فارسی کے بے بدل عالم پروفیسر نذیر احمد ۔۔۔ رضوان احمد

اردو فارسی کے نامور محقق اور بین الاقوامی شہرت کے مالک پروفیسر نذیر احمد ایک طویل علالت کے بعد 19اکتوبر 2008 کو علی گڑھ میں فوت ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی تحقیق کا نہ صرف روشن آفتاب گل ہو گیا بلکہ فارسی زبان کا ایک ایسا عالم ہمارے درمیان سے اٹھ گیا جسے بین الاقوامی سطح پر بھی بہت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

نذیر احمد اتر پردیش کے ضلع گونڈا کے ایک گاؤں میں 3جنوری 1915ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے تعلیم دانش گاہ لکھنئو میں حاصل کی اور وہیں سے 1940ءمیں فارسی میں ایم اے کیا۔ 1945ءمیں انہیں فارسی زبان و ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ ان کا مقالہ ظہوری کے حیات اور کارنامے کے موضوع پر تھا۔ جو انہوں نے پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی نگرانی میں لکھا تھا۔ سنہ 1950ءمیں انہوں نے عادل شاہ کے عہد کے فارسی گویوں پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1956ء میں عادل شاہ کی تصنیف ”نورس‘‘ کی ترتیب و تحقیق پر اسی یونیورسٹی سے انہیں اردو میں ڈی لٹ کی ڈگری ملی۔

1955ءمیں حکومت ہند کے وظیفے پر ایران گئے۔ تہران یونیورسٹی سے انہوں نے پہلوی اور جدید فارسی میں ڈپلومہ حاصل کیا اور وہاں کے اہم اساتذہ سے بھی فیضیاب ہوئے۔ وہ 1950ءمیں لکھنئو یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں لکچرر ہوئے۔ 1957ءمیں حکومت ہند کے ایک علمی منصوبے کے تحت اردو کی تاریخ زبان و ادب کی ترتیب کے لیے پروفیسررشید احمد صدیقی کے بلاوے پر علی گڑھ آئے اور اس پروجیکٹ پر 1958ءتک کام کرتے رہے اور پھر شعبہ فارسی میں ریڈر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1960ءمیں پروفیسر ہو گئے۔ 2سال تک وہ فیکلیٹی آف آرٹس کے ڈین رہے۔ 1960ءمیں جب یونیورسٹی نے مجلہ فکر و نظر شائع کرنا شروع کیا تو ڈاکٹر یوسف حسین خاں اس کے ایڈیٹر اور ڈاکٹر نذیر ان کے نائب مقرر ہوئے۔ ان کی چھ سال کی محنت اور توجہ سے ”فکر ونظر“ کا شمار اعلیٰ درجہ کے علمی اور تحقیقی رسالے میں ہو نے لگا۔ وہ 17برسوں تک شعبہ فارسی کے صدر رہ کر 1977ءمیں سبک دوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد بھی وہ علی گڑھ میں رہ کر علمی اور ادبی کاموں میں مسلسل مصروف رہے۔

ڈاکٹر نذیر احمد نے ایک ہزار سے بھی زائد تحقیقی مقالات لکھے، جو دنیا کے اہم ترین تحقیقی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا مرتب کردہ دیوان مہندرس لاہوری ایک بڑا کارنامہ ہے اور ایک عرصہ تک کچھ دانش مندوں کی مدد سے ” اعجاز خسروی“ کے انگریزی ترجمے میں بھی مصرو ف رہے۔ جو امریکہ سے شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد کے تحقیقی مقالات کے مندرجہ ذیل مجموعے شائع ہو چکے ہیں:

1۔ تحقیقی مقالات سنہ 1954
2۔تاریخی و ادبی مطالعے 1961
3۔ تاریخی اور علمی مقالات 1956
4۔ غالب آشفتہ شائع کردہ آرٹس فورم ملتان (پاکستان) 1996
5۔ غالب پر چند مقالات 1996
6۔ غالب پر چند تحقیقی مطالعے 1996

ہندوستان کے علاوہ پاکستان، ایران، افغانستان اور امریکہ کے تحقیقی رسائل میں فارسی و اردو زبان و ادب لسانیات، تاریخ و تمدن، خطاطی و ثقافت و موسیقی وغیرہ موضوعات پر اردو اور فارسی زبانوں میں پروفیسر نذیر احمد مسلسل لکھتے رہے اور رسائل میں ان کی اشاعت ہوتی رہی۔ ان کے بہت سے مقالات اب بھی بکھرے پڑے ہوئے ہیں جنہیں جمع کر کے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر نذیر احمد نے پاکستان، ایران، افغانستان، سعودی عرب، کویت، عراق، انگلینڈ، روس اور امریکہ کے متعدد بار علمی سفر کیے اور وہاں کی بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمناروں میں شرکت کر کے اپنے عالمانہ مقالات پیش کر کے داد حاصل کی۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے تاسیسی رکن تھے اور تاحیات اس کے ٹرسٹی رہے۔ ایک مدت تک وہ اس ادارے کے سکریٹری کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔

فارسی و اردو کے تحقیقی و علمی رسالے غالب کے بھی ایڈیٹر رہے۔ ان کے علاوہ وہ بین الاقوامی شہرت کے رسالہ ”معارف “ کی ادارت سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے بیجا پور کے بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کی شعری تصنیف اور قدیم دکنی اردو کی اہم دستاویز کتاب نو رس متعدد مخطوطات کی مدد سے مرتب کر کے شائع کی۔ ڈاکٹر نذیر احمد کی کچھ اہم تالیفات اس طرح ہیں۔” مکاتب سنائی، دیوان حمید لویکی اور نقد قاطع برہان۔ انہوں نے دیوان حافظ کے بعد نادر و اہم مخطوطات بھی شائع کی ہے۔ ان کی کئی کتابیں ترکی و ایران سے بھی شائع ہو چکی ہیں۔
 
قدیم فارسی فرہنگوں سے ڈاکٹر نذیر احمد کی خاص دلچسپی تھی۔ انہوں نے فخر الدین مبارک شاہ کو اس کی غزلوں کے مرتب کردہ فرہنگ قواس 1974میں حاجب خیرات دہلوی کی دستور الفاضل تہران سے اور بدر ابراہیم کی تالیف فرہنگ زفان گویا وہ جہان پویا کتاب خانہ خدابخش پٹنہ سے دو جلدوں میں سنہ 1989 او ر1997میں شائع کی۔ فیروز شاہ تغلق کی فارسی فرہنگ لسانی شعراء ایران کلچر ہاؤس سے 1995میں شائع ہوئی۔

پروفیسر نذیر احمد فارسی کے عالمِ بے بدل تھے۔ وہ تحقیق کا جو بھی کام کرتے تھے اسے حرف آخر تک لے جاتے تھے۔ ان کی خدمات کا اعتراف متعدد اداروں کی جانب سے کیا گیا۔ صدر جمہور یہ ہند کی جانب سے انہیں 1987میں ”پدم شری “کا اعزا ز ملا اور 1976 میں ان کو” غالب انعام“ سے بھی نوازا گیا۔ ایران سے انہیں متعدد اعزازات ملے اور اس کے علاوہ تہران یونیورسٹی سے فارسی پروفیسر کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ ایران میں اسلامی جمہوریت کے قیام کے بعد یہ پہلی اعزازی ڈگری تھی جو کسی غیر ایرانی کو تفویض ہوئی تھی۔

2005میں انہیں خدا بخش لائبریری کے اعلیٰ ترین اعزاز سے بھی نوازا گیا اور یہ اعزاز انہیں صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام کے ہاتھوں دیا گیا۔

پروفیسر نذیر احمد سے مجھے کئی بار ملنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سب سے پہلے 1979میں اس وقت ملاقات ہوئی جب وہ نامور محقق قاضی عبد الودود کے ایک سیمنار میں شرکت کیلیے پٹنہ تشریف لائے تھے۔ ان سے اردو اور فارسی تحقیق پر تفصیل سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد مجھے جب بھی علی گڑھ جانے کا اتفاق ہوا میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے باتیں کر کے محسوس ہو تا تھا کہ علم کا ایک دریا ہے جو مسلسل بہہ رہا ہے۔ میری ان سے آخری ملاقات تین سال قبل اس وقت ہوئی تھی جب وہ ”خدا بخش ایوارڈ“ لینے کے لیے پٹنہ تشریف لائے تھے۔ بہت شدید بیمار تھے۔ یہاں تک کہ ایوارڈ کے جلسہ میں وہ اٹھ کر ڈائس پر نہیں جا سکے اور صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام نیچے اتر کر خود ان کے پاس تشریف لائے اور ان کی خدمت میں ایوارڈ پیش کیے۔

پروفیسر نذیر احمد طویل وقفہ تک بیمار رہے اور بالاخر 19اکتوبر 2008کو اس عالم فانی سے رخصت ہو گئے۔ لیکن اپنی محنت، جاں فشانی اور دقت نظر سے تحقیق کے میدان میں ایسا نقش چھوڑا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

Related posts

Leave a Comment