میرا پاکستان
……….
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا
……………
موبائل فون پر ایک ایس ایم ایس ملا:” بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کی طرف سے کچھ سال پہلے گھر گھر ہونے والے سروے کے تحت آپ کے 25000 روپے منظور ہوگئے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے نیچے دیے گئے نمبر پر رابطہ کریں۔“ ایسے کئی پیغامات پہلے بھی ملتے رہے لیکن ہم نے کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ دیے گئے نمبر پر کال تو ہم نے اس بار بھی نہیں کی البتہ اس پیغام کو یہاں اپنے کالم میں جگہ دے دی۔تا کہ ایک تو یہ بات اُن سادہ لوحوں تک پہنچ جائے، جو اپنے فائدے کی ہر بات کو سچ جان لیتے ہیں اور بعدازاں ہلکا یا بھاری نقصان اٹھا کر حکومت اور تقدیر کو کوسنے لگتے ہیں۔یہ سلسلہ یہیں نہیں رُکتا، کبھی کبھی موبائل فون پر کال آتی ہے:” یوفون نے ایک قرعہ اندازی کی ہے، آپ کا لاکھوں کا انعام نکل آیا ہے، رجسٹریشن وغیرہ کروالیں تا کہ سلسلہ آگے چل سکے۔“ایسا ہی ایک پیغام ہمیں ایک دفعہ موبی لنک کی طرف سے ملا۔ ہم نے فوراً موبی لنک کی ہیلپ لائن پر کال کی اور اس پیغام کی حقیقت کے بارے میں دریافت کیا، جواب ملا: موبی لنک تو ایسا کچھ نہیں کر رہا، آپ ہمیں وہ نمبر دیں جس سے یہ پیغام ملا ہے۔“ ہم نے نمبر درج کروا دیا۔ اللہ جانے کچھ ہوا کہ نہیں کہ پھر کسی نے اس سلسلہ میں ہم سے رابطہ نہیں کیا۔
ہمارے عوام کی سادہ لوحی بے وقوفی کی حد تک بڑھ چلی ہے۔ بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ لالچ میں ہم زیرِ غور پیش کش کا سیاق و سباق دیکھنا بھی بھول جاتے ہیں۔ہر حکومت اپنے عہد میں مختلف سپورٹ پروگرام شروع کرتی ہے، ہم کسی کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہتے لیکن ایک حقیقت ضرور آپ تک پہنچانا چاہیں گے کہ ہر منصوبہ عوام تک آتے آتے ایک ”بھول بھلیاں“ بن جاتا ہے۔ یہ کرو، یوں کرو اور ہوتے ہوتے ہم اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ ایک فراڈ ہے۔ ہمارے ہاں معاملات کو عام فہم نہیں رکھا جاتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس بھول بھلیاں میں مفاد پرستوں اور حرام کھانے والوں کو چور راستے مل جاتے ہیں۔اور صاحب سے لے کر چپڑاسی تک سب اس گنگا میں ہاتھ دھونے کو اپنا حق جاننے لگتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ صاحب کو خبر ہی نہیں ہوتی اور نیچے صاحب کے نام نہاد خیر خواہ، صاحب کے نام پر وصولیاں کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہ کم کم ہی ہوتا ہے کہ زیادہ تر تو صاحب لوگ بھی اس ایجنڈے کا بنیادی کردار ہوتے ہیں۔ خیر، سیاسی حکومتیں جب کسی نئے منصوبے کا اعلان کرتی ہیں تو معاملہ بیوروکریسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے، بیوروکریسی والے اس منصوبے میں وہ وہ شقیں ڈالتے ہیں کہ سبحان اللہ۔کوئی مائی کا لال سیدھی انگلیوں گھی نکال کر تو دکھائے۔ یہ داؤ پیچ کوئی جانے تو سامنے آئے۔ ایسے میں خدائی فوج دار میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایسے فوج دار آپ کو ہر اس دفتر کے باہر ملیں گے جہاں عوام سے متعلقہ مسائل دیکھے جاتے ہیں۔ انگریزی میں ان فوج داروں کو ذرا مہذب رہتے ہوئے ”مڈل مین“ اور اردو میں لگی لپٹی رکھے بغیر ”دلال“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ”بھائی! خیریت ہے؟“، ”ادھر کیسے آنا ہوا؟“، ”کوئی مسئلہ تو نہیں؟“،”قرض تو نہیں لینا؟“، ” اندر صاحب سے ملاقات کا وقت نہیں مل رہا ناں!“، ” چلیے کوئی بات نہیں، ہم دیکھے دیتے ہیں“، ”ابھی مسئلہ حل کروا دیتے ہیں۔“ اور ایسے بظاہر پیار بھرے جملے سن کرہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ خدا نے انسان کے روپ میں ہمارے لیے اوپر سے کوئی فرشتہ بھیج دیا ہے۔ اب فرشتے کی نیت پر شک کون کرے۔ پھر دلال صاحب ہمیں جب دوبارہ دفتر کے اندر لے کر جاتے ہیں تو یکایک تمام رستے کھلتے محسوس ہوتے ہیں۔ وہی کلرک جسے تھوڑی دیر پہلے ہماری بات تک سننا گوارا نہیں تھا، اب یوں ہے کہ گویا کوئی پرانی دعا سلام ہو۔
کیا یہ سب اتنا سادہ ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ لوگ آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ جب آپ اکیلے جاتے ہیں تو منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں، لیکن جب کوئی مڈل مین ساتھ ہو تو ہنس ہنس کر ملتے ہیں اور کام کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ پھر وہ صاحب آپ سے کہتے ہیں:” بھائی! دیکھا، میں نے کتنی آسانی سے آپ کا مسئلہ حل کروا دیا۔ اب یوں ہے کہ صاحب نے اتنی مہربانی کی ہے تو لازم ہے کہ ہم بھی اسے مٹھائی کے روپے دے آئیں۔ دیکھیں، میں تو بس یوں سمجھیں کہ آپ کا بھائی ہوں لیکن صاحب کا تو حق بنتا ہے۔ دوبارہ بھی تو واسطہ پڑ سکتا ہے۔“ اس وقت ہم شاید ہپناٹائز ہو چکے ہوتے ہیں یا اپنے نظام پر بھروسہ نہیں ہوتا کہ فوراً اُن صاحب کی منہ مانگی رقم اُن کے ہاتھ پر دھر دیتے ہیں کہ جاؤ صاحب کو دے آؤ، اور ہاں ایک بار پھر اُن کا شکریہ ادا کر دینا۔تو صاحب! یوں ہم اور آپ سب مل کر اپنے معاشرے میں اس بری عادت کو رواج دیتے ہیں۔
بات چلی تھی بینظیر انکم سپورٹ فنڈ سے اور آپہنچی صاحب تک۔ ہم اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ یہ پروگرام تھا کیا؟ اس منصوبے کے تحت کس کو کیا ملا؟ فائدہ حاصل کرنے والوں میں سے حق دار کتنے تھے ؟ کس نے کتنا غبن کیا؟ کہ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے۔ ہم تو محض یہ بات آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ اس طرح کے پیغامات محض بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کے پھیلائے ہوئے دام ہوتے ہیں جن سے ہمیں دور ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ایسے جال بچھانے والوں کے بارے میں متعلقہ اداروں کو آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔لگے ہاتھوں ہم حکومتِ وقت سے یہ درخواست بھی کریں گے کہ نئے منصوبوں خصوصاً ”یوتھ لون“ کے حصول کو زیادہ سے زیادہ آسان اور عملی رکھیں، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کو مفاد پرستوں سے بچائے رکھے تا کہ یہ قرضہ صرف حق داروں تک پہنچے۔ ہمیں اس منصوبے سے بڑی توقعات ہیں کہ اس کی کامیابی ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس منصوبے سے ملک میں جاری اخلاقی گراوٹ کا بھی سدِ باب ممکن ہے کہ خالی مکان شیطان کی دکان کے مترادف ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ دن
۲۷ دسمبر ۲۰۱۳ء