یہ جو اس دل کو جنوں میں بھی سکوں ہے، یوں ہے
ذ ہن پر اسمِ محمد کا فسوں ہے یوں ہے
دل کے جذبات الگ، عقل کی اوقات الگ
عشق کی راہ مگر یوں ہے نہ یوں ہے، یوں ہے
میں مدینے سے پلٹنا ہی نہیں چاہتا تھا
”تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے، یوں ہے”
سیرتِ پاک ہی دراصل ہے قانونِ حیات
ورنہ فتوے تو ہزاروں ہیں کہ یوں ہے یوں ہے
دل دھڑکتا ہے محمد کی زیارت کے لیے
میرے اعضا میں اگر گردشِ خوں ہے، یوں ہے
منکشف مجھ پہ ہو معراجِ نبی کی منطق
میں بھی ہر پوچھنے والے سے کہوں ”ہے، یوں ہے”