جھوٹی تہذیب اور سچا آدمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہندوستانی راہ نما کا بیٹا کسی پری پیکر کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔لڑ کی بابا کے دوست کی بیٹی تھی۔خواہش تھی کہ اس چاہت کو جیون بھر کے بندھن میں بدل دیا جائے ۔۔۔مطالبہ باپ کے سامنے رکھا گیا۔۔۔نام ور اور جہاں دیدہ باپ نے کہا:’بیٹا! اگر اگلے پانچ برس تک تمھاری یہ خواہش زندہ رہی تو اپنے ہاتھوں تمھارا یہ مطالبہ پورا کر وں گا‘۔۔۔اور بیٹے کو دور دراز آزادی کی جنگ لڑ نے بھیج دیا۔
یہ پانچ سال نہیں بل کہ اکیس سال پہلے کی بات ہے میں نے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں ۔ ان کی مہربانی کہ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں نے ان کے ساتھ ایک طویل نشست میں ان کی زندگی کے احوال و کوائف دریافت کر لیے لیکن پھر صاحبِ ہدایہ نے مجھے کچھ لکھنے سے روک دیاجن کا خیال ہے کہ کسی شخص کو جب تک چارموسموں تک نہ دیکھ لیا جائے اس کے بارے میں رائے زنی نہیں کرنی چاہیے ۔/۲۳۲ڈی سٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں بیٹھا جب میں خورشید صاحب سے ان کے احوال و کوائف دریافت کر رہا تھا تو ابھی میری شناسائی نے چار موسم نہیں دیکھے تھے ۔اس کے بعد میں زندگی کی جنگ لڑ نے دور دراز کے اَسفار پر نکل گیا لیکن جس طرح اس نام ور ہندوستانی سیاست دان کا بیٹا پانچ برس بعد جنگ سے لوٹ کر بھی اپنی آرزو پر قائم رہا، اس طرح میں آج بھی اپنی آرزو پر قائم ہوں ۔۔گو اب لکھا جانے والا وہ نہیں ہو گا جو اب سے پہلے لکھا جا سکتا تھا۔
خورشید صاحب کو میں نے پہلی بار جناح ہال سرگودھا میں ایک شعری مجموعے کی تعارفی تقریب کے شرکا میں بیٹھے دیکھا۔ اس سے پہلے میری دید ’’سرابوں کے صدف‘‘ تک محدود تھی، اس ملاقات میں (اگر اسے ملاقات کہا جا سکے ) خورشید صاحب کے لبوں پر کھیلتی ہوئی پان کی لالی اور خوش خلقی سے جنم لینے والی مسکراہٹ مجھے اب تک یاد ہے ؛اس تقریب کا حاصل یہی مسکراہٹ تھی، ورنہ وہ شعری مجموعہ تو مدتوں دیکھا تک نہیں ۔ کوئی بیس برس بعد ناصر باغ لا ہور کے بیرونی فٹ پاتھ سے یہی مجموعہ محض اس لیے خریدا کہ اس کی تقریب میں پہلی بار خورشید صاحب کو دیکھا تھا۔
خدا بھلا کرے پروفیسر نظیر صدیقی مرحوم کا جنھوں نے اسلام آباد میں میری اوّلین کتاب دیکھنے کے بعد مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں سرگودھا جاؤں تو خورشید صاحب سے ضرور ملوں ، چناں چہ میں نظیر صدیقی صاحب کی خواہش سمیت خورشید صاحب سے ملا۔ میری اوّلین کتاب کا ذکر بھی ملاقات میں آ گیا۔خورشید صاحب نے اس کتاب کے دیکھنے کی خواہش کی۔ اگلی ملاقات میں کتاب ان کی خدمت میں پیش کر دی گئی جسے انھوں نے توجہ سے پڑ ھا۔ جلد کے سفید اوراق پر پنسل سے صفحات کے نمبر نوٹ کیے اور بعض امور کی طرف میری توجہ مبذول کروائی۔پھر ان سے باتوں اور ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ سالوں پر محیط ہوتا چلا گیا، یوں کہ اب میری گزشتہ زندگی کے تقریباً ہر مرحلے کے ساتھ خورشید صاحب کی کوئی نہ کوئی یاد ضرور وابستہ ہے ۔
میں نے جب خورشید صاحب کو دیکھا تو ان کے بالوں میں اماوس کی چمک تھی۔ وہ اپنے ڈی بلاک والے گھر سے نکلتے ، بائیسکل پر بیٹھتے اور سیٹلائٹ ٹاؤن چوک سے ہو کرایلیمنٹری کالج کے راستے سے نیم دائرہ بناتی ہوئی سرگودھا سٹیڈیم کی دیوار کے ساتھ ساتھ، منہ میں پان کی گلوری رکھے ، آہستہ آہستہ گورنمنٹ کالج سرگودھا جایا کرتے تھے ۔صرف یہی نہیں دن کے دوسرے اوقات میں بھی بائیسکل کے آگے پیچھے عاصم، عامر کو بٹھائے ، سبزی خریدتے ، ریلوے سٹیشن سے راولپنڈی جانے والی گاڑ ی کے اوقات کا پتا کرتے ، یہاں وہاں آتے جاتے انھیں دیکھا جا سکتا تھا۔ عصر کے بعد وہ کبھی کبھار جناح مارکیٹ میں عربی کتابوں کے ایک ظالم گراں فروش کے پاس جایا کرتے تھے اور مغرب کے وقت لوٹتے تھے ۔کبھی کبھار بائیسکل کے ہینڈل پر لٹکائی ہوئی ٹوکری میں عربی کی کوئی کتاب بھی ہوتی تھی۔ راستے میں مغرب یا عشا کا وقت ہو جاتا تو وہ ٹوکری اتار کر ہری پورے کی توکلی مسجد میں نماز ادا کرتے ۔ یہاں میرا ان کا آمنا سامنا ہو جاتا۔ ایسی ہی ایک شام کو میں انھیں اپنے گھر بھی لے گیا تھا۔
میرا خیال ہے یہ ان کی زندگی کے بہترین دن تھے ۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اکثر لوگ ان کے چاہنے والے تھے ۔ کالج کے پرنسپل بھی ان کے قدردان تھے اور انھیں شہر کے حلقوں میں ایک کالج کا پروفیسر نہیں بل کہ ایک خوش فکر عالم کے طور پر جانا جاتا تھا۔سواے محمد رفیق طوسی کی پرنسپلی کے زمانے کے ، جب وہ ایک سیاسی آویزش کا شکار ہو کر کچھ عرصہ کے لیے بوچھال کلاں ٹرانسفر کر دیے گئے ۔ انھوں نے بیس برس کا عرصہ نہایت سکون کے ساتھ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں گزارا۔گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج سرگودھا کا پرنسپل بن جانا ان کی زندگی کے پُرسکون سمندر میں پہلی لرزش ثابت ہوا۔ انتظامی مصروفیت اور کالج اساتذہ کی سیاست مداری کا پہلی بار سامنا ہوا۔گو پرنسپلی کے دوران وہ کسی افسر یا ماتحت کے دباؤ میں نہیں آئے مگر انتظامی ذمہ داری ان کے نزدیک بے مصرف مصروفیت تھی چناں چہ وہ اپنے استادِ گرامی ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب کی خواہش پر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد چلے گئے ۔اگرچہ اسلام آباد میں بھی ان کے قدردانوں اور چاہنے والوں کی کمی نہیں تھی لیکن ان کا قیامِ اسلام آباد کا تجربہ بہت خوش گوار نہیں رہا۔۱۴ِاکتوبر ۱۹۸۵ء کو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے وابستہ ہونے سے قبل بھی وہ ایک بار اسلام آباد گئے تھے ۔یہ وہ وقت تھا جب ابھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی(اس وقت پیپلز اوپن یونی ورسٹی) کا آغاز ہو رہا تھا لیکن اسلام آباد میں ان کا جی نہ لگا اور وہ سبز سے سفید میں آنے کا غم لے کر واپس سرگودھا آ گئے تھے لیکن اب کی بار اُن کے قیامِ اسلام آباد نے خاصا طول کھینچا اور وہ ’’بے دلی، پریشانی اور افسردگی‘‘ کے ساتھ ڈیپوٹیشن کی زیادہ سے زیادہ مدت گزار کر اپنے محکمے میں واپس آ گئے ۔
۷ِ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو انھوں نے گورنمنٹ کالج لا ہور میں صدرِ شعبۂ عربی کے طور پر جوائن کیا۔اس روز انھوں نے دو کلاسیں پڑ ھائیں اور پھر اورینٹل کالج لا ہور سے ہوتے ہوئے ۲۲۲۔لا کالج ہاسٹل میں میرے پاس تشریف لائے ۔ گورنمنٹ کالج لا ہورمیں آنا ان کی دیرینہ خواہش تھی۔چنانچہ وہ پریشان نہیں تھے اور چھے سات برس کے تعطل کے بعد تدریس کا سلسلہ وہیں سے جوڑ کر آ رہے تھے جہاں یہ منقطع ہوا تھا۔ میں نے اس روز انھیں آئرلینڈ کے ایک لیڈر کا قصہ سنایا جو ایک جلسے سے خطاب کے دوران گرفتار ہو گیا تھا۔ مدتوں بعد جب اُسے رہا کیا گیا تو استقبالیہ جلوس کے ساتھ وہ اسی جلسہ گاہ میں پہنچا جہاں سے اسے گرفتار کیا گیا تھا اور اس نے سٹیج پر آ کر تقریر شروع کی: ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
سو خورشید صاحب نے بھی اس طویل تعطل کو یونہی بے معنی سمجھتے ہوئے ازسرِ نو تدریس کا شیوہ اختیار کر لیا۔ان کا خیال ہے کہ وہ ’’مدرس آدمی ہیں ‘‘ اور مدرس کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھوں پروان چڑ ھنے والی نسلیں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں اور وہ خود وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے
تھے کتنے قافلے کہ ملے اور بچھڑ گئے
میں سنگِ میل ہوں کہ جہاں تھا، وہیں رہا
یہ خورشیدصاحب کا ابتدائی زمانۂ ملازمت کا شعر ہے ، کچھ زمانے اس سے پہلے بھی گزرے تھے جب وہ ’’پیارے لعل‘‘ اور ’’بے کس‘ ‘تھے ، غلط فہمی نہ ہو اس لیے وضاحت ضروری ہے کہ ’’پیارے لعل‘‘ کی اس کی سوا کچھ حقیقت نہیں کہ بچپن کے بعض ہم جولی انھیں پیار سے ’’پیارے لعل‘‘ کہتے تھے ۔ جب انھوں نے شعر گوئی شروع کی تو ’’بے کس‘‘ تخلص اختیار کیا، گویا ان کا لعل ہونا بچپن ہی سے معلوم دے گیا تھا۔ بعد کے زمانے میں وہ اپنے ملنے والوں کے پیارے بھی رہے لیکن کبھی بے کس یا سنگِ میل نہ ہوئے ۔۱۹ِ مئی ۱۹۴۲ء کو امروہہ کے رضوی سادات میں آنکھ کھولنے والے بچے اور ۱۲ِجنوری ۱۹۶۲ء کو بہاول پور انٹر کالج میں جوائن کرنے والے نوجوان لیکچر ر نے ترقی اور کمال کی جتنی منزلیں طے کیں اس کے ہاتھوں پروان چڑ ھنے والی نسلوں کا کوئی فرد اُن کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ امروہہ کے شاعر منشی عبدالرب شکیب کو سید حلیم الدین رضوی کے بیٹے کا نام محمد خورشید الحسن رکھتے ہوئے معلوم تھا یا نہیں لیکن وقت نے اس بچے کی طرح داری اور خورشید ہونا ثابت کر دیا۔وہ مدرس آدمی نہیں ہیں ۔ محتاط ہیں اس لیے خود کو معلم نہیں کہتے حالانکہ وہ معلم نہیں ، معلمِ اخلاق یا تعلیمی اصطلاح میں مربی ہیں اور یوں پیغمبری پیشے کے حقیقی مسند نشین کہلانے کے حق دار۔۔۔ایک ایسے دور میں جب لوگ ملازمت کی زیادہ سے زیادہ مدت پوری کر کے بھی اس میں توسیع کے خواہاں رہتے ہیں انھوں نے ۱۹۹۵ء میں جب ابھی ان کی ملازمت کے سات سال باقی تھے ، قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ اس وقت میرے لیے حیرت کا باعث بنا۔ چوں کہ وہ اول تا آخر ایک استاد ہیں ، بے مثل استاد، اس لیے مجھے ہی نہیں ان کے دوسرے مخلصوں کو بھی اس فیصلے سے صدمہ پہنچا لیکن وہ بہت عملی آدمی ہیں ۔ تخیلات و تصورات کے ساتھ زندگی کے سخت حقائق کو سمجھتے اور ان کے مطالبوں کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔ وہ بہ زبانِ مجید امجد منٹو کی طرح یہ نہیں کہتے کہ دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے ۔ انھیں عزت کے ساتھ سر بھی عزیز ہے ۔ ان کی آموزش یہ ہے کہ زندگی کو اس کی تمام بدصورتیوں کے باوصف کامیابی سے گزارا جائے ۔
۷ِدسمبر ۱۹۹۵ء کو جب وہ گورنمنٹ کالج لا ہور سے سبک دوش ہو کر آ رہے تھے ، میں نے یونی ورسٹی وین میں بیٹھے ہوئے اس موقع پر ان کے احساسات دریافت کیے تو انھوں نے کہا کہ اس دور میں یہی بات بہت ہے کہ عزت آبرو کے ساتھ ریٹائر ہوئے ۔۔۔ شاید وہ بھی تلوک چند محروم کی طرح یہ سمجھتے ہوں کہ
سی و پنچ سال عمرم بہ ملازمت بسر شد
سحرِ شبابِ خود را ہمہ تیرہ شام کر دم
شرفم بہ عہدِ پیری چہ بود کہ در جوانی
بہ سگاں ادب نمودم، بہ خراں سلام کر دم
وہ سنہ پچانوے میں ریٹائرمنٹ نہ لیتے تو بھی سات برس بعد انھیں ریٹائر ہو جانا تھا، یوں بھی بہرحال اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے تاہم میری اور ان کے دوسرے مخلصوں کی راے تھی کہ وہ ایک باقاعدہ استاد کے طور پر تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں ۔
حافظ محمود شیرانی جب اپنی مدتِ ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو رہے تھے تو علامہ اقبال نے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مسٹر ایم ۔ایل۔ ڈارلنگ کو ایک خط لکھا تھا کہ شیرانی کے علم و فضل سے استفادے کا یہ بہترین وقت ہے ، اس مرحلے پر یونیورسٹی انھیں ضائع نہ کرے ۔۔۔ میں ڈاکٹراقبال نہیں لیکن بعینہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ خورشید صاحب عمر کی جس منزل میں ہیں یہ ان کے فضل و کمال سے استفادے کا بہترین وقت ہے اور وہ جس ادارے سے بھی وابستہ ہوں ، ان کی وابستگی اس ادارے کے لیے اعزاز و افتخار سے کم نہیں ۔
خورشید صاحب ایک کہربا شخصیت کے مالک ہیں ۔ ان سے جو ملتا ہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے ۔ ان کے پاس ایک ایسا سِحر ہے ’’جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں ‘‘ لیکن زندگی کی اس سفاکی کا کیا کیجیے کہ مدعا طلبی میں یہ سحر غالب کی طرح خورشید صاحب کے بھی کام نہ آئے ، اس وقت وہ نصف نہارِ شباب پر تھے اس حادثے سے پلک جھپکنے میں (بقول خود) برجِ کہولت میں آ گئے ۔نتیجتاً اردو شاعری کو ’’شاخِ تنہا‘‘ کی غزلوں کا تحفہ مل گیا۔
ان کے چہرے پر حسن، حیا اور فراست کا نور ہے ، ان کے لہجے میں نرمی اور گھلاوٹ ہے ، وہ ایک سنجیدہ انسان ہیں لیکن ان کی سنجیدگی جتنی پُرخلوص ہے وہ اتنا ہی پُر خلوص قہقہہ لگانا بھی جانتے ہیں ، علم و فضل کے کمال نے ان کے مزاج کو گراں بار نہیں کیا ہے ۔ وہ قاسم العلوم و الخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی کی علمی اور ابوالفتح شیخ کرمانی اور مولانا احمد احسن امروہوی کی نسبی وراثت کا افتخار رکھتے ہیں ۔ مولانا احمد حسن امروہوی ان کے نانا کے حقیقی نانا تھے ۔ وہ مولانا قاسم نانوتوی کے براہِ راست شاگرد اور اسیرِ مالٹا مولانا محمود حسن کے ہم درس تھے ، ڈاکٹر مختارالدین احمد کی تحقیق کے مطابق مولانا عبدالعزیز میمن بھی کچھ عرصہ مولانا احمد حسن امروہوی کے شاگرد رہے ۔ ابن المقفع اور خلیل بن احمد کی پہلی ملاقات جو ’’شاید‘‘ کے احتیاطی ہتھیار کے ساتھ خورشید صاحب نے ایک جگہ نقل کی ہے خود خورشید صاحب کی یاد بھی دلاتی ہے ۔وہ یوں کہ دونوں عبقریوں سے جب ایک دوسرے کے بارے میں ان کا تاثر دریافت کیا گیا تو خلیل نے ابن المقفع کے علم کو اس کی عقل سے اور ابن المقفع نے خلیل کی عقل کو اس کے علم سے بڑ ا قرار دیا، میں خورشید صاحب کو ان دونوں صورتوں سے ممیز کرتا ہوں یوں کہ ان کی عقل بھی بڑ ی ہے اور علم بھی۔
خورشید صاحب ابھی چار برس کے تھے جب ان کے والدِ گرامی کا انتقال ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد وہ اپنی والدہ اور چند عزیزوں کے ہمراہ پاکستان آئے اور اسلامیہ ہائی ا سکول منٹگمری(حال ساہی وال) میں پانچویں درجے میں داخل ہوئے ۔اس کے بعد کے تعلیمی مراحل گورنمنٹ ہائی ا سکول منٹگمری اور گورنمنٹ کالج ساہیوال میں طے پائے ۔ نارتھ ویسٹرن ریلوے ساہیوال کے چھوٹے سے کوارٹر، یتیمی اور لالٹین کی روشنی میں بچپن گزرا۔ مستقبل میں مطلعِ سخن پر خورشید بن کر چمکنے والے نے بی اے تک حصولِ علم کا سفر چندا کی چاندنی میں طے کیا لیکن اسی اثنا میں اس کی ملاقات علومِ عربیہ کے آفتاب اور مولانا اصغر علی روحی کے فرزند ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق سے ہو گئی۔خورشید صاحب کی پرورش ان کے بڑ ے ماموں نے کی جو ریلوے میں ٹرین کلرک تھے ، جن کی محبت نے خود خورشید صاحب کے بقول سب کچھ بھلا دیا لیکن ان کی حقیقی تربیت ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے فرمائی جو انھیں گورنمنٹ کالج ساہیوال کی طالب علمی کے زمانے میں ملے اور پھر اپنے آخری دم تک خورشید صاحب کے لیے فکر مند اور سراپا شفقت بنے رہے ۔صوفی صاحب نے خورشید صاحب کو اپنا حقیقی شاگرد قرار دیا اور واقعہ یہ ہے کہ شاگرد نے استاد کی نام وری میں اضافہ کیا مگر اب اسے کیا کہا جائے کہ خورشید صاحب کے ہاں یہ سلسلہ جاری نہیں ہوا۔ صرف یہی نہیں کہ ان کے ہاں بابِ تلمذ جاری نہیں ہوا بل کہ صورتِ تصنیف میں بھی ان کے کمال کا اظہار نہیں ہوا۔تُرک سکالر ڈاکٹر فواد سیزگین کے خطبات کا ترجمہ’’ تاریخِ علوم میں تہذیبِ اسلامی کا مقام‘‘ (۱۹۹۴ء)، ابن الشعار کمال الدین ابی البرکات المبارک (م۱۲۵۶ء) کے تذکرۃ الشعرا ’’قلائد الجمان فی فرائدِ شعرائِ ھذا الزمان‘‘ کی تدوین(۲۰۰۱ء) اور مجموعۂ مضامین ’’تالیف‘‘ (۱۹۹۵ء) و ’’اطراف‘‘ (۲۰۰۳ء) خورشید صاحب کے علم و فضل کی جھلکیاں ہیں ، ان کے کمال کے نمایندہ کام نہیں ، البتہ صورتِ شعر میں ان کی صلاحیت کا اظہار ہوا ہے ۔ انھوں نے زندگی سے متعلق جو کچھ سمجھا اور محسوس کیا اسے اپنے شعری مجموعوں ’’شاخِ تنہا‘‘ (۱۹۷۴ء)، ’’سرابوں کے صدف‘‘ (۱۹۸۱ء)، ’’رایگاں ‘‘(۱۹۹۶ء) اور ’’امکان‘‘ (۲۰۰۴ء) میں محفوظ کر دیا ہے ۔
’’شاخِ تنہا‘‘ میں وہ ایک رومانی مگر نیم فلسفیانہ شاعر کے طور پر ابھرے ، جسے اداسی عزیز ہے اور وہ زندگی کے ہجوم سے الگ ہو کر چلنے کا خواہاں ہے ۔ اُس کے ہاں دنیا کی بے ثباتی کا احساس اس قدر غالب ہے کہ اُسے یہاں کچھ کر گزرنے کی امنگ لغو دکھائی دیتی ہے ، اس لیے وہ اپنی چُپ کی گُپھا میں بخود گزیدہ اور مست رہنا پسند کرتا ہے ۔شاعر کا ماضی کسی رومانی تجربے سے عبارت ہے جس کی یاد البتہ اس کے لیے بہارِ گزشتہ کا درجہ رکھتی ہے اور یہی مضمون اس کی شاعری کو فکری وحدت عطا کرتا ہے ۔
’’سرابوں کے صدف‘‘ کی غزلوں میں بھی دل کے گنجِ شایگاں کے رایگاں چلے جانے کا اندیشہ غالب ہے ۔ شاعر کو لب کھولنے کے مقابلے میں ہنسنا بولنا ترک کر دینا زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے اور اسے پتھروں کے ڈھلانوں پر سنبھلنے کی کوشش میں اپنی زندگی کا عکس نظر آتا ہے ۔اس مجموعے میں شاعر نے اپنے اظہار کے لیے آزاد نظم کی ہیئت کو بھی دریافت کر لیا ہے اور اس کتاب کے ذریعے پہلی بار یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ شاعر کے مزاج کو کلاسیکی غزل ہی سے نہیں ، آزاد نظم سے بھی خاص مناسبت ہے ۔
’’شاخِ تنہا‘‘ میں شاعر رومانی تجربے کے کُل سے جڑ ا ہوا تھا، ’’سرابوں کے صدف‘‘ اسی تجربے کے پس و پیش کی تخلیقات پر مشتمل تھی۔ ’’رایگاں ‘‘ تک پہنچتے پہنچتے زندگی کی سفاکی کا احساس بہت گہرا ہو چکا تھا۔ سابقہ تجربے کے رنگ و روغن کی جگہ زندگی کے کھردرے اور تلخ روپ نے لے لی تھی یوں کہ شاعر بہارِ گزشتہ کے التفات کو بھی بے فائدہ تکرار پر محمول کرنے لگا۔ آتے ہوئے وقت کے قدموں کی صدا گزری ہوئی عمر کی یادوں کے فسوں پر غالب آ گئی، اُسے اپنے باطن کی اکائی کے بکھر جانے کا احساس شدید دُکھ میں مبتلا کر گیا اور وہ سمجھنے لگا کہ زمانے نے اسے پراگندہ روزی و پراگندہ دل رکھا ہے اور روزمرہ کے ریزہ ریزہ کام اس کے باطن کی اکائی کے جڑ نے میں حائل رہے ہیں ، یوں اس کی زندگی عام زاویوں میں بسر ہو کر رہ گئی ہے ۔ہر طلوع ہونے والی صبح اس کے کندھوں میں مسائلِ نو کی میلی اجلی چھوٹی موٹی گٹھریاں رکھ دیتی ہے جن میں کارِ دنیا کے وبال بندھے ہوتے ہیں اور دن قباے زندگی کی ان الجھی دھجیوں کو سلجھانے میں گزر جاتا ہے ، دل میں بند اطلس و کمخواب جیسے خوابوں کی تعبیر کا کوئی لمحہ نہیں آتا۔ یہ صورتِ حال اسے غم سے دوچار کر دیتی ہے ، وہ جو وسعتِ ویراں میں کِھلتے ہوئے رایگاں پھولوں کو دیکھ کر سہارا پانے اور شاخچوں پر جھولتی ننھی چڑ یوں کو دیکھ کر زندگی کے روشن پہلو دریافت کر لینے والا شاعر تھا، خاک پر گہری نظر ڈال کر سبھی کچھ خاک قرار دینے لگتا ہے اور اسے صف بہ صف کِھلتے پھول بھی صفِ ماتم کی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں ۔
’’رایگاں ‘‘ اور ’’امکان‘‘ میں آٹھ برس کا فاصلہ ہے لیکن اس کم زمانی وقفے میں شاعر کے رویے نے ارتقا کے بہت سے مراحل طے کر لیے ہیں ، اب بدحالی میں بھی اس کی نظر شہزادگی پر اور پائمالی میں بھی پائداری پر ہے ۔رایگانی کے احساس پر آزادی کا احساس غالب آنے لگاہے اور وہ بکھرتے لمحوں پر نظر کرنے کی جگہ بھرے سمندر میں حصارِ تنہائی کھینچ کر بیٹھے حباب کے اعتماد کو دیکھنے لگتا ہے ۔ طراز عنوان اگرچہ ’’امکان‘‘ کا غم ہے جس کا ماتم شاعر کے دل میں بپا ہے اور اسے عرصۂ حیات کی تکمیل قریب دکھائی دینے لگی ہے لیکن اس نے گردشِ دہر کے مسلسل مطالبوں پر خود کو پابندِ رواج کر لیا ہے جس کے نتیجے میں اب اُس کا سفر انتشار سے ارتکاز کی طرف ہے ۔ وہ افلاطون کی طرح شاعری کو ہستیِ موہوم کا عکسِ مزید قرار دینے کے باوجود تصویر کی تصویر بنانے کے عمل کو جاری رکھنا پسند کرتا ہے
پھیل جاتی ہے بہر گام مری حدِ سفر
سخت مشکل ہے کہ تا حدِ نظر جانا ہے
چاروں شعری مجموعوں کے نام بھی شاعر کی زندگی کے مرحلوں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ آغاز ’’شاخِ تنہا‘‘ سے ہوا، جس میں شعرکی رگوں میں خون اتار کر گل بن و گلشن بن جانے کا امکان تھا۔ شاعر کی فلسفیانہ طبیعت نے اس نوع کے امکانات کو اپنی مثال پسندی کے باعث ’’سرابوں کے صدف‘‘ قرار دیا اوروہ رفتہ رفتہ حکیم سنائی غزنوی کا ہم آواز ہو گیا
با ز گشتم ہر چہ گفتم زاں کہ نیست
در سخن معنی و در معنی سخن
یہ رایگاں کا مرحلہ تھا جس کے بعد ایک بار پھر جڑ نے اور مرتکز ہونے کا دور آیا جس نے امکان کا نام پا لیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’رایگاں ‘‘ اور’’ امکان‘‘ کے جن رویوں کی طرف ہم نے سطورِ ماقبل میں اشارہ کیا ہے ان دونوں کتابوں پر شائع ہونے والی شاعر کی تصویریں بھی انھی کی نشاندہی کرتی ہیں ۔
شعر کی قدیم اور جدید روایت سے شاعر کا رشتہ مضبوط ہے ، تجربہ منفرد اور اظہار مکمل ہے اور نہایت دلکش۔شاعر صاحبِ علم و فضل ہو تو بعض اوقات شاعری علم و فضل کے بوجھ تلے دب جاتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے ۔ علم و فضل نے شاعری میں راہ توپائی ہے لیکن یوں کہ شعریت مجروح نہیں ہوئی۔جدید نظم کے اکثر شاعروں کے ہاں آزاد نظم کے حوالے سے یہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے کہ آزاد نظم اُن کے نزدیک محض ایک ہیئت ہے ، وہ غزل کے رنگا رنگ مزاج سے جدا ہوتے ہیں تو نظم کو معنوی یک رنگی کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں ۔شاید وہ اسے غزل کے ایک شعر کی توضیح سمجھتے ہیں ، چنانچہ ان کے ہاں نظم ایک قاش کے روپ میں ابھرتی ہے اور معانی کی قوسِ قزح تشکیل نہیں دیتی، بہت کم شاعر ایسے ہیں جن کی نظمیں ہیئتِ محض کی سطح سے بلند ہو کر پرت در پرت معنویت کا جادو جگا سکتی ہیں ۔ ’’سرابوں کے صدف‘‘ کی نظموں میں یہ بات موجود ہے ۔ اس کے بعد شائع ہونے والے مجموعوں میں بھی ’’حمد‘‘، ’’مدینے میں ‘‘، ’’نابینائی میں ایک خواب‘‘، ’’ایک خیال‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ ایسی نظمیں موجود ہیں جنھیں جدید دور کی نمایندہ نظمیں کہا جا سکتا ہے ۔ابتدائی نظموں پر مجید امجد کا عکس دکھائی دیتا تھا لیکن اب نظم میں بھی شاعر کا اپنا رنگ واضح ہو چکا ہے ۔
ان کے کاموں میں شاعری کے علاوہ اگر کوئی چیز ان کے کمالات کا تعارف ہو سکتی ہے تو وہ سطورِ ما قبل میں مذکور عربی تذکرے کی متنی تدوین ہے ۔ ’’قلائد الجمان فی فوائد شعرائِ ہذا الزمان‘‘سے ان کا تعارف، جسے پہلے ’’عقود الجمان فی الشعرائِ ھذا الزمان‘‘ کہا جاتا تھا، پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے موضوع کی تلاش کے دوران میں ہوا، اس مقصد کے لیے انھوں نے اس مخطوطے کے ابتدائی ساٹھ اوراق کی تدوین کی، جس کے بارے میں ان کے استادِ گرامی اور مقالے کے ایک ممتحن ڈاکٹر ایس ایم زمان نے لکھا:
"It is a fine specimen of good critical editing and the candidate appears to be well-versed in the mechanics of the discipline. He shows a fairly high degree of command over the Arabic language.”
انھوں نے اس موضوع پر تحقیق کا آغاز ۷۶۔۱۹۷۵ء میں کیا تھا، ۱۹۸۱ء میں انھیں اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی، اس کے بعد جب وہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے وابستہ ہوئے تو موضوع سے تعارف کے دس برس بعد ان کا رابطہ عراق کے ڈاکٹر قاسم مصطفی سے ہوا، جو موصل یونیورسٹی کے اہتمام میں ’’ابن الشعار‘‘ کے مخطوطے کی دس جلدوں میں سے تمام دست یاب یعنی آٹھ جلدیں مدون کروا کر شائع کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے ۔انھوں نے جب خورشید صاحب کا کام دیکھا تو ان سے ’’قلائدالجمان ‘‘ کی چھٹی جلد مدون کرنے کی فرمائش کی، جو مخطوطے کی کیفیت کے اعتبار سے اس کتاب کا سب سے مشکل جزو تھا، ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی تو اس کے دو برس بعد ۶۵۶ھ/۱۲۵۸ء میں ہلاکو خان نے سلطنتِ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ بیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں جب خورشید صاحب نے اس کتاب کی چھٹی جلد کی تدوین مکمل کی تو خلیج کی جنگ نے ایک بار پھر سلطنتِ عراق کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑ ا کیا جو بالآخر اکیسویں صدی کے ہلاکو کے ہاتھوں مکمل ہوئی اور یوں ڈاکٹر قاسم مصطفی، موصل یونیورسٹی اور وہاں کا اشاعتی منصوبہ سب کچھ ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نماند‘‘ کا مصداق بن گیا۔علمی دنیا کو شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر جمیلہ شوکت کا ممنون ہونا چاہیے جن کی دلچسپی اور توجہ سے ۲۰۰۱ء میں یہ ارمغانِ علمی چَھپ کر شائع ہو سکا۔ابن الشعار اپنے عہد کا ایک شاعر اور تذکرہ نگار تھا جس نے معاصر شعراکے حالات اور نمونہ کلام پرمشتمل یہ دستاویز کم ازکم تیس سال کی محنت سے تیار کی، جسے خورشید صاحب نے آٹھ صدیوں کے بعد زندہ کیا۔یہ کتاب بعض حوالوں سے بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہے ، ابنِ عربی، ابنِ خلکان اور ذہبی جیسی شخصیات سے متعلق نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ امام رازی، ابن الاثیر، ابن جبیر، یاقوت الحموی، ابن المستوفی اور ابنِ خلکان جیسے لوگ شاعر کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ شمس الدین المقدسی کے طویل نعتیہ قصیدہ کا متن، جسے امام بوصیری کے ’’ قصیدۂ بُردہ‘‘ پر زمانی تقدم حاصل ہے اور جسے خورشید صاحب نے ’’ قصیدۂ شمسیہ‘‘ کہا ہے ، پہلی بار سامنے آتا ہے ۔
خورشید صاحب نے اپنی تحقیقات میں ابنِ خلکان اور ابنِ عربی کے حوالے سے بالکل نئی معلومات پیش کی ہیں ۔ ابنِ خلکان کی یہ روش کہ وہ ’’وفیات الاعیان‘‘ کے تراجم میں معاصرین کی کمزوریوں پر نگاہ نہیں کرتا اور ہمہ را خوبی یاد کر دن کے طریقے پر عامل ہے ، خورشید صاحب نے متنی شواہد سے دریافت کی۔ ابنِ عربی کی زندگی میں آنے والے انقلاب کا سبب کیا تھا۔۔۔؟ جس کے نتیجے میں بیس سال کا نوجوان سپاہی عالمِ اسلام کا بہت بڑ ا صوفی بن گیا، پہلی بار خود ابنِ عربی کے الفاظ میں ، ’’قلائدالجمان‘‘ سے معلوم ہوا ہے ۔ خورشید صاحب کی روشِ تحقیق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اس دریافت پر بھی کسی ادعا کا اظہار نہیں کرتے اور اس موضوع پر آکسفورڈ سے شائع ہونے والے Gerald Elmore کے دو مضامین کا حوالہ بھی دیتے ہیں ۔ یہ مضامین خورشید صاحب کی تحقیق شائع ہونے کے بعد سامنے آئے ، اس لیے خورشید صاحب بہ آسانی اس باب میں اولیت کا دعویٰ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے کمال دیانت داری کے ساتھ اپنے قاری کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ابنِ عربی کی زندگی میں آنے والے انقلاب کا سبب دریافت کرتے ہوئے میرا کام جیرلڈ ایلمورکے پیشِ نظر نہیں تھا۔ اسی طرح انھوں نے جب اپنی تحقیق فرانسیسی سکالر Claude Addas کو بھجوائی تو اس کا یہ ردِّ عمل بھی قاری کو بتانا ضروری سمجھا کہ یہ محقق خاتون پہلے سے ابن الشعار کا مخطوطہ دیکھ چکی تھی۔
آج کل وہ اپنے ایک چالیس برس سے پال میں لگائے ہوئے مسودے کو مبیضے میں بدل رہے ہیں جو ’’عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے عنوان سے بالاقساط شائع بھی ہو رہا ہے ۔ گو یہ مضمون نظرِ ثانی کے عمل سے گزر رہا ہے لیکن تحقیقِ مزید تندیِ صہبا کی طرح آبگینے کو پگھلا کر کچھ سے کچھ بنائے دے رہی ہے ۔ امید ہے کہ یہ کام جلد مکمل ہو کر سامنے آ جائے گا اور کچھ عجب نہیں کہ یہی کام اُن کے کمالات کا نمایندہ بن جائے ۔گو اُن کے تراجم و مضامین ان کی شخصیت کا پورا تعارف نہیں لیکن اپنی جگہ یہ ’’پریشان نویسی‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے ۔انھوں نے عمرِ عزیز کا ایک حصہ تدوینِ متن کی شیشہ گری میں صرف کیا ہے ۔ تدوین ہو یا ترجمہ وہ متن کے ساتھ وفادار رہتے ہیں ۔ صحتِ متن کے حوالے سے ان کے حسّاس ہونے کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’قلائدالجمان‘‘ میں ایک مقام پر لفظ’ أعطیت‘ کے بجاے ’أوتیت‘ چھپ گیا تھا، دیر تک اس کے لیے پریشان رہے اور جب اس کے بعد ان کی کتاب ’’اطراف‘‘ چھپی تو اس میں ’’قلائد‘‘ کے اس تسامح کی نشان دہی کی۔ترجمے کی دنیا میں مشکل ترین گھاٹی منظومات کی ہوتی ہے ، خورشید صاحب یہاں سے زیادہ سہولت کے ساتھ گزرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسے تراجم میں زبانوں پر ان کی گرفت کے ساتھ متخیلہ کی قوت آمیز ہو کر ترجمے میں تخلیقی شان پیدا کر دیتی ہے ۔ ان کے مضامین جہاں محققانہ تجسس کی آئینہ داری کرتے ہیں وہاں لکھنے والے کی تہذیب یافتہ شخصیت کے بھی عکاس ہیں ۔ انھیں پڑ ھ کر اپنی بات کے ابلاغ اور دوسرے سے اختلاف کا سلیقہ سیکھا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق صاحب ان کی شعر گوئی سے ناخوش تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ شعر گوئی ان کے لائق شاگرد کے کمالات کے اظہار میں رکاوٹ بن جائے گی۔صوفی صاحب مرحوم نے خورشید صاحب میں ’’علماے سلف کے اوصافِ عالیہ کی کچھ جھلک‘‘ دیکھ لی تھی اس لیے انھوں نے اپنے ’’قابلِ فخر شاگرد‘‘ کے لیے ’’علم و عمل کی معراج‘‘ پر پہنچنے اور’’ دین و دنیا میں قابلِ رشک ہستی‘‘ بن جانے کی آرزو کی اور زمانہ شاہد ہے کہ صوفی صاحب کا اخلاص رنگ لایا۔اب اس صورتِ حال کو کیا کہا جائے کہ خورشید صاحب نے چونتیس برس کی باقاعدہ تدریس اور اس کے بعد کے عرصے میں اس امانت کاکوئی امین نہ پایا۔ وہ اپنی طبیعت کی وراثت کو اپنے پاس ہی رکھے رہے اور غالب کی طرح بو علی سینا کے علم کو اور نظیری کے شعر کو بے فایدہ ، رایگاں اور موہوم خیال فرمانے کی منزل پر پہنچ گئے ۔ اُن کی شخصیت کی وہ خوبیاں جن کا ابھی ذکر ہوا، اُن کی مقبولیت اور ہمہ رنگی جس سے ان کے تمام احباب واقف ہیں ، یہ توقع پیدا کرے تو جائز ہے کہ انھوں نے زندگی میں یقیناً بہت سے شاگرد تیار کیے ہوں گے جو ان کے علم و فضل کے وارث کہلا سکیں ، خورشید صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ اُس کو پَر لگ گئے جو شخص مرے پاس آیا‘‘ لیکن یہ پَر اس علم و فضل کے نہیں ہیں جو خدا نے خورشید صاحب کو ودیعت کیا اور جس کے نکھار میں ان کے استادِ محترم ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے نہایت محبت کے ساتھ محنت فرمائی۔ وہ غزل جس میں انھوں نے ’’مجھے کھا گئے ‘‘ کی ردیف کے ساتھ ریزہ ریزہ کاموں کے سبب سے اپنے باطن کی اکائی کے نہ جڑ پانے کا ذکر کیا ہے ، شاید اسی صورتِ حال کا جواز پیش کرتی ہے ۔
ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق صاحب مرحوم نے خورشید صاحب کی شخصیت اور ان کے علم و فضل کی صورت پزیری میں جو خدمت انجام دی اس کا حق ادا ہونا ابھی باقی ہے ۔ابھی تو ہم صوفی مرحوم پر لکھے جانے والے خورشید صاحب کے کسی مضمون سے بھی محروم ہیں ۔
خورشید صاحب کی شخصیت کی حدود سخت ہیں ۔ ان سے ملاقات اور بات کرنا جتنا آسان ہے ان کو پا لینا اتنا ہی دُشوار ہے ۔ انھوں نے خود کہہ رکھا ہے کہ:
تم مجھ سے نہ مل پاؤ گے ہرگز کہ مرے گرد
دیوار ہی دیوار ہے ، دروازہ نہیں ہے
صرف یہی نہیں کہ دروازہ نہیں ہے بل کہ یہ دیوار بھی خاصی اونچی ہے اور خورشید صاحب کس و ناکس کو یہ دیوار سر کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ، ربط ضبط میں حساب برابر رکھتے ہیں ۔اُن کے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ سال ہا سال کے تعلق کے بعد بھی خورشید صاحب لیے دیے رہتے ہیں ۔شاید اس کا سبب انسانی تعلقات کی وہ ناپائیداری ہو جسے کم لوگ سمجھ پاتے ہیں ۔انسان معاشرتی حیوان ہونے کے باعث رہتا تو دوسرے انسانوں کے ساتھ ہی ہے لیکن حقیقت میں تنہا ہے اور اس کے اکثر رابطے صدموں پر منتج ہوتے ہیں ۔ خورشید صاحب چوں کہ صورت سے حقیقت تک کا سفر جلد طے کر لیتے ہیں ، اس لیے انھیں والہانہ رابطوں میں جبر کے پہلو دکھائی دینے لگتے ہیں اور وہ بیدلؔ سے متفق ہو جاتے ہیں
بہ دل گفتم کدامیں شیوہ دشوار است در عالم
نفس در خوں تپید و گفت پاسِ آشنائی ہا
اُن کی شخصیت میں جو کمالات ہیں ان میں ایک کمال حسنِ انکار کا بھی ہے ، لیکن ایسا نہیں کہ آپ ان کے انکار سے ناخوش ہو کر لوٹیں ۔ ان کے پاس اپنی بات کے حق میں اتنے دلائل ہوتے ہیں کہ آپ کا موقف خودبخود زائل ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ان سے اتفاق کرتے کرتے بالآخر آپ خود ہی اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جاتے ہیں ۔
تمام لوگوں کے لیے تمام لوگوں کے مطالبات پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن میں نے خورشید صاحب کے سوا کسی میں یہ کمال نہیں دیکھا کہ مطالبہ بھی پورا نہ ہو اور مطالبہ کرنے والا خوش و خرم انکار کا بھی قائل ہو جائے ۔موافق یا مخالف فضا میں اپنی بات کا ابلاغ کرنا اور دوسروں کو ہم نوا بنا لینا ایک غیر معمولی وصف ہے ۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ حق بجانب ہونے کے باوجود اپنی بات نہیں منوا سکتے ۔ خود راقم السطور کا حال پروین شا کر کے مصرعے ۔۔۔ ’’میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی‘‘ سے مختلف نہیں ہے ۔بعض لوگ اپنے موقف کی صداقت کے باعث مغلوب الغضب ہو جاتے ہیں ، یوں ان کی شدتِ جذبات کے باعث میدان دوسرے کے ہاتھ جا رہتا ہے ۔سرسید احمد خان ایک بار چندے کے لیے لا ہور آئے ۔ ان کی آمد سے پہلے ہی مخالفوں نے ان کی نیچریت کا پرچار کر دیا تھا۔سرسید بادشاہی مسجد میں نمازِ جمعہ کے بعد اپیل کے لیے کھڑ ے ہوئے تو نمازی انھیں کافر اور نیچری کہتے ہوئے ایک ایک کر کے باہر نکل گئے ۔اگلی بار دہلی سے ڈپٹی نذیر احمد کو بلایا گیا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ردِّ نیچریت سے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ لوگ شوق سے آئے تھے ، جم کر بیٹھے ۔ خیال تھا نیچریوں کی رسوائی کا تماشا ہو گا۔ نذیر احمد کا تردیدی لیکچر پہلو بدلتا بدلتا جہاں پہنچا، وہاں علی گڑ ھ کالج کے لیے چندے کی بارش ہو رہی تھی۔ گفتگو کا یہ کمال کہ بدترین مخالف بھی خاموش ہو جائے ، اپنے موقف کو ترک کر دے بل کہ آپ کا ہم نوا بن جائے ، بہت کمیاب ہے ۔ یوں تو ہم مختلف سربرآوردہ لوگوں کی گفتگوؤں سے حاضرین کو اتفاق کرتا پاتے ہیں لیکن ایسا وقتی ہوتا ہے اور عموماً قائل کے منصب کے باعث لیکن خورشید صاحب جیسا دنیاوی جاہ و جلال اور مناصب سے دور شخص جب اپنی بات منوا لیتا ہے تو اس کے پیچھے یقیناً کوئی اور قوت ہوتی ہے جس کا حصر یہاں ممکن نہیں ۔
خورشید صاحب اور ڈپٹی صاحب میں کم ازکم ایک قدر اور مشترک ہے اور وہ عربی دانی کی ہے ۔ نذیر احمد بھی عربی کے بڑ ے عالم تھے اور خورشید صاحب کو بھی اس میں تبحر حاصل ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ اہلِ زبان اپنی زبان میں غیر اہلِ زبان کے کمالات کا کم ہی اعتراف کرتے ہیں لیکن خورشید صاحب کی عربی دانی کا اعتراف عربوں نے بھی کیا ہے ۔وہ جب اسلام آباد میں تھے تو انھوں نے افغانستان کے حوالے سے عربی میں ایک نظم ’’أ اِخوتنا الافغان‘‘ کے عنوان سے کہی، جو ایک ایسی محفل میں پڑ ھی گئی جس میں اہلِ عرب شامل تھے ، جنھوں نے دل کھول کر اس نظم کی داد دی۔ عراق کی موصل یونیورسٹی نے ابن الشعار کے مخطوطے کا مشکل ترین حصہ مدَّوَن کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا، اسلامی ترقیاتی بنک جدہ کو پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے ربا سے متعلق مشہور فیصلے (Federal Shariat Court Judgement on Riba) کے عربی میں ترجمے کی ضرورت پیش آئی تو یہ خدمت بھی خورشید صاحب کے سپرد کی گئی۔۵۱۹ صفحات پر مشتمل یہ ترجمہ ’’حکم المحکمۃ الشریعۃ الاتحادیۃ الباکستانیہ بشان الفائدہ(الربا)‘‘ کے نام سے ’’ المعہد الاسلامی للبحوث والتدریب البنک الاسلامی للتنمیہ جدہ‘‘کی طرف سے ’’سلسلۃ الترجماۃ الاقتصاد الاسلامی‘‘ کے تحت ۱۴۱۶ھ(۱۹۹۵ء) میں شائع بھی کیا گیا اور مترجم کو تحسین و اعتراف کا ایک سند نامہ بھی دیا گیا۔یہ مترجم ہی کے لیے نہیں اس کے ملک کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے ۔عربی تو خیر خورشید صاحب کا مضمون ہے ، جس پر انھوں نے عمر بھر محنت کی ہے وہ اس کے ساتھ اُردو، فارسی، انگریزی اور پنجابی پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔انھوں نے ان تمام زبانوں میں شاعری بھی کی ہے ۔ہندی میں بھی درک رکھتے ہیں مگر مزاولت نہ ہونے سے اب دُوری ہے ۔ ایک زمانے میں ستارہ شناسی سے بہت شغف رہا۔ اب بھی ہیلی کے دُم دار ستارے کی جستجو کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ان کے خیالات شعر میں ہوں یا نثر میں ، اوریجنل ہیں ۔ زندگی سے متعلق ان کا اپنا زاویۂ نظر ہے ۔ وہ پیش پا افتادہ راستوں کے مسافر نہیں ہیں ، وہ ایک ذمہ دار انسان ہیں ۔ ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ، انھیں رازدار بنایا جا سکتا ہے ۔ وہ دوسروں کی برائی نہیں کرتے ۔ ان کے سامنے کسی کی برائی کی جائے تو وہ اپنی بھوؤں کو ا چکاتے ہوئے موضوع تبدیل کر دیتے ہیں ۔
وہ خبریں نہیں سنتے ، اخبار نہیں پڑ ھتے ، سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتے ۔ ان کا مشغلہ پڑ ھنا پڑ ھانا ہے ۔مکالمہ ان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ وہ گھنٹوں بے تکان باتیں کر سکتے ہیں ۔۔۔با معنی باتیں ۔۔۔ایسی کہ ایک ایک جملہ بُنا ہوا، کسا ہوا، ان کی گفتگو لکھ لیں تو اچھا خاصا مضمون تیار ہو جائے ۔۔۔ وہ سبع معلقات، شاہ نامۂ فردوسی اور شیکسپیئر جیسے عالمی کلاسیک سے لے کر امام دین گجراتی جیسے شاعر تک کا مطالعہ رکھتے ہیں اور ان پر یکساں مہارت اور فصاحت کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں ۔ یوں کہ جابجا ان کے متن کے اقتباسات بھی گفتگو کے زور اور حسن میں اضافہ کرتے ہوں ۔کاش ان کی تمام تقریریں اور ٹیلی ویژن پروگرام محفوظ کر لیے جائیں ۔ وہ ربع صدی سے زیادہ عرصے سے ٹیلی ویژن پر جلوہ نما ہو رہے ہیں ۔زیادہ تر دینی پروگراموں میں شرکت کے باعث ناظرین انھیں اسلامیات کا استاد سمجھتے ہیں اور وہ دینی مصادر پر براہِ راست نظر ہونے کے باعث بہت سے علماے دین کے مقابلے میں دین کا زیادہ فہم رکھتے ہیں لیکن انھیں اپنے تعارف کے لیے ادب کا حوالہ زیادہ پسند ہے ۔
خط کا جواب فوراًدیتے ہیں ۔ تقریبات میں شرکت گوارا ہے ۔ مشاعروں کے لیے دور دراز بل کہ بیرونِ ملک تک کا سفر کر لیتے ہیں ۔غم میں زیادہ اور خوشی میں کم شرکت کرتے ہیں ، البتہ جہاں جانا آسان ہو، وہ اپنے الفاظ کے استعمال میں محتاط ہیں ۔متنازع موضوع پر بھی یوں رائے دیتے ہیں کہ کوئی اس پر حرف زنی نہیں کر سکتا۔ وہ چیزوں کو ان کے اصل روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ، تحقیق کی زبان میں بات کی جائے تو وہ بنیادی مآخذ (Primary Source) دیکھے بغیر راے قائم نہیں کرتے ۔ آپ ان سے رواروی میں بھی کوئی علمی سوال پوچھیں تو وہ نہایت ذمہ داری اور پوری تحقیق کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں ، خواہ اس کے لیے انھیں کتنی ہی دِقت کیوں نہ اٹھانی پڑ ے یا بے جھجھک اپنی لاعلمی کا اظہار کر دیتے ہیں ۔ اس سے ان کی علمی اور شخصی دیانت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ شخصی دیانت ہی ہے جو فرد کے باطن کو صلابت اور طمانیت عطا کرتی ہے ۔ خورشید صاحب میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں ۔ آپ ان سے جب اور جس موضوع پر بات کریں یوں لگتا ہے کہ اب انھیں اس موضوع پر گفتگو کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے ، حالانکہ وہ چند در چند علمی اور تدریسی مشغولیتوں میں الجھے رہتے ہیں ، گھریلو ذمہ داریوں کا بار ان پر مستزاد ہے جو گھر کے تنہا ذمہ دار ہونے کے ناتے معمول سے کچھ کم نہیں ہیں ۔
اپنے معاشرتی رویوں پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ ہم ایک جھوٹی تہذیب کی تشکیل کر رہے ہیں ۔ہم یا ہم میں سے اکثر جو کچھ کہتے ہیں اس کے معانی سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔اسی لیے تو دل کجا، کہنے والوں کی آنکھیں بھی زبان سے ادا ہونے والے لفظوں کا ساتھ نہیں دیتیں ۔ خوب صورت لفظوں کے پیچھے جھانکا جائے تو تو ایک اور ہی دنیا دکھائی دے جاتی ہے ۔دوسروں کے بارے میں راے بالعموم ان کی سماجی حیثیتوں اور مناصب سے متاثر ہو کر قائم کی جاتی ہے ۔رُوبہ رُو پیش کی جانی والی آراپسِ پردہ ظاہر کیے جانے والے خیالات سے اور پسِ پردہ ظاہر کیے گئے خیالات، ظاہر میں بیان کیے گئے نظریات سے مختلف ہوتے ہیں اور طرزِ عمل بالعموم الفاظ سے ہم آہنگ نہیں ہو تا۔ ایک شخص دوسرے کے سامنے اس سے متفق ہوتا ہے مگر تیسرے کے ساتھ ملاقات پر پہلا، دوسرے کی ہر بات سے اختلاف اور تیسرے سے اتفاق کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ہم نے اپنی عقل کی اساس پر جو معاشرتی معیار مقرر کر رکھے ہیں ان کی پیچیدگی، زندگی کی پیچیدگیوں سے بھی بڑ ھ چکی ہے اور ہم ایک ایسے راہبر کی متابعت کر رہے ہیں جو خود گم کر دۂ راہ ہے ۔ صائب اصفہانی
از ہم رہیِ عقل بہ جاے نہ رسیدیم
پیچیدہ تر از راہ بود راہ برِ ما
ایسے دور اور خستہ و شکستہ معاشرے میں کسی مضبوط اور توانا کردار کا ابھرنا اور اپنے باطن کی صداقت کے ساتھ سرگرمِ عمل رہنا بہت دشوار بات ہے اور خورشید صاحب ایک ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں جنھیں اپنے الفاظ کے مطالب کا پورا شعور ہے اور جن کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف نہیں ہے ۔ ان کے شاگرد خوش نصیب ہیں جنھوں نے ایک عبقری ذہن اور دل کش شخصیت کا تلمذ پایا۔ ان کے احباب اور نیازمند فخر کر سکتے ہیں کہ انھیں خورشید صاحب جیسی نادرِ روزگار اور دل نواز شخصیت سے صحبت رہی، ان کا عہد خوش قسمت ہے جو ان کی موجودگی سے سرفراز ہے ۔
وہ نہایت لطیف احساس کے مالک ہیں ۔ بقول خود ان کے لہو پر صبا بھی لہریں بنا جاتی ہے ، شاید بجا طور پر اُن کا خیال ہے کہ
مجھ سے محروم رہا میرا زمانہ خورشید
مجھ کو دیکھا ، نہ کسی نے مجھے جانا خورشید
آئینہ بھی مکمل عکس نہیں دکھاتا۔ اس کے زاویے بھی کرنوں کا مزاج بدل دیتے ہیں لیکن اس ٹوٹی پھوٹی نامکمل دنیا میں کچھ لوگ بہرحال ایسے ہیں جو خورشید صاحب کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا جانا جا سکتا ہے ۔