”صنم خانہ عشق“ معروف شاعر حضرت امیر احمد امیر مینائی کا مجموعہ غزلیات ہے، جسے معروف شاعر پروفیسر عتیق احمد جیلانی نے کمال محنت اور محبت سے مرتب کیا ہے۔
مرتب صنم خانہ عشق پروفیسر ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے زیرِ نظر نسخہ میں جدید اصول املا، رموز اوقاف اور صحتِ متن کے لئے خاصی محنت اور جدوجہد کی ہے۔
حضرت امیر مینائی سے متعلق تمام علمی کاوشوں کا مقصد وحید بھی یہی ہے کہ انیسویں صدی کے اس ”نابغہ عصر“ کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ صنم خانہ عشق کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت امیر کے کلام میں جدت، بلندی فکر، خیال کے پہلو بہ پہلو جو خوبی نمایاں ہے وہ ہے زبان و بیان پر قدرت اور ان سارے اوصاف پر مستزاد ہے لہجہ۔ صنم خانہ عشق کی اشاعت میں کوشش کی گئی ہے کہ علامات اوقات کے ذریعے لہجے کی نزاکتیں نمایاں کی جائیں اور قرات کلام کی درستگی اور روانی ممکن بنائی جائے۔ عتیق احمد جیلانی نے اس حوالے سے اپنی محنت سے ثابت کیا ہے کہ امیر شناسی کی روایت ایک اچھے طریقے اور رفتار سے آگے بڑھے۔ حضرت امیر مینائی لکھنوی کو حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے کیا زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے
وہ عجیب شے ہے صنم خانہ امیر، اقبال
میں بُت پرست ہوں رکھ دی وہیں جبیں میں نے
کمالاتِ امیر مینائی لکھنوی اردو میں فرطِ شہرت سے محتاج تعارف نہیں ہیں۔ شعری و ادبی حیثیت کے علاوہ اپنے وقت کی فضل و کمال ہستیوں میں تھے۔ امیر مینائی بحیثیت شاعر و ادیب ایک بلند مقام و موقف رکھتے تھے۔ آسمان شاعری پر مہرو ماہ بن کر چمکے اور اپنی تابانیوں سے ادبی حلقوں کو منور اور روشن کیا۔ آپ 1244ھ میں پیدا ہوئے۔ نو برس کی عمر میں باپ کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ بڑے بھائی کی نگرانی میں تعلیم و تربیت پائی۔ ابتدائی کتابیں اپنے والد مولوی کرم محمد مینائی سے پڑھی تھیں۔ معقول و منقول علمائے فرنگی محل و رام پور سے پڑھیں۔ فنِ طب بھی باقاعدہ حاصل کیا۔ نجوم و جفر کے فنون سے بھی واقف تھے۔ لکھنو اس وقت اہلِ ہنر کی ٹکسال بنا ہوا تھا۔ گھر گھر شعر و سخن کے پرچے اور نقد و جرح کا بازار گرم ۔ پہلے شاگردی کے لئے خواجہ وزیر کے پاس گئے۔ خواجہ صاحب نے کم عمری کے خیال سے ٹال دیا۔ پھر اسیر کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور پھر ایسا کمال بہم پہونچایا کہ استاد سے سبقت لے گئے۔ سخن کا شہرہ دربارِ واجدی تک پہونچا۔ 1269ھ میں باریاب ہوئے۔ واجد علی شاہ نے شہزادہ نادر مرزا کی تعلیم و تربیت پر معمور کیا۔ اسی زمانے میں دو کتابیں ، ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان لکھیں اور خلعتِ فاخرہ سے سرفراز ہوئے۔ اس کے بعد عدالتِ دیوانی کا منصب تجویز ہوا اور شاید اسی سال 1856ءمیں مملکت اودھ کمپنی میں ضم ہوگئی۔ 1857ءمیں انقلاب کا ریلا آتا۔ امیر مینائی کو لکھنو چھوڑنا پڑا۔ مین پوری، ہیراپور، کاکور میں رہے بعد ازاں نواب یوسف علی خان نے رام پور بلوالیا۔ عدالت دیوانی میں افتا کی خدمت متعلق کی گئی نواب ناظم کے جانشیں نواب حکمت علی خان نے اپنا مصاحب اور استاد بنایا۔ ملک الشعرا کا خطاب دیا۔ یہ زمانہ مینائی صاحب کے کمال عروج کا تھا۔ اسی زمانے میں لغت کا کام شروع ہوا۔ پانچ ہزار روپیہ مرحمت ہوا۔ باقاعدہ دفتر رام پور میںقائم ہوا تھا۔ اہلِ علم و نظر کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ 1885ء میںامیر رام پور سے چلے آئے۔ لکھنو سے دامن گل چین نکالا۔ کوئی ایک سال گزر اتھا کہ رام پور سے طلبی ہوئی۔ لغت کے لئے کچھ امیدیں قائم ہوگئی تھیں کہ نواب کلب علی خان نے سفر آخرت اختیار کیا۔ پچھلا زمانہ خواب ہوکر رہ گیا تھا۔ امیر اللغات کے لئے دل سے لگی تھی۔ اس پیرانہ سالی میں شاہد مقصود کے لئے سفر پہ سفر کئے۔ خدا خدا کرکے دو حصے الف ممدودہ و الف مقصورہ طبع ہوکر منظر عام پر آئے۔ اب تیسرا ہائے موحدہ تیار تھا لیکن روپیہ نہ تھا کہ چھپواتے۔ داغ کی تحریک پر 1900ءمیں میر محبوب علی خان آصف سے ملے۔ یہ ملاقات سفر دکن کی تمہید بنی اور سفرِ آخرت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ 19 جمادی الثانی 1918ھ شب میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
حضرت امیر مینائی خوش اوصاف بلکہ بزرگ اوصاف اربابِ علم و عمل تھے۔ مرحوم کے کردار و سیرت کی بلندی ہی ان کی عظمت کی نشانی تھی۔ آپ متقی و پرہیزگار، درد آشنا طبیعت، تصوف کا ذوق اور عشق حقیقی کی طلب رکھتے تھے۔ خاندان صابریہ چشتیہ میں ایک عارف باللہ سے بیعت اور خرقہ خلافت سے سرافراز تھے۔ وسیع القلب تھے اور علوم و فنون میں ان کی مہارت متحبر کے درجے کو پہنچی ہوئی تھی۔ ان کا فرھنگ (امیر اللغات) افسوس ناتمام رھا۔ ورنہ وہ اردو زبان کا جامع و بالغ لغت ہوتا۔
حضرت امیر مینائی کے کلام پر اثر میں زبان و بیان کی لطافتیں، قادر الکلامی، حکمت و فلسفہ، حسین بندش، لطف گویائی نیز ادب و انشاءکی خوبیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ تصوف و اخلاق کے حوالے سے خیالات کا دریا بہادیا ہے۔ ”صاحب گل رعنا نے لکھا ہے کہ ”منشی صاحب جیسے جیسے بوڑھے ہوتے ہوگئے کلام میں جوانی کی امنگیں بڑھتی گئیں صنم خانہ عشق میں اعلیٰ تخیل، سلاست و روانی اور دلکش عاشقانہ ترکیبیں موجود ہیں۔ قادر الکلامی بہ درجہ احسن موجود ہے۔ شوخی کلام لطف کو دوبالا کرتی ہے۔ حضرت امیر مینائی کی نظم و نثر میں تعداد 37 بتائی گئی ہے جس میں 8 فارسی اور 29 اردو میں ہیں۔
”صنم خانہ عشق“ میں حضرت امیر مینائی نے ”اک طرزِ نو سے“ شبستان ”علم و ہنر“ سجادیا ہے۔ جس میں حسرت، آرزو، غمزہ، قامت، گیسو، پیرھن، مہندی، غازہ زلف رسا، مژگاں، جوڑا، ابرو، چلمن، آغوش، بوسہ، رخسار، موباف، آنچل، تل، چشم مست، کاجل، آنسو چلمن، دست دراندازی، وحشت دل، جوبن، اشارے، نظارے، شرارے ، کوچے ۔
غرض یہ کہ تمام لوازمات شعر موجود تماشائی ”محو“ حیرت کہ کسبِ کمال کو اتنی توانائی اور طاقت حاصل ہے کہ کشتوں کے پشتے لگانے میں دیر نہیں لگتی۔ احوال دل مفصل اور برملا۔ عاشق دلگیر کے شکوے، محبوب کے غمزے اور رقیب رو سیا کی حسرتیں سب مل کر دل انساں کو ”پانی پت“ کا میدان بنانے سے گریز نہیں کرتی ہیں۔ بلاشبہ صنم خانہ عشق میں حسن و عشق کی تمام ”رمزیں“ موجود ہیں۔ جن کو صرف دلربا اور دلکشا اصحاب علم و فن ہی پاسکتے ہیں کیونکہ کہ ان رمزوں کی گہرائی ، گیرائی گہری انسانی ہمدردی اور کار زندگی کی زندہ تعبیریں ہیں آئیے دیکھتے ہیں۔
کیا جب وصل میں، میں نے کہ آنکھوں سے لڑیں آنکھیں
تو بولے ہاں ابھی ارمان باقی ہے لڑائی کا
دیا بے مانگے بو سہ، میں نے پھر مانگا تو وہ بولے
نہیں جھٹپٹاہے، پڑجاتا ہے جب لپکا گدائی کا
جھونکا ادھر نہ آئے نسیم بہار کا
نازک بہت ہے پھول، چراغ مزار کا
نسبت ہے راہ عشق سے راہِ حرم کو کیا
یاں کثرت سجود، وہاں جوش نقش پا
کچھ نیند نے، کچھ نشے نے شوخی کی کمک کی
مشکل سے شب وصل اٹھا پردہ حیا کا
دل وہی، آنکھیں وہی، لیکن وہ جوانی کہاں
ہائے وہ اب تاکنا، وہ جھانکنا جاتا رہا
مثلِ شبنم ہماری قسمت میں
ایک دانہ ہے وہ بھی پانی کا
کھولا ہوا جوڑا تجھے اے جاں! نہیں دیکھا
اس باغ میں سنبل کو پریشاں نہیں دیکھا
ایک ارمان نکلتا ہے تو سو آتے ہیں
دل عجب گھر ہے کہ ہرگز نہیں ویراں ہوتا
لذتِ داغ محبت سے جو ہوتا آگاہ
ہوتی ہر پھول، کو حسرت کہ میں لالہ ہوتا
اللہ رے پاس عشق میں مجھ کو، حبیب کا
آنسو ٹپک پڑے جو دکھا دل رقیب کا
چھیڑ ہے یہ پری زادوں کی
نام رکھا ہے سلیماں میرا
امیر بھول بھلیاں ہے کوچہ گیسو
تباہ کیوں نہ پھرے اس میں قافلہ دل کا
امیر! اس ناز سے ظالم نے دیکھا
نگاہیں بول اٹھیں، وہ لے لیا دل
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں، دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں
رقیب ساتھ ہے ان کے یہ خوف ہے ہم کو
کوئی شگوفہ نہ چھوڑے ہمارے پھولوں میں
دھیان میں لا کے ترا سلسلہ زلفِ دراز
ہم شب ہجر کو کچھ اور بڑھا لیتے ہیں
باغ باں! بلبل و طوطی کی زباں دانی کیا
ہم تو دونوں کو اُڑا دیتے ہیں تقریروں میں
ہرن چوٹ کرتے ہیں شہروں پہ دیکھو
حسیں ہم پر آنکھیں نکالے ہوئے ہیں
وہ چمک دمک تو انہی موتیوں سے ہے
آنسو نہ ہوں تو عشق میں کچھ آب رو، نہ ہو
سبز عمامہ، بسنتی ہے عبا، ریش سپید
نو بہ نو رنگ ہیں واعظ کی عجب شان ہے کچھ
فرقت میں امیر! ایسی برستی ہے اداسی
روتے ہیں مرے حال پہ دیوار بھی ، در بھی
لکھا ہے خط میں اُس نے یہ مجھ بدنصیب کو!
انشا کا عہدہ ہم نے دیا ہے رقیب کو
گستاخ کس قدر ہے محفل میں یار کی
خاموش صبح تک نہیں ہوتا چراغ شب
آپ خود دیکھتے چلتے ہیں وہ جوبن اپنا
دیکھتا ہوں، میں تو کہتے ہیں کہ کیا دیکھتے ہو
سرمے کی سلائی نے کیا آکے جو مجرا
اُس آنکھ کی شوخی نے صدا دی کہ ادب سے
آئنے کی آنکھ سے لڑتی ہے جب عاشق کی آنکھ
چاہتی ہے چھین لے لذت ترے دیدار کی
بیٹھ کر کون ترے کوچے سے یار اُٹھتا ہے
خاک ہوتے ہیں کوئی دم میں غبار اُٹھتا ہے
چھوٹی ہے قیامت، شب فرقت ہی بڑی ہے
اس چار پہر رات کی وہ ایک گھڑی ہے
ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے ”صنم خانہ عشق“ کے بارے میں ایک جائزہ بھی شامل اشاعت کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ تین سو سے زائد ”مقامات“ ”تصحیح“ کی زد میں آتے ہیں۔ بہت سے اشعار نسخہ عطا میں زائد ہیں اور بہت سے ”نسخہ عطا“ میں شامل ہی نہیں ہیں۔ ان تمام معاملات کی تفصیل بھی ”جائزے“ میں شامل ہے اور مرتب کی محنت کا برملا اعتراف اور اعلان بھی ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر رفیق احمد کا مرتب کردہ ”فہرست کتب ذخیرہ امیر مینائی بھی زیبائی اور دلکشائی سے بھرپور ہے اور جاذبیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر پروفیسر عتیق احمد جیلانی نے ”صنم خانہ عشق“ میں اپنی تحقیقی مساعی جمیلہ سے بلاشبہ چار چاند لگادئیے ہیں جن میں عرق ریزی سے اختلافِ نسخ کے بارے میں وضاحت سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے۔ جسے نہ سراہنا بخلِ ادب ہوگا۔ ”صنم خانہ عشق“ میں عاشقانِ ادب کے لئے ہر صفحے پر حظ، مسرت، شادمانی، تفکر، رمز۔ آگہی اور بصیرت موجود ہے کہ جسے ”کھوجنے“ کے لئے شگفتگی دل اور بے تابی بہار کی ضرورت ہے۔ عتیق احمد جیلانی نے اپنی انتھک محنت اور سعی سے ”ایوان ادب کی اک نابغہ روزگار ہستی کے کمالات فن کو اصحاب علم و ھنر کی خدمت میں پیش کرکے واقعی اک معرکہ سر کیا ہے۔ یقیناً آنے والی نسلیں ان کے ‘روشن اور زریں“ کام کو سراہیں گی اور فن حضرت امیر مینائی سے بصیرت، روشنی، نکہت اور خیال کی خوشبو سے جب اپنے ذہنوں کو ”منور“ کریں گی تو لا محالہ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کی سخن فہمی، جووت طبع، کمالاتِ فن کو ضرور سراہیں گے۔ ہم عتیق احمد جیلانی کو ان کی ادب دوستی اور ہنر پروری پر ہدیہ تبریک کے مستحق کردانتے ہیں اور ان کے علم و فضل میں اضافے کی دعا کرتے ہیں۔ اور وابستگان علم و ادب سے التماس کرتے ہیں کہ وہ نابغہ روزگار، منشی و مفتی و فقیہہ و ادیب کامل عہد و اکمل دوراں، ماہر عروض، ماہرِ رمل و جفر و نجوم، ماہرِ علم طب، فقہ، منطق، موسیقی، نعت نویس، صوفی، عالم، زباں داں، شاعر سحر بیاں حضرت امیرمینائی کے ”صنم خانہ عشق“ کی پذیرائی کریں گے تاکہ علم و ادب کی راہوں کو مزید روشن اور دیدہ ریزی سے ادبی ”جائزوں“ کی اہمیت کو فزوں کیا جائے۔
”صنم خانہ عشق“ میں حضرت امیر مینائی نے ”دردِ دل“ کو کسبِ کمال عطا کیا ہے۔ وہ جنہیں ”امیر شناسی“ کا شو ق ہے وہ صنم خانہ عشق سے ’انشاءاللہ“ لبریز ہوں گے۔ یہ وہ رمز ہے جو دلوں کو برماتی اور گرماتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ”صنم خانہ عشق“ کے ہر ورق پہ سجے ستاروں کو دیکھ لو …. بقول حضرت امیر مینائی:
کتنے آرام طلب ہیں ہم بھی
سایہ تیغ میں نیند آتی ہے
میں نے بوسہ جو لیا زلف کا، ساقی نے کہا
صرف مے نوش نہیں، یہ تو بلا نوش بھی ہے
اجل کا دور ہے بے درد! عہد میں تیرے
دوکانیں بند پڑی ہیں دوا فروشوں کی
آئنہ دیکھ کے وہ عکس سے فرماتے ہیں
تم بھی اب آنکھ لڑانے لگے دیکھا دیکھی
اک عمر ہوئی ترک کئے عشق کا پیشہ
پر آج تلک چہرے کی زردی نہیں جاتی
آگ سی دل میں پسِ مرگ بھری رہتی ہے
گھانس کب تربتِ عاشق کی ہری رہتی ہے
”صنم خانہ عشق ”ادارہ یادگارِ غالب“ نے شائع کرکے ادبی دُنیا کو ”سکتے“ سے نکال کر اہم فریضہ انجام دیا ہے۔