کلیات نما( خالد علیم)۔۔۔ تبصرہ: مظفر حسن

محترم خالد علیم کے ” کلیات نما ” میں شاعری کی کم و بیش ہر صنف اپنی جلوہ گری دکھا رہی ہے۔
نعت گوئی میں خالد علیم صاحب شوق و نیاز و عشق کے سانچے میں ڈھل کر آتے ہیں۔ خالد صاحب کے ہاں نعت رسولِ کریم، قلب و نظر کی حضوری کا دوسرا نام ہے۔
نعت کے ساتھ ساتھ انہوں نے سلام اور منقبت میں بھی اپنی طبعِ رواں کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کی حمدیہ و نعتیہ رباعیات بھی ان کی قادر الکلامی کی عکاس ہیں۔ کلیات نما میںخالد صاحب نے نامِ نیکِ رفتگاں کو بھی محفوظ کر دیا ہے۔ اپنے والد محترم علیم ناصری کی یاد میں دل گداز نظم کہی ہے۔ اسی طرح حفیظ تائب ، عبد العزیز خالد، ہاجرہ مسرور ، خالد احمد ، جعفر بلوچ اور اعجاز گل کی یادوں سے” یاد نامہء رفتگاں” مہک رہا ہے۔ اس حوالے سے وہ شیخ سعدی کے پیروکار نظر آتے ہیں :

نامِ نیکِ رفتگاں ضائع مکن
تا بماند نام نیکت برقرار

"کلیات نما” میں مرثیہ، غزل ، نظم ۔۔۔ سب کچھ موجود ہے۔ "بغداد آشوب” اور ” والصبح” کی نظموں میں ملتِ اسلامیہ کے حوالے سے کرب اور دکھ کے اظہاریے کو قاری شدت سے محسوس کرتا ہے۔ جدتِ فکر ، ندرتِ خیال اور اصنافِ شعر و سخن کی گونا گونی نے ” کلیات نما ” کو ” آفاق نما ” بنا دیا ہے۔ ان کے ہاں جس صنفِ سخن کو دیکھ لیں ، یہی محسوس ہوتا ہے:

کرشمہ ء دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

Related posts

Leave a Comment