ڈاکٹر نذیر تبسم کچھ یادیں
پروفیسر ڈاکٹرنذیر تبسم کے انتقال کی خبر سنی تو ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ ان کی یادوں کا ایک سلسلہ دل کے تار چھیڑنے لگا۔ کیسی موہنی شخصیت تھی ڈاکٹر نذیر تبسم کی ۔ان سے پہلی ملاقات اتنی خوشگوار تھی کہ بھلائے نہیں بھولتی ۔2003 ء کی بات ہےگورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں ہمارا ایم اے اردو کا زبانی امتحان تھا۔ ممتحن تھے ڈاکٹر نذیر تبسم اور پروفیسر عبدالقادر ساجد، ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست سردار منیر بھی زبانی امتحان دے رہے تھے۔ ہم سب اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ سردار منیر کی باری آئی اور وہ انٹرویو کے کمرے میں جیسے ہی داخل ہوا جہاں دونوں ممتحن تشریف فرما تھے منیر کے داخل ہوتے ہی کمرے میں ایک زوردارقہقہ بلند ہوا۔ سب حیران تھے کہ ایسا کیا ہوا۔۔!! میں نے سب کو بتایا پہلے ”دو گنجے پروفیسر بیٹھے تھے منیر کے داخل ہوتے ہی نذیر تبسم صاحب نے کہا ہوگا، لو جی ساجد صاحب ہماری طرح کا ایک اور آگیا، اس پر قہقہ بلند ہوا ہوگا ۔“اور ہوا بھی یوں ہی جب منیر امتحان سے واپس آیا اور ہم نے اس سے قہقے کی وجہ پوچھی تو اس نے وہی جواب دیا جو میں نے بتایا تھا، کہنے لگا ۔”جونہی میں نے اندر قدم رکھا ڈاکٹر نذیر تبسم صاحب کھلکھلا کر ہنسے اور کہا ساجد صاحب دیکھو ہماری طرح کا ایک اور بھی آ گیا۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ اس دوران زبانی امتحان لیتے ہوئے سب سے پہلے میرا تعارف پوچھا ،گاؤں کا نام سنتے ہی سوال پوچھا کہ آپ کے گاؤں کے قریب ہی ہندکو کےا یک معروف ادیب اور شاعر ہیں ،کیا آپ انہیں جانتے ہیں ؟ میں نے جب حیدر زمان حیدر کا نام لیا تو بہت خوش ہوئے ۔ اسی طرح مجھ سے ہزارہ کے باقی ادیبوں اور اپنے صوبہ خیبر پختون خوا کے ادیبوں کے بارے میں پوچھتے رہے۔ جب میرا زبانی امتحان لے چکے تو عبدالقادر ساجد صاحب کی طرف دیکھ کر میری تعریف اور مجھے شاباشی دی۔ مجھے ان کی معلومات کے ساتھ ساتھ اپنے معاصرین کے لیے خوب صورت جذبات دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ان سے اس پہلی ملاقات کا تاثر ہمیشہ قائم رہا ۔ اس ملاقات کا احوال ان کو بعد میں بھی میں نے سنایا تو وہ کھلکھلاکر ہنسے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم ایک علیحدہ ہی طبیعت کے مالک تھے۔ انہیں جب بھی دیکھا اور سنا وہ مسکراتے چہرے کے ساتھ نظر آئے ۔ ان کا بطور شاعروادیب اوراستاد ہر جگہ احترام کیا جاتا تھا۔ وہ دوستوں کی محفل کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک یادگار ملاقات 2019ء میں ان کے گھر واقعہ بہار کالونی میں ہوئی۔ میرا پشاور جانا ہوا تو میں نے انہیں فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اپنی روایتی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے کہنے لگے” یہ تو خوشی کی بات ہے“ اور یوں میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا عصر کا وقت تھا میں ان کے گھر پہنچا تو بڑے تپاک سے ملے ۔ میں نے معذرت چاہی کہ آپ کے معمولات میں مخل ہوا ۔ کہنے لگے قمرزمان ”مہمان تے خدا دی رحمت ہوندے“ مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتا ہے )۔ اس کے بعد ہم ان کے مہمان خانے میں بیٹھے اور دیر تک مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی ۔ سلطان سکون صاحب کے حوالے سے پوچھا ۔ ان دنوں میں سکون صاحب کے حوالے سے اکادمی ادبیات کے سلسلے ”پاکستانی ادب کے معمار “ کی کتاب ”سلطان سکون شخصیت اور فن“ مرتب کر رہا تھا۔ جب انہیں اس حوالے سے بتایا تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے” بڑے خوش قسمت ہو یار اتنے بڑے آدمی پہ کام کر رہے ہو۔“ اس کے ساتھ تاکید بھی کی کہ ان سے ملاقات کرتے رہا کرو، وہ لوگ بڑے ہیرے قسم کے لوگ ہیں۔ اسی طرح آصف ثاقب صاحب، صوفی عبدالرشید صاحب ، بشیر سوز صاحب اور دیگر بزرگوں کا بھی بڑی محبت سے تذکرہ کیا۔ اس خوش گوار ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے اپنی ضخیم کتاب ”سرحد کے غزل گو شعرا“ جو غالباً ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا ،عطا کی ۔اس کتاب کو صوبہ خیبر پختون خوا کے غزل گو شعرا کا ایک انسائیکلو پیڈیا کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ جس میں 1947ء سے لے کر 2001ء تک کے ایک سو چوبیس شعرا کے 212 شعری مجموعوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ان کا شاعری کا مجموعہ ”کیسے رائیگاں ہوئے ہم“عنایت فرمایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کا پیش لفظ ضرور پڑھنا، یہ میں نے اپنی بیگم کے بارے میں لکھا ہے ، شاید تمہیں ایسا پیش لفظ کہیں اور پڑھنے کو نہ ملے ۔ یقین جانیے کہ ہوا بھی یہی وہ پیش لفظ کیا تھا، محبت کی ایک ایسی خوبصورت داستان تھی اپنی شریک حیات پر لکھا گیا یا تاثراتی پیش لفظ ان کی شاعری کی طرح قاری کو اپنا حصار میں لے لیتا ہے۔ محبت کی ایسی چاشنی سے تحریر ہوا ہے کہ اردو ادب میں شاید ہی اس کی کوئی مثال ملے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کو بعد از مرگ بے مثل خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے یہ شان دار ملاقات میری یادوں کے سرمائے میں ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ان سے آپ گھنٹوں باتیں کرتے رہیں توسیر نہیں ہوتے ،لیکن افطاری سے کچھ دیر پہلے ان سے اجازت لینی پڑی ، انہوں نے مجھے افطاری کے لیے کہا لیکن میں نے کسی اور جگہ پہنچنا تھا اس لیے ان سے معذرت کی۔ وہ بڑی گرم جوشی سے اور اپنے روایتی تپاک سے ملے اور مسکراتے چہرے سے رخصت کیا ۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی مٹھاس تھی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم ملک کی ہردل عزیز ادبی شخصیت تھے ۔ان سے مسلسل رابطہ رہا۔ ان سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی علمی بات سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کے کتاب میلے میں ان سے ملاقات ہوئی ۔ یوں ملے جیسے کوئی اپنے ہم عمر اور بے تکلف دوستوں سے ملتا ہے۔ ناصر علی سید بھی ان کے ساتھ تھے ۔ دونوں سے ہندکو میں بات ہوئی ۔ وہ اکثر ہندکو میں بات کرتے تو بہت اچھا لگتا اور ایک خاص اپنائیت کا احساس ہوتا۔ میں نے اپنے دوستوں کو ان سے متعارف کرایا تو بہت خوش ہوئے اور سب کو بہت سراہا کہ ایسی جگہوں پہ ضرور جانا چاہیے اور کتابوں سے شغف ہونا بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم سے میری آخری ملاقات ایبٹ آباد میں ہوئی۔ وہ جب بھی کسی تقریب کے لیے ایبٹ آباد تشریف لاتے تو یہاں انہیں بڑی عزت دی جاتی کیوں کہ وہ بھی ہزارہ کے اہلِ قلم کو ہمیشہ اچھےالفاظ سے یاد کرتے تھے۔ ڈاکٹر عادل سعید قریشی نے ہند کو ادب میں خدمات انجام دینے والوں کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا۔ ایوارڈ زکی اس تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر نزیر تبسم تھے جو پشاور سے خاس طور پر تقریب کے لیے آئے تھے۔ وہ یہاں کے ادیبوں کے ساتھ بڑی محبت اور خلوص سے ملے،وہ بڑے کھلے دل کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی گفت گو میں بھی ہزارہ کے سب اہلِ قلم کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ ان سے جب بھی کسی مسئلے پر بات ہوتی تو وہ ایک شفیق بزرگ کی طرح رہنمائی فرماتے۔ گزشتہ برس مجھے پروفیسر محمد طاہر فاروقی کے حوالے سے کچھ معلومات درکار تھیں ،میں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا، کیوں کہ آپ دونوں پشاور یونیورسٹی میں رہ چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت اور شفقت سے بتایا کہ شعبہ اردو جامعہ پشاور کے مجلے” خیابان “نے پروفیسر طاہر فاروقی نمبر شائع کیا تھا اس میں ان کے حوالے سے مکمل معلومات مل جائیں گی ۔ جب میں نے تحقیق کی تو مجھے خیابان کا وہ شمارہ مل گیا جس میں ان کے حوالے سے مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ ان کی ترکیہ کی یادوں کا باب بھی شامل تھا جہاں وہ انقرہ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم ایسے ہی اپنے طلبہ کی بھی رہنمائی کرتے تھے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم جیسے بزرگ معاشرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہوتے ہیں جو ہر طرف اپنی خوشبو بکھیرتے ہیں اور لوگوں کو معطر کرتے ہیں۔ ان کے انتقال کا سانحہ پاکستانی ادب بالخصوص خیبر پختون خوا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم کا تعلق بزرگوں کی اس نسل سے تھا جن کے خمیر میں تہذیب و روایت تحمل اور رواداری جیسے اعلی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بزرگوں سے علم و ادب اور تہذیب و روایت کی جو میراث پائی تھی اس کو بے دریغ لٹایا ہے۔ ڈاکٹر نذیر تبسم اپنی وضع دار اور محبت سے گندھی شخصیت کی وجہ سے اپنے معاصرین میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ میری سلطان سکون صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو مختلف شخصیات کے حوالے سے گفت گو رہتی ہے۔ خیبر پختون خوا کی ہزارہ کے علاوہ دو شخصیات کے وہ بڑے مداح ہیں۔ ان میں ایک پروفیسر فارغ بخاری اور دوسرے ڈاکٹر نذیر تبسم ہیں ۔ وہ انہیں اکثر بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں ۔ سلطان سکون صاحب کو جب ان کی وفات کی خبر ملی تو بڑے رنجیدہ ہوئے ۔ ان کی مغفرت کے لیے خصوصی دعا کی۔ ڈاکٹر نذیر تبسم ہمیشہ دوستوں میں چہکنے والی شخصیت تھے۔ وہ اپنے دوستوں میں محبت بانٹتے تھے اور اپنے اس شعر کی مانند تھے
اسے دیکھتے کبھی جا کے یاروں کی بزم میں
وہ جو دوستی کی نظیر تھا، وہ نذیر تھا
انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ دوستوں میں خوب چہکتے رہے۔ دوستوں پہ اپنی محبت نچھاور کرتے رہے، لیکن خاموشی سے جہان فانی سے رخصت ہوئے اپنے اس شعر کی طرح:
چلا جاؤں گا دامن جھاڑ کے اک دن اچانک
تبسم میں تو ویسے بھی فقیر آدمی ہوں
ڈاکٹر نذیر تبسم بلا شبہ ایک فقیر منش انسان تھے۔ ایسا خوش پوش فقیر جو دوسروں میں خوشیاں بانٹتا ہو۔ جس کے چہرے پہ ہر وقت تبسم بکھرا ہوتا۔ ہمارے جیسے گھٹن زدہ معاشرے میں ڈاکٹر نذیر تبسم جیسے لوگ غنیمت ہوا کرتے ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ان کی قبر کو اپنے نور سے منور کریں اور انہیں جنت الفردوس کے باغات کی سیر نصیب ہو۔
