(بے چارے) جنرل صاحب! … نوید صادق

میرا پاکستان
……..

(بے چارے) جنرل صاحب!
……………

۔۔۔۔۔۔۔ تاجر سو کر اُٹھا، تو ٹوپیوں کی ٹوکری خالی تھی، اُس نے دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا، اُس نے اوپر دیکھا، ارے! یہ کیا! درخت پر بہت سے بندر تھے اوربندروں نے ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔اُس نے بڑی منت سماجت کی، ہاتھ باندھے، لیکن بندر اُس کا منہ چڑاتے رہے۔ اُس نے غصے اور پریشانی کے ملے جلے جذبات کے تحت اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور زور سے زمین پر دے ماری۔بندروں نے اُسے چڑانے کی غرض سے یا محض نقالی میں اپنے سروں سے ٹوپیاں اُتاریں اور زمین پر دے ماریں۔ تاجر اُٹھا ، جلدی جلدی ٹوپیاں سمیٹیں، ٹوکری میں ڈالیں، ٹوکری سر پر رکھی اور چلتا بنا۔
بات ایک نسل سے دوسری نسل اور پھر تیسری نسل تک پہنچی۔ تاجر سو کر اُٹھا، ٹوکری خالی تھی، اُس نے اوپر دیکھا، بندر بھی تھے اور ان کے سروں پر ٹوپیاں بھی تھیں۔ ماضی کو دھیان میں لایا گیا۔ تاجر نے سر سے ٹوپی اُتاری، زمین پر دے ماری، اور آنکھیں بند کر کے انتظار کرنے لگا کہ کب بندر اُس کی نقالی میں اپنی ٹوپیاں اُتار کر نیچے پھینکتے ہیں۔کوئی آواز نہیں آئی تو آنکھیں کھولیں۔ سامنے ایک بندر بیٹھا تھا، ٹوپی ابھی تک اُس کے سر پر تھی۔ تاجر ابھی حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہی تھا کہ بندر نے اُس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا اور گویا ہوا:” تمھارا کیا خیال ہے، ہمارے بڑے ہمیں کچھ نہیں بتا کر گئے۔“
ثابت ہوا کہ تاریخ میں واقعات ہو بہ ہو رُونما نہیں ہوتے۔جنرل ایوب خان (1958۔1969)، جنرل آغا محمد یحیٰ خان(1969۔1971)، جنرل محمد ضیاءالحق (1977۔1988)۔۔۔ سب نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں پاکستان میں آمریت کو فروغ دینے میں کمی نہیں کی، انھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جنرل پرویز مشرف (1999ء۔ 2008) نے بھی ملک میں مارشل لاءکا نفاذ کیا،جمہوری حکومت کو اکھاڑ پھینکا ۔ ہمیں اپنے جرنیلوں سے گلے شکوے بہت ہیں لیکن ہم انھیں برا بھلا نہیں کہتے کہ انھوں نے کچھ اچھے کام بھی کیے۔لیکن ان لوگوں نے ہمارے ساتھ بڑی زیادتی کی کہ ہمارے پیارے وطن میں عوامی حکومتوں کو پنپنے نہیں دیا۔ جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیا۔بھارت بھی ہمارے ساتھ آزاد ہوا لیکن وہاں کسی نے ایسی جسارت نہیں کی، وہاں ملکی مفادات کو سامنے رکھا گیا، اہمیت دی گئی۔ ہمارے ہاں صورتِ حال مختلف رہی۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ سارے مارشل لاءذاتی مفادات کے مدِ نظر نافذ کیے گئے لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سب کے سب حالات کو دیکھتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں لگائے گئے۔
جنرل ضیاءالحق نے قوم کے ساتھ وہ کیا جو شاید کوئی غیر بھی نہ کرتا۔ جنرل ضیاءالحق امریکی مفادات کی جنگ لڑتے رہے اور” اسلام“ کا نعرہ لگا کر پاکستانی عوام کو بے وقوف بناتے رہے۔ اسلام کے نفاذ کے دعوے کبھی اپنی تکمیل کو نہ پہنچ پائے۔ پھر بھی پاکستانی قوم کی سادگی او محبت دیکھیے کہ جب 17اگست 1988ءکو جنرل ضیاءالحق کا جہاز تباہ ہوا تو پوری قوم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ٹھیریے، پاکستانی ایک مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی موت پر نہیں رو رہے تھے، وہ تو پاک فوج کے ایک جنرل کی وفات پر پُرنم تھے۔اور یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ پاکستانی اپنی فوج سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
ہمیں وہ دن آج بھی نہیں بھولتا جب جنرل پرویز مشرف نے ایک جمہوری حکومت کو بزورِ طاقت برطرف کر کے ایک جمہوری وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف کو اول تو قید میں ڈالا اور بعدازاں وطن بدر کر دیا۔عجیب خوف کا عالم تھا کہ آگے کیا ہو گا۔اور پھر 1999ءمیں شروع ہونے والا یہ اقتدار 2008ءمیں اختتام پذیر ہوا۔ جنرل ضیاءالحق کے دورِ حکومت کی طوالت کا ریکارڈ تو نہیں ٹوٹ سکا لیکن پاکستان کی تاریخ پر کچھ ایسے بدنما داغ لگے، جنھیں دھونے کو ایک طویل عرصہ درکار ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ءکو پاکستان میں فوجی قانون کا نفاذ کیا۔منتخب وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف کو جبراً معزول کر دیا، ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور بعدازاں ایک صدارتی استصوابِ رائے کے ذریعے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ 2001ءمیں ہی جنرل مشرف نے ”امریکی جنگ“ کو ”پاکستان کی جنگ“ بنا ڈالا۔ جنرل پرویز مشرف پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انھوں نے 369 افراد کو امریکہ کے حوالے کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے راستے میں آنے والے بہت سے عہدے داروں کو بھی ہٹایا ۔ ان افراد میں عدالتِ عظمیٰ کے منصفین بھی شامل ہیں۔ جنرل صاحب نے اکتوبر 2002ءعام انتخابات کروائے جن میں ان کی پسندیدہ جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی میں واضح برتری حاصل کر لی۔ جنرل پرویز مشرف نے دسمبر 2003 ءمیں متحدہ مجلس عمل کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ دسمبر 2004 ءتک وردی اُتار دیں گے لیکن یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔پھر جنرل پرویز مشرف نے قومی اسمبلی میں اپنے حامیوں کے بل بوتے پر سترہویں ترمیم منظور کروا لی۔سترھویں ترمیم نے وردی اور صدارت کو ایک ساتھ قبول کر لیا۔جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 28 نومبر 2007ءکو سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے 29 نومبر 2007ءکو مزیدپانچ سال کے لیے صدر کے عہدہ کا حلف اٹھالیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 18 اگست 2008ءکو قوم سے خطاب کے دوران اپنے عہدہ سے استعفیٰ کا اعلان کیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے دورِ حکومت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی کئی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے اور ہر بار یہ کہتے رہے کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔
پاکستان کے سابق صدر جناب آصف علی زرداری دعوے کرتے رہے کہ جنرل پرویز مشرف کو کڑی سزا دلوا کے رہیں گے لیکن اس کام کا آغاز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ہوا۔جنرل صاحب پاکستان واپس تو اسی امید پر آئے تھے کہ جیسے پہلے ایسے معاملات پر کبھی کچھ نہیں ہوا تو یقیناً اب بھی نہیں ہو گا۔ لیکن یہاں تو حالات بدلے بدلے نظر آئے۔ سو اب وہ بھاگنے کے ہیں نہ رکنے کے۔ عدلیہ اور حکومتِ وقت اس بات پر پُرعزم دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔اب جنابِ پرویز مشرف سٹپٹا گئے ہیں۔ کبھی اپنے وکیلوں کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی فوج کی طرف۔ کبھی عوام پر کیے اپنے احسانات جتانے لگتے ہیں کہ شاید کسی طرف سے کوئی آواز اٹھے لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جنرل راحیل شریف بھی اِس معاملے میں دخل اندازی کرنے پر مائل نظر نہیں آتے۔جنرل پرویز مشرف کو جان لینا چاہیے کہ اگر کسی نے انھیں کسی غلط فہمی میں مبتلا کیا ہوا تھا تو ہمارے بڑے بھی ہمیں بہت کچھ بتا گئے ہیں۔اور یاد رہے کہ اب پاکستانی آنسو نہیں بہائیں گے کہ ہم نے اپنے آخری آنسو جنرل ضیاءالحق کی وفات پر بہا لیے تھے۔یہ اور بات کہ ہمیں پاک فوج کے ایک سابق جنرل کو سزا ملنے پر تکلیف ضرور ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment