بین الاقوامی تنازعات … نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔

بین الاقوامی تنازعات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”سینکاکو“ اور” ڈیائیو“ نامی جزیرے چین اور جاپان کے درمیان تنازع کا بنیادی سبب ہیں۔ ان متنازع جزیروں پر دونوں ممالک ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ”سینکاکو“ اس وقت جاپان اور” ڈیائیو“ چین کے زیرِ تسلط ہے۔ اب چین نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنی نئی فضائی حدود کا اعلان کیا ہے اور دنیا کو خبردار کیا ہے کہ دنیا کو ان فضائی حدود کی پابندی کرنا ہو گی۔ اعلان کردہ فضائی حدود میں دونوں متنازع جزائر کے علاوہ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جن پر تائیوان اور جنوبی کوریا حقِ ملکیت کادعویٰ رکھتے ہیں۔ اس پر امریکہ ، جاپان اور دیگرحواریوں کو شدید خدشات ہیں لیکن چین بضد ہے کہ وہ اپنی اعلان کردہ حدود کی ہر حالت میں پابندی کروائے گا۔
جاپان اور امریکہ کے مسافر بردار جہازوں اور فضائی کمپنیوں نے ان حدود کی پابندی شروع کر دی ہے تاہم جاپان ،امریکہ اور جنوبی کوریا کے جنگی طیاروں نے ان علاقوں میں چینی اعلان کے بعد بھی پرواز کی ہے۔ دوسری طرف چین کی طرف سے جنگی لڑاکا طیاروں نے ان کو اپنی فضائی حدود سے نکال باہر کرنے کے لیے پروازیں بھی کیں ہیں۔چینی فضائیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلسل ان فضائی حدود کی نگرانی پر ہے ۔ اس مقصد کے لیے چین نے درکار منصوبہ بندی اور انتظامات بھی پہلے سے کر رکھے ہیں۔ چینی فضائیہ کو ان حدود کی پابندی نہ کرنے والے جہازوں کے خلاف مناسب دفاعی اقدامات کرنے کا حکم نامہ بھی جاری ہو چکا ہے۔امریکہ دبے لفظوں میں جب کہ جاپان کھلم کھلا چین کے اس منصوبے کو غلط اور علاقے میں توازن بگاڑنے کی کوشش قرار دے رہا ہے۔ ابھی یہ کشیدگی زور پکڑ رہی تھی کہ جنوبی کوریا نے بھی اپنی فضائی دفاعی حدود میں توسیع کا اعلان کر ڈالا۔ جنوبی کوریا کی طرف سے اس اعلان کے بعد بین الاقوامی حالات مزید کشیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔چین اور جنوبی کوریا کی طرف سے اعلان کردہ فضائی حدود ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ جنوبی کوریا کی طرف سے اعلان کردہ حدود کا نفاذ 15 دسمبر سے ہو گا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ”سینکاکو“ اور” ڈیائیو“ کے بعد ”لیوڈو“ نامی ایک چٹان بھی بڑی کشیدگی کا سبب بنتی نظر آ رہی ہے جسے چینی زبان میں ”سویان“ کہا جاتا ہے۔ ”لیوڈو“(سویان) پر چین اور جنوبی کوریا دونوں ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔یہ چٹان فی الحال جنوبی کوریا کے قبضے میں ہے۔اب یہ چٹان”سویان“ بن پاتی ہے کہ نہیں، اس کا فیصلہ آتے دنوں میں متوقع ہے۔
بین الاقوامی سطح پر کشیدہ ہوتے حالات دنیا کے لیے یقیناً مضر ثابت ہوں گے۔ لیکن ان ممالک کے درمیان اصل مسئلہ خطے کا چوہدری بننے کا ہے۔ جاپان جس کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے، ٹیکنالوجی کی میدان میں ہمیشہ چار قدم ّگے رہا ہے لیکن گذشتہ دہائیوں میں چین نے بے پناہ ترقی کرتے ہوئے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔پوری دنیا پر اثر و رسوخ کی خواہش اور کوششوں کے حوالہ سے امریکی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ چین امریکی عزائم کے راستے میں ایک بڑی دیوار ہے۔ ان دنوں چینی حکومت کا رویہ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب چین بھی دنیا پربرتری حاصل کرنے اور اپنی دھاک بٹھانے کی اس دوڑ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ کبھی وہ دن بھی تھے کہ دنیا بھر کے معاملات میں امریکہ اور روس دخیل ہوا کرتے تھے لیکن روس رفتہ رفتہ کمزور ہوتا گیا۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور یوں دنیا میں طاقت کا عدم توازن سامنے آیا۔ گو اس گئے گزرے حالات میں بھی روس برابر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے لیکن اس کی آواز محض ایک شورشرابے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چین کی طرف سے فضائی حدود کی توسیع کا اعلان چین کے مستقبل میں عزائم کا پتہ دیتا ہے کہ اب وہ بھی دنیا پر حکومت کا خواہاں ہے۔ لیکن مغرب کو مشرق کی بالا دستی کبھی گوارا نہیں رہی۔ جنوبی کوریا اورجاپان کو منظر نامے پر متحرک کر کے امریکہ ان دونوں ممالک کی پشت پناہی کرتے ہوئے پوری کوشش کرے گا کہ چینی قوم کے خواب کبھی پورے نہ ہوں لیکن چینی حکومت کے رویہ سے لگتا ہے کہ حالیہ فیصلے محض جذباتی نہیں ہے، ان کے پیچھے گہری منصوبہ بندی ہے۔
چین، امریکہ، جاپان ، جنوبی کوریا اور تائیوان کی حکومتوں کے درمیان حالیہ تنازعات بین الاقوامی سطح پر امن و امان کی صورتِ حال کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔بات کچھ یوں ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگیں علاقے کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کو اور پیچھے لے جاتی ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غریب ممالک کو استعمال کرنا بڑی طاقتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔پاکستان بظاہر غیر جانب دار رہتے ہوئے بھی ایسی رسہ کشیوں میں اپنے آپ کو غیر جانب دار نہیں رکھ سکا۔ افغانستان میں روسی جارحیت میں امریکی مقاصد کے حصول میں پاکستان کا کردار اس سلسلہ میں سامنے کی بات ہے۔افغانستان ہی میں امریکی جارحیت کے دوران پاکستان کا کردار سب کے سامنے رہا ہے۔ عراق اور ایران کے معاملے میں عرب ممالک کا کردار بھی کچھ ایسا ڈھکا چھپا نہیں۔چین اور امریکہ کے باہمی تنازعات کے باعث خطے کے افق پر نمودار ہوتے خطرات کے بادل تائیوان، جاپان اور جنوبی کوریا کے علاوہ کہاں کہاں برسیں گے، ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کسی صورت محفوظ نہیں رہیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری ایک مسلسل کشیدگی بڑی طاقتوں کو ان دونوں کے استحصال کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہر نازک مرحلے میں دونوں حکومتوں کے غلط فیصلوں کے مہلک نتائج اِن کے عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں ۔ اور اگر ان دونوں نے اب بھی کوئی مناسب حکمتِ عملی اختیار نہ کی تو اس بار بھی صورتِ حال یقینا پہلے سے مختلف نہیں ہو گی۔ دونوں ممالک کی جمہوری حکومتوں کو باہمی رنجشوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنے اپنے عوام کے بہترمفاد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اور بین الاقوامی سیاست میں اٹھتے ہر مدو جزر کو اسی کسوٹی پر پرکھنا ہو گا ورنہ پس ماندہ ممالک کی فہرست میں دونوں اعلیٰ درجوں پر فائز رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۱۱ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment