عبدالحفیظ ظفر ۔۔۔ حفیظ ہوشیارپوری : ایک عمدہ غزل گو

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ غزل اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کی مقبولیت میں گلو کارہ نسیم بیگم اور گلو کار مہدی حسن نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے جس خوبصورتی سے اس غزل کو گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اور پھر یہ فیصلہ کرنا بھی سہل نہیں کہ دونوں میں سے زیادہ اچھا کس نے گایا۔ یہ لازوال غزل حفیظ ہوشیار پوری کی ہے جنہوں نے اپنی شاندار غزل گوئی سے خوب نام پیدا کیا۔

یکم جنوری 1912ء کو جھنگ میں جنم لینے والے حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ ان کے آبائو اجداد کا تعلق ہوشیار پور(بھارت) سے تھا اس لئے انہوں نے حفیظ ہوشیار پوری کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول ہوشیار پور سے حاصل کی۔1936ء میں انہوں نے فلسفے میں بی اے اور ایم اے کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ممبئی اور لاہور کے ریڈیو سٹیشنز پرکام کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں شہرت غزل سے ملی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ حفیظ ہوشیار پوری نے جس کالج سے تعلیم حاصل کی فیض احمد فیضؔ بھی وہاں زیر تعلیم رہے۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اسی کالج میں انسٹرکٹر تھے۔ ان کی ان دونوں شعرا سے وہیں ملاقات ہوئی۔ یہ اکتوبر 1929ء کی بات ہے۔ صوفی صاحب کی ان دونوں سے ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی۔ ناصر کاظمی حفیظ ہوشیار پوری کے شاگرد تھے اور وہ  بعد میں اُردو کے باکمال شاعر بنے۔

حفیظ ہوشیار پوری کا سب سے بڑا شعری و صف ان کی سادگی اور سلاست ہے۔ بڑے ہی سادہ انداز میں وہ بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ انہوں نے غزل کی کلاسیکی روایت کو آگے بڑھایا اور بڑی مہارت سے آگے بڑھایا۔ بیسویں صدی میں غزل کے میدان میں جن شعرا نے اپنے آپ کو منوایا ان میں حفیظ ہوشیار پوری کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی شاعری میں ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی بھی ملتی ہے اور اس حوالے سے ان کے کئی اشعار پڑھ کر منہ سے واہ واہ نکلتی ہے۔مزید براں ان کی سہل ممتنع کی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اس حقیقت کو مدنظر رکھئے کہ ہر چھوٹی بحر کی غزل کو سہل ممتنع کی شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ سہیل ممتنع کی شاعری تو وہ ہوتی ہے جس میں معنی کے کئی جہان کھل جاتے ہیں۔ اس حوالے سے حفیظ ہوشیار پوری کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے:

دوستی عام ہے لیکن اے دوست

دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

دِل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ

بات دل میں کہاں سے آتی ہے

غم ہستی کے سب سلسلے

بالآخر غم عشق سے جا ملے

روشنی سی کبھی کبھی دل میں

منزل بے نشاں سے آتی ہے

دل ڈوبتا جا رہا ہے پیہم

لب ہیں کہ ستم آشنا ہیں

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حفیظ ہوشیار پوری کی شاعری میں جدید طرز احساس کم ہی ملتا ہے لیکن انہوں نے غم جاناں کی نئی جہتیں تلاش کی ہیں۔ اپنی اس کاوش میں وہ بے حد کامیاب رہے ہیں۔ معروضی صداقتوں کی جھلکیاں بھی ان کی شاعری میں مشکل سے ہی ملتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کی غزل کا کینوس اتنا وسیع نہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک بہت عمدہ غزل گو تھے۔ نکتہ آفرینی بھی کوئی آسان کام نہیں، جس شاعر کو اس میں ملکہ حاصل ہو اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ مرزا غالب کو اس فن میں یدطولیٰ حاصل تھا۔غالب کا جب بھی یہ شعر پڑھنے کو ملتا ہے تو قاری حیرت کی تصویر بن جاتا ہے۔

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

سہل ممتنع کی شاعری کے علاوہ حفیظ ہوشیار پوری کی نکتہ آفرینی کا بھی جواب نہیں۔ ذیل میں یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:

دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ

بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟

زمانے بھر کے غم اور اک ترا غم

یہ غم نہ ہو تو کتنے غم نہ ہوں گے

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حفیظ ہوشیار پوری کی شاعری کافی اثر انگیز ہے اور اس میں ہمیں تاثر یت کے سائے بھی ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ غزل کے میدان میں وہ اپنا جھنڈا اٹھائے کھڑے ہیں۔ اس بات پر البتہ ملال ہوتا ہے کہ ان کی صرف ایک غزل کو حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان کی کئی غزلیں یادگار ہیں اور انہیں بار بار دہرایا جا سکتا ہے۔

ذیل میں حفیظ ہوشیار پوری کے کچھ اور اشعار نذر قارئین ہیں۔

اب یہی میرے مشاغل رہ گئے

سوچنا اور جانب در دیکھنا

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی

ہر قدم ہر اک نئی درپیش مشکل آ گئی

غم زمانہ تیری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں

کہ بڑھ چلے ہیں اب ان گیسوئوں کے بھی سائے

کہیں یہ ترک محبت کی ابتدا تو نہیں

وہ مجھ کو یاد کبھی  اس قدر نہیں آئے

دل میں اک شور سا اٹھا تھا کبھی

پھر یہ ہنگامہ عمر بھر ہی رہا

کچھ اس طرح سے نظر سے گزر گیا کوئی

کہ دل کو غم کا سزا وار کر گیا کوئی

نظر سے حدِ نظر تک تمام تاریکی

یہ اہتمام ہے اک وعدہ سحر کے لئے

نرگس پہ تو الزام لگا  بے بصری کا

ارباب گلستاں پہ نہیں کم نظری کا

یہ صبح ہی سے شام کا پر کیف انتظار

یہ شام ہی سے صبح کے آثار دیکھنا

نہیں پیام راہ نامہ پیام تو ہے

ابھی صبا سے کہو ان کے دل کو بہلائے

کیا شاندار مضمون آفرینی ہے۔1973 ء میں حفیظ ہوشیار پوری عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ وہ یاد ہیں اور یاد رہیں گے۔

(بشکریہ روزنامہ دنیا)

Related posts

Leave a Comment