مولانا آزاد کی ادبی، سیاسی و صحافتی خدمات پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ اس سلسلے میں محض کچھ تعریفی کلمات پر اکتفا کرنا یا پھر کچھ پیش رو مقررین، مصنفین کی آراء کو دہرا دینا غیر تشفی بخش ہو گا۔ میں مولانا آزاد کے افکار کا تجزیہ کرتے ہوئے موجودہ حالات میں ان کی موزونیت و اہمیت کو اپنے اس مقالے میں اجاگر کرنا چا ہوں گا۔ مولانا آزاد (1888-1958) ایک منفرد، ہمہ پلو شخصیت کے مالک تھے ۔ بیسویں صدی کا کوئی مورخ جو تاریخ جدوجہد آزادی ہند قلم بند کرنے پر کمربستہ ہو، وہ مولانا آزاد کی شخصیت و کردار اور ان کی جدوجہد آزادی اور مابعد آزادی گراں قدر رول پر ایک باب قلمبند کرنے پر خود کو مجبور پائے گا۔ اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں مولانا کا ذہن ادب کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی و فکری ارتقاء کیلئے لائحہ عمل کی تدوین کی طرف راغب تھا۔ انہوں نے اس دور میں کوئی 16 رسالوں کیلئے لکھا اور محض 24سال کی عمر میں 13جولائی 1912ء کو "الہلال” جاری کیا جو 18!نومبر 1914ء تک جاری رہا۔ اپنے نئے انداز تکلم، بے باکی اور اعلی ادبی معیار کی وجہہ سے "الہلال” نے تہلکہ مچادیا اور محض دو سالوں میں آزاد کے مطابق اس کی اشاعت 26000 تک پہنچ گئی جو اردو زبان میں ایک کارنامہ تھا۔ اس سے پہلے اردو کے کسی رسالے کی رسائی اس تعداد تک نہیں ہوئی تھی۔ حکومت وقت کو خطرہ محسوس ہوا اور پریس ایکٹ کے تحت حکومت نے "الہلال” کے پریس کو 1914ء میں ضبط کر لیا۔ لیکن محض 5مہینوں کے اندر یعنی 12!نومبر 1915ء کو مولانا آزاد نے "البلاغ” جاری کر دیا جو 3!اپریل1916 تک جاری رہا۔ حکومت برطانیہ نے اس مرتبہ ڈیفنس آف انڈیا ریگولیشن کا استعمال کر کے "البلاغ” کو بند کر دیا۔ مولانا اور ان کے رفقاء کے زور قلم کی تاب نہ لا کر حکومت نے مولانا پر قید وبند کی صعوبتیں مسلط کر دیں ۔ مولانا نے 4سال رانچی میں حراست میں گذارے کیونکہ کلکتہ، پنجاب، دہلی، یوپی اور ممبئی کی حکومتوں نے آزاد کے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔ مولانا کو قید و بند کا متواتر سامنا رہا۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ساتواں حصہ یعنی 9سال 8مہینے قید و بند کی حالت میں گذارے ۔ "غبار خاطر” میں مولانا نے جنبش قلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے کم ازکم 16رسالوں کیلئے لکھا۔ "الہلال” ایک بار پھر 10جون 1927ء سے دسمبر 1927ء تک جاری رہا۔ مولانا کی تصنیفات 58 اور متفرقات 22 تحریروں پر مشتمل ہیں ۔ ان تحریروں سے مولانا کی صحافتی و ادبی خدمات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ نہرو لکھتے ہیں کہ مولانا کی تحریریں شدت و ندرت، جدت وجرات، نئے افکار، عقلیت، معقول پسندی، جدیدیت اور فرسودہ خیالات کی تنقید سے سرشار تھیں ۔ مولانا نے نئے اسلوب میں لکھا۔ ان کی عربی و فارسی پر قدرت ان کی زبان کو کسی حد تک ادق بنادیتی تھی لیکن انہوں نے نئی اصطلاحات اور نئے خیالات و اسلوب کے ذریعہ اردو زبان کو ایک مخصوص ہئیت دی۔ اسے نئی را ہوں سے روشناس کروایا۔ آزاد کی جدت کی مخالفت بھی ہوئی مگر اپنے مخالفین کو انہوں نے اپنی اعلی علمی قابلیت سے خاموش کر دیا۔ انہوں نے علی گڑھ گروپ کی رجعت پسندی و علیحدہ پسندی کی شدید مخالفت کی اور کم عمری میں اپنی تحریروں سے ایک شورش پیدا کر دی۔ ان کے نزدیک اسلام اورہندوستانی قوم پرستی میں کوئی تضاد نہ تھا۔ گوکہ وہ 1906ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے مگر ان کی تحریروں نے مسلم لیگ کو کانگریس کے قریب لانے میں مدد کی۔ "الہلال” نے آزاد کے الفاظ میں "مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ آزادی کی راہ میں قربانی و جان فروشی ان کا قدیم اسلامی ورثہ ہے ، ان کا اسلامی فرض ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کو اس راہ میں پیچھے چھوڑدیں "۔ مولانا آزاد کی ادبی و صحافتی خدمات بے لوث تھیں ۔ 27!جولائی 1912ء کے "الہلال” میں وہ لکھتے ہیں : "ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لئے نہیں بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں ۔ صلہ و تحسین کیلئے نہیں بلکہ نفرت و دشنام خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈتے ہیں ۔ دنیاکے زر وسیم کو قربان کرنے کیلئے نہیں بلکہ خود اپنے تئیں قربان کرنے آئے ہیں "۔ "ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قسمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہے وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لئے دھبہ اور سرتا سر عام رہے ۔ ہم اخبار نویس کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض الہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں ۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہئے اور چاندی اور سونے کا تو سایہ بھی اس کیلئے سم قاتل ہے "۔ مولانا کی کم عمری میں ان کی فکری پختگی و بلوغت نے بزرگان وقت کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اکثر حضرات مولانا آزاد کو بار بار دیکھتے اور تعجب سے پوچھتے : "کیا یہی نوجوان ابوالکلام ہیں ؟” زبان پر قدرت کچھ ایسی تھی جیسے الفاظ ان کے سامنے با ادب ہاتھ باندھے کھڑے ہوں اور انہوں نے جس کو چاہا استعمال کر لیا۔ مولانا نے اردو زبان کو اپنی منفرد نگارشات سے مالا مال کیا۔ اسے نئی را ہوں سے آشنا کروایا، اظہار خیال کو نئی جدتوں ، وسعتوں و بلندیوں سے متعارف کروایا۔ افکار و جذبات کے اظہار کو نئی جدتیں بخشیں اردو زبان ان کی ہمیشہ احسان مند رہے گی اور ان پر جذبہ احسان مندی کے ساتھ فخر کرے گی۔ ادبی خدمات کے ذکر کے بعد اب آئیے مولانا کی صحافتی خدمات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں ۔ جس دور میں مولانا آزاد حرکی و کارگر تھے اس دور میں صحافت اور ادب کا رخ فکر انگیز لوگ ہی کیا کرتے تھے جو کچھ ٹھوس پیغام عوام الناس تک پہنچانے کے خواہاں ہوں ایسے لوگ سنجیدہ اور مخلص ہوتے تھے ، اپنا ایک منفرد زاویہ نگاہ رکھتے تھے اور اس کے اظہار کی قابلیت، کہنے کا عزم، ولولہ و جرات رکھتے تھے ۔ ان کا دل لوہے کا اور جگر پتھر کا ہوتا تھا۔ اس دور میں صحافت محض ایک بزنس، ایک ذریعہ حصول دولت و سیاسی شعبدہ بازی نہ تھا اور نہ ہی ایک پیشہ۔ نہ اخبارات بڑے بڑے سرمایہ دار چلایا کرتے تھے ۔ صحافت نفع کمانے کا ذریعہ نہ ہو کر ایک مشن تھا۔ ایڈیٹر خود پر چہ نکال کر اس میں اپنا سرمایہ مشغول کرتا تھا اور اکثر نقصان اٹھاتا تھا۔ اس دور میں ملک آزاد تھا نہ لکھنے کی آزادی ہی تھی۔ ایسے میں ایک اخبار چلانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف یہ عتاب حکومت اور قید و بند کی صعوبتوں کو دعوت دینے کا آسان طریقے تھا۔ مولانا کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مولانا آزاد کو ایک طرف علمی دلچسپیوں کے ساتھ انصاف کرنا تھا تو دوسری طرف عملی تقاضوں کا سامنا کرنا تھا جہاں سیاسی اکفار و جدوجہد کا غلبہ تھا۔ علم و عمل کو یکجا کرنا کوئی سہل کام نہیں تھا۔ گوکہ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے مگر مولانا "الہلال” کے اجراء کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں : "…. الہلال کا مقصد اس اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے اعمال و معتقدات میں صرف کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور خواہ وہ تعلیمی مسائل ہوں ، خواہ تمدنی، سیاسی ہوں ، خواہ اور کچھ وہ ہر جگہ مسلمانوں کو صرف مسلمان دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کی صدا صرف یہی ہے کہ ….. اس کتاب اﷲ کی طرف آو جو ہم اور تم دونوں میں مشترک ہے "۔ مولانا آزاد صحافت میں ایمانداری، دیانتداری، الوالعزمی، بے خوفی اور اعلی کردار اخلاص کے علم بردار تھے ۔ ان کا معیار صحافت نہایت بلند و بالا، اعلی وارفع تھا۔ جوبات دل سے نکلتی ہے اثر کرتی ہے اور الہلال کی باتوں نے دلوں کو جیت لیا۔ یہ اخبار مذہب کے علاوہ اپنی وسعت میں سیاست، معاشیات، نفسیات، تاریخ، جغرافیہ، عمرانیات، سوانح اور ادب پر محیط تھا۔ اس دور کے اعلیٰ ترین مدبروں ، اکابرین، مصنفین اور شعراء نے الہلال کو اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ جیسے شبلی نعمانی، حسرت موہانی، اقبال، سید سلیمان ندوی، عبداﷲ عمادی، مولانا عبدالماجد دریابادی وغیرہ۔ الہلال اپنے آپ کو سیاست سے دور نہ رکھ سکا گوکہ مولانا آزاد کا اصرار تھا کہ "الہلال” کوئی سیاسی اخبار نہیں ہے بلکہ ایک دینی دعوت اصلاح کی تحریک ہے جو مسلمانوں کے اعمال میں مذہبی تبدیلی چاہتی ہے …. الہلال اپنے ہر خیال کو خواہ وہ کسی موضوع سے تعلق رکھتا ہو، محض اسلامی اصولوں کے تحت ظاہر کرتا ہے ۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں ” الہلال کی اور تمام چیزوں کی طرح پالیٹکس میں بھی یہی دعوت ہے کہ نہ گورنمنٹ پر بے جا بھروسہ کیجئے اور نہ ہندوؤں کے ساتھ حلقہ درس میں شرک ہوئیے ۔ صرف اسی راہ پر چلئے جو اسلام کی بتائی ہوئی صراط مستقیم ہے "۔ کہا جاتا ہے کہ صحافت عجلت میں پیدا کیا گیا ادب ہے ۔ الہلال کے شماروں میں ادب کی گہری چھاپ تھی۔ مولانا آزاد کا سیاسی نقطہ نظر منفرد، جاذب، بڑی حدتک قابل عمل تھا جو اس دور کے ہندوستان اور آج کے ہندوستان دونوں میں اپنی خاص معنویت رکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر تک پہنچنے میں مولانا کو مختلف منزلوں سے ہو کر گذرنا پڑا۔ ابتداء وہ سرسید سے متاثر تھے اور بعد میں مخالف ہو گئے ۔ وہ اسلام، مسلمانان عالم سے گہری یگانگت اور مسلمانوں کے ایک منفرد لائحہ عمل کے راستے سے ہو کر قومیت، قومی اتحاد، کثرت میں وحدانیت کی طرف راغب ہوئے تھے ۔ انہوں نے نہایت اجتہادی طریقے سے رسول ا کرمؐ کے مدینہ کے تجربہ کو بنیاد بنا کر ہندوستان میں بین قومی اتحاد کا خاکہ پیش کیا۔ ہجرت کے پہلے ہی سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہودی، صابی، ماگی اور بت پرست قبائیلوں کو ملا کر ایک سیاسی گروہ بنایا تھا تاکہ قریش مکہ کی یلغار سے مہاجرین کو محفوظ رکھا جاسکے ۔ اس مقصد کے ئلے ایک قانونی دستاویز "میثاق مدینہ” یا عہد نامہ مدینہ تیار کی گئی جس پر سب نے اتفاق کیا۔ ان مختلف مذاہب پر مبنی سیاسی گروہوں کو آپ نے امۃ الواحدہ یعنی ایک قوم کا نام دیا۔ گوکہ یہ اسکیم کامیاب نہیں رہی لیکن مولانا آزاد ہندوستان میں اسی قسم کا ہندو مسلم معاہدہ چاہتے تھے جو سنت رسول کے مطابق ہے ۔ رام گڑھ میں مارچ 1904ء کو مولانا آزاد نے کانگریس پارٹی سے یوں خطاب کیا: "ہندوستان کیلئے قدت کا یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں ، مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے ۔ ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہو گئی اور پھر ایک کے بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔ اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گود نے سب کے لئے جگہ نکالی۔ ان ہی قافلوں میں ایک آخری قافلہ ہم پیروان اسلام کا بھی تھا۔ مولانا نے یہ بھی کہا تھا کہ تاریخ کی پوری 11صدیاں اس واقعہ پر گذرچکی ہیں ۔ اب اسلام بھی اس سرزمین پر ایسا ہی دعوی رکھتا ہے جیسا دعوی ہندو مذہب کا ہے ۔ اگر ہندو مذہب کئی ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس کے باشندوں کا مذہب چلا آتا ہے ۔ جس طرح آج ایک ہندو فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندو مذہب کا پیرو ہے ، ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہیں اور مذہب اسلام کے پیرو ہیں ۔ میں اس دائرے کو اس سے زیادہ وسیع کروں گا۔ میں ہندوستانی مسیحی کا بھی یہ حق تسلیم کروں گا کہ وہ آج سراٹھا کر کہہ سکتا ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اور باشندگان ہند کے مذہب یعنی مسیحیت کا پیرو ہوں ۔ ہماری گیارہ صدیوں کی مشترکہ (ملی جلی) تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھردیا ہے ۔ ہماری زبانیں ، ہماری شاعری، ہمارا ادب، ہماری معاشرت، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم و رواج، ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں ، کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر اس مشترکہ زندگی کی چھاپ نہ لگ گئی ہو۔ ہماری بولیاں الگ الگ تھیں ، مگر ہم ایک ہی زبان بولنے لگے ۔ ہمارے رسم و روج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے مگر انہوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کر لیا۔ ہمارا پرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا۔ یہ تمام مشترکہ سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے ۔ سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ایذا پہنچانے کا سلسلہ زور پکڑتا گیا۔ خود مولانا کو سیکولرازم کے نام پر خاموش کر دیا گیا۔ اس طرح مسلمانوں اور اردو والوں کے ارمان کوخون ہوتا رہا۔ مولانا کے خیالات پرانے (Dated) لگنے لگے ۔ آزادی سے پہلے اور مابعد آزادی حالات کا تجزیہ، عملی سیاست اور سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا رواج عام ہوتا گیا اور ابھی بھی جاری ہے ۔ عملی اور فعال سیاست سے مسلمان دور ہوتے گئے ۔ خود کو ایک خول میں بند کر لیا گوکہ کچھ موقع پرست Active رہے ۔ اس طرح Alienation مسلمانوں کا مقدر بن گیا۔ ایک طرف ان پر تقسیم کے الزام کا بوجھ ناجائز طورپر لاد دیا گیا تو دوسری طرف ان کہ ہر جائز مطالبے کوفرقے واریت سے تعبیر کیا گیا۔ تقسیم ملک ایک پیچیدہ عمل تھا جسے عائشہ جلال اور دوسروں نے اجاگر کیا ہے ۔ اس کیلئے صرف مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانا حقائق سے رو گردانی کرنا ہے ۔ بہرحال پچھلے 58سالوں سے مسلمان ایک Alienationاور خوف میں جیتے رہے ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم مولانا کے مناسب خیالات کو اجاگرکریں اور اس سے آگے جانے کی سعی کریں ۔ مولانا کی صحافتی، ادبی و سیاسی خدمات کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان حالات میں گرانقدر تھیں ۔ ان کا کسی حدتک موجودہ حالات میں بھی مناسب و موزوں ہونا مسلم ہے ۔ مولانا نے اردو صحافت کوایک نئے رنگ میں رنگا۔ اسے نئے معیارات سے متعارف کروایا۔ ان کا اسلوب بیاں نہایت جدت پسند، جامع اور موثر تھا جس نے بیسیوں صدی کے پہلے دہوں میں ایک تہلکہ مچادیا تھا۔ ان کی علمی، عقلی و ادبی صلاحیتیں سقم سے بالاتر اور اردو دوالوں کیلئے خاص کر اور دوسروں کیلئے عام طورپر قابل قدر ہیں ۔ ان کی کتابیں مضامین، کالم، حاشیے اور دوسری تمام تحریریں اردو کیلئے بیش بہا خزانہ ہیں جن سے اردو والے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے ۔ انہوں نے اردو میں اظہار خیال و جذبات کے دائرے کو وسیع تر کیا اور نئی جدتوں اور ترکیبوں سے اردوکو متعارف کروایا۔ اردو ان کی ہمیشہ قرض دار رہے گی اور اردو والے ان کے احسان مند۔
Related posts
-
آلِ احمد سرور ۔۔۔ حسرت کی عشقیہ شاعری: میری نظر میں
حسرت کی شاعری کی قدروقیمت کو پرکھتے وقت ان کے ان اشعار کو ذہن میں رکھنا... -
اکرم کنجاہی ۔۔۔ زاہدہ حنا
زاہدہ حنا زاہدہ حنا ایک ممتاز صحافی، کالم نگار، فکشن اور ڈراما نگار ہیں۔ ۵؍ اکتوبر... -
اکرم کنجاہی ۔۔۔ پروین شاکر
پروین شاکر پروین شاکر کے ہاں بھی اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات زیادہ ہے مگر اظہارِ...