شمس الرحمن فاروقی اُردو کے ان گنے چنے نقادوں میں شامل ہیں جنہیں رجحان ساز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ فاروقی خود شاعر ہیں اور اسی لیے انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ شعر پر اظہار خیال کریں۔ ورنہ اردو کی ایک بڑی عجیب و غریب روایت بن گئی ہے کہ ایسے بر خود غلط لوگ جو شعر کی نزاکتوں سے واقف ہونا تو کجا‘ صحیح طریقے سے شعر پڑھ بھی نہیں سکتے‘ وہ شاعری اور شعریت پر بے تکان رائے دیتے ہیں۔ اور اس سے بڑی بو العجبی یہ ہے کہ ان کی رائے کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ تدریس سے وابستہ ہو تو کیا کہنے۔ اس کے پیچھے کئی باتیں ہیں۔ ذاتی مفاد‘ خوشامد پسندی‘ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ اگر ہم نے ان لنگڑے لولے ذہنی اپاہج قسم کے نقادوں کی رائے کو اہمیت دی تو کل یہی لوگ ہماری بات بھی بدلے کے طور پر دہرائیں گے۔ اور اس طرح علم و ادب کے نقاد کی حیثیت سے ہماری شخصیت بھی ابھر سکے گی۔ لیکن وقت سب سے بڑا نقاد ہے۔ ایک طرف وہ بے کار قسم کی تخلیقات کو نگل جاتا ہے تو دوسری طرف لایعنی تنقید بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بات اٹل ہے کہ تخلیق ہو یا تنقید، اگر اس میں گہرائی نہ ہو تو وقت کا تیز رد دریا اسے اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
تقریباً دو دہائی قبل شمس الرحمن فاروقی نے تفہیم میر کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اور انہیں مضامین کی شکل میں شائع کرتے رہے۔ اس سلسلے کا پانچواں مضمون ’جواز‘ اگسٹ ۸۵ میں شامل ہے۔ لگتا ہے کہ اس قبل کے مضامین بھی جواز کی زینت بنے ہیں۔ جب شعر شور انگیز کی پہلی جلد چھپی تو متذکرہ مضمون میں فاروقی نے کچھ اضافے کیے۔ میر کا شعر ہے۔
کیوں کہ جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقام حیرت ہے
چاروں اور انہیں ہے کوئی یاں واں یونہی دھیان گیا
میر اور حافظ کے ان اشعار کا تقابل کرتے ہوئے فاروقی نے مضمون میں لکھا تھا کہ:
’’حافظ کے شعر میں المیہ وقار ہے اور میر کے یہاں یقین اور امید کی کشمکش‘‘
’’شعر شور انگیز‘‘ میں یہ مضمون شامل ہوا تو فاروقی نے اس عبارت میں یوں اضافہ کیا۔
’’میر کی حیرت میں ایک طرح کا طنز بھی ہے۔ حافظ کے شعر میں طنز کا ہلکا سا شائبہ ہے لیکن میر کے یہاں اسرار کی کیفیت حافظ سے زیادہ ہے۔‘‘
پھر انہوں نے جہت اور سمت، حیرت اور دھیان میں ضلع کا تعلق ظاہر کرتے ہوئے میر کی صناعی کی طرف بھی اشارہ کیا۔
شمس الرحمن فاروقی اردو کے کلاسیکی ادب سے کماحقہ واقف ہیں اور ساتھ ساتھ مغرب کے تنقیدی تصورات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ مغربی افکار کی چکا چوند سے مرعوب نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مشرقی شعری روایات کی تفہیم میں مغربی افکار کار آمد نہیں ہو سکتے بلکہ وہ ذہن کو وسعت بخشتے ہیں۔ فاروقی لکھتے ہیں۔
’’میں نے مغربی افکار کا اثر قبول کیا لیکن ان سے مرعوب نہ ہوا اور اپنی کلاسیکی شعریات کو میں مغربی شعریات پر مقدم رکھا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں مشرقی شعریات سے بہرحال اور بہر زماں بہتر سمجھتا ہوں لیکن اس کے معنی یہ ضرور ہیں کہ اپنے کلاسیکی ادب کو سمجھنے کے لیے میں اپنی مشرقی شعریات کے اصولوں کو مقدم جانتا ہوں۔‘‘
(شعر شور انگیز۔ جلد اول۔ ص ۱۸)
لیکن استعارے کے ضمن میں ان کی رائے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں مشرقی شعریات میں استعارہ اہم مقام نہیں رکھتا بلکہ یہاں مضمون کو اہمیت حاصل ہے۔ اور اسی وجہہ سے انہوں نے شعر شور انگیز کی چاروں جلدوں میں بقول خود مضمون اور نفس مضمون کا احاطہ کیا۔ لیکن استعارے کے بارے میں اپنی رائے کے باوجود انہوں نے میرؔ کے استعاروں پر ایک پورا باب تحریر کیا ہے، اس کا آگے ذکر آئے گا۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ تفہیم شعر کے سلسلے میں مغربی نقادوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ جب کہ مشرقی شعریات میں بہت کم بحث ہوئی ہے۔ لیکن یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگرچہ مشرقی شعریات اور خصوصاً اردو کا تنقیدی سرمایہ کمیت کے اعتبار سے مغربی نقادوں کے مقابلہ نہیں کر سکتا اور شاید اسی پر طنز کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے اردو تنقید کو معشوق کی موہوم کمر کہا تھا لیکن تفہیم شعر کے ضمن میں یہاں بھی بہت کچھ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ سب مضامین کی شکل میں ہیں اور تفہیم شعر کے طریقوں اور اصولوں پر کوئی منضبط قسم کی کتاب نہیں ملتی۔ پھر بھی نقادوں نے اپنے اپنے نظریات کے تحت تفہیم شعر کا فریضہ انجام دیا۔ کئی نقادوں کے علاوہ مجنوں گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، ممتاز حسین، عمیق حنفی کے علاوہ خود فاروقی نے تفہیم شعر کے اصول اور طریقہ کار متعین کرنے میں نمایاں کام کیے ہیں۔
غالبؔ غالباً وہ پہلا شاعر ہے جس کے کلام کی باضابطہ شرحیں تحریر کی گئیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ غالبؔ ادق نگاری میں ملکہ رکھتے تھے۔ ان کے ہاں معنی کی مختلف تہیں ہیں جن تک رسائی آسان نہیں۔ چنانچہ بیسیوں شرحوں کے باوجود مختلف تہیں فاروقی نے تفہیم غالبؔ کا سلسلہ شروع کیا تھا جو شب خون میں مسلسل شائع ہوتا رہا اور بعد میں کتابی شکل میں بھی منظر عام پر آیا۔ دوسرا اہم شاعر اقبالؔ ہے جس کی شرحیں لکھی گئیں۔ میرؔ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا کلام چھ سات دواوین پر مشتمل ہے۔ تمام دواوین کا تجزیاتی مطالعہ اور پھر تفہیم تحریر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس بار کو اٹھایا۔ پھر بھی ’’شعر شور انگیز‘‘ کی چار جلدوں میں میرؔ کے تمام کلام کی تفہیم نہیں ہے۔ میرؔ کے کلام کے بارے میں تقریباً سبھی نقاد متفق ہیں کہ ان کے ہاں رطب و یابس سبھی کچھ ہے۔ اگر چہ فاروقی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے لیکن خود انہوں نے بھی میرؔ کے تمام دواوین سے اپنے مذاق اور مزاج کے مطابق اشعار کا انتخاب کیا۔ ان کا انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ جو اشعار انہوں نے کمزور یا سطحی سمجھے، انہیں اپنے انتخاب میں جگہ نہ دی۔ ہو سکتا ہے کل کوئی اور نقاد میرؔ کا ایک اور انتخاب کرے اور ایسے اشعار کو شامل کرے جن پر متقدین نے توجہ نہ کی ہو۔
میرؔ کا انتخاب مولوی عبدالحق کے علاوہ اثرؔ لکھنوی، حسرتؔ موہانی، حامدیؔ کاشمیری، محمد حسن عسکری، سردار جعفری اور دوسروں نے کیا ہے لیکن فاروقی کے مطابق اثر لکھنوی کے انتخاب میں عقیدت مندانہ جذبات ہیں۔ محمد حسن عسکری نے ایک مخصوص اور محدود نقطہ نظر سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے میرؔ کی ایک نمائندہ تصویر پیش کرنے کی کوشش میں ان کے ہاں عمدہ اشعار کے ساتھ کم عمدہ اشعار بھی آ گئے ہیں۔ سردار جعفری کے انتخاب کو بعض حدود اور نقطہ نظر کی تنگیوں کے باوجود قابل قدر قرار دیتے ہیں۔ پھر بھی ان کو شکوہ ہے کہ سردار جعفری نے میرؔ کے کئی رنگوں کو نظرانداز کر دیا۔
چنانچہ فاروقی نے میرؔ کا ایک نیا انتخاب کرنے کی ٹھانی اور جو اشعار منتخب کیے ان کے لیے اس اصول کو پیش نظر رکھا کہ ایسے اشعار بھی شامل ہو جائیں جو بظاہر عہد حاضر کے تصور غزل سے میل نہیں نہیں کھاتے لیکن ان میں کہنے کے لیے کچھ بات ہے۔ انہوں نے جس شعر کو اہم یا اچھا سمجھا اسے اپنے انتخاب میں شامل کر لیا اور کچھ ایسے اشعار چھوڑ دیے جن کی سیاسی یا انقلابی تعبیر قبل کے انتخاب کرنے والوں کے پیش نظر تھی۔ انتخاب کا یہ کام فاروقی نے ۱۹۷۹ء میں شروع کیا تھا جو ۸۲ء میں ختم ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے تفہیم لکھنے کے کام کا آغاز کیا۔
فاروقی کے اس انتخاب کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مختلف دواوین میں شامل ایک ہی زمین کی غزلوں سے بنا دی۔ مگر حاشیے میں وضاحت بھی کر دی کہ یہ اشعار کس دیوان سے لیے گئے ہیں۔
انتخاب کے ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ جو اشعار منتخب کیے جائیں، ان کا متن درست ہو۔ شمس الرحمن فاروقی ظل عباس عباسی کے مرتبہ کلیات میرؔ کو زیادہ نسخوں سے تقابل کر کے اپنے طور پر متن طئے کیا ہے۔
شعر شور انگیز کی پہلی جلد میں فاروقی نے تفہیم میرؔ کے ضمن میں اپنے طریقہ کار کی پوری طرح وضاحت کر دی ہے اور اس طرح شعری تفہیم کو تنقید کی ایک علیحدہ شاخ بنا کر ایک طرح سے اس کے اصول و ضوابط اور خدوخال متعین کر دیے ہیں۔
تمہید کے بعد شعر شور انگیز کی پہلی جلد میں آٹھ ابواب پر مشتمل محاکمہ ہے۔ جو تقریباً دو سو صفحات پر محیط ہے۔ میرؔ کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ فاروقی اسے مفروضہ قرار دیتے ہیں۔ پہلے باب ’’خدائے سخن میرؔ یا غالبؔ‘‘ میں وہ لکھتے ہیں۔
’’غالبؔ کے ہوتے ہوئے میں میرؔ کو خدائے سخن نہیں کہہ سکتا۔ لیکن میرؔ کے ہوتے ہوئے غالبؔ کو بھی خدائے سخن کہنا ممکن نہیں‘‘
میرؔ کے خدائے سخن کہے جانے کو وہ مفروضہ قرار دینے کے باوجود آگے کہتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض معاملات میں غالبؔ کا مرتبہ میرؔ سے بلند ہے اس کے باوجود غالبؔ کو میں خدائے سخن نہیں کہتا، بعض حالات میں میرؔ کو خدائے سخن کہہ سکتا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔‘‘
دلیل اس کی یہ ہے کہ فاروقی کے مطابق میرؔ نے آٹھ اصناف میں طبع آزمائی کی اور خاصا کلام چھوڑا۔ بلکہ بعض لوگوں کے مطابق واسوخت کے موجد بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک بحر بھی تقریباً ایجاد کی۔ (یہ بحر متقارب شانزدہ رکنی ہے ) جب کہ غالبؔ نے غزل قصیدہ اور رباعی ہی میں طبع آزمائی کی۔ ایک آدھ مثنوی اور مرثیے کے چند بندوں کو فاروقی اس لیے اہمیت نہیں دیتے کہ خود غالبؔ نے بھی دبیر کے رنگ میں کہے گئے اپنے مرثیے کو مرثیے سے زیادہ واسوخت بتایا تھا۔ فاروقی یہ بھی لکھتے ہیں کہ عروض میں غالبؔ کا کوئی تصرف نہیں۔ حالانکہ
’’حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے‘‘
والی غزل میں عروضی معرکہ آرائی موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بحر میں کچھ اساتذہ فن نے بھی طبع آزمائی کی ہو لیکن غالبؔ کی جدت پسندی نے اس بحر کو استعمال کر کے اپنی عروضی دانی کا ثبوت مہیا کیا ہے۔
ویسے غالبؔ اور میرؔ کے تقابلی مطالعہ کے ضمن میں فاروقی کا یہ باب خاصے کی چیز ہے اور اس بات کے اختتام پر فاروقی بہر حال اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ خدائے سخن کا خطاب میرؔ ہی کو زیب دیتا ہے۔ اگلے باب ’’غالب اور میر‘‘ میں بھی انہوں نے لسانی اعتبار سے بھی میرؔ کے شعری کارخانے کو غالبؔ سے برتر ہی قرار دیا ہے۔
تیسرا اور چوتھا باب میرؔ کی زبان، روز مرہ یا استعارہ ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، فاروقی نے شعر شور انگیز کی چاروں جلدوں میں اشعار کی تفہیم کرتے ہوئے مضمون اور نفسِ مضمون پر زیادہ زور دیا۔ اور پھر یہ 0000بھی کہ مشرقی شعریات میں استعارہ اہم مقام نہیں رکھتا۔ لیکن ان دو ابواب میں فاروقی نے استعاروں پر بڑی عمدہ بحث کی ہے اور چرڈس اور بروکس کے حوالے سے استعارے پر روشنی ڈالتے ہوئے میرؔ کے استعاروں کے مرکز جاذبہ (Center of Gravity) تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہیں۔
استعارے کا معاملہ یہ ہے کہ مسلسل استعمال اس کے مفاہیم کو محدود کر دیتا ہے۔ لیکن ایک مشاق فن کار مسلسل استعمال ہونے والے استعاروں کے بطن سے بھی نئے نئے مفاہیم پیدا کر سکتا ہے۔ جدید طرز فکر میں البتہ قدیم استعاروں کے استعمال سے شعوری طور پر گریز کیا گیا اور نئے استعارے وضع کیئے گئے لیکن اب نئے استعارے بھی اپنے مفاہیم کھو رہے ہیں اور آج کا فنکار نئے نئے استعاروں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔
میرؔ کے ہاں جو استعارے ہیں ان کی مثالیں دیتے ہوئے فاروقی نے ثابت کیا ہے کہ عام حقیقتوں کا اظہار میرؔ کے یہاں انکشاف کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ جب کہ ابتداء میں وہ کہتے ہیں کہ میرؔ کے استعاروں میں طنز اور قول محال کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
’’بحر میر‘‘ کے عنوان سے فاروقی نے جو بات تحری کیا اس میں میرؔ کے کلام کا محدود عروضی تجزیہ بھی شامل ہے۔ بحر متقارب شانزدہ رکنی میرؔ کی پسندیدہ بحر تھی جس میں ہندی چھند کا سا آہنگ نمایاں ہے۔ اس بحر میں بقول فاروقی میر ؔ نے ۱۸۳ غزلیں کہی ہیں۔ یہ بحر ویسے دکن میں شاہی نے اور لکھنو میں جرات نے بھی استعمال کی لیکن میرؔ نے اس بحر کو اتنا زیادہ برتا کہ میرؔ کے مزاج کا حصہ بن گئی۔
فاروقی لکھتے ہیں:
’’درد، اثر، مصحفی، شاہ حاتم، یقین، قائم وغیرہ کے ہاں مجھے یہ بحر نظر نہیں آئی لہذا ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اگر میرؔ نے یہ بحر بکثرت استعمال نہ کی ہوتی تو بعد کے لوگ اس سے کم و بیش بے خبر ہوتے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
اس باب کے آخر میں اپنے محاکمے کے نتائج کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ:
اس کتاب کا نواں باب ’’شعر شور انگیز‘‘ ہی کے عنوان سے ہے۔ جس میں فاروقی نے دیگر نقادوں کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ میرؔ کے ہاں دھیما پن، نرمی، آواز کی پستی اور ٹھہراؤ ہے۔ وہ اس خیال کو مغربی رومانی تصورات کا پرور دہ بتاتے ہیں۔ مولوی عبد الحق نے میرؔ کے یہاں سوز و گداز اور درد کو بنیادی عنصر قرار دیا تھا۔ آل احمد سرور کے خیال کے مطابق میرؔ کے الفاظ میں گرج اور کڑک نہیں ملتی۔ فراق میرؔ کے لہجے کے دھیمے پن اور نرمی کو ان کا اہم وصف قرار دیتے ہیں۔ لیکن فاروقی کہتے ہیں کہ میرؔ کے ہاں گونج اور پھیلتی ہوئی آواز ہے اور میرؔ کا کلام روانی کی معراج پر ہے۔ لیکن اس گونج، پھیلتی ہوئی آواز اور روانی کو محسوس کرنے کے لیے ان کے خیال کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اشعار کو بلند اور گونجیلے لہجے میں ادا کیا جائے۔
یہاں فاروقی سے قدرے اختلاف کی گنجائش ہے۔ لیکن میرؔ کے ہاں صرف روانی کا معاملہ ہے۔ یہ بات بر حق ہے کہ میرؔ کے کلام میں روانی معراج پر ہے۔ لیکن میرؔ کے ہاں صرف روانی، گونج اور پھیلتی ہوئی آواز ہی نہیں بلکہ نرمی، دھیمے سروں کا آہنگ اور سرگوشیانہ کیفیت بھی ہے۔ اور میرؔ کا کلام ان تمام متضاد عناصر کا ایک حسین امتزاج ہے۔ میرؔ کایہ شعر
’’سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے‘‘
بلند اور گونج دار لہجے میں پڑھنے کا شعر نہیں۔ کسی طرح بھی پڑھا جائے، اس کے اندر موجود سوز و گداز چھپ نہیں سکتا۔ اور اگر اسے سرگوشیانہ لہجے میں پڑھا جائے تو تاثر اور گہرا ہو جاتا ہے۔ اور اس کے اندر پوشیدہ غم انگیز کیفیت اور ابھر کر سامنے آتی ہے۔ گھن گرج تو سوداؔ کے اس شعر میں اسی مضمون پر ہے کہ
سودا کی جو بالیں پہ ہوا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
یہی وجہ ہے کہ آل احمد سرور، فراق اور دوسروں نے میرؔ کے نرم اور مدھم لہجے کو اہمیت دیتے ہوئے اسے میرؔ کے کلام کا سب سے نمایاں وصف قرار دیا۔ فاروقی نے میرؔ کے کچھ اشعار درج کر کے انہیں ایک بار معمول سے زیادہ زور اور بلند آہنگی سے پڑھنے کی ہدایت کی ہے اور پھر ایک بار دھیمی آواز اور سرگوشی سے لہجے میں پڑھنے کے لیے کہا ہے۔ اور نتیجہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ممکن ہی نہیں کہ ان شعروں کو مدھم اور میٹھے سروں میں پڑھا جائے اور پھر بھی ان کی قوت واضح ہو جائے‘‘
ان اشعار میں سے چند ہیں۔
سب گئے، ہوش و صبر و تاب و تواں
لیکن اے داغ، دل سے تو نہ گیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
ہو سکتا ہے کہ ان اشعار کو جھنجھلائے ہوئے لہجے میں پڑھا جائے اور اس میں ایک طنز آمیز کیفیت ابھر کر آئے۔ لیکن راقم الحروف کے خیال کے مطابق ان اشعار کا صحیح حظ مدھم، میٹھے، سوز آمیز اور سرگوشی میں پڑھنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
یہ اپنے اپنے نقطہ نظر کی بات ہے۔ ویسے میرؔ کے یہاں گونج دار آواز پڑھا جانے والے اشعار کی بھی کمی نہیں۔
تسبیحیں ٹوٹیں، خرقے، مصلے پھٹے جلے
کیا جانے خانقاہ میں کیا میرؔ کہہ گئے
تم کبھو میرؔ کو چاہو ہو کہ چاہیں ہیں تمہیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں
لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ چار جلدوں اور تقریباً دو ہزار سات سو صفحات پر مشتمل ’’شعر شور انگیز‘‘ اردو میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جس میں اتنی تفصیل سے میرؔ کے شعری مزاج، لہجہ، فکری آہنگ، زبان و بیان، استعارے، مضمون کی تہہ داریوں اور اظہار کی مختلف جہتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان چاروں جلدوں میں نہ صرف میرؔ کے کلام کی تفہیم ہے بلکہ دیگر اساتذہ کے کلام سے تقابل کر کے میرؔ کے فن کا بھرپور تجزیہ بھی موجود ہے۔
ہر جلد کے اختتام پر فاروقی نے ایک جدت کی ہے کہ قدیم زمانے کی کتابوں کے طریق پر آخر میں فارسی میں انہوں نے ترقیمہ بھی لکھ دیا ہے۔ آخری جلد کے ترقیمے میں وہ اس کتاب کو ’’غوعائش مثال غلغلۂ رستا خیز‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کسر نفسی کے باوجود یہ کہے بغیر رہا نہیں جاتا کہ مجھ جیسا کم سواد طالب علم ہو یا بے حد عالم و فاضل قسم کا نقاد اور یا پھر کوئی ماہر میریات کا دعویدار، یہ کتاب ذہن و دل کے دریچوں میں روشنی بکھیر دیتی ہے۔ شعر شور انگیز کی یہ چار جلدیں ایک طرف تو میرؔ فہمی کے نئے امکانات سے روشناس کراتی ہیں دوسری طرف خود شمس الرحمن فاروقی کی افتاد طبع، علمیت اور ان کے گہرے تنقیدی شعور کی غماز ہے۔