جدید نظم کی شعریات اور کہانی کا تفاعل
ادب میں نثر اور شاعری کی تفریق پرانی چلی آتی ہے۔ اس کو نثر اور نظم کا فرق بھی کہہ دیتے ہیں۔ نظم میں جدید نظم کا تصور نسبتاً نیا ہے، اردو میں یہ غیرملکی اثرات سے آیا، یعنی جدید نظم ہماری چیز نہیں ہے ہرچندکہ اردو میں رچنے بسنے کے نامیاتی عمل میں نظم کی ساخت بلکہ ساختوں میں جزوی تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ بہرحال ہماری اصل اصناف غزل، قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ ہیں، چاہیں تو رباعی اور قطعے کا مزید اضافہ کرلیں۔ ان میں غزل کو چھوڑ کر باقی سب روایتاً نظم ہی ہیں، اس لیے کہ نظم میں بالعموم وہ تمام شعری اصناف اور اسالیب اور ہیئتیں شامل ہیں جو غزل نہیں ہیں، بلکہ اپنے وسیع تر مفہوم میں جہاں لفظ ’نظم‘ ’نثر‘ کے مدِمقابل کے طور پر بولا جاتا ہے اس سے مراد چونکہ پوری شاعری ہوتی ہے، تو غزل بھی اس دائرے سے باہر نہیں، لیکن معلوم ہے کہ غزل میں اشعار لخت لخت ہوتے ہیں اور نظم میں شرط تسلسلِ کلام کی ہے، اس اعتبار سے غزل نظم نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اردو میں غزل کے علاوہ جتنی بھی اصنافِ شاعری ہیں وہ سب نظم میں داخل ہیں۔ لیکن صنفِ سخن کے طور پر نظم کی اصطلاح جیسا کہ کہا گیا ایک جدید تصور ہے اور جن معنوں میں ہم آج اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں اس کا تصوّر پہلے زمانوں میں نہیں تھا۔ اسی لیے اکثر نظم کے لیے ’نظمِ جدید‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ غرض جدید نظم کے لیے جس طرح موضوع کی کوئی قید نہیں، ہیئت کی بھی کوئی پابندی نہیں۔ اردو میں غزل اور مثنوی کی ہیئت میں بھی جدید نظمیں لکھی گئی ہیں اور مختلف بندوں پر مشتمل نظمیں بھی، اور آزاد و معرا نظمیں بھی۔ گویا نظمیں پابند بھی لکھی جاتی ہیں، آزاد بھی اور معرا بھی۔ اس میں نثری نظم کو اور شامل کرلیں جو اگرچہ نثر اور شاعری کی حدِفاصل کو مٹاتی ہے، لیکن شمار اس کا بھی شاعری کے تحت یعنی بطور نظم ہوتا ہے۔
یہ بظاہر غیرضروری تفصیل ضروری اس لیے تھی کہ ’بیانیہ‘ کی اصطلاح کا تعین جب شاعری کے بالمقابل کرتے ہیں تو شعریاتی اعتبار سے اس میں خاصا الجھاؤ ہے۔ مثلاً بیانیہ کے ایک مفہوم میں غزل اگر اردو شاعری کی رمزیہ صنفِ سخن ہے تو قصیدہ مثنوی مرثیہ بیانیہ اصنافِ سخن ہیں، اور چونکہ روایتی معنی میں نظم ان تمام ہیئتوں کو حاوی ہے، اس لیے تمام نظم بیانیہ ہے، اس اعتبار سے کہ نظم میں موضوع کا یا خیال کا مسلسل بیان ہوتا ہے، ربطِ کلام ہوتا ہے، یا کسی بات یا واقعے یا حادثہ یا تجربے یا منظر یا شے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ گویا یہاں ’بیانیہ‘ بالمقابل ’رمزیہ‘ سے مراد موضوع کا بیان ہے وضاحت Description کے معنی میں۔ واضح رہے کہ یہ بیانیہ وہ نہیں ہے جسے ہم فکشن کے تناظر میں استعمال کرتے ہیں۔
اپنے دوسرے اور زیادہ راسخ صنفی معنی میں ’بیانیہ‘ بطور اصطلاح سے مراد ہے Narrative یعنی قصہ کہانی کی وہ تخلیقی تشکیل جو افسانوی ادب کے جملہ اصناف کو محیط ہے، مثلاً قصہ کہانی کی پرانی روایتیں، کتھائیں، تمثیل، حکایت، داستان، نیز جدید اصناف ناول، افسانہ، ڈرامہ وغیرہ۔ ہرچندکہ بیانیہ بمعنی Narrative کا اطلاق اب بالعموم فکشن کی نثری اصناف پر ہوتا ہے لیکن بیانیہ میں شعری بیانیہ بھی شامل ہے، مثلاً منظوم ڈرامہ، یونانی یا مغربی ادب میں ٹریجڈی کامیڈی کی روایت، یا فارسی میں مثنوی کی مہتم بالشان روایت جیسے خمسۂ نظامی یا شاہنامۂ فردوسی یا مثنویِ معنویِ رومی۔ یہ سب بیانیہ ہی ہے، مزید برآں وہ تمام سنسکرت ادب جو ’کاویہ‘ کہلاتا ہے، اصلاً بیانیہ ہے۔ کالی داس ہوں یا ہرش بیانیہ کے بادشاہ ہیں، مہابھارت جو دنیا کی طویل ترین نظم ہے یا رامائن کی تمام قرأتیں، نیز تمام پورانک روایتیں جو کاویہ میں ہیں، سب صدیوں پر پھیلی ہوئی بیانیہ کی کہکشاں کا حصہ ہیں جو مختلف زبانوں، ملکوں اور ثقافتوں پر تنی ہوئی ہے۔ یہاں اس ذکر سے مراد شاعری کی اہمیت کو کم کرنا نہیں ہے بلکہ اس سوال پر توجہ مرکوز کرنا مقصود ہے کہ کیا کہانی انسانی ذہن کی بنیادی ساخت ہے جس کی نوعیت آفاقی ہے اور بلا تخصیصِ زبان و علاقہ و ثقافت تمام ادبیات کی قدیم ترین اور طویل ترین روایتیں بیانیہ سے کسی نہ کسی طرح ضرور جڑی ہوئی ہیں۔ ادب میں تمام روایتیں اور ساختیں اور معیار قائم ہوتے ہیں زبان سے اور آتے ہیں ثقافت سے جو ہر زبان میں الگ الگ اپنا تشخص رکھتی ہے — چنانچہ ثقافت کے الگ الگ ہونے اور باہمدگر مختلف ہونے کے باوجود اگر کوئی ادبی ساخت تمام زبانوں اور ثقافتوں میں کارگر ہو جیسے ’بیانیہ‘ تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا بیانیہ کا جو ہر ادب کے Universals یعنی آفاقی اصولوں میں سے ہے؟ زیر نظر مضمون میں بیانیہ بطور اصطلاح سے مراد اسی جوہر یعنی کہانی کے تفاعل سے ہے۔
اب آئیے جدید اردو نظم کی طرف۔ مزے کی بات ہے کہ خود ہم نے اردو میں جو درجہ بندی کر رکھی ہے یا جو خانہ بندیاں ہوتی چلی آئی ہیں ان میں جدید اردو نظم اور ’بیانیہ‘ میں قطبینیت (Polarisation) ہے یعنی جدید نظم ایک سرے پر ہے اور ’بیانیہ‘ دوسرے سرے پر۔ بالعموم سمجھا جاتا ہے کہ دونوں میں ضد ہے۔ جدید نظم کی سب سے بڑی پہچان اس کا ارتکاز ہے، نیز ایجاز، اختصار، تہہ داری اور جامعیت۔ جبکہ بیانیہ سے وضاحت و صراحت کا تصور ذہن میں آتا ہے یعنی شرح و بسط اور موضوع کی وسعت اور پھیلاؤ کا۔ ان دونوں کے الگ الگ تصور کی اس قطبینیت کی وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بالعموم صورتِ حال یہ ہے کہ جدید نظم کی جو ساخت ہے وہ بیانیہ کی نہیں ہوسکتی اور جو بیانیہ کی ساخت ہے وہ جدید نظم کی نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ جدید نظم کے لسانی حربے رمزیت، ایمائیت، ابہام، اشارہ، کنایہ، مجاز مرسل، استعارہ، علامت اور پیکریت ہیں، جبکہ عام تصور کے مطابق بیانیہ کو ان سے کیا لینا دینا یعنی یہاں تو وضاحت و تفصیل مقصود ہے۔ چنانچہ بیانیہ میں زبان کا استعمال وضعی خطوط پر ہوگا نہ کہ غیر وضعی خطوط پر جو جدید نظم کا طرۂ امتیاز ہے۔ نیز یہ کہ جدید نظم کی دنیا تخئیلی اور جذباتی ہے جبکہ بیانیہ سے Concreteness یعنی ٹھوس واقعیت، زمینیت یا جزئیات کا تصور پیدا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ قطبینیت کی ان ترجیحات میں جو ہماری (Common Sense) توقعات نے پیدا کر رکھی ہیں، مزید تفصیل کا اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن سردست بحث اٹھانے کے لیے اتنا کافی ہے۔
جدید نظم کے معماروں میں ن م راشد اور میراجی کے ساتھ اور ان کے بعد کئی نام آتے ہیں جن میں اخترالایمان خاص اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے کہ آزادی کے بعد ان کا تخلیقی سفر برابر جاری رہا ہے، دوسرے جدید تر نظم پر بھی ان کی شعری شخصیت کا اثر ہے۔ یہاں سب سے پہلے ان کی دو ایک سامنے کی نظموں سے استنباط کیا جاتا ہے :
’ایک لڑکا‘ مشہور نظم ہے، نسبتاً طویل نظم۔ اس کا پہلا بند :
دیارِ شرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں پر
کبھی آموں کے باغوں میں کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر
کبھی جھیلوں کے پانی میں کبھی بستی کی گلیوں میں
کبھی کچھ نیم عریاں کم سِنوں کی رنگ رَلیوں میں
سحر دم، جھُٹپٹے کے وقت، راتوں کے اندھیرے میں
کبھی میلوں میں، ناٹک ٹولیوں میں، اُن کے ڈیرے میں
زیادہ تر منظر یہ ہے۔ آخری مصرعوں میں مکالمہ ہے جس میں ہمزاد جو آوارہ منش، آزاد و سیلانی ہے، راوی سے پوچھتا ہے :
مجھے اک لڑکا، آوارہ منش، آزاد سیلانی
مجھے اک لڑکا، جیسے تند چشموں کا رواں پانی
نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے، جیسے یہ بلائے جاں
مرا ہمزاد ہے، ہر گام پر، ہر موڑ پر جولاں
اسے ہمراہ پاتا ہوں، یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کررہا ہے، جیسے میں مفرور ملزم ہوں
یہ مجھ سے پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو؟
دوسرے بند میں خدائے عزّ و جَلّ کی نعمتوں کا ذکر ہے اور اس کے حاکمِ کُل اور قادرِ مطلق ہونے کا اور مصدرِ ہستی کی ان تعریفوں کا جو ارشاداتِ الٰہی میں آئی ہیں۔ ایک کے بعد ایک حالتوں کے بیان کے بعد پھر مکالمہ ہے :
وہ حاکم حاکمِ مطلق ہے، یکتا اور دانا ہے
اندھیرے کو اجالے سے جُدا کرتا ہے، خود کو میں
اگر پہچانتا ہوں اس کی رحمت اور سخاوت ہے!
اسی نے خسروی دی ہے، لئیموں کو مجھے نکبَت
اسی نے یاوہ گویوں کو مرا خازن بنایا ہے
تونگر ہرزہ کاروں کو کیا دریوزہ گر مجھ کو
مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پَسارا ہے
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو؟
تیسرے بند میں تخلیقی ذہن کی بے بسی اور بے چارگی کا ذکر ہے کہ اسے ظفرمندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطر گڑگڑانا پڑتا ہے، یا اس خامہ سوزی کو جو مسلسل شب بیداریوں کا نتیجہ ہے، ایک کھوٹے سکّے کی طرح دوسروں کو دکھانا پڑتا ہے۔ یہ ’گزران‘ کا ذکر ہے یا اُن منزلوں کا جن سے زندگی سحر کی آرزو میں شب کا دامن تھامتے ہوئے گزری ہے۔ واضح رہے کہ نظم کا ’میں‘ ضروری نہیں کہ شاعر خود ہو یہ شعری تشکیل ہے۔ چوتھا اور آخری بند جو سب سے مختصر ہے یکسر مکالمے پر مبنی ہے، اس میں ان تمام بیانات کا نچوڑ بھی ہے معراج بھی، اختتام بھی اور تجربے کی بازتعبیر بھی جو نظم کی شعری گرامر کا تقاضا ہے :
یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلّا کے کہتا ہوں
وہ آشفتہ مزاج، اندوہ پرور، اضطراب آسا
جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مرچکا ظالم
اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا
اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں!
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مرچکا جس نے
کبھی چاہا تھا اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کِذب و اِفترا ہے، جھوٹ ہے دیکھو میں زندہ ہوں!
بظاہر یہ دو کرداروں میں گفتگو ہے یا ہمزاد یا ضمیر سے ہم کلامی ہے یا دوسرے لفظوں میں خودکلامی جس میں راوی ہمزاد کے ہاتھوں انکشافِ ذات سے دوچار ہوتا ہے۔ یہاں ذہن ایغو کے دولخت ہونے کی طرف بھی جاتا ہے۔ انسان کی وحدت بچپن ہی میں جب وہ زبان کے علامتی نظام میں داخل ہوتا ہے تو دولخت ہوجاتی ہے یعنی ’بیان کا میں‘ Subject of Enunciation اور ’بیان کرنے والا میں‘ Subject of Enunciating یہ دونوں متصادم رہتے ہیں، ان میں وحدت نہیں۔ مزید یہ ’بیان کا میں‘ اور ’بیان کرنے والا میں‘ کے بیچ میں جو فصل ہے، معنی کی افتراقیت، دریدا جس کوDifferanceکہتا ہے، اسی خالی جگہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ نظم میں مرکزی خیال یعنی ایغو یا ضمیر کی کش مکش کا ارتقا درجہ بدرجہ ہوا ہے، نظم میں ایجاز بھی ہے اور جامعیت بھی۔ قطع نظر ان خصائص اور دیگر امور سے جن کا ذکر اکثر نقادوں نے کیا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ نظم کی داخلی ساخت میں بیانیہ کا تفاعل ہے یا کہانی کا عنصر ہے خواہ وہ کتنا تہہ نشیں کیوں نہ ہو۔ لڑکے کا دیارِ مشرق کی آبادیوں کے اونچے ٹیلوں اور بستی کی گلیوں میں بڑا ہونا، آموں کے باغوں، کھیتوں کی مینڈوں، جھیلوں کے پانیوں میں کم سِنوں سے رنگ رلیاں منانا، میلے ٹھیلوں، ناٹک ٹولیوں میں شریک ہونا، مدرسوں اور خانقاہوں سے گریزاں رہنا، پھر بڑا ہونے کے بعد ایک کے بعد ایک تلخ تجربوں سے دوچار ہونا، معیشت کے لیے سوالی ہونا، نااہلوں سے واسطہ پڑنا، اصولوں پر سمجھوتہ کرنا وغیرہ وغیرہ تو داروف کی اصطلاح میں یہ سب بیانیہ کے مسائل ہیں۔ توداروف جس نے Decameron اور فکشن کی شعریات پر قابل قدر کام کیا ہے، بیانیہ کے قلیل ترین جز کو ’مسئلہ‘ (Proposition) کہتا ہے۔ بیانیہ میں کئی ’مسائل‘ مل کر (Sequence) یعنی ترجیع قائم کرتے ہیں۔ ترجیعیں زیر سطح عمل آرا ہوتی ہیں اور ملفوظی سطح (Text) یعنی متن ہے۔ گویا زیر بحث نظم میں ہر ہر بند مسائل (Propositions) کی ترجیع ہے اور یہ ترجیعیں مل کر تہہ نشیں کہانی قائم کرتی ہیں، حتیٰ کہ آخری بند میں اتمامِ حجت کے لیے راوی کہتا ہے کہ وہ آوارہ منش، آزاد و سیلانی لڑکا مرچکا ہے لیکن ہمزاد اس حقیقت کو جھٹلاتا ہے کہ جھوٹ کیوں بولتے ہو، دیکھو میں تو زندہ ہوں — کیا داخلی ساخت میں یہ سب بیانیہ کا تفاعل نہیں ہے جس کی درجہ بدرجہ شعری تقلیب ہوئی ہے اور جو کلائمکس پر پہنچ کر مکمل ہوگئی ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم پہلے خود کو قائم کرتی ہے پھر کسی دوسری شے کو۔ لیکن شعری زبان کی بڑائی اس کی شیئت میں نہیں اس کی جمالیات اور تاثیر میں ہے، یہ نہیں تو موضوع کتنا ہی بڑا ہو نظم کچھ بھی نہیں۔ لیکن تاثیر پیدا ہوتی ہے معنی سے اور معنی آتا ہے ساخت سے، اور ساخت سے اگر کہانی کے عنصر یا واقعیت یا واقعے کی کڑی سے کڑی ملنے یا (Progression) جو زماں کے اسکیل پر ہے اور جو مکاں سے کلیتاً باہر نہیں، یعنی بیانیہ کے اس تفاعل کو الگ کردیں تو کیا نظم کا وجود باقی رہے گا، یعنی کیا نظم نظم رہے گی؟
بیشک جدید نظم کی استعاراتی منطق کی رو سے بیانیہ کی شعری تقلیب ہوجاتی ہے جو آخر میں ایک انوکھا تجربہ بن کر سامنے آتی ہے، لیکن اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ نظم کی زیریں ساخت میں بیانیہ کارگر ہے جس سے نظم کے جہانِ معنی کا گہرا رشتہ ہے۔
یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ عمداً میں نے اخترالایمان کی نسبتاً طویل نظم کا انتخاب کیا کیونکہ جہاں طوالت ہوگی وہاں زبان کے تحرک (Progression) یا کہانی پن کے عنصر کا در آنا لازمی ہوگا یا اس کا امکان نسبتاً زیادہ ہوگا، حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ مزید توثیق کے لیے اخترالایمان کی دو مختصر نظموں کو لیا جاتا ہے۔ پہلے یہ چھ مصرعوں کی نظم دیکھیے :
بیداد
کہیں بھی کَندہ نہیں میری آہ میری فغاں
نہ تیرے قہقہے، جھنکار چوڑیوں کی، خِرام
نہ سانحے، نہ حوادث، جنھوں نے روحوں کو
لہولہان کیا، آگ میں جلایا تمام
نہ دادخواہ کوئی ہے نہ دادگر کوئی
فضا میں گونج رہا ہے فقط خدا کا نام
نظم بظاہر صیغۂ حال میں ہے لیکن آہ، فغاں، قہقہے، چوڑیوں کی جھنکار، خِرام، سانحے، حوادث جنھوں نے روحوں کو لہولہان کیا اور جلایا، ماضی کے واقعات ہیں، اور یہ سب گزر چکنے کے بعد کارخانۂ قدرت کا انصاف یہ ہے کہ ’نہ دادخواہ کوئی ہے نہ دادگر کوئی‘ اور اس پر بھی ’فضا میں گونج رہا ہے فقط خدا کا نام‘۔ اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ اس نظم میں جن عوامل سے Irony کو ابھارا گیا ہے خواہ وہ عَلم ہوں یا استعارے، ان سے زماں میں تجربوں یا بقول توداروف مسائل کی ایک زنجیر سی بنتی ہے جس میں کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے یہ Sequence یعنی حالات و حوادث کی ترجیع بیانیہ کا تفاعل ہے۔ ایک اور مختصر نظم دیکھیے :
شیشے کا آدمی
اُٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دُعا بلند کریں
ہماری عمر کا اک اور دن تمام ہوا
خدا کا شکر بجا لائیں آج کے دن بھی
نہ کوئی واقعہ گزرا نہ ایسا کام ہوا
زباں سے کلمۂ حق راست کچھ کہا جاتا
ضمیر جاگتا اور اپنا امتحاں ہوتا
خدا کا شکر بجا لائیں آج کا دن بھی
اسی طرح سے کٹا، منھ اندھیرے اُٹھ بیٹھے
پیالی چائے کی پی، خبریں دیکھیں، ناشتہ پر
ثبوت بیٹھے بصیرت کا اپنی دیتے رہے
بخیر و خوبی پلٹ آئے جیسے شام ہوئی
اور اگلے روز کا موہوم خوف دل میں لیے
ڈرے ڈرے سے ذرا بال پڑ نہ جائے کہیں
لیے دیے یونہی بستر میں جاکے لیٹ گئے!
اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہاں ایک دن کے تجربات ایک کے بعد ایک زماں کے تحرک (Progression) کے ساتھ کڑی در کڑی ارتکاز کے ساتھ بیان ہوئے ہیں تاکہ نظم کی منطق کے مطابق پوری شدّت سے اس نکتے کو ابھارا جاسکے کہ آج کا انسان چونکہ ضمیر کو خوابیدہ رکھتا ہے، اس لیے بے کیف اور روٹین زندگی جیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں وقت کے تحرک اور واقعہ در واقعہ کی کیفیت ہوگی، کہانی اندر ہی اندر چلتی رہے گی۔ یہی بیانیہ کا بیج ہے جس سے داخلی ساخت میں نظم قائم ہوتی ہے، اور نظم کے حسن و لطافت اور تاثیر میں جس کے شعری تفاعل کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔
شاید یہ خیال ہو کہ یہ نتیجہ کھینچ تان کر اخذ کیا جارہا ہے، یعنی جدید نظم میں بیانیہ کے تفاعل کا اس حد تک کارگر ہونا غالباً مبالغہ آرائی ہے، تو اس صورت میں نظم ’’ڈاسنہ سٹیشن کا مسافر‘‘ کو ضرور دیکھ لیا جائے جو نیا آہنگ کے بعد کی نظم ہے۔ یہ نظم درحقیقت تمام و کمال ایک خوبصورت کہانی ہے، درد و حزن کی نشاط سے لبریز جس پر اداسی کی دھندلی دھندلی پرچھائیں ہے۔ اس کے بیانیہ پر بھی یقین نہ آئے تو ’’یادیں‘‘، ’’بنتِ لمحات‘‘، ’’باز آمد‘‘ یا ’’مفاہمت‘‘ کو مزید دیکھ لیا جائے۔ چھوٹی نظموں کا تو بہرحال شمار ہی نہیں، مثلاً ’بے تعلقی‘، ’تفاوت‘، ’ایک کیفیت‘، ’توکل‘، ’گونگی عورت‘، ’حُسن پرست‘، ’تحلیل‘ کسی کا بھی تجزیہ کیا جائے، معانی کی زیریں پرت میں بیانیہ مضمر ملے گا۔ طوالت کے خوف سے مزید تجزیے یا مثالوں کا یارا نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جدید نظم کی حسن کاری اس کے ایجاز و ابہام اور معنوی تہہ داری میں ہے۔ اس کے برعکس بیانیہ کو بالعموم ہم اکہرا سمجھتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ زبان کی جس استعاریت اور علامتیت سے آج ہم جدید نظم کو متصف دیکھنا چاہتے ہیں، زمانۂ قدیم سے بیانیہ اس سے مملو رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو یہ تین جملے دیکھیے :
دو دوست موت کی تلاش میں سفر پر نکلے
راستے میں سونے کا ڈھیر ملا
یہی موت تھی!
یہ کہانی پنچ تنتر میں آئی ہے اور یقیناً بیانیہ کے قلیل ترین نمونوں میں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ معنیاتی تہہ داری کے جتنے پیرائے ہیں بشمول استعارہ، تمثیل اور علامت کے، بیانیہ سے ان کا جوڑ بہت پرانا ہے۔ البتہ شاعری میں زبان کے صرف کے دو بڑے پیرائے ہیں اور پانی یہاں مرتا ہے کیونکہ تخلیقی جھکاؤ ایک طرف کو ہوگا یا دوسری طرف کو۔ ان دو پیرایوں کی نظریہ بندی رومن جیکب سن کے کمالات میں سے ہے چونکہ اس اصول کا درجہ سائنسی سچائی کا ہے اور اس کا اطلاق نہ صرف شاعری اور جملہ اصناف پر ہوتا ہے بلکہ ادبی شخصیات اور ادوار اور تحریکات پر بھی، یعنی رجحان ایک پیرائے کی طرف ہوگا یا دوسرے پیرائے کی طرف۔ جملے کی افقی جہت اور عمودی جہت کا ذکر ایک بنیادی تصور کے طور پر پیش تو سوسیئر نے کیا تھا لیکن شعریات پر اس کا وسیع تر اطلاق جیکب سن نے کیا اور ثابت کیا کہ زبان کے اس بنیادی Cut کا تعلق پوری تخلیقی سرگرمی سے ہے۔ عمودی جہت انتخاب کی جہت ہے یعنی ذہن کئی الفاظ میں ایک کا انتخاب کرسکتا ہے جو اظہار کی استعاراتی جہت ہے جہاں ایک لفظ کے بجائے دوسرا لفظ لایا جاسکتا ہے جبکہ افقی جہت ارتباط یا انسلاک کی جہت ہے جس پر لفظ دوسرے لفظ کے بجائے نہیں بلکہ پہلے لفظ سے مناسبت یا ربط کی وجہ سے آتا ہے۔ اس کو ارتباطی یا انسلاکی جہت کہا ہے۔ مختصر یہ کہ استعاراتی جہت (جو علامت، پیکر، کنایہ، رمز و ایما سب کو حاوی ہے) انتخابی جہت ہے، اور انسلاکی جہت یک گونہ تلازماتی جہت ہے۔ بہ نسبت عام زبان کے یہ عمل تخلیقی زبان کا گویا امتیازی نشان ہے۔ یعنی ادبی اظہار یا تو استعاریت/ علامتیت کی وجہ سے ممتاز ہوگا یا ارتباطیت کی وجہ سے انسلاکی/ وضاحتی ہوگا۔ ان خصائص کی بنا پر مختلف اسالیب کی اظہاری ترجیحات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر یورپ میں رومانیت کی تحریک اور علامت پسندی کی تحریک میں استعاراتی علامتی پیرایہ حاوی ہے۔ اس کے مقابلے میں حقیقت پسندی کے ادب کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کی اظہاری ترجیحات ارتباطیت اور انسلاکیت پر مبنی ہیں اور اس کا ادبی پیرایہ استعاراتی کے مقابلے پر وضاحتی ہے۔ اردو میں واضح طور پر یہ فرق ترقی پسندی اور جدیدیت کے ادب میں ملتا ہے۔ ترقی پسند ادب جو حقیقت پسندانہ ادب ہے، بالعموم انسلاکی پیرایۂ اظہار اختیار کرتا ہے (بہ استثنائے چند) جس میں زور وضاحت پر ہے۔ اس کے برعکس جدیدیت کا ادب بنیادی طور پر استعاراتی ہے۔ ان دونوں رویّوں میں کشمکش اور عمل و ردعمل کا رشتہ ہے جس کی کارفرمائی برابر دیکھی جاسکتی ہے۔
ویسے اگر شاعری اور نثر کی سطح پر دیکھا جائے تو نثر میں چونکہ وضاحت مقصود ہوتی ہے، نثری اظہار ارتباطی ہوتا ہے جبکہ شاعری میں چونکہ اختصار و ایجاز ملحوظ رہتا ہے، اظہار کی نوعیت استعاراتی ہوجاتی ہے۔ ہرچندکہ عام روش یہی ہے لیکن ترقی پسندی میں چونکہ خاص نوع کی سماجی حقیقت نگاری پر زور تھا، شاعری میں بھی برابر وضاحتی ارتباطی پیرایہ ملتا ہے جو اصلاً نثر کا تفاعل ہے۔
اس نکتے کی یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ جدید نظم میں ایک تو مختصر صنفِ شاعری ہونے کی وجہ سے، دوسرے ترقی پسند بیانیہ شاعری کے ردعمل کے طور پر بھی جھکاؤ زیادہ سے زیادہ استعاراتی پیرایے کی طرف ہے۔ واضح رہے کہ ترقی پسند شاعری کے ضمن میں لفظ بیانیہ سے مراد بیان کی شاعری ہے نہ کہ بیانیہ بمعنی Narrative یہاں بیانیہ وضاحت کے معنی میں ہے جیسے کہ ہم پہلے بتا آئے ہیں یعنی بیان کی شاعری، وضاحت و صراحت و تفصیل و اطناب کی شاعری۔ نہ کہ وہ بیانیہ جو کہانی کے Kernel سے پھوٹتا ہے، اور جو یہاں جدید نظم کے ضمن میں زیرِبحث ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بیانیہ کا حاوی قالب فکشن (ناول، افسانہ، ڈرامہ) ہے جس کا کینوس نسبتاً وسیع ہے، اس لیے بیانیہ کا حاوی پیرایہ بھی ارتباطی ہے، لیکن جدید نظم بہ وجہ جدید ہونے کے اور بہ وجہ نظم ہونے کے بھی استعاراتی ترجیح رکھتی ہے، اس لیے بیانیہ کے جس عنصر یا کہانی کے جس Kernel کا ذکر ہم زیریں ساخت پر کررہے ہیں، وہ بھی استعاراتی نوعیت کا ہے نہ کہ وضاحتی نوع کا، اور یہ فرق جدید نظم کو نظم نگاری کی سابقہ تمام روایت یعنی وضاحتی شاعری کی روایت سے الگ کردیتا ہے۔
دیکھا جائے تو اخترالایمان کی نظم کا مزاج بالعموم استعاراتی ہے اس معنی میں کہ اس میں زبان کی عمودی رمزیہ جہت زیادہ کارگر ہے بہ نسبت وضاحتی پیرایے کے۔ یہ صحیح ہے کہ اخترالایمان کی اکثر نظموں کا انداز کچھ کچھ سوانحی ہے لیکن زبان کے استعاراتی صرف کی بدولت معنی میں تہہ داری پیدا ہوجاتی ہے، مثلاً ایک لڑکا میں واحد متکلم ایک شعری تشکیل ہے جو کوئی بھی فنکار ہوسکتا ہے جو فن کو جاہلوں کے سامنے رکھنے پر مجبور ہے، اس کا ضمیر لاکھ سرزنش کرے، زندہ رہنے کے لیے قدرناشناس سماج سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے اور سمجھوتے کرتے کرتے ضمیر مر بھی جاتا ہے، لیکن اگر ضمیر زندہ ہے تو اندر ہی اندر کچوکے لگاتا ہی رہے گا۔ یہی Irony کی کیفیت شیشے کا آدمی میں بھی ہے۔ یہاں صیغہ جمع کا ہے اور طنز تہہ نشیں ہے کہ آؤ خدا کا شکر بجا لائیں کہ آج بھی کلمۂ حق کہنے کی آزمائش سے بچ گئے اور بصیرت کا ثبوت اسی طرح دیتے رہے کہ صبح چائے کی پیالی پی، خبریں دیکھیں، دن بھر روٹین کام کیے، شام کو گھر لوٹ آئے اور لیے دیے یونہی بستر میں دبک گئے۔ اس نظم کا ’ہم‘ پورے عہد یا پورے سماج کی مصلحت بینی، سمجھوتے بازی، فرض ناشناسی اور بے ضمیری کا استعارہ ہے۔ بیداد میں بھی ’میری‘ اور ’تیری‘ دونوں تشکیلِ محض ہیں اور سوال قائم کیا گیا ہے خدا کی دادگری اور دادرسی پر، اور بُجھا بُجھا طنز اسی میں ہے کہ حوادث کی چٹان سے ٹکرا کر ہر شے پاش پاش ہوجاتی ہے حُسن کی کیفیت بھی اور دردِ محبت کی آہ و فغاں بھی، اور بیداد کا عالم یہ ہے کہ کوئی دادخواہ ہے نہ کوئی دادگر، انسان دکھ کا بوجھ ڈھونے اور خدا کے نام کے سہارے جیے جانے پر مجبور ہے۔
آئیے اب آگے چلیں۔ جدید نظم کے استعاراتی پیرائے کی زیریں ساخت میں بیانیہ عنصر کی کارفرمائی جس کا ذکر ہم کر آئے ہیں، یہ کیفیت اخترالایمان سے اگلی نسلوں کے شعرا میں اور بھی نمایاں ہے۔ یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ سب کا ذکر کیا جاسکے۔ اگرچہ ادھر زیادہ توجہ غزل کی طرف ہے جو کچھ ایسی اچھی بات نہیں، تاہم نظم کے شعرا کی اتنی تعداد ضرور ہے کہ نمائندہ شعرا کے ذکر کے لیے بھی دفتر درکار ہے۔ بحث کی سہولت اور اختصار کے لیے یہاں صرف دو تین ایسے مجموعوں کو لیا جائے گا جو ادھر چند برسوں میں شائع ہوئے ہیں، مثلاً چوتھا آسمان (1992)، آنکھ اور خواب کے درمیان (1986)، گلّۂ صفورہ (1990) اور پرانی بات ہے (1988)۔
محمد علوی کے چوتھا آسمان (1992) میں نظمیں خاصی تعداد میں ہیں۔ منیر نیازی اور شہریار کی طرح محمد علوی بھی ان شاعروں میں ہیں جن کو غزل اور نظم دونوں پر دسترس حاصل ہے۔ سب سے پہلے کتبہ دیکھیے :
قبر میں اترتے ہی
میں آرام سے دراز ہوگیا
اور سوچا
یہاں مجھے
کوئی خلل نہیں پہنچائے گا
یہ دو گز زمین
میری
اور صرف میری ملکیت ہے
اور میں مزے سے
مٹی میں گھلتا ملتا رہا
وقت کا احساس
یہاں آکر ختم ہوگیا
میں مطمئن تھا
لیکن بہت جلد
یہ اطمینان بھی مجھ سے چھین لیا گیا
ہوا یوں
کہ ابھی میں
پوری طرح مٹی بھی نہ ہوا تھا
کہ ایک اور شخص
میری قبر میں گھس آیا
اور اب
میری قبر پر
کسی اور کا
کتبہ نصب ہے !!
میں اس نظم کی معنیات سے کہیں اور بحث کرچکا ہوں۔ محمد علوی کی نظم نگاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ مرکزی خیال کو کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے نہایت سہج طریقے سے تعمیر کرتے ہیں اور پھر کسی انوکھے ان دیکھے موڑ پر لاکر نظم کو ختم کردیتے ہیں۔ کتبہ کے لطف و اثر میں بھی کہانی کے تفاعل کو جو دخل ہے، اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ نسبتاً طویل نظموں میں واقعاتی عنصر یا ایک عمل کے بعد دوسرے عمل کے تواتر کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے جس سے بیانیہ کی ترجیع قائم ہوتی ہے، تاہم اس نظم میں دیکھیے، فقط دو کلمے ہیں :
موت
جسم کے
کسی تاریک کونے میں
الارم لگا کے
میٹھی نیند سوتی ہے!
الارم بجے
نہ بجے
کب جاگنا ہے
نیند میں بھی
اُسے خبر ہوتی ہے!!
یہ نظم صیغۂ حال میں ہے، حال اور مستقبل یعنی Imperfective پیرایہ رکھنے والی نظموں میں زیادہ تر بیانیہ نہیں فقط بیان ہوتا ہے، یا پھر یہ منظریہ ہوتی ہیں، لیکن اس نظم میں باوجود عمل کے فقط دو درجوں کے بیانیہ کا جو ’انش‘ ہے وہ ظاہر ہے۔ جنم دن میں تو گویا پوری کہانی اندر ہی اندر عمل آرا ہے :
جنم دن
سال میں اک بار آتا ہے
آتے ہی مجھ سے کہتا ہے
’’کیسے ہو
اچھے تو ہو —
لاؤ اس بات پر کیک کھلاؤ
رات کے کھانے میں کیا ہے
اور کہو کیا چلتا ہے‘‘
پھر ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہتا ہے
پھر گھڑی دیکھ کے کہتا ہے
’’اچھا تو میں جاتا ہوں
پیارے اب میں
ایک سال کے بعد آؤں گا
کیک بنا کے رکھنا
ساتھ میں مچھلی بھی کھاؤں گا‘‘
اور چلا جاتا ہے !
اس سے مل کر
تھوڑی دیر مزا آتا ہے!
لیکن پھر میں سوچتا ہوں
خاص مزا تو تب آئے گا
جب وہ آکر
مجھ کو ڈھونڈھتا رہ جائے گا!!
اس میں شک نہیں کہ نظم کی منطق کی رو سے سارا مزہ آخر کے موڑ اور اچنبھے کی کیفیت میں ہے لیکن اگر بیانیہ یہاں تک استوار نہ ہو، تو پھر اختتام کے انوکھے پن کی کیفیت بھی قائم نہیں ہوسکتی۔ فقط ایک نظم اور جو ہر چندکہ منظریہ ہے اور صیغۂ حال میں ہے، لیکن اگر بیانیہ کا عنصر بھی نظم کی منطق کے ساتھ ساتھ رواں دواں نہ ہو تو نظم نظم بن ہی نہ سکے۔
روٹی
پڑوسی کی بکری نے
پھر گھر میں گھُس کر
کوئی چیز کھالی!
بیوی نے سر پہ قیامت اٹھالی!
مُنّے کو
رونے میں جیسے مزا آرہا ہے
برابر وہ روئے چلا جارہا ہے!
فقیر اب بھی چَوکھٹ سے چپکا ہوا ہے
وہی روز والی دعا دے رہا ہے
روٹی کے جلنے کی بُو
اور اماں کی چیخوں سے
گھر بھر گیا ہے!
پنجرے میں چکراتے مِٹھو کی آواز
روٹی دو
بی بی جی روٹی دو‘‘
اس شور میں کھو گئی ہے!
روٹی تَوے پر بھسم ہوگئی ہے!!
شفیق فاطمہ شعریٰ کے مجموعہ گلۂ صفورہ (1990) سے بھی دو تین نظمیں دیکھ لی جائیں۔ زوالِ عہدِ تمنا نسبتاً لمبی نظم ہے، زیرِ چرخِ کہن، گلۂ صفورہ، پریتی البتہ مختصر نظمیں ہیں نہایت خوبصورت اور نسائیت کے احساس سے تھرتھراتی ہوئی۔ یہ تمام نظمیں گہری ساخت میں بیانیہ کا عنصر رکھتی ہیں، اختصار کی خاطر یہاں صرف ’اسیر‘ درج کی جاتی ہے :
اسیر
افق کے سرخ کہرے میں کہستاں ڈوبا ڈوبا ہے
پکھیرو کُنج میں جھنکار کو اپنی سموتے ہیں
تلاطم گھاس کے بن کا تھما، تارے درختوں کی
گھنی شاخوں کے آویزوں میں موتی سے پروتے ہیں
سبھی سکھیاں گھروں کو لے کے گاگر جا چکیں کب کی
دریچوں سے اب ان کے روشنی رہ رہ کے چھنتی ہے
دھواں چولھوں کا حلقہ حلقہ لہراتا ہے آنگن میں
اُداسی شام کی اک زمزمہ اک گیت بُنتی ہے
یہ پانی جس نے دی پھولوں کی خوشبو دوب کو رنگت
حلاوت گھول دی آزاد چڑیوں کے ترنم میں
دہکتے زرد ٹیلوں کے دلوں کو خنکیاں بخشیں
ڈھلا آخر یہ کیسے میرے آزردہ تبسم میں
یہی گاگر کنارے پر رکھے اس سوچ میں گم ہوں
کہ یہ زنجیر کیا ہے جس نے مجھ کو باندھ رکھا ہے
ایسی نظموں کو پڑھ کر اس امر کی توثیق ہوجاتی ہے کہ جس طرح وقت کا تحرک واقعات کا Progression یا مکالمہ سے واردات کا کُھلنا، بیانیہ عنصر ہوسکتے ہیں، اسی طرح منظرکاری بھی بیانیہ سے باہر نہیں۔ پہلے بند میں منظرکاری ہے، دوسرے میں سکھیاں گاگر لے کر گھروں کو جاچکی ہیں اور چولھوں سے اٹھتا دھواں آنگنوں میں لہرا رہا ہے۔ شام گھِر آئی ہے پھر بھی وہ وہیں ٹیلوں کے پاس پانی کنارے سوچ میں گم ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انتظار ہے کہ یاد جس نے اس کو باندھ رکھا ہے۔
البتہ نظم جتنی زیادہ استعاراتی یا علامتی ہوگی، تہہ نشیں بیانیہ میں خاموشیاں اتنی زیادہ ہوں گی، یا خالی جگہیں ہوں گی، یا کچھ کڑیاں حذف ہوں گی، اور نظم میں معنی چونکہ کئی سطحوں پر کارگر ہوتا ہے یا طرفیں رکھتا ہے، ان سب کو کھولنا قرأت کے تفاعل یا جمالیاتی لطف اندوزی کا حصہ ہے۔ ندا فاضلی کے مجموعے آنکھ اور خواب کے درمیان (1986) کی نظموں میں یہ کیفیت نسبتاً کم ہے لیکن ہے۔ نئے گھر کی پہلی نظم، بے خبری، کامیاب آدمی، تیسرا آدمی، سماجی شعور، سونے سے پہلے، پرانے کھیل وغیرہ نظمیں خصوصی توجہ کا حق رکھتی ہیں۔ ندا فاضلی کی اکثر نظموں میں بیانیہ گھر کی فضا سے ابھرتا ہے۔ ’’رخصت ہوتے وقت‘‘ ملاحظہ ہو :
رخصت ہوتے وقت
اس نے کچھ نہیں کہا
لیکن ایرپورٹ پر اٹیچی کھولتے ہوئے
میں نے دیکھا
میرے کپڑوں کے نیچے
اس نے
اپنے دونوں بچوں کی تصویر چھپا دی ہے
تعجب ہے
چھوٹی بہن ہوکر بھی
اس نے مجھے ماں کی طرح دعا دی ہے
غرض کہاں تک حوالے دیے جائیں، جدید نظموں کا ہیئتی قالب خواہ کچھ ہو، آزاد یا پابند، معرا یا نثری، اکثر و بیشتر نظموں کی زیریں ساخت میں بیانیہ کا تفاعل موجزن ملے گا۔ ہرچندکہ نام شماری ایک مذموم عمل ہے، لیکن اگر اس مقدمہ کی توثیق کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت ہو، یا اگر پوری روایت کو نظر میں رکھنا ملحوظ ہو، تو ان نظموں کا باز مطالعہ خالی از لطف نہ ہوگا۔
ن۔م۔ راشد (سباویراں، بوئے آدم زاد، اسرافیل کی موت)
میراجی (مجھے گھر یاد آتا ہے، یگانگت، اونچا مکان، جاتری، سمندر کا بلاوا)
مجید امجد (آٹوگراف، توسیع شہر، دوام)
مختار صدیقی (رسوائی، اناؤنسر)
یوسف ظفر (وادیِ نیل)
قیوم نظر (اکیلا)
ضیا جالندھری (جادۂ جاوداں، ٹائپسٹ)
ابنِ انشا (افتاد)
عزیز حامد مدنی (شہر کی صبح، آخری ٹرام)
جمیل الدین عالی (تہجی)
سلیمان اریب (تسکینِ انا)
خلیل الرحمن اعظمی (میں گوتم نہیں ہوں، لمحے کی موت)
کمار پاشی (بوڑھی کہانی، جنم دن، گندے دنوں کا قصّہ)
منیب الرحمن (آئینہ، بازدید، سنتھالی ناچ)
منیر نیازی (موسم نے ہم کو منظر کی طرح پریشان کردیا ہے، میرے دشمن کی موت)
قاضی سلیم (کھلونے، وائرس، پرواز)
خورشیدالاسلام (پیاس)
جیلانی کامران (ایک لڑکی)
عباس اطہر (نیک دل لڑکیو)
افتخار جالب (دھند، تنہائی کا چہرہ)
زاہد ڈار (زوال کا دن)
انیس ناگی (خاموشی کا شہر)
عمیق حنفی (بھیری، جنگل)
محمود ایاز (مشتِ خاک، شب چراغ، اسپتال کا کمرہ)
محبوب خزاں (دیوداسی، اکیلی بستیاں)
وحید اختر (اجنبی، کھنڈر آسیب اور پھول)
باقر مہدی (ریت اور درد، شام، ایک دوپہر)
وزیر آغا (ڈھلان، بانجھ، کوہِ ندا)
بلراج کومل (کاغذ کی ناؤ، سرکس کا گھوڑا، ایمبولنس)
عادل منصوری (زخمی سورج نے جب آنکھ کھولی یہاں، والد کے انتقال پر)
اعجاز احمد (خوابوں کا مسیحا، نوحہ)
سلیم الرحمن (پابہ گِل، پاگل پن)
ساقی فاروقی (امانت، شیر امداد علی کا میڈک، مردہ خانہ، شاہ صاحب اینڈ سنز)
مغنی تبسم (رشتے)
شمس الرحمن فاروقی (شیشۂ ساعت کا غبار)
مظہر امام (رشتہ گونگے سفر کا، اکھڑتے خیموں کا درد، آنگن میں ایک شام)
مخمور سعیدی (بلاوا)
صلاح الدین محمود (دروغ گو راوی)
احمد ہمیش (پرچھائیں کا سفر)
شہریار (سائے کی موت، فریب در فریب، رات کی زد سے بھاگتا ہوا دن)
کشور ناہید (گھاس تو مجھ جیسی ہے، حضرت نوحؑ کے زمانے کی کہانی، دھواں چھوڑتی بسیں)
فہمیدہ ریاض (لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا)
پروین شاکر (کسے کہ کُشتہ نہ شد)
افتخار عارف (بارھواں کھلاڑی)
صلاح الدین پرویز (سمند آرا، کنفیشن سیریز)
آج کے شعرا میں تقریباً سب کے یہاں یہ کیفیت کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملے گی، کسی کے یہاں زیادہ کسی کے یہاں کم۔ گویا بیانیہ کا جوہر جدید نظم میں تحلیل ہوگیا ہے، تاہم نظم نظم ہے، اس کی اپنی صنفی پہچان ہے، جس سے نظم بطور نظم لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ واردات جب مصرعوں میں ڈھل جاتی ہے، وزن و آہنگ کے ساتھ یا نثری آہنگ میں، ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب کے ساتھ، زبان کے استعاراتی صرف کے مخصوص پیرائے میں اختصار ایجاز اور جامعیت کے ساتھ بندوں میں یا مسلسل، مقفیٰ یا غیر مقفیٰ، پابند یا غیرپابند تو قاری کی ذہنی توقع نظم کی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی قبولیت بطور نظم ہوتی ہے اور اسے پرکھا اور تولا بھی بطور نظم جاتا ہے اور اس سے لطف و اثر اور حظ و انبساط بھی بطور نظم اخذ کیا جاتا ہے، یعنی بیانیہ کا عنصر نظم کی شعری گرامر میں تحلیل ہوجاتا ہے اور جو شعری تشکیل قائم ہوتی ہے وہ نظم اور صرف نظم ہوتی ہے۔
ایک بات اور۔ بیشک ایک تعداد ایسی نظموں کی بھی ہے جن کی فضا حد سے حد مابعدالطبیعیاتی ہے، ان میں واقعیت برائے نام ہے یا یکسر معدوم ہے، یا محض خیال، یا تخیل کی کارگزاری، یا تجریدیت، یا پیکریت، یا محض تصور یا تصویر، اس لیے کہ نظم کی دنیا میں سب کچھ کی سمائی ہے۔ ان نظموں میں بیانیہ کے عنصر کی تلاش عبث ہے۔ لیکن ایسی نظموں کی تعداد نسبتاً کم ہے، زیادہ تر انداز وہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
بیانیہ کی اس جاری و ساری کارفرمائی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بیانیہ کا عنصر فقط نظم ہی میں نہیں، کُل ادب میں بنیادی ساخت کا درجہ رکھتا ہو۔ اس پر روسی ہیئت پسند باختن اور ولادیمیر پروپ سے لے کر لیوی سٹراس اور توداروف تک مختلف مفکرین نے کچھ نہ کچھ لکھا ہے جو بیانیہ کی شعریات کا روشن باب ہے۔ لیوی سٹراس کا کہنا ہے کہ انسانی فہم اور ادراک کا بنیادی پیرایہ مِتھ ہے اور انسان صدیوں سے حقیقت کو بطور مِتھ دیکھتا آیا ہے اور یہ ادب کا اصل الاصول ہے۔ یہ بات یوں بھی بعید از قیاس نہیں کہ زبان کا تخیئلی استعمال ایک زبان سے دوسری زبان کو منتقلی میں بڑی حد تک ضائع ہوجاتا ہے جبکہ مِتھ یعنی کہانی کا جوہر ذرہ برابر بھی زائل ہوئے بغیر مختلف علاقوں، ملکوں اور زبانوں میں پوری طرح منتقل ہوتا رہتا ہے، گویا کہانی انسان کی تخلیقی میراث کی ’قدرِ مشترک‘ ہے یا دوسرے لفظوں میں کہانی انسانی ذہن کی بنیادی ساخت ہے یعنی تخلیقی اظہار کا ازلی بیج یہی ہے۔ توداروف نے یہ دلچسپ بحث اٹھائی ہے کہ الف لیلیٰ یا وہ داستانیں جن میں قصّہ کہانی در کہانی چلتا ہے، ان کا بنیادی موضوع دراصل خود کہانی کہنے کا عمل ہے کیونکہ بولنے والے جاندار یعنی انسان کے لیے کہانی سننا اور سنانا گویا زندہ رہنے کے عمل کا استعارہ ہے۔ جب تک کہانی جاری ہے، زندگی ہے۔ جہاں کہانی رک جائے گی زندگی ختم ہوجائے گی۔ یہ مسئلہ فقط الف لیلیٰ یا داستانی کرداروں کا نہیں، زندگی کے تسلسل یا تجربے کا بھی ہے، اس لیے کہ بیانیہ زندگی ہے اور عدمِ بیانیہ موت۔ توداروف کا بیان ہے :
‘Narration Equals Life : The Absence of Narration is Death.”
ظاہر ہے یہاں Narration کہانی کہنے کا عمل ہے۔ غرضیکہ اوپر جن نظموں کا تجزیہ کیا گیا اور ان کے ’مسائل‘ اور ’ترجیعوں‘ میں جو کچھ ہم نے دیکھا، اس کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ بیانیہ کا تفاعل جاری ہے تو نظم جاری ہے اور بیانیہ کا تفاعل نہیں تو گویا نظم نہیں، یعنی نظم کی معنیت ہی قائم نہیں ہوتی۔
ادھر ساختیات سے مابعد جدیدیت تک آتے آتے بیانیہ کے تصور میں ایسی توسیع ہوئی ہے کہ باید و شاید۔ لیوتار انسان کی ثقافتی روایت یا علم کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ ایک کو وہ سائنسی علم کہتا ہے اور دوسرے کو بیانیہ (Narrative)۔ اس کا کہنا ہے کہ ان دونوں میں تضاد اور کشمکش کا رشتہ ہے۔ بیانیہ سے لیوتار کی مراد ثقافتی روایت کا وہ تسلسل ہے جو مِتھ، دیومالا، اساطیر اور قصے کہانیوں میں ملتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ اسی میں وہ فلسفے کی بڑی روایتوں کو بھی شامل کرتا ہے۔ لیوتار مدلل کہتا ہے کہ ہمارے نیک و بد کے پیمانے، معاشرتی کوائف، صحیح و غلط کی تعبیر اور ثقافتی رویّوں کے معیار سب بیانیہ ہی سے طے ہوتے ہیں اور عوامی دانش و حکمت کے سرچشمے بھی بیانیہ سے پھوٹتے ہیں، مختصر یہ کہ بیانیہ ثقافت کا ایسا سرچشمۂ فیضان ہے جس سے ہم ہر وقت سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ اس معنی میں بیانیہ جملہ ادب کو حاوی ہے۔ لیوتار اصرار کرتا ہے کہ باوجود سائنس اور تکنالوجی کی ترقی کے بیانیہ کا وجود ضروری ہے۔ یہ دونوں متوازی حقیقتیں ہیں۔ سائنسی علوم میں جہاں ثبوت ضروری ہے، بیانیہ میں ثبوت یا دلیل ضروری نہیں۔ سائنسی روایت بیانیہ پر ہمیشہ معترض رہتی ہے۔ وہ بیانیہ کو نیم وحشی، نیم مہذب، ظلمت شعار، جہالت شکار وغیرہ کہہ کر اس پر طنز بھی کرتی رہتی ہے۔ لیکن خود سائنسی روایت کو اپنے استناد کی توثیق کے لیے بیانیہ کے وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اس کے لیے بیانیہ کا تناظر اور حوالہ ضروری ہے۔
اخترالایمان نے جن کے ذکر سے اس مضمون کا آغاز کیا گیا تھا، سر و ساماں کے دیباچے میں ایک معنی خیز بات کہی ہے :
’’گزر ان کا ایک لفظ میرے ذہن میں ہے جو میں سمجھتا ہوں پوری زندگی کی اساس ہے۔ آدمی جہاں بھی ہے خواہی نہ خواہی، گفتنی نا گفتنی، ہر طرح کے قیود و بند میں رہ کر گزران کرتا ہے۔ یہ گزران کوئی سوچا سمجھا ہوا فعل نہیں ایک افتاد ہے۔ جیسی پڑتی ہے جھیلتا اوٹتا ہے۔ اس وقت اس کے دماغ میں یہ بات نہیں آتی، یہ عینیت ہے یا وجودیت۔ زندگی جبر محض ہے یا وہ مختارِ کُل۔ اگر دیکھا جائے تو گزران کو معنی پہنانے کی کوشش ہی فلسفہ، ادب اور شعر ہے‘‘۔
یہی گزران بیانیہ ہے یعنی زندگی کو جھیلنے، اس کے جبر سے متصادم ہونے، حالات سے سمجھوتہ کرنے یا نہ کرنے کے تجربات کو زبان میں قائم کرنے کا نام ہی بیانیہ ہے۔ جیمسن غلط نہیں کہتا کہ یہ دنیا ہمارے فہم و ادراک میں کہانی کے بطور ہی آتی ہے۔ یعنی ہم دنیا کو بیانیہ کی ساخت سے انگیز کرتے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتا ہے کہ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ کیا دنیا کا کوئی بھی تصور بیانیہ سے ہٹ کر ممکن ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کہانی کا تبدل کسی اور ساخت سے کرلیں، غور سے دیکھنے پر معلوم ہوگا کہ وہ بدلی ہوئی ساخت بھی ایک طرح کی کہانی ہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’کہانی وہ بنیادی ساخت ہے جو انسانی ذہن حقیقت کے خام مواد کو عطا کرتا ہے‘‘۔ اس معنی میں کہانی کا عنصر کُل ادب میں تہ نشیں ہے۔ یہ ادب کا اصل الاصول یا اس کی کنہہ ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا، غور طلب یہ ہے کہ کیا شاعری یا ادب کا کوئی بھی تصور کہانی کے بغیر مکمل ہے۔ ادب میں معنی زندگی سے آتے ہیں، وہ ’ذکرِ بتاں‘ ہو یا ’گزران‘ کا گھماؤ ادب بنتا زندگی کے تجربے ہی سے ہے۔ اور اس تجربے کا کوئی بیان کہانی کے عنصر سے خالی نہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو میر کو کیوں کہنا پڑتا :
فرصتِ خواب نہیں ذکرِ بتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔