محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ہوا لے گئی مجھے (طارق اقبال بٹ کی ’’صداے موسمِ گل‘‘ کے تعاقب میں)

ہوا لے گئی مجھے
(طارق اقبال بٹ کی ’’صداے موسمِ گل‘‘ کے تعاقب میں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان میں انگریز راج کا رسمی ہی سہی خاتمہ ہوتا ہے۔ کروڑوں اسلامیانِ ہند کے دلوں کی دھڑکنیں روح و بدن میں سنسنا اٹھتی ہیں، قافلوں کے قافلے آرزوؤں اور امنگوں کا زادِ سفر لئے اپنے کھیتوں، حویلیوں، کارخانوں کو تج کر سرزمینِ پاکستان کی طرف نکل پڑتے ہیں، یہ جانے سوچے بغیر کہ وہاں پہنچ کر جانے کیسے حالات پیش ہوں، کن لوگوں سے پالا پڑے۔ پاکستان کا مطلب کیا؛ لاالٰہ الا اللہ! یہی حدی ہے یہی بانگِ رحیلِ کارواں ہے اور نگاہوں میں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی روشنیاں ہزار رنگ دکھا رہی ہیں۔ یک بہ یک حدی آہ و بکا میں بدل جاتی ہے۔ عورتوں، بچوں، گائیوں، بھینسوں، بھیڑ بکریوں اور ان کے میمنوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ایک اور رنگ غالب آ جاتا ہے؛لہو کا رنگ جو ان معصوموں کی کٹی پھٹی میتوں کو ہیبت ناک بنا دیتا ہے۔ آزادی کی لکیر لہو کی لکیر بن جاتی ہے۔ جہاں ننھے منے بچوں کی جانیں اور امت کی جوان بیٹیوں کی عصمتوں کے لاکھوں پھول وحشت و بربریت کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں؛ کلیوں کے رنگ اور نمایاں ہو جاتے ہیں اور خوشبوئیں حواس پر چھانے لگتی ہیں۔ لیل ونہار کے بنائے ہوئے اس خاروں بھرے چمن کا نظارہ کرنے اور کانٹوں کی چبھن روح تک محسوس کرنے والوں میں ایک شخص حاجی گلزار محمد بھی ہے۔ حاجی صاحب جموں سے چلے تو ایک بھرا پرا خاندان ان کے ہمراہ تھا۔ خونیں لکیر کو پاٹ کر سیالکوٹ پہنچے تو ان میں سے آدھے راہِ گلستان کی خاک کو رنگین کر گئے تھے۔ بارہ تیرہ برس کے زرد رُو لڑکے یعقوب کا دکھ اُس دکھ کے مقابلے میں شاید کچھ بھی نہیں جو حاجی گلزار محمد اپنے ساتھ لے کر سرزمینِ پاک پر اترے تھے۔ اس دھرتی پر اترنے کے بعد پہلا بڑا سانحہ حاجی صاحب کی ماںکا دھرتی ماں کی گود میں چھپ جانا تھا۔ بزرگ خاتون ایک ہجرت کا دکھ نہ سہہ پائیں اور ہمیشہ کے لئے ہجرت کر گئیں! دوسری ہجرت ان کی پہلوٹی کی ننھی سی معصوم بیٹی کی عالمِ بالا کی طرف ہجرت تھی۔
وقت کا تیز پہیہ کبھی رکا ہے بھلا! حاجی صاحب کو تلاشِ رزق کے لئے یکے بعد دیگرے کئی ہجرتیں کرنی پڑیں۔ وہ اپنے پیاروں کی یادوں کے سدا بہار لہو رنگ گلاب اور دھیرے دھیرے پگھلتی مومی شمعیں اٹھائے، پھرتے پھراتے روشنیوں کے شہر میں جا آباد ہوئے۔ یہ ۱۹۵۰ء میں جاتی سردیوں کے دن تھے جب حاجی گلزار محمد کے چمن میں بہاروں کا پہلا پھول کھلا ۔ طارق اقبال بٹ کی آمد بجائے خود بادِ بہاری کا پیغام تھی جوپھولوں کے ڈھیر لئے ان کے تعاقب میں چلی آئی تھی۔ یہاں مجھے علامہ اقبال کی نظم ’’گل نخستیں‘‘ بے اختیار یاد آ گئی۔

ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم
بہار می رسد و من گلِ نخستینم
بہ آبجوی نگرم خویش را نظارہ کنم
باین بہانہ مگر روی دیگری بینم
بخامہ ای کہ خطِ زندگی رقم زدہ است
نوشتہ اند پیامی یہ برگِ رنگینم
دلم بہ دوش و نگاہم بہ عبرتِ امروز
شہیدِ جلوہِ فردا و تازہ آئینم
ز تیرہ خاک دمیدم قبای گل بستم
وگرنہ اخترِ وا ماندہ ای ز پروینم

جیسا کہ طارق اقبال بٹ اپنے والد گرامی کے بارے میں خود بتاتے ہیں: ’’کتابیں پڑھنے کا انہیں بھی شوق تھا گو اس کے لئے انہیں بہت کم وقت میسر آتا۔ صبح سے شام تک اور اکثر رات میں بھی روزگار کے مسائل سے نبرد آزما رہتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان کے سرہانے کی میز پر دیوانِ غالب اکثر و بیشتر رکھا رہتا تھا‘‘۔ لفظ سے رشتہ بھی عجیب رشتہ ہے اور اس کا سفر عجیب تر! بہت سارے معلوم اور نامعلوم ٹیڑھے میڑھے راستوں کا یہ مسافر نہ جانے کہاں جا کر کس کے لہو میں شامل ہو جاتا ہے! یہ قلم تخلیق کرنے والے کی عطا ہے، جسے نواز دے۔
ایک سوال جس کے جواب میں طارق بٹ کی ساری جد وجہد کا مطمع کھل کر سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ آپ شعر کیوں کہتے ہیں؟ ہمارے دوست کا جواب بہت سیدھا ہے: ’’ہر وہ لفظ جو مجھ پر معانی کے نئے اسرار کھولتا ہے میرے لئے اسی طرح ہے جیسے ایک بچے کے لئے نیا کھلونا، جس سے کھیل کھیل کر جب اس کا جی بھر جاتا ہے تو اس کا تجسس اس کو اسے توڑ کر دیکھنے پر اکساتا ہے۔ اور جب توڑ کر دوبارہ نہ جوڑ پائے تو کسی شے کے کھو جانے کا مغموم احساس اور بڑوں کی ڈانٹ کا خوف دل میں لے کر اداس ہو جاتا ہے اور اگر توڑ کر دوبارہ جوڑ لے تو ایک فاتحانہ غرور سے سر اٹھا کر دیکھتا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا؟‘‘ اور یہ کہ ’’شعر میرے لئے تکمیلِ احساس و جذبات کا نام ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں: ’’کتاب اور خواب ہمیشہ میری تنہائیوں کے رفیق رہے ہیں۔ بچپن میں جنوں، پریوں، ڈاکو لٹیروں، شہزادوں اور شہزادیوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہوتیں اور ان جیسے چھوٹے چھوٹے کبھی خوش کن اور کبھی ڈراؤنے خواب۔ خواب میں آج بھی دیکھتا ہوں؛ امن و دوستی، صلح و آشتی، سماجی نا انصافی کے خاتمے اور انسانی برادری کی یک جہتی و خوش حالی کے، محبتوں اور پر خلوص رفاقتوں کے اور وطنِ عزیز پاکستان کی ترقی، امن، خوش حالی اور پائندگی کے۔ کتابیں آج بھی میری دوست اور دل دار ہیں‘‘۔
طارق اقبال بٹ کے لہو میں بسے لفظ کے اس رچاؤ کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ ’’یادوں اور خوابوں کے درمیان‘‘ میں انہوں نے مختصر طور پر اپنے شعری سفر کا احوال لکھا ہے۔ میٹرک کے دوران لفظ جوڑا کرتے تھے جو اہتماماً ایک سے دوسری ڈائری میں منتقل ہوتے رہے۔ کالج میں ’’چند ایک مشاعروں‘‘ اور شبنم رومانی کے ’’حلقۂ اربابِ قلم‘‘ کی ’’چند نشستوں‘‘ کا ذکر انہوں نے کیا ہے۔ سعودی عرب کے قیام کے دوران ۱۹۹۱ء میں پہلی بار پاکستانی رائٹرز فورم (الخبر) سعودی عرب کے مشاعرے میں شریک ہوئے اور ’’پھر یہ سلسلہ چل نکلا‘‘۔ یہاں انہیں پروفیسر ذکاء صدیقی جیسا استاد میسر آ گیا، جن کے ذکر میں بٹ صاحب کا ایک ایک لفظ سراپا عجز و نیاز بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں: ’’رائٹرز فورم کی بدولت مجھے استاذی پروفیسر ذکاء صدیقی صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا جن کی ادب نوازی، علمی تبحر اور خلوص و محبت  نےمجھ جیسے بے مایہ اور خارج از وزن شعر گو کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج میں اپنے پریشان خواب و خیال کے موتی سلکِ غزل میں کسی ڈھب سے پرونے کے قابل ہو سکا ہوں۔‘‘
یہاں ایک عجیب اتفاق سامنے آتا ہے۔ چالیس برس کی عمر تک انہوں نے جو کچھ بھی لکھا واضح طور پر کہیں منقول نہیں۔ شاید یہ وہی چلہ ہے جس کی جھلکیاں انسانی فطرت میں ہزار مقامات پر نظر آتی ہیں اور قدرت کے انعامات کے لئے بھی شاید چالیس برس کی عمر ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔
پروفیسر ذکاء صدیقی کا طویل اور تجزیاتی مضمون ’’آشنا صدا‘‘ (تحریر: سہ شنبہ ۲۷؍ مئی ۱۹۹۷ء) بھی کتاب میں شامل ہے۔ یہ ایک پیراگراف نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں، پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: ’’میری ان سے پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی تھی جہاں وہ سامع کی حیثیت سے آئے تھے۔ مشاعرے کے کچھ عرصے بعد ان کا ایک فیکس مجھے ملا۔ لکھا تھا: شعر گوئی کا مجھے بھی شوق ہے۔ چند شعر شعر ملاحظہ کیجئے اور بلا رو رعایت بتائیے کہ کیا اس مشغلے کو جاری رکھوں؟ وہ پہلی غزل (جو اس مجموعے میں شامل نہیں ہے) آج سے پانچ سال پہلے کی تھی۔‘‘ ازاں بعد پروفیسر صاحب نے طارق بٹ اور ان کے شعر کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اپنے شاگردِ رشید کی محنت، لگن، جاں فشانی، ذوق و شوق اور دل جمعی سے شعر کہنے کے اوصاف کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔
صنفِ غزل کے بارے میں پروفیسر صاحب کے الفاظ یاد رکھنے کے قابل ہیں: ’’غزل کی جان ایمائیت اور علامت ہے۔ نازک احساسات اور لطیف جذبات کی ترجمانی کے لئے الفاظ کی صناعی ہو یا رمز و علامت کی پرکاری، اس وقت تک بے قیمت ہیں جب تک شاعر مرصع سازی کا ہنر نہ جانتا ہو۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مرصع سازی کا تعلق زور زبردستی اور توڑ پھوڑ سے نہیں ہے۔ اگر علامات اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام ہیں تو خواہ وہ جدید ہوں (سایہ، لاش، دھوپ، زرد پتا) یا قدیم (بادہ و ساغر، شمع و پروانہ وغیرہ)، حشو و زوائد سے زیادہ اہم نہیں۔‘‘
زیرِ نظر مجموعۂ غزل ’’صداے موسمِ گل‘‘ ستمبر ۱۹۹۷ء میں اشاعت پذیر ہوا، اور کوئی چودہ برس بعد مجھے اس نوٹ کے ساتھ ملا (چودہ برس اس لئے کہ میری ان سے شناسائی ہی بہت بعد میں ہوئی تھی):

برادرم محمد یعقوب آسی کے لئے بڑی محبت کے ساتھ۔ طارق بٹ : ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۱ء

اس بات کو بھی چار برس سے زیادہ بیت گئے۔ بارہا سوچا کہ اپنے مطالعے میں دوستوں کو شریک کروں مگر خود کو اس قابل نہ پا کر خاموش ہو رہا۔ وہ تو پچھلے دنوں اقبال طارق سے بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا میں کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں مگر ۔۔۔۔۔ کہنے لگے: ’’آپ لکھ سکتے ہیں! بلکہ لکھئے!‘‘۔ میں نے طارق بٹ صاحب سے کہا کہ ان دنوں کچھ جسارت آمادہ ہوں، اجازت مرحمت فرمائیے۔ اپنے مخصوص مربیانہ انداز میں بولے: ’’تم اس گھاس پھوس میں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’مجھے اس میں زعفران کی شاخوں کا سراغ ملا ہے، تلاش تو کروں گا ہی‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح بہت جان دار قہقہہ لگایا۔ گویا جسارت کی اجازت مل گئی!
میرے سامنے مشکل یہ بھی آن کھڑی ہوئی کہ کتاب کو شائع ہوئے اٹھارہ برس ہو گئے۔ اس پر کہاں کہاں کس کس نے کن کن پہلوؤں سے گفتگو کی ہو گی، مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ پروفیسر ذکاء صدیقی نے نہ صرف یہ کہ شعر، اس کی فنیات اور فکر کے عناصر اور طارق بٹ کی چابک دستی کا تفصیلی ذکر کر دیا ہے۔ بلکہ متداول تنقیدی رویوں کے حوالے سے بھی طارق بٹ کے شعر کو دیکھا ہے اور گراں قدر مشورے بھی دیے ہیں۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: ’’طارق کی آواز آج کے جدید تر شاعروں میں اپنی پہچان بنا کر رہے گی کیوں کہ یہ آواز نہ تو ایک چیخ ہے کہ سمع خراشی کرے، نہ اتنی مدھم ہے کہ سنائی ہی نہ دے۔ ان کا شعر جمالیاتی ہو یا فسلفیانہ، رومانی ہو یا حقیقت پسندانہ، تجرباتی ہو یا عاشقانہ، اپنے قائم سر میں الگ سنائی دیتا ہے۔ مندر سپتک کی گہری اور رچی ہوئی، خود میں ڈوبی ہوئی، شائستہ اور کڑھی ہوئی یہ آواز سارے رسوں کے تمام امرت اور تمام زہر پی کر سچے سر میں ہماری سماعت تک پہنچا رہی ہے۔ یہ وہ صدا ہے جس سے ہمارے کان آشنا ہیں، جس نے تین سو سال پرانی ہوتے ہوئے بھی نئی حسیت اور نئے تجربے کے امکانات کو جمالیاتی اور کلاسیکی انداز میں بیان کرنے کی توفیق پائی ہے‘‘۔ انہوں نے طارق بٹ کو مشورہ دینے کے لئے نظیری کا کیسا بے نظیر شعر منتخب کیا ہے:

شکر لِلہّٰ در سَرَت از عشق است اندیشہ اے
اندک اندک مشقِ ایں سودا کن و دیوانہ باش

ظاہر ہے جو کچھ اتنے اچھے انداز میں بیان ہو چکا، اس پر میرا لکھا میرا اپنا قد کوئی ایک آدھ انچ بڑھا دے تو بڑھا دے، طارق بٹ کے قاری کو مکرر مطالعہ سے زیادہ شاید کچھ نہ دے سکے۔بالکل حق بجانب ہو گا اگر کوئی مجھے کہے کہ میاں! یہ چونسٹھ غزلوں اور دیگر مندرجات پر مشتمل یہ کتاب طارق بٹ کی پانچ یا چھ برس (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۷ء) کے دوران کی گئی شاعری کا انتخاب ہے اور تم ساڑھے تین دہائیاں گلا کر کل دو کم اسی غزلیں لا سکے ہو، اگر انتخاب کرتے تو کیا نکلتا! کتاب کو چھپے اٹھارہ برس بیت گئے اور تم تک پہنچے چار برس سے اوپر ہو چکے۔ کہنے والے تو اور بھی بہت کچھ کہہ چکے ہوں گے جو تمہارے علم میں نہیں۔ تو، تمہارے دماغ میں وہ کون سا کیڑا آن سمایا ہے جو تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا؟در اصل مجھے اکسانے والی وہ غزل ہے جو ’’صدائے موسمِ گل‘‘ میں غزلوں کی فہرست کے آخر میں ہے۔

جس قدر دیوانے سے پتھر کھلے
اتنے ہی سربستہ راز اس پر کھلے

اعتبارِ ہستیٔ نا اعتبار
یاں کسے ہے، ہاں مگر جس پر کھلے

واپسی کے سارے رستے بند ہیں
اے رفیقو! تم کہاں آ کر کھلے

یہ غزل مجھے ایک بار پھر جموں سے ہجرت کرتے قافلے میں لے گئی جو اپنے افراد کی جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دیتا اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف رواں تھا۔ مجھے یوں لگا کہ وہ سفر تو کسی طور تمام ہوا، مگر مجھ جیسے اور طارق بٹ جیسے عشق اندیش سروں کو جہاں ایک عجیب دکھ سے دو چار کر گیا؛ اپنی گمشدگی اور بے چہرگی کا دکھ، وہیں ایک لامتناہی سفر کی راہ بھی دکھا گیا؛ اپنی ذات کی تلاش، اپنے آپ کی تلاش۔ میں کون ہوں؟ مجھے جانا کہاں ہے؟ اور کیوں جانا ہے؟ میرے ساتھی کون ہیں؟ اور کیا وہ میرے ہم سفر بھی ہیں؟ ہماری کوئی منزل بھی ہے؟ یا ہمارا سفر بے سمت راستوں کا سفر ہے جس پر میں گھسٹتا جا رہا ہوں؟ وہ منزل کیا ہوئی جس کی طرف ہزاروں حاجی گلزار محمد رواں تھے؟

یہ پیش و پس ہے غبار کیسا، یہ دھُند کا ہے حصار کیسا
یہ کس طرف جا رہی ہیں راہیں، یہ منزلیں بے نشان کیوں ہیں

میں نے ان سوالوں کی تلاش میں اپنے اور طارق بٹ کے بیچ اشتراک کی تلاش میں موسمِ گل کی صدا کا تعاقب کیا ہے۔ قدم اٹھ گئے ہیں اب یہ صدا جدھر لے جائے! میرے ساتھ رہئے گا، ممکن ہے ہم اسی بہانے ایک دوسرے کو بھی شناخت کر لیں۔

یہیں لٹا تھا کبھی قافلہ بہاروں کا
یہیں سے ہو تو ہو پھر ابتدائے موسمِ گل

کرب اور امید کے امتزاج سے شروع ہونے والے سفر کی ابتدا جو اُس خونیں لکیر سے ہوئی تھی، وہ طارق بٹ کی ذات میں ایسی بے چینی اور بے قراری بھر گئی جس کا اظہار نہ ہو تو انسان کو اندر ہی اندر کھا جائے۔ فطرت جہاں غم و آلام کے تحفے عطا کرتی ہے وہاں ان سے نبرد آزمان ہونے کے وسیلوں سے بھی نوازتی ہے۔ اظہار کی قوت انہیں وسائل میں سے ایک ہے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر امنگوں کی عمر ہوتی ہے، پختگی آنے سے پہلے کے اس دور کی بے تابیاں ہزاروں رنگ اختیار کرتی ہیں۔ تاہم جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی فطری ضرورت امنگوں پر غالب آ جاتی ہے اور جوں جوں انسان حالات کا ادراک کرتا جاتا ہے، عمل اور اظہار کے انداز بدلتے جاتے ہیں۔
وقت نے طارق بٹ کے لئے ایک بہت لمبا سفر تیار کر رکھا تھا۔ تیس برس کے عرصے پر محیط اس سفر کے متعدد پہلو ہیں۔ غمِ نانِ جویں تو سب کے ساتھ لگا ہے، طارق بٹ کے سامنے ایک اور سفر بھی تھا؛ اپنی ذات کی طرف سفر۔ قدرت نے ہمارے دوست کو اظہار کی جس قوت سے نوازا ہے اس کے نکھار اور تربیت کا سامان بھی کر دیا۔ یوں میرا اور بٹ صاحب کا سفر فاصلوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور میں بخوبی محسوس کر سکتا ہوں کہ قلبی اور فکری سطح پر نہ ہماری سمتوں میں کوئی نمایاں فرق ہے نہ زادِ راہ کے حوالے سے۔

چلو آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے

یادوں اور خوابوں کے درمیان جاری تلاش کے سلسلوں میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنا دکھ پوری انسانیت کا دکھ لگتا ہے اور کسی بھی دوسرے کا دکھ اپنے اوپر گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں شاعر ایک فرد نہیں رہ جاتا، اس کی اپنی حیثیت علامت اور استعارے کی ہو جاتی ہے۔ اس کے مشاہدات اور محسوسات اس پر ہر آن ایک نئی کیفیت آشکار کرتے ہیں اور بدلتی رتوں کی یہ حیرت اسے تماشائی ہی نہیں، کبھی کبھی تماشا بھی بنا دیتی ہے۔

گھر سے چلے تو ہم بھی بڑے کج کلاہ تھے
راہوں کے پیچ و تاب نے ہموار کر دیا

فسونِ آگہی طارق تمہیں پتھر بنا دے گا
تم اس کے توڑ کا بھی کوئی منتر سوچتے رہنا

ہم نے آواز دی بہت دل کو
جانے وہ کس سے تھا خطاب میں گم

دل میں کھلا تھا پیار کسی پھول کی طرح
مہکا جو میں تو ایک ہوا لے گئی مجھے

درونِ ذات کا سفر ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ خود اپنی یہ کیفیت رہی کہ رشتہء جسم و جاں قائم رکھنے کی سعی میں فکر جامد ہو کر رہ گئی؛ اور یہ سوچنے کی ہمت ہی نہیں کہ آدمی ہے کیا۔ اس سفر کی منزلیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی خود فراموشی کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے اور کبھی کوئی ایسا خوف آن لیتا ہے جس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ اور کچھ واہمے بھی کہ ذرا رکے تو پھر جانئے پتھر کے ہو گئے۔ بہ این ہمہ کچھ نہ کچھ قوتیں ایسی ہوتی ضرور ہیں جو طارق بٹ جیسے پختہ پا مسافر کے قدموں کو رواں رکھتی ہیں۔ کچھ اظہاریے دیکھتے ہیں۔

تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں آؤ آؤ
اے بے کسی بتا، کہیں ان سے مفر بھی ہے؟

ہمیشہ اک نیا چہرہ لگائے ملتی ہے دنیا
اسے پہچاننا اور پھر نیا ڈر سوچتے رہنا

کچھ دور تک تو اس کی صدا لے گئی مجھے
پھر میرے من کی موج اڑا لے گئی مجھے

عجب جادو اثر آواز تھی وہ
کہ سنتے ہی وہیں پتھرا گیا میں

زادِ سفر کی ایک صورت تو وہ ہے کہ جتنی منازل سر کر لیں، وہ زادِ راہ بن گئیں۔ بٹ صاحب نے زندگی کی تین دہائیاں تپتے صحراؤں میں گزاری ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ نور اور نار کا مادہ ایک ہی ہوتا ہے۔ فرق اتنا سا ہے کہ اپنے اندر کے وحشی انسان کی تہذیب کرنی پڑتی ہے، اسے ’’عملوا الصٰلحات‘‘ سے شناسائی کرانی ہوتی ہے نہیں تو وہ ’’اسفل سافلین‘‘ کی کھائی میں جا گرے۔

اپنے اندر خود اک جنگل ہے ہر آدم زاد
کیسے کیسے وحشی جذبے پھرتے ہیں آزاد

راہ کی ایک اک ٹھوکر کھولے منزل کے اسرار
رستے کا ہر پتھر گویا ہوتا ہے استاد

جنوں بھی چالاک ہو جائے تو جانئے حدی کا کام کر گیا۔ دل کے قریں رہنے والوں کا ساتھ ایک اعلیٰ سرمایہ ہے، وہ دور بھی ہوں تو ان کا تصور جہاں جان افزائی کا کام کرتا ہے وہیں بے شجر صحرا کی ریگِ تپاں میں روح پرور ہوا کا جھونکا بھی بنتا ہے۔ تاہم ایک ہوک سی ضرور اٹھتی ہے کہ:

ترس نہ جائے سماعت کسی کے لہجے کو
جواب دیتے رہو آشنا صداؤں کا

خود میں ہی نہ کیوں پاؤں کی زنجیر ہلا دوں
تنہائی کے زنداں میں صدا کوئی نہیں ہے

یہ جو آوازیں ہیں پتھر کا بنا دیتی ہیں
گھر سے نکلے ہو تو پیچھے نہ پلٹ کر دیکھو

وہ تعلق جسے سید علی مطہر اشعر نے ’’تعلق خاطر‘‘ کا نام دیا ہے، انسان کا زندگی کی رعنائیوں کے ساتھ تعلق ہے ۔ دلِ زندہ جہاں بھی ہو، اس کے رومان کے رشتے اس کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور جینے کا حوصلہ بخشتے ہیں۔ کسی کے خیال ہی سے تنہائی لو دے اٹھتی ہے، خمارِ زندہ دار کی کیفیات مختلف ہوا کرتی ہیں تاہم ایک دیدہ وراُن سے نکل کر بھی اپنے اندر نیا ولولہ پاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیات کا تذکرہ بٹ صاحب کے الفاظ میں ہو جائے۔

ہر خار زلیخائی پہ اترا ہے چمن کا
یاں تار بھی دامن میں بچا کوئی نہیں ہے

وہ میری ذات کی تنہائیوں سے واقف ہے
مرے خطوں سے وہ کیسے بہل گیا ہو گا

یاد اس کی مرے تعاقب میں
دیر تک آئی، دور تک آئی

یہی رشتے تو ہوتے ہیں جو ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، ہمیں اپنی اہمیت کا شعور بخشتے ہیں اور چشمِ بینا کو نئے مناظر اور نئی جہتوں میں جھانکنے پر اکساتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہی تعلقِ خاطر انسان کو زندہ رکھتا ہے، یہ نہ رہے تو ہم زندگی ہی سے بیزار ہو جائیں؛ تلاش وَلاش کی تو بات ہی زندگی سے مشروط ہے۔ حوادث صرف بیرونی ہی نہیں ہوتے اندرونی بھی ہوتے ہیں۔ وقت عظیم مرہم ہے تاہم کچھ محرومیوں کے زخم کبھی نہیں بھرتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گہرے گھاؤ بن جاتے ہیں۔ طارق بٹ کو ذکاء صدیقی جیسے شجرِ سایہ دار کی چھاؤں اور ’’اپنے اقبال احمد قمر‘‘ کی ہم قدمی بھی میسر رہی،اور بہت سارے حوادث بھی پیش آئے ہیں۔
کراچی کا دکھ اکیلے طارق بٹ کا دکھ نہیں ہے یا یوں کہئے کہ یہاں اقبال طارق کی ذات ایک فرد سے ایک شہر، شہر سے وطنِ عزیز اور وطن سے ملت تک پھیل جاتی ہے۔ یہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا اب بھی روشنیوں کا شہر ہے، مگر روشنی کی نوعیت بدل گئی ہے۔ انسان کے اندر بسے وحشی درندے نے نور کو نار میں بدل دیا ہے۔ ہمارا فاضل شاعر بھی اس پر ملول ہے بلکہ مجھ سے شاید کئی گنا زیادہ ملول ہے کہ اس کا رشتہ میرے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور صدمے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ ایسی کیفیت میں وہ چیخ اٹھتا ہے:

یا رب، ہو عطا اب تو کوئی اسم مجھے بھی
مقبول مرا حرفِ دعا کوئی نہیں ہے

ہم مقامِ آگہی کی جستجو میں تھے مگن
یہ نہ سوچا تھا کہ یوں تنہا کھڑے رہ جائیں گے

تاہم اس کا عزم اسے یہاں بھی مایوس نہیں ہونے دیتا، اس کی نگاہِ پر امید کی روشنی سمندر کی نسبت سے جوار بھاٹے کی طرح سکڑتی سمٹتی ہے مگر بجھتی نہیں؛ اور اسے بجا طور پر ادراک ہوتا ہے کہ:

تمام راہیں گلستاں کی بند ہوں جن پر
وہ خاک ہو کے جلو میں صبا کے چلتے ہیں

بتا رہی ہے جھجکتے پروں کی بست و کشاد
کہ اب شعورِ فضا بال و پر میں جاگا ہے

شعور اور اظہار؛ میرے نزدیک یہ دو الگ الگ مظاہر نہیں بلکہ یک جان ہیں۔ شعور پیدا ہوتا ہے تو پھر مقید نہیں رہ سکتا۔ نہاں خانۂ ذات میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل اور اپنے آپ سے معرکہ آرائی خود ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بن جاتی ہے۔

اک اپنی ذات سے بس معرکہ نہ ہو درپیش
تو زندگی میں کوئی معرکہ نہیں دشوار

مرا سینہ ہی مجھ کو آئنہ ہو
مرا مقصود جامِ جم نہیں ہے

یادوں اور خوابوں کے درمیان سے شروع ہونے والا سفر جب ذات کی تلاش کا سفر بن جائے تو کبھی تکمیل پذیر نہیں ہوتا۔ یہ ہم ہیں کہ کسی ایک اہم پڑاؤ کو منزل سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ تاہم نظر میں شعور بسا ہو تو یہ واہمہ جلد ہی رفع ہو جاتا ہے اور صاحبِ شعورراہرو اپنے خوابوں، ان کی پختہ اور نیم پختہ تعبیروں پر رنج و غم یا سرور و انبساط کا اظہار اس سلیقے سے کر جاتا ہے کہ اس کے محسوسات اس کے قاری کو اپنے محسوسات لگتے ہیں؛ تقریر کی یہ لذت کوئی معمولی بات بھی نہیں ہے۔ وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس کا قاری اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کی اپنی ذات کی طرح اس پر کھل رہا ہے۔

آنسوؤں میں دل کی بستی بہہ گئی
اک کھنڈر سی یاد باقی رہ گئی

کون آئے گا کسے فرصتِ غم خواری ہے
آج خود اپنی ہی بانہوں میں سمٹ کر دیکھو

جس قدر دیوانے سے پتھر کھلے
اتنے ہی سربستہ راز اس پر کھلے

واپسی کے سارے رستے بند ہیں
اے رفیقو! تم کہاں آ کر کھلے

عرفانِ ذات اتنی بڑی نعمت ہے کہ جسے خود اپنا پتہ چل گیا وہ کائنات کے اسرار پا گیا۔ یہ پتہ بھی تو ایک دم نہیں چل جاتا، ایسا لگتا ضرور ہے کہ میں خود کو جان گیا، لو اَب جان گیا! مگر جلد ہی یہ کھل جاتا ہے کہ وہ تو ایک پرتو ہے، بلکہ ایک نہیں کئی پرتو ہیں جیسے بہت سے مناظر ایک دوجے میں گڈمڈ ہو رہے ہوں۔نظر ایک لمحے میں تین سو ساٹھ درجے کا چکر پورا کر لیتی ہے؛ ماضی، حال اور مستقبل کی لکیریں بھی جیسے مدھم پڑ جاتی ہیں۔ صاحبِ نظر خود کو زمانے سے آزاد بھی پاتا ہے اور لمحوں کی قید میں بھی دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر:

بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا
اب لوٹ کے جائیں گے تو گھر کیسا لگے گا

اک بار اس کو دیکھ کے اٹھی نہ پھر نگاہ
وہ حسن تھا کہ آپ ہی اپنا حجاب تھا

حاصل ایک ایسی لازوال کسک ہوتی ہے جو آنے والی مسافتوں میں زادِ راہ ہوگی۔ مسافر اپنے احوال کا حاصل اپنے سفرنامے میں رقم کر دیتا ہے کہ دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہو۔

دشتِ دل میں ڈھونڈتے ہو کیا سراغِ رفتگاں
جانے والے اپنے قدموں کے نشاں تک لے گئے

کچھ اداسی ہی سے مزاج ملا
اپنے جیسا کوئی ملا بھی نہیں

جب نہ کوئی مدعا باقی رہا
ایک کے بعد ایک، کتنے در کھلے

تب وہ ایک پکار جو سینے کے غار اور گلے کے تار سے اٹھتی ہے، لب بہ لب، حرف بہ حرف، ورق بہ ورق، نقطہ بہ نقطہ پھیلتی چلی جاتی ہے:

دار فریادی ہے اے اہلِ قلم سنتے ہو؟
ہاتھ کٹوا دیے شانوں پہ سروں کے ہوتے

یہاں کتنی ہی تازہ حیرتیں انتظار میں ہوتی ہیں۔ سفر جاری رہتا ہے اور بدلتی رتوں کا تسلسل ان نو بہ نو تحیرات کی آبیاری میں مصروف رہتا ہے۔ طارق بٹ کے دوسرے شعری مجموعے ’’بدلتی رتوں کی حیرت‘‘ (اشاعت: ۲۰۰۸ء) سے یہ دو شعر دیکھئے، اور مجھے اجازت دیجئے:

سفر ہی ختم ہوا اور نہ راستہ ٹھہرا
کہاں پہ تھی مری منزل کہاں میں آ ٹھہرا

عجیب وہم سا رہتا ہے ہر سفر میں مجھے
رواں ہوں جس پہ، مرا راستہ نہیں ہے وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment