جس طرح ہر کہانی افسانہ نہیں ہوتی، اسی طرح ہر افسانے میں کہانی کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔کہانی اور افسانے میں ایک نامعلوم سا لطیف تعلق ہو تا ہے جو ٹوٹ جائے تو لفظوں کا گورکھ دھندہ رہ جاتا ہے اور اگر صرف یہی تعلق رہ جائے تو حاصل جمع کہانی کی صورت میں بچتا ہے ۔افسانہ نگار کہانی بیان نہیں کر تا بل کہ کہانیوں کے باطن میں پوشیدہ کسی ایسے عنصر کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے جس پر ہر شخص کی نگاہ نہیں پڑ تی۔ہر کہانی میں ایسے بیسیوں عناصر تہ نشیں ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر کہا نی سے بیسیوں افسانے تخلیق کیے جا سکتے ہیں ۔افسانہ نگاری بنیادی طور پر دریافت کا عمل ہے ۔اور تمام اعلیٰ کارناموں کی طرح وجدان کے ذریعے نا معلوم سے معلوم تک رسائی کا سفر ہے ۔بیشتر علوم انسان کے با ہرپھیلی کا ئنات میں نا معلوم تک پہنچنے کی طلب سے پیدا ہوئے ہیں ۔ادب ان معدودے چند علوم میں سب سے موثر علم ہے جو انسان کے باطن میں پھیلی کائنات کے پوشیدہ گوشوں کو وا کرتا ہے ۔ ادب ، شاعری اور فکشن کے ذریعے دریافت کا یہ کارنامہ انجام دیتا ہے ۔ اسی لیے شاعری اور فکشن کو تخلیقی اصناف کہا گیا ہے اور ادب کی دیگر تمام اصنا ف پر انھیں فوقیت حاصل ہے ۔ افسانے اور کہانی میں ایک بنیادی فرق دریافت کا یہ تخلیقی عمل بھی ہے ۔کہانی ہمارے لیے ایک جانا پہچانا عمل ہے ۔ جو ہر وقت ہمارے اِردگردوقوع پذیر ہو رہا ہے اور افسانہ اس میں پوشیدہ امکانات کی دریافت کا نام ہے ۔کہانی میں وقوعہ بیان ہوتا ہے جب کہ افسانہ اس و قوعے کے باطن سے تخلیقی عناصر کی تلاش سے بنتا ہے ۔ گو یاکہانی بیان ہے اور افسانہ کشف ہے ۔ افسانہ نگار اس کشف کے لیے ایک خاص فضا تخلیق کرتا ہے ۔ قاری جب اس فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کشف سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ بند دروازے اس پر کھلنے لگتے ہیں اور وہ اپنے رُو بہ رُو آن کھڑ ا ہوتا ہے ۔ جس طرح اعلیٰ درجے کا شاعر اپنی شاعری میں ایک خاص فضا تخلیق کرتا ہے اور ان گنت اظہارات کو ممکن بناتا ہے ، اسی طرح فکشن نگار بھی اپنے بنیادی مسئلے کے حوالے سے یہ فضا تشکیل کرتا ہے ۔ تخلیقی فن کار یہ کام اپنے اسلوب کے بنیادی عناصر سے انجام دیتا ہے اور فن کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار دراصل اسی خاص فضا یا اسلوب پر ہوتا ہے ۔ ہم اعلیٰ درجے کا فن کار اسی کو قرار دیتے ہیں جو اپنے موضوع کی مناسبت سے یہ فضا تخلیق کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔اس فضا کی تشکیل میں وہ اپنے عہد، اپنی ذات اور روحِ عصر سے ایسے عناصر کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے موضوع کو بہترین انداز میں پیش کرنے پر قادر ہوتے ہیں ۔فن کار کی ریاضت فی الاصل ان اسلوبیاتی عناصر کی بہترین ترکیب کی تلاش ہے ۔جب وہ اس ہم آہنگی کو دریافت کر لیتا ہے تو اعلیٰ تخلیقی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے اور شاہکار تخلیق پاتے ہیں ۔
محمد حمید شاہد کی افسانہ نگاری بھی اسی تخلیقی توازن کی دریافت کا سفر ہے ۔ اس سفر میں وہ ’’مرگ زار‘‘ تک پہنچے ہیں ۔’’مرگ زار‘‘ کے مختصر افسانوں میں بہت طویل کہانیوں کے منتخب عناصر سے انھوں نے وہ فضا تخلیق کی ہے جسے محمد حمید شاہد کا اسلوب کہنا چاہیے ۔ان کا افسانہ ’’موت منڈی میں اکیلی موت کا قصہ‘‘ کل چھ صفحات پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے دو کہانیوں کے مختلف عناصر کو ہم آہنگ کیا ہے ۔ایک کہانی گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اخبارات میں لکھی جا رہی ہے ۔ برسوں پر محیط اس کہانی کی تفصیلات آج بھی ہمارے روزناموں میں ریکارڈ ہو رہی ہیں ۔ دوسری کہانی ’’اُس‘‘ کی ہے ۔ وہ کون تھا؟ اس کا خاندان کیا تھا؟ اس کے معاشی اور معاشرتی حالات کیا تھے ؟ کیا کام کرتا تھا؟ شادی کیوں نہیں کی؟ کیا پڑ ھتا رہا؟ لکھتا کیا تھا؟ اس کی زندگی کے اہم واقعات جنھوں نے اس کی شخصیت کی تشکیل کی، کیا تھے ؟ واحد متکلم سے اس کے تعلقات کیسے آغاز ہوئے ؟ کن اشتراکات نے انھیں دوستی کے بندھن میں باندھا؟ کیا کیا واقعات ان کے تعلق کے حوالے سے رونما ہوئے ؟ اور اس کے علاوہ بیسیوں دیگرتفصیلات جو اس کہانی میں موجود ہو سکتی تھیں ، افسانہ نگار کے لیے فاضل ہیں ۔انھوں نے دونوں کہانیوں میں سے جو عناصر منتخب کیے ہیں اور جس طرح انھیں مربوط کیا ہے ، اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے :
۔۔’’وہ مر گیا۔ جب نخوت کا مارا امریکہ اپنے پالتواتحادیوں کے ساتھ ساری انسانیت پر چڑ ھ دوڑ ا اور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کے بوتے پر سب کو بدترین اجتماعی موت کی باڑ ھ پر رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔۔ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں چپکے سے اکیلا ہی مر گیا۔‘‘
اب ذرا کسی ایک دن کے کسی بھی اخبار کی دو خبریں اپنے ذہن میں تازہ کیجیے :
’’عراق پر اتحادی طیاروں کی بمباری، ۳۰۰ شہری شہید، ہزاروں زخمی، بے شمار عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں ‘‘
اور
’’حلقہ تصنیفِ ادب کے بانی غضنفر علی ندیم میو ہسپتال کے ساؤتھ میڈیکل وارڈ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے ‘‘
محمد حمید شاہد نے ان دونوں خبروں کو ایک نئی ترکیب سے اس طرح مربوط کیا ہے کہ خبریت تخلیقیت میں ڈھل گئی ہے ۔آپ اِن خبروں کو دوبارہ پڑ ھنے کی خواہش نہیں کرتے لیکن ان کی اس نئی تخلیقی تشکیل کو بار بار پڑ ھنے اور پڑ ھ کر لطف اندوز ہونے کی خواہش کرتے ہیں ۔یہ مضمون لکھنے کے لیے میں نے اس کتاب کا تین مختلف اوقات میں مطالعہ کیا ہے اور کچھ افسانوں کو تین سے بھی زیادہ مرتبہ پڑ ھا ہے لیکن ہر بار لطفِ مطالعہ اور حاصلِ مطالعہ اور تھا۔ہر بار ان افسانوں میں ایک نیا احساس اور ایک نئی معنویت اضافہ ہوئی۔افسانے اور کہانی ، خبریاوقوعے میں یہی بنیادی فرق ہے ۔خبر، کہانی یاوقوعہ ایک اطلاع ہے جب کہ افسانہ میں وہ احساس ہے جو کہانی میں مفقود ہے ۔ اس ایک فقرے ہی کودیکھیے ۔یہ فقرہ بظاہر ایک معروضیت کا اظہارلیے ہوئے ہے لیکن اس معروضیت کی تہ میں اجتماعی بے حسی کاٹھاٹھیں مارتا ہوا احساس کروٹیں لے رہا ہے ۔اگرافسانہ نگار ۔۔’’وہ مرگیا‘‘ جیسے سفاک اوربظاہر سپاٹ جملے سے آغا ز کرنے کے بجاے اُس کی موت پر جذبات میں بھیگے ہوئے جملوں سے آغاز کرتاتو اس شدیدبے حسی کوپیش کرنے سے معذور رہتا۔اس نے ایک مختصراورسیدھے سادے جملے سے وہ کام لیا ہے جوکسی مرصع جملے سے ممکن نہیں تھا۔پورا افسانہ اجتماعی موت اور اکیلی موت کے ارتباط اور اس سے پیدا ہونے والی بے حسی اور زندگی سے لاتعلقی کے اجتماعی اورانفرادی المیے کواسی زندگی سے لاتعلقی اوربے حسی سے مزین اسلوب میں بیان کرتا ہے ۔افسانہ نگارنے ایک ایسی فضا کامیابی سے تخلیق کی ہے جو قاری کو موت کی یخ بستگی کے فوری احساس کی گرفت میں لے لیتی ہے ۔جب وہ لکھتا ہے کہ ۔۔۔ ’’میں قلم کوکاغذپریوں نچاتا ہوں جیسے زنخا ہوامیں ہاتھ نچاتا ہے ‘‘۔۔۔ تومحسوس ہوتا ہے کہ وہ بزدل حکمرانوں کوہی زنخاکہنے کی ہمت نہیں رکھتابل کہ خود کوبھی زنخاکہہ سکتا ہے اور انسانوں کے اس انبوہ کو بھی جویہ سب کچھ بے حسی سے دیکھ رہا ہے اورخاموش ہے ۔کہانی کے سپاٹ پن کودور کرنے کے لیے وہ تخلیقی رویوں اورغیر تخلیقی زندگی کی کشمکش کوذریعہ بناتا ہے ۔باطن چھلنی ہے اور بغاوت پرآمادہ ہے ۔ظاہر بے حس اورخاموش ہے ۔نعرہ بازی کہیں نہیں ہے ۔افسانہ نگار جانتا ہے کہ بے حسی کی برف بے حسی کے شدید احساس سے ہی ٹوٹ سکے گی۔وہ علاج بالمثل کاقائل ہے ۔اسی لیے اس کے اسلوب میں انتہادرجے کی معروضیت ہے ۔حمید شاہد نے اس کہانی سے اپنے امکانات دریافت کیے ۔اسی کہانی سے کچھ دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی افسانے تخلیق کیے ہیں اور اس کہانی کی دیگر تفصیلات سے اپنی اپنی معنویت اخذکی ہے ۔امجد طفیل کا افسانہ ’’مسلسل شہرِ افسوس میں ‘‘موجود کوتاریخ سے ملاتے ہوئے ظلم اور بے حمیتی کے کچھ دوسرے علاقوں کی جستجو سے تخلیق ہوا ہے ۔مشرف عالم ذوقی کا افسانہ ’’الفتح لنا۔۔۔۔الفتح لنا‘‘اس کہانی میں پوشیدہ انسانی الیمہ کے ان پہلوؤں سے تخلیق ہوا ہے جس کے اثرات ہندوستان کے ماحول میں اُن تک پہنچے ہیں ۔اس کہانی میں ان کے علاوہ بھی بیسیوں امکانات دریافت ہونے کے منتظرہیں ۔اس کہانی سے افسانے تخلیق ہورہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب یہی ہے ۔ان کی کتاب میں ’’برشور ‘‘سے ’’مرگ زار ‘‘تک بیش تر افسانوں کی یہی بنت نظر آتی ہے ۔ان کے پہلے افسانے ’’برشور ‘‘میں بھی دوکہانیوں سے افسانہ تخلیق کیا گیا ہے ۔پہلی کہانی بلوچستان کے قحط کے اجتماعی منظر پرمشتمل ہے جب کہ دوسری کہانی تاج محمد ترین کی ہے ۔وہ فرد سے اجتماع اوراجتماع سے فرد کے المیے تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں ۔یہاں بھی انھوں نے کہانی کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف انھی چند مناظر کومنتخب کیا ہے ، جواس المیے کو واضح کرنے کے لیے ناگزیر تھے ۔پورا افسانہ اس منظر کوپیش کرنے کے لیے فضابندی کاکام کرتا ہے جوانھوں نے آخرمیں دکھا کراپنی بات مکمل کی ہے ۔رودینی باربار برشور جانے کی بات کرتا ہے لیکن کمیٹی کے دیگر ارکان اس سے متفق نہیں ہوتے ۔ قحط کی اجتماعی تباہ کاروں میں انھیں ترین کا المیہ کم تر محسوس ہوتا ہے ۔ حمید شاہد نے قحط کی منظر نگاری نہیں کی ، کوئی ڈیٹاہمارے سامنے نہیں رکھالیکن چھوٹے چھوٹے فقروں سے اس المیے کی شدت کوہم تک پہنچادیا ہے ۔آخر ی منظر میں جب وہ ترین تک پہنچتے ہیں تو اجتماعی المیہ فرد میں منتقل ہوکر اپنی ساری شدتوں کو عیاں کر دیتا ہے ۔محمد حمید شاہد کاموضوع بہت مشکل ہے ۔وہ اپنے عصر کے مسائل پراپنے افسانوں کی عمارت تعمیرکرتے ہیں ۔ایسی صورت میں بیانیہ سپاٹ پن کاپورا احتمال رہتا ہے ۔اگروہ کہانیاں لکھتے تویقیناً اس عیب کاشکار ہوجاتے لیکن وہ کہانی کے انھی اجزا سے سروکار رکھتے ہیں جو ان کے مسئلے کوپیش کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔پھروہ ان کو ایک ایسے تخلیقی ربط سے ہم آہنگ کرتے ہیں کہ کہانی کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے اورپیش منظر پر وہ کیفیت رہ جاتی ہے جوقاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کا افسانہ ’’سوَرگ میں سُور ‘‘ ان کے اسلوب کابہترین عکاس ہے ۔یہاں بھی وہ براہ راست تفصیلات سے گریزکرتے ہیں ۔جانور ، ان کی مختلف اقسام، متنوع بیماریاں ، کھیت ، مونگ پھلیاں ، بیوپاری، خرید و فروخت ، اس کے اثرات ، سب ہی بیان کرتے ہیں لیکن اصل تفصیلات چھپا جاتے ہیں ۔پوری کہانی ایک استعارے میں بیان ہوئی ہے ۔یہ استعارہ چوں کہ ہمارے اجتماعی المیے کازائیدہ ہے ۔اس لیے ہمارے لیے مبہم نہیں ہے ۔ایک سوَرگ ہے جس میں سُور گھس آئے ہیں اور چوکیدار کتے اتنے قوی ہیں کہ سوَرگ والوں کے حصے کارزق بھی کھا جاتے ہیں ۔وہ سُوروں کے عادی ہوگئے ہیں یا ان سے خوفزدہ ہیں ۔بہرحال تھوتھنی والے ان کی غراہٹوں کی اوٹ میں کھیت اجاڑ نے کے درپے ہیں ۔ہمارے نوجوان فکشن لکھنے والوں پرجدید دورکے جس فکشن نگار کے اثرات سب سے نمایاں ہیں ، وہ مارکیز ہے ۔خود مارکیز پردوستوفسکی کے اثرات بہت واضح ہیں ۔مارکیز سے ہم نے دوباتیں سیکھی ہیں ۔ایک ، کہانی بھول کراپنے استعارے وضع کرنے کے لیے پوری توجہ صرف کرنے کارویہ اوردوسرے ، فقرے کی مخصوص بنت جومارکیز سے منسوب ہے ۔پہلا اثربالواسطہ ہے اور دوسرابراہ راست۔حمید شاہد کے افسانے پڑ ھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بھی مارکیز سے روحانی ربط ہے ۔یہ ربط نقالی نہیں ہے بل کہ ایک باطنی ہم آہنگی ہے ۔موضوعاتی حوالے سے ان کا اور مارکیز کا اشتراک وہی ہے جودنیاکے تمام اوریجنل لکھنے والوں کا آپس میں ہے ، یعنی انسانی المیے پردردمندی، لیکن اس دردمندی کا اظہار ہرفن کار نے اپنے باطن سے مربوط کر کے کیا ہے ۔حمید شاہد کے افسانوی اسلوب پربھی ان کے باطن کے گہرے رنگ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس اجتماعیت کا احساس بھی ہوتا ہے جوتمام جینوئن فن کاروں کوبلاتخصیص ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے ۔اب مارکیز کے چند عنوان ملاحظہ فرمائیے :
محبت کے اس پارمنتظر موت
گم گشتہ وقت کاسمندر
دنیابھر کاحسین ترین ڈوبنے والا
ایک پیش گفتہ موت کی روداد
محمد حمیدشاہد کے عنوان دیکھیے :
رُکی ہوئی زندگی
پارینہ لمحے کانزول
دُکھ کیسے مرتا ہے
موت منڈی میں اکیلی موت کاقصہ
حمید شاہد جملہ بنانے میں جن ساختوں کو بروے کار لاتے ہیں ، ان میں سے ایک ساخت مارکیز کے جملوں کے بہت قریب ہے ۔یہ ایک پیچیدہ ساخت کاجملہ ہے جواپنی پیچیدگی کے باوصف بہت خوبصورت اوردل موہ لینے والا ہے ۔ مارکیز کاقاری اس کے اس جملے پرفدا ہے ۔ جملے کی یہ ساخت افسانوی ادب میں مارکیز کی دین ہے اور اس کے اثرات بھی دنیابھرکے لکھنے والوں پرپڑ ے ۔اردومیں یہ ساخت نوجوان لکھنے والوں کی من پسند ہے ۔اس سے پہلے یہ ساخت محمد عاصم بٹ اور زاہد حسن کی افسانوی تحریروں میں اپنی جھلک دکھاتی رہی ہے ، لیکن حمید شاہد نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے :
’’سولہ برس ، سات ماہ ، پانچ دن ، دوگھنٹے ، اکیس منٹ اور تیرہ سیکنڈ ہوچلے تھے ، اپنے لیے اس کے ہونٹوں سے پہلی بار وہ جملہ سنے ، جوسماعت میں جل ترنگ بجا گیا تھامگر دل کے عین بیچ یقین کاشائبہ تک نہ اتارسکا تھا‘‘۔
حمید شاہد کادوسراجملہ تشبیہاتی ہے ۔یہ اس تشبیہاتی جملے سے مختلف ہے جوساٹھ کی دہائی میں علامتی یاتجریدی کہہ کرپیش کیا گیا اور نہ ہی ان کے افسانوں میں یہ اس تواترسے ہے جس تواتر سے اس زمانے کی کہانیوں میں ہے ۔یہ جملہ اس قدر مبہم بھی نہیں ہے جس قدر ان کہانیوں میں نظر آتا ہے ۔ یہ جملہ اس تشبیہاتی جملے کی تخلیقی پیش کش ہے ۔یوں کہناچاہیے کہ ساٹھ کی دہائی میں جو تجربہ تھا، اب حمید شاہد کے ہاں تخلیقی لبادے میں جلوہ گرہوا ہے ۔حمید شاہد نے اپنی زبان میں مقامی الفاظ کوتخلیقی تناسب سے پیش کیا ہے ۔وہ مقامی زبانوں کے الفاظ محض شمولیت کی غرض سے منتخب نہیں کرتے بل کہ اپنے اسلوب اور موضوع دونوں سے ہم آہنگ کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم انھیں محسوس توکرتے ہیں لیکن یہ لفظ ہمیں اوپر ے اوپرے نہیں لگتے ۔اگرچہ زبان و بیان ، دونوں حوالوں سے انھوں نے فکشن کی روایت کافایدہ اٹھایا ہے لیکن اس میں اپنے اضافوں سے ایسی گل کاری کی ہے کہ ان کے افسانوں کی فضابالکل الگ نظرآتی ہے ۔محمد حمید شاہد افسانہ نگاروں کی موجودہ نسل کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔’’مرگ زار ‘‘میں شامل افسانے اپنی تخلیقی فضاکے حوالے سے قاری کواپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔خام کہانیوں کے اس ماحول میں ان کے افسانے اردو افسانے کے درخشندہ مستقبل کا اشارہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن … محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب

محمد حمید شاہد کا افسانوی اسلوب
………………………………………………………….