آیا تھالیکن پھر بھی معاملہ زیادہ تر افسانوں اور ڈراموں کے تراجم تک محدود رہا ۔ دوچار برس میں تنقید اور تبصرہ نے مجھے اس درجہ اپنالیا کہ افسانہ نگاری میری سوتیلی اولاد بھی نہ رہی۔”
”شب خون” کے پہلے شمارے ہی سے لکھنے والوں کا مختصر تعارف شامل کیا جاتا تھا۔ مجھے جستجو ہوئی کہ دیکھوں تو بھلاان فرضی مصنّفین کا تعارف کن لفظوں میں کرایا گیا ہے۔” شہرزاد” کے نام سے ”شب خون” کے جون 1966ء کے پہلے شمارے میں ”بھیانک افسانہ” کے تحت ”ہرایک راہ رو کے ساتھ” کے عنوان اور مصنف کی طرف سے طویل تعارفی نوٹ کے ساتھ ایک تحریر شامل کی گئی تھی۔ اس افسانے کے آخر میں بھی ایک نوٹ تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ افسانہ پلاٹ اور واقعات کے اعتبار سے عہد جدید کے بھیانک افسانہ کے بادشاہ امریکی افسانہ نگار رابرٹ بلاخ کی کسی کہانی سے ماخوذ تھا۔ اس شمارے کے صفحہ نمبر 80پر ”اس بزم میں” کے عنوان تلے اپندر ناتھ اشک، پروفیسر سید احتشام حسین، اصغر زیدی، الاچندر جوشی، امینہ عکس، بشیر نواز، جوہر بجنوری، حامد حسین حامد، حبیب احمد صدیقی، ڈاکٹر خلیل الرحمٰن، رام لعل، ڈاکٹر راہی معصوم رضا، سلیمان اریب اور ڈاکٹر ستیاورسرن کے بعد شہرزاد کا تعارف بھی موجود تھا: ”شہرزاد: اپنے کیے ہوئے ترجموں کی طرح بھیانک نہیں تو پراسرار ضرور ہیں۔ ہمارے استفسار کے جواب میں انھوں نے لکھا۔ ع ”کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔ ” جبکہ صبا جائسی، عمیق حنفی، فراق گورکھپوری، فضیل جعفری، ڈاکٹر سید محمد عقیل، پروفیسر مسیح الزماں، اور منظورالامین کے بعد سب سے آخر میں شمس الرحمٰن فاروقی سمیت عثمان عارفی، حمدون عثمانی اور انتخاب سید کا اجتماعی تعارف یوں تھا:”الٰہ آباد کے نئے شاعرو ادیب ہیںاور ‘تازہ واردان بساط ہوائے دل’کی حیثیت رکھتے ہیں۔”کہہ لیجیے شمس الرحمٰن فاروقی نے ــ”ہر راہ رو کے ساتھ” کے مصنف والا تعارف قصداً پردے میں رکھا اور اپنی ان تحریروں سے فاصلے پر رہے جو فرضی ناموں سے شائع ہونے لگی تھیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ فاروقی صاحب ”شعرائے الٰہ آباد” اور ”مرضیات جنسی کی نفسیات” جیسی تحریروں پر اپنا نام دے رہے تھے مگرماخوذ کہانیوں اور کہانیوں کے تراجم کے لیے انھوں نے ایک فکشنی نام متعارف کروانے کااہتمام کیا تھا۔
اپنے نام کے بجائے کسی ایسے نام سے لکھنا جس کا اُن کے اپنے فکشن کی دُنیا سے باہر کوئی وجود نہ تھا پہلا اور آخری واقعہ نہ تھا۔ انھوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور اس ضمن کا دوسرا نام جو انھوں نے خود بتا رکھا ہے ”جاوید جمیل” تھا۔ اس فرضی مصنف جاوید جمیل کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس کے نام سے” شب خون” کے آخری برسوں تک کئی زبانوں کے تراجم شامل اشاعت ہوتے رہے۔ ”جاوید جمیل ” کی پیدائش بہ طور مصنف ”شہرزاد” سے بعد کا واقعہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پہلی بار ”شب خون” کے چوتھے شمارے میں ایک مضمون ”بیلے:ایک مختصر تعارف” کے ساتھ طلوع ہوا۔ شاید فاروقی صاحب اوّل اوّل ”شہرزاد” کو ”بھیانک افسانوں” کے مصنف کے طور پر محدود رکھنا چاہتے ہوں گے جبکہ وہ خود ایک ساتھ کئی شعبوں میں سرگرم تھے۔ ایسے میں سارا بوجھ” شہرزاد” سے اُٹھوانا بھانڈا پھوڑ سکتا تھا لہٰذا انھیں ایک اور مصنف تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ ”جاوید جمیل” کی ”شب خون” کے سارے شماروں میں شائع ہونے والی کُل تخلیقات ایک چوتھائی سیکڑا ہیں۔ ان میں مضامین ، افسانے ، افسانوں کے تراجم، ڈراموں کے تراجم اور رپورتاژ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ ”شہرزاد” کے معاملے میں یہ التزام رکھا گیا کہ اس نام سے افسانہ، افسانے کا ترجمہ اور ڈرامہ ہی شائع ہو ۔ کسی اور نام کی اوٹ میں رہ کر فکشن لکھنے کا سلسلہ یہاں رُکا نہیں۔ تاہم جب یہ آخری مرحلے میں پہنچا اور کچھ کامیابیاں فاروقی صاحب کے فکشن کے حصے میں آئیں تو ان کا جی چاہنے لگا تھا کہ وہ یہ پردہ کھینچ کر ایک طرف کر دیں اور اپنے قامت کے ساتھ باہر آئیں ۔
اکتوبر 1998ء میں” شب خون” کی ایک خاص اشاعت سامنے آتی ہے۔ جی، میری مراد شمارہ نمبر 220 سے ہے جس کے سرورق پر غالب کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ اس میں ایک نیا فرضی مصنف ”بینی مادھو رسوا” موجود ہے۔ اس کے نام سے ”غالب افسانہ” جیسی اُردو دنیا میں بھرپور توجہ پالینے والی تخلیق شامل ہے۔ اس شمارے کے آخری صفحات میں ”اس بزم میں” کے ذیل میں ”بینی مادھو رسوا” کا تعارف ان لفظوں میں ہے: ”بینی مادھو رسوا” کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ قارئین اس تحریر سے متعلق اپنے تاثرات سے آگاہ کریں”۔ یہ نام بس اسی ”غالب افسانہ” تک ہی کارآمد رہتا ہے کہ یہ محض اس افسانے کا مصنف ہی نہ تھا افسانے کے متن میں بہ طور راوی کردار بھی موجود تھا۔ ”غالب افسانہ” اتنا کامیاب رہا تھا کہ فاروقی صاحب کے اندر اس جانب متوجہ رہنے کی تاہنگ بڑھتی چلی گئی کہ دراصل یہی وہ اسلوب تھا جس کی وہ تلاش میں تھے۔
اگرچہ انھوں نے جدیدیت کی ترویج کے لیے بہت کام کیا مگروہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ جدید تہذیب متروکیت یعنی Obsolescence کی تہذیب تھی۔ بہ قول اُن کے مغربی دُنیا میں متروکیت کا اس قدر دور دورہ تھا کہ عالم اور طالب علم سب اس پھیر میں تھے کہ کوئی نیا نظریہ اور کوئی نئی بات پیدا کی جائے جب کہ تہذیب کی دنیا میں نئی چیزیں بڑی مشکل سے قائم ہوتی ہیں۔ فاروقی صاحب کا مسئلہ اپنی تہذیب سے جڑنا اور اسے جوڑے رکھنا تھا۔اُن کے خیال میں ہندوستان میں سامراجی نظام کے دبائو میں سب سے زیادہ نقصان اُردو کو پہنچا تھا۔ ”شعر، غیر شعر اور نثر ”کی دوسری اشاعت(1998ء) میں انھوں نے ”پس نوشت” کے طور پر جو تحریر شامل کی تھی، اس میں ان کا نقطہ نظر تھا کہ اُردوزبان، ادب اور تہذیب ہر لحاظ سے کم عمر ہونے کے باوجود سارے ہندوستان میں مقبول تھی۔ دُور دراز صوبوں میں بولی جاتی تھی۔ اس زبان نے فارسی، سنسکرت اور بعض مقامی علاقائی زبانوں سے بھی، مسلسل اور دور رس فائدہ اٹھایا اور سب کی محبوب ہو گئی تھی لہٰذا اُردو والوں کو یہ باور کرانا کہ تمھارا ادب ناکارہ ، زوال یافتہ اور اخلاقی اور عملی اعتبار سے دیوالیہ ہے،انگریزوں کے تہذہبی اور تعلیماتی ایجنڈے میں سر فہرست تھا۔ انگریز اس ایجنڈے کو اتنی کامیابی کے ساتھ سامنے لایا تھا کہ ہم نے خود اس کے زیرِ اثر اپنی تہذیبی میراث کو اپنے لیے باعث شرم کہنا شروع کر دیا۔ فاروقی صاحب اس صورت حال پر کڑھتے رہے تھے اور ”غالب افسانہ” لکھ کر انھیں لگا تھا کہ وہ جو اُن پر اپنی تہذیب اور تاریخ کا قرض تھا اسے ادا کرنے کی صورت نکل آئی تھی۔ فاروقی صاحب کے فکشن کی اس نئی جہت کو سمجھنے کے لیے ”شعر، غیر شعر اور نثر” سے اقتباس ملاحظہ ہو:
”ایسی صورت میں ہماری پہلی ضرورت اپنے کھوئے ہوئے تہذیبی وقار اور خود اعتمادی کو بحال کرنے کی ہے۔ چاہے اس کام کے دوران ہمیں مغرب پرستوں سے یہ طعنہ ہی کیوں نہ سننا پڑے کہ ہم ”قدامت پرست” ہوئے جارہے ہیں۔ اگر اپنی تہذیبی اور ادبی میراث کو دوبارہ حاصل کرنے کی قیمت ”قدامت پرست” یا ”رجعت بیں” کہلانا ہے تو کیا حرج ہے؟ مغربی اقوام تو اس سے بڑی قیمت وصول کرکے بھی نہ مطمئن ہوں گی۔”
اسی تحریر میں انھوں نے اپنی تہذیب اور تاریخ کی قدر پہچاننے کے عملی اقدامات اٹھانے پر زور دیا اورتجویز دی تھی کہ مغرب سے آئی ہوئی ہربات کو بے چوں و چراں قبول نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ مرعوبیت کے بجائے برابری کا معاملہ کیا جائے ۔ اس تحریر کے آخر میں وہ لکھتے ہیں:
”آج ہمارے لیے سب سے بڑے کام یہ ہیں۔ اوّل تو اپنی تہذیبی میراث کی قدرو قیمت کو پھر سے قائم کرنا، اور اس کے لیے سب سے پہلا یہ قدم اٹھانا کہ کلاسیکی شعریات کو اسٹیج کے مرکز میں لے آنا۔ ملحوظ رہے یہ شعریات محض غزل کے لیے نہیں، بلکہ تمام کلاسیکی اصناف شعر و نثر کے لیے ہمارے کام آئے گی۔”
فاروقی صاحب نے ”غالب افسانہ” لکھا تو یہی کلاسیکی شعریات اُن کے کام آرہی تھی اور اپنی تہذیبی اور ادبی میراث کی قدروقیمت قائم کرنے کا یہی جذبہ کام کر رہا تھا۔ اس باب میں انھیں غیر معمولی کامیابی ملی تھی۔ وہ خوش تھے کہ جو وہ کہنا چاہتے تھے اور جس اسلوب میں کہنا چاہتے اس کی تخلیقی صورت انھیں سوجھ گئی تھی ۔ فکشن کے اندر جس کامیابی کی وہ تمنا رکھتے تھے وہ انھیں ملنے لگی تو وہ آگے بڑھے اور ایک اور افسانہ لکھا”لاہور کا ایک واقعہ”۔ یہ افسانہ لکھ کر اگرچہ وہ مطمئن تھے کہ قدرت نے اُن کے اندر جو افسانہ نگاری کی صلاحیت رکھی تھی، تنقید نگاری اور اس باب کی کامیابیوں نے اسے ضائع نہیں کیا تھا ۔ وہ نہ صرف محفوظ تھی ، اسے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہ بھی مل گئی تھی۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ ”لاہور کا ایک واقعہ” کامیاب افسانہ تو تھا مگر وہ اس نئے افسانے میں ادبی تہذیب اور تاریخ کی مدہم گونج سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے لہٰذاپھر سے ایک اور فرضی نام کی تلاش ہوئی تاکہ بہ طور مصنف اس کا نام اس افسانے کے ساتھ چھپ سکے۔ اس بار جو نام تخلیق ہوا وہ”عمر شیخ مرزا” تھا۔ یہی نام ”سوار”، ”ان صحبتوں میں آخر” اور ”آفتاب زمیں” کے ساتھ بہ طور مصنف شائع ہوتا رہا ۔بعد کے سب افسانوں میں ادبی تہذیب اور تاریخ کی گونج فاروقی صاحب کی منشا کے عین مطابق ہو گئی تھی۔ لہٰذاان افسانوں کا مجموعہ چھپا تو کسی فرضی نام کی ضرورت نہ رہی تھی۔ فاروقی صاحب اسے اپنے نام سے سامنے لا رہے تھے اور اسی دوران وہ اپنے تہذیبی اور تاریخی مرقع ہو جانے والے ناول ”کئی چاند تھے سرِ آسماں” کو لکھنے کا بھی آغاز کر چکے تھے۔
اس مجموعے میں فاروقی صاحب کے فکشن کے اس سارے سرمائے کو بہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہمیں اب تک دستیاب ہو سکاہے۔ اُن کا ضخیم ناول ”کئی چاند تھے سرِ آسماں” چوں کہ پورے اہتمام سے اور فاروقی صاحب کی خواہش کے مطابق اس خاکسار کے دیباچے کے ساتھ شائع ہو چکا ہے اور اسے دوسرے کام کے ساتھ ایک جلد میں چھاپنا ممکن بھی نہیں تھا، اس لیے باقی کا سارا کام اس مجموعے میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ جی، چاہے یہ کام فاروقی صاحب کے اپنے نام سے سامنے آیا یا پھر انھوں نے کسی اور نام کی آڑ لے کر اسے لکھا وہ اب اس مجموعے کا حصہ ہے۔
اس ضمن میں یہ قرینہ برتا گیا ہے کہ سارے کام کودرج ذیل پانچ حصوں میں مدون کر دیا جائے:
۱۔ پہلے حصے میں ان کا غیر مدون افسانہ ”فانی باقی” رکھا گیا ہے جو ان کے اپنے نام کے ساتھ شائع ہوا تھا۔
۲۔ دوسرے حصے میں وہ پانچ افسانے ہیں جو ان کی زندگی میں ہی ایک مجموعے ”سوار اور دوسرے افسانے” کی صورت، ان کے اپنے نام کے ساتھ، ایک خاص ترتیب میں سامنے آچکے تھے۔
۳۔ تیسرے حصے میں فاروقی صاحب کا مختصر ناول ”قبضِ زماں ” ہے ۔
۴۔ چوتھے حصے میں وہ افسانے ہیں جو طبع زاد تو ہیں مگر کسی اور نام سے چھپے اور اسی حصے میں وہ افسانے بھی شامل کر دیے گئے ہیں جن کا خیال یا اسلوب ماخوذ تھا۔
۵۔ پانچویں اور آخری حصے میں فاروقی صاحب کے کیے ہوئے انگریزی کے، یا انگریزی سے دوسری زبانوں کے افسانوں کے تراجم ہیں۔ اسی حصے میں ان کے کیے ہوئے ڈراموں کے تراجم بھی فراہم کر دیے گئے ہیں ۔ بتایا جاچکا ہے کہ یہ تراجم بھی فاروقی صاحب کے نام سے شائع نہیں ہوئے تھے تاہم ان میں ایلن کیپرو کی ایک ایسی تحریر بھی شامل ہے جسے ترجمہ تو مہر افشاں فاروقی نے کیا ہے مگر ترجمے کی نظر ثانی میں فاروقی صاحب کا اپنا نام موجود ہے۔

فاروقی صاحب کے شہرہ آفاق ناول ”کئی چاند تھے سرِآسماں” کے ابتدائی ابواب اُن قارئین کے لیے بطور ضمیمہ شامل ہیں جنھوں نے ابھی تک یہ ناول نہیں پڑھا۔ تاہم مناسب یہ ہو گا کہ یہ ناول پوری توجہ سے مکمل صورت میں پڑھا جائے جسے بک کارنر نے پہلے اہتمام کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اس اہتمام کے نتیجے میں اس عہد کی سب سے جید ادبی شخصیت کے فکشن کا مطالعہ درست درست تناظر میں ممکن ہو پائے گا۔ میں اشاعتی دُنیا میں قابل قدر خدمات انجام دینے والے ادارے ”بک کارنر” جہلم کے سربراہان گگن شاہد اورامر شاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس مجموعے کی اس اہتمام سے اشاعت ان کی ذاتی توجہ اور معاونت کے بغیر ممکن نہ تھی۔

Related posts

Leave a Comment