سرور ارمان بہ حیثیت شاعر بھی تسلیم کیے گئے ہیں اور بہ حیثیت مدیر بھی۔ مگر اُن کی وجہِ شہرت شاعری ہے، وہ شاعری عام ڈگر سے ہٹ کر کرتے ہیں اور نثر لکھتے ہیں تو تحقیق کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر موجودہ حقائق کی حقیقت کو بڑی صاف گوئی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یہی ان کا وصفِ خاص ہے۔
سرور ارمان ترقی پسند فکر کو آگے بڑھانے والے شاعر اور ادیب ہے ان کے فن کا اعتراف اُردو ادب کے جید ناقدین، مشاہیرِ ادب، اہلِ علم و ہنر اور صاحبِ اسلوب شعرا نے کیا ہیں۔ عارف عبد المتین، رئیس امروہوی اور افتخار عارف جیسے دیگر قد آور لوگوں نے ان کے فنِ شعر کی داد دی ہے۔
ان کے دوسرے شعری مجموعے ’’زنجیر بولتی ہے‘‘ کے دیباچہ میں افتخار عارف رقم طراز ہے کہ ’’سرور ارمان ہمارے ان خوش گو تخلیق کاروں میں سے ہیں جو پاکستان کے مرکزی شہروں سے دور رہ کر بھی ایسی شاعری کر رہے ہیں جو دامن کش ہوتی ہے۔
تیکھا ، کاٹ دار اور کرارا مصرعہ کہنا مشکل کام ہے۔ اس راستے کی مشکلات و مسائل وہی لوگ بہتر جانتے ہیں جن کی عمر شعر و ادب کی دشت پیمائی میں گزری ہو۔ سرور ارمان کو نئی بات نئی طرح سے کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔‘‘ سرور ارمان زبان و بیان اور اسلوبِ تازہ کے ساتھ عمیق مشاہدات، تلخ و شیریں تجربات کو شعری قالب میں ڈھالنے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔
انہوں نے کچھ نئے تجرباتِ سخن بھی کیے ہیں اور یہ تجرباتِ نو زندہ شاعری کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے اپنی شعری صورت گری کا سفر روایتوں کے ساتھ ساتھ نیم جدید انداز کے تحت جاری رکھا ہُوا ہے۔ وہ زندگی کے تلخ حقیقتوں پر افسردہ بھی دکھائی دیتے ہوئے گزرتے سمے کے ساتھ ساتھ ہر سحر کے بعد آنے والی راتوں کے اندھیروں میں اُجالوں کا پتہ یوں ڈھونڈتے ہیں۔
ہم تو موجود تھے راتوں میں اُجالوں کی طرح
لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح
بحیثیت شاعر سرور ارمان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کی شاعری ہر دور کی آواز ہیں۔ ایک ایسی آواز جو کسی بھی وقت انقلاب لانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی خوب ترجمانی کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کی گہری ، فکری، پختگی کا اظہار لیے ہوئے ادبی دنیا میں اپنا منفرد تشخص رکھتی ہے۔ ناز عدیل نیر لکھتے ہیں کہ ’’ سرور ارمان کے پاس خیال کی طاقت بھی ہے اور اظہار کا سلیقہ بھی۔ اس کے نتائجِ فکر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس کے فکر و فن اور اسلوب سے انکار ممکن نہیں وہ خالصتا اپنے خیال و حرف کی طاقت پہ زندہ ہے۔‘‘ سرور ارمان گروہی ستائش اور وقتی داد و تحسین سے بے نیاز ہمارے ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جنہوں نے لالچ اور شہرت سے بے نیاز ہو کر فروغ علم ادب کے لیے اپنی خدمات سرانجام دی۔
سرور ارمان وہ بے باک قلم کے سپاہی ہے جو انسان کی عظمت کے معترف اور جاگیرداری، سرمایہ داری کے نظام ، جبرو ظلم کے استحصال کے سخت خلاف ہے۔
ان کی شاعری انسانیت کی تذلیل اور غلامی کے خلاف ہمہ گیر کھلا احتجاج ہے۔ سرور ارمان جدید اُردو نظم و غزل کے بڑے اہم شاعر ہیں ، اگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ عہدِ حاضر کے ایک رجحان ساز شاعر ہیں تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ ، فیض احمد فیض، شورش کاشمیری ، حبیب جالب کی طرح معاشرے میں بہت بڑا انقلاب دیکھنے کے خواہش مند ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
رات کے اندھیروں سے جنگ کرنیوالوں نے
صبح کی ہتھیلی پر آفتاب رکھنا ہے
……
لوٹ لے جاتا ہے بس چلتا ہے جس کا ، جتنا
روشنی شہر میں تقسیم کہاں ہوتی ہے
……
ختم ہو جائے گا جس دن لفظ و معنی کا تضاد
میرا دعویٰ ہے کہ تکمیلِ بشر ہو جائے گا
ارمان صاحب نے شعر گوئی کی ابتداء زمانہ طالبِ علمی سے کی۔ ان کے شعری اثاثے میں سرابِ مسلسل ، زنجیر بولتی ہے، وہی آبلے مرے پاؤں کے ، ہمارے درد کتنے مشترک ہیں ، نعتیہ شعری مجموعہ ’’ متاعِ عمرِ رواں‘‘ اور ایک منتخب شعراء کے کلام پر مبنی انتخاب ’’ تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو‘‘ شامل ہیں۔
ارمان صاحب ایک ادبی مجلہ ’’ زربفت ‘‘ کے مدیر بھی ہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات سن دو ہزار گیارہ میں ایک ماہنامہ کے آفس میں عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر ، کالم نگار سعد اللہ شاہ اور خوبصورت لب و لہجے کے جواں فکر شاعر عمران شناور کے ہمراہ ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں ان کی بے پناہ محبت نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔
آج بھی میں ان کی محبتوں، رفاقتوں اور صداقتوں کا امین ہوں۔ انہیں اپنے حلقہ احباب میں تحسین و تعظیم کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
ادب اور ادیب کے بارے میں فکر مند رہنے والے سرور ارمان اپنے شعر و سخن میں اُستاد کے متعلق بتاتے ہیں کہ ’’ مجھے بہت آرزو رہی کہ کسی جید استاد کے حضور زانوئے تلامذہ کر کے علمی و فنی استفادہ کروں لیکن اتفاق سے دورانِ تعلیم اور بعدازاں ایسا ممکن نہیں ہُوا۔ البتہ میں نے احباب کی محفلوں ، بڑوں کی صحبتوں سے بہت فیض حاصل کیا۔ میں نے بہت سی ہستیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ عارف عبدالمتین سے مجھے بے پناہ عقیدت رہی۔ ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے میری کتاب ’’عارف عبدالمتین ‘‘ میری یادوں کا خوبصورت حوالہ ہیں۔
میری خوش بختی ہے کہ مجھے دنیائے ادب کی عظیم ہستیوں سے ملنے کا شرف حاصل ہُوا جن میں فیض احمد فیض، عارف عبد المتین، ظہیر کاشمیری، قمر اجنالوی، حبیب جالب، سبطِ حسن، شوکت صدیقی اور جون ایلیا ودیگر شامل ہیں۔‘‘
شاعری کے بعد ان کی نثر نگاری پر بات کریں تو انہوں نے نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ بہ طور مدیر ان کی تحریروں کو خاص طور پر چھاپنے کا اہتمام کیا ، متعدد قومی اخبارات کے ادبی ایڈیشن میں سینکڑوں کتابوں پر بلا امتیاز تبصرے لکھتے رہے اور مضامین و فلیپ لکھنے میں خاصے مقبول ہیں اور اچھے ادب کی تخلیق پر داد دیتے ہیں۔
ان کے گھر میں مکمل ادبی ماحول ہے ان کے دونوں بیٹے ساحر ارمان اور آرزو ارمان بہت عمدہ شاعر ہیں۔ وہ ہر وقت تخلیقی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لکھنے اور پڑھنے میں مگن رہتے ہیں۔ وہ دائیں ہاتھ سے لکھتے اور کچی پنسل، پیپر بورڈ کا استعمال کرتے ہیں ، انہوں نے جہاں بڑوں کے لیے ادب تخلیق کیا وہی بچوں کی شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں تخلص کرنے یا غزل میں مقطع نہ کہنے کی کوئی خاص وجہ نہیں رکھتے۔ سرور ارمان بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔
ان کی زیر نظر کتاب ’’عارف عبدالمتین میری نظر میں‘‘ سرور ارمان کی عقیدت اور محبت کی روداد ہے، ایسی محبت کہ جس کا ہر پہلو حقیقت پر مبنی ہیں۔
اس کتاب کا دیباچہ میں محمد اکرم سعید لکھتے ہیں کہ ’’ ملاقاتوں کا تذکرہ ، شفقت آمیز میزبانی، ادبی مباحث، نظریات کی پختگی، اختلافِ رائے میں بھی لہجے کی وہی مٹھاس، گویا شخصیت کا ہر پہلو روشن اور نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور پھر فن کے ہر پہلو پر غیر جانبدارانہ مگر مدلل تبصرہ اور تجزیہ ، جس میں ایک عالمانہ شان بھی ہے اور سرور ارمان کی بصارت اور بصیرت کا منفرد انداز بھی اور اظہار بھی۔ یہ ایک مکمل ’’عارف نامہ‘‘ ہے، سرور ارمان نے ہمارا قرض چکایا ہے، تپتے صحرا میں پھول اُگائے ہیں۔‘‘
اس کتاب کے پہلے باب میں عارف عبدالمتین کی یادیں اور ملاقاتیں، دوسرے باب میں ’’ عارف عبدالمتین ماہ و سال کے آئینے میں‘‘، تیسرے باب میں ’’عارف عبدالمتین کی اُردو شاعری‘‘، چوتھے باب میں ’’بحیثیت پنجابی شاعر‘‘، پانچویں باب میں ’’ بحیثیت نعت گو‘‘ اور چھٹے آخری باب میں ان کی ’’ تنقید نگاری ‘‘ پر بڑی ورق ریزی کے ساتھ ان کی شخصیت و فن پر گہری نظر ڈالی گئی ہیں۔
اس کتاب میں سرور ارمانِ ماضی کے بہت سے خوش گوار اور یادگار واقعات کو بڑی صداقت کے ساتھ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب اردو تنقید میں ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی۔ میری دعا ہے کہ اللہ ان کو اور ان کے قلم کو سلامت رکھے کیونکہ اس میں وطن کی فکر اور قوم کا درد ہے۔
دیکھنا گردش حالات سے ٹکراتا ہُوا
کوئی سرور تو نہیں ہے کوئی ارماں تو نہیں