ایک غزل: فسانے سے حقیقت تک ۔۔۔۔۔ خورشیدربانی

ایک غزل: فسانے سے حقیقت تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی گمنام یا کم معروف شاعر کا کوئی اچھاشعر کسی نامورشاعر سے منسوب ہوجانا کوئی نئی بات نہیں۔بعض اشعار تو اتنے تیز قدم نکلے کہ اپنے خالق کو رستے ہی میں چھوڑ گئے اور وہ غبارِ راہ میں گم ہوکررہ گیا۔اس بارے میں زیادہ مثالیں درج کرنا یہاں مناسب نہیں کہ میرا اصل موضوع کچھ اورہے۔سیماب اکبر آبادی ایک شعر ہے:
عمر دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
یہ شعر ،باوجود اس کے کہ ا ن کے مجموعہ کلام میں بھی درج ہے اوررسائل میں بھی شائع ہو چکا ہے لیکن اسے بہادرشاہ ظفر سے منسوب کردیا گیا اور ظلم تو یہ کہ ان کے دیوان(جو قیام پاکستان کے بعد شائع ہوئے) میں بھی شامل ہو گیا۔اسی طرح صادق حسین صادق( شوکت کاظمی کے والد)کا درج ذیل شعر اقبال سے منسوب ہو گیا:
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

کئی اشعار جو میر کے نہیں مگر ان سے منسوب کر دیے گئے ہیں،میرا موضوع بھی میر سے منسوب ایک غزل ہے:

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد

منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مُرغانِ چمن

ہر روِش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد

اب تو ہنس ہنس کے لگاتا ہے وہ مہندی، لیکن

خوں رلاوے گا اسے رنگِ حنا میرے بعد

چاک کرتا ہوں اسی غم سے گریبانِ کفن

کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد

وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح

پہلے میں جاتا تھا اور بادِ صبا میرے بعد

تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں

شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

کیا عجب مرقدِ لیلیٰ سے جو نکلے یہ صدا

میرے مجنوں! تیرا کیا حال ہوا میرے بعد

بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میر

یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد

مذکورہ بالا غزل میر کے کلیات میں ہے نہ ہی اور کوئی مستند حوالہ دستیاب ہے جس سے اسے میر کی غزل تسلیم کیا جائے۔جو اصحاب اسے میر کی غزل بتاتے ہیں وہ اپنے دعویٰ کی بنیاد ’’بحرالفصاحت‘‘ کو بناتے ہیں جس میں یہ غزل میر کے نام سے درج ہے۔حکیم نجم الغنی نجمی رام پوری کی یہ کتاب پہلی بار( 1885) میں شائع ہوئی تھی‘ دوسری دلیل امانت لکھنوی(اندرسبھا کے خالق) کی ایک مخمس کی دی جاتی ہے جو انھوں نے میر تقی کی زمین کہہ کر لکھی اور اپنے شعری مجموعہ’’گل دستہ ء امانت ‘‘میں درج کی۔امانت لکھنوی کی مخمس(موسوم بر غزلِ میر تقی صاحب تخلص میر) کا ایک بند ملاحظہ ہو:

میری وحشت کا جوکچھ حال ہوا میرے بعد
ہوگیا جوشِ جنوں حد سے سوا میرے بعد
سونا جنگل جو پڑا اس کو بلا میرے بعد
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد

(گل دستہ ء امانت۔صفحہ7(1887)

ان مندرجات کو بنیاد بنا کر مظفر علی سید نے ماہِ نومئی 1952ء میں ایک مقالہ لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ غزل میر کی ہے۔ مظفر علی سید نے اس غزل کے دیوان ِ غافل میں شامل ہونے کو بھی یہ کہہ کر رد کردیا کہ چونکہ ان کا دیوان ،ان کی وفات کے بعد ’’کار پردازان ِ مطبع نے جمع کرکے ‘‘ شائع کیا ہے لہذا دوسرے شعرا کا کلام بھی غلطی سے شامل کر لیا گیا ۔مظفر علی سید نے یہ بھی لکھا: غزل کا مزاج بتا رہا ہے یہ میر کی ہے ۔ماہِ نو جنوری 1953 کے شمارے میں(بعد ازاں اپنی کتاب تحقیقی مطالعے) جوابِ آں غزل کے طور پرعطا کاکوی(سید عطاالرحمن شاہ) کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے دلائل کے ساتھ مظفر علی سید کے مذکورہ دعویٰ کو رد کر دیا۔عطا کاکوی امانت لکھنوی کی مخمس بر غزل میر تقی سے متعلق لکھتے ہیں’’ میاں امانت یا کاتب کے خیال میں شخصیت تو مرزاتقی کی تھی لیکن تحت الشعور میں میرہی بسے ہوئے تھے۔اس لیے عنوان تو رکھا مخمس سوم بر غزل تقی صاحب مگر مقطعے میں میر داخل ہو گئے۔لفظ صاحب دلالت کر رہا ہے کہ امانت کے ذہن میں تقی ہوس تھے جو اس وقت زندہ تھے‘‘۔
کسی کے رنگ میں شعر کہنا ممنوع نہیں ،پھر اپنے سینئر اور مقبول شاعر کو نئے لکھنے والے کاپی بھی کرتے ہیں ،جیسا کہ آج کل ہر نیا لکھنے والا جون ایلیا بننے کی کوشش کرتا پھرتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ غزل اتنی مہربان صنف ہے کہ اچھا شعر کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ اُس زمانے میں کہ جب میر کا شہرہ تھا ، کئی شعرا اُن سے متاثر ہوئے اور اُن کے رنگ میں شعر کہنے کی کوشش بھی کی ۔ مرزامحمد تقی ہوس ،مصحفی کے شاگرد اور میر کے ہم عصر تھے۔ان کی شاعری سے متعلق نیاز فتح پوری لکھتے ہیں ’’اُن کے کلام میں بالکل میر کا لطف آتا ہے‘‘۔ہوس نے میر کے رنگ کو اپنانے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ،اس کی زندہ مثال ان کا یہی شعر ہے جو بہت معروف بلکہ ضرب المثل بن چکا ہے:

تیز رکھیو سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

مظفر علی سید اور عطا کاکوی کی آرا اپنی جگہ ،حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ غزل میر،غافل، اشرف علی خاں(خان دہلوی) اور ہوش کے نام سے شعری انتخاب کے کئی مجموعوں میں شامل ہے۔دوشعرمرزا تقی ہوس کے بھی اس غزل کا حصہ بنے ہیں ۔پہلے مرزا محمد تقی ہوس کی غزل دیکھیے،جو اُن کے مرتب کردہ قلمی نسخوں میں شامل ہے اور اسے مصحفی نے اپنے تذکرہ’’ریاض الفصحا ‘‘ میں بھی نقل کیا ہے:

بے کسی ہی نے نہ دنیا کو تجا میرے بعد
غم بھی مرقد پہ مرے بیٹھ رہا میرے بعد

تیز رکھیو سرِ ہر خار کو، اے دشتِ جنوں

شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

اپنے مرنے کا مجھے غم نہیں،پر یہ غم ہے

کون ہوگا ہدفِ تیر ِ بلا میرے بعد

کیا عجب مرقد ِ لیلیٰ سے جو نکلے یہ صدا

میرے مجنوں! ترا کیا حال ہوا میرے بعد

میں تو زنداں ہی میں دی جان، بلا سے میری

باغِ عالم میں رہی گو کہ فضا میرے بعد

جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے

یاد آئے گی تمھیں میری وفا میرے بعد

اب تو کرتے ہو بہت لطف و کرم تم لیکن

بھول جانا نہ مجھے بہرِ خدا میرے بعد

اٹھ گیا میں جو جہانِ گزراں سے تو ہوس

خاک چھانے گی بہت بادِ صبا میرے بعد

سعادت خان ناصر نے اپنے تذکرہ ’’خوش معرکہ ء زیبا‘‘میں ہوس کی اس غزل کے تین شعر دیے ہیں اور ایک مصرع یوں نقل کیا ہے:

شاید آنکلے کوئی آبلہ پا میرے بعد

مرزا تقی ہوس کے مندرجہ بالا اشعار کے استناد کے لیے یہی کا فی ہے کہ انھیں مصحفی نے اپنے تذکرہ میں درج کیا۔مصحفی نے 1806ءتا1821ءکے دوران تذکرہ ’’ ریاض الفصحا ‘‘مرتب کیا تھا اور انھوں نے ہوس کے حوالے سے لکھا کہ اُن کا دیوان تیار ہو چکا ہے۔سید سلیمان حسین نے’’ انتخابِ ہوس‘‘ کے لیے ،اُن کے ایک قلمی دیوان سے مدد لی ۔افسر صدیقی امروہی نے تلامذہ ء مصحفی کی تیاری میں بھی ہوس کے قلمی دیوان سے ان کے پانچ شعر درج کیے ہیں ،جن میں اس غزل کا مطلع شامل نہیں۔ہوس پر پی ایچ ڈی کی سند لینے والے آغا حید ر حسن عابدی لکھتے ہیں کہ ’’ہوس کے پندرہ قلمی دیوان دریافت ہو ئے ہیں جو ہندوستان کے شہروں دہلی،لکھنو،رام پور،علی گڑھ اور حیدرآباد میں موجود ہیں‘‘۔انھوں نے بھی اپنے تحقیقی مقالے میں ہوس کی اس غزل کے پانچ شعر شامل کیے ہیں۔مرزا تقی ہوس نے قلمی دیوان میں اپنی طرحی غزلوں کی نشان دہی کی ہے مگر اس غزل کو شامل نہیں کیا،لگتا ہے یہ زمین انھی کی اختراع ہے۔حالانکہ اس زمین میں مصحفی کی غزل بھی ہے جو ان کے دیوان پنجم میں شامل ہے۔ ان کی غزل سے دو شعر ملاحظہ کیجیے:

اے فلک رکھ نہ تُو یہ بات روا میرے بعد
ہاتھ میں گل کے ہو دامانِ صبا میرے بعد

خون روتا ہوں میں اس غم سے کہ کیا جانے کون

تیرے پائوں  کو لگا دے گا حنا میرے بعد

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ زمین مصحفی کی ہو اور ہوس،اشرف علی خان اور منور خان غافل نے شاگرد ہونے کے ناطے ، استاد سے اظہارِ عقیدت یا اپنی طبیعت سے اس زمین میں شعر کہے ہوں۔میر کی اس زمین میں تو غزل نہیں ہے لیکن اس ردیف میں ایک غزل موجود ہے۔دوشعر ملاحظہ کیجیے:

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
ابھریں گے عشقِ دل سے ترے راز میرے بعد

بیٹھا ہوں میر مرنے کو اپنے میں مستعد

پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد

یہ بھی امکان ہے کہ مصحفی یا ہوس نے میر کی اس غزل سے تاثر لیا ہو اور قافیہ بدل کر غزلیں کہی ہوں۔ہوس کے دو اور ہم عصر شاعروں کے ہاں بھی اس زمین میں غزلیں ملتی ہیں،ان میں ایک تو نواب الہی بخش معروف ہیں ،جن کا دیوان چھپ چکا ہے اور ان کا ذکر تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے کیا ہے۔ان کے دو شعر ملاحظہ ہوں:

باغِ ہستی میں کھلا گل یہ نیا میرے بعد
غیر سے وہ میرے پھولوں میں ملا میرے بعد

جو ہے سو فکرِ معیشت میں ہے غلطاں معروف

عاشقی کا کہیں چرچا نہ رہا میرے بعد

دوسرے شاعرنواب فقیر محمد خان گویا ہیں،وہ امرائے لکھنو میں سے تھے ، اس زمین میں ایک طویل غزل ان کے دیوان میں درج ہے،دو شعر دیکھیے:

کردیا اُس نے اسیروں کو رہا میرے بعد
طائرِ رنگ ِ حنا تک نہ رہا میرے بعد

تیرے آنے کی دعامانگی ہے اول میں نے

ساقیا، ہاتھ سبو کا بھی اٹھا میرے بعد

یوں یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ زمین معروف کی ہو کہ وہ ہوس سے عمر میں بڑے تھے ۔ البتہ گویا کی زمین ہونے کا امکان کم ہے۔ ۔اب یہ تو طے ہو چکا کہ میر کی مفروضہ غزل میں دو شعر ہوس کے شامل ہیں۔اب باقی اشعار کی بابت کچھ بات ہو جائے۔اس غزل میں شامل پانچ اشعار کے خالق منور خان غافل ہیں۔اُن کے دیوان مطبوعہ1 187 میں شامل غزل ملاحظہ ہو جس میں اٹھارہ اشعار ہیں:

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

میان میں اس نے جو کی تیغِ جفا میرے بعد

خوں گرفتہ کوئی کیااور نہ تھا میرے بعد

دوستی کا بھی تجھے پاس نہ آیا ہے ہے

تونے دشمن سے کیا میرا گلہ میرے بعد

گرم بازرایِ الفت ہے مجھی سے ورنہ

کوئی لینے کا نہیں نامِ وفا میرے بعد

منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مرغانِ چمن

باغ میں خاک اڑائے گی صبا میرے بعد

چاک اسی غم میں گریبان کیا ہے میں نے

کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد

اب تو ہنس ہنس کے لگاتا ہے وہ مہندی لیکن

خوں رلا ئے گا اسے رنگِ حنا میرے بعد

میں توگلزار سے دل تنگ چلاغنچہ روش

مجھ کو کیا پھر جو کوئی پھول کھلا میرے بعد

وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح

پہلے میں جاتا ہوں اور بادِ صبا میرے بعد

سن کے مرنے کی خبر یار مرے گھر آیا

یعنی مقبول ہوئی میری وفامیرے بعد

ذبح کرکے مجھے نادم یہ ہوا وہ قاتل

ہاتھ میں پھر کبھی خنجر نہ لیا میرے بعد

میری ہی زمزمہ سنجی سے چمن تھا آباد

کیا صیاد نے اک اک کو رہا میرے بعد

آ گیا پیچ میں اس زلف کی اک میں نادان

نہ ہوا کوئی گرفتارِ بلا میرے بعد

قتل تو کرتے ہو پر خوب ہی پچھتائو گے

مجھ سا ملنے کا نہیں اہلِ وفا میرے بعد

برگِ گل لائی صبا قبر پہ میری نہ نسیم

پھر گئی ایسی زمانے کی ہوا میرے بعد

گر پڑے آنکھ سے اُس کے بھی یکایک آنسو

ذکر محفل میں جو کچھ میر اہوا میرے بعد

تہِ شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے

دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد

شرطِ یاری یہی ہوتی ہے کہ تونے غافل

بھول کر بھی نہ مجھے یاد کیا میرے بعد

منور خان غافل کا یہ دیوان اُن کے بیٹے نے شائع کیا تھا جو منشی نول کشور کے مطبع میں ملازم تھے ۔اس ضمن میں افسرصدیقی امروہوی اپنی ’’تلامذہ ء مصحفی ‘‘ میں رقم طراز ہیں’’غافل کی اولاد میں ایک لڑکے کانام جھمو خان تھا۔یہ صاحب کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور منشی نول کشور کے مطبع میں ملازم تھے۔منشی صاحب موصوف نے انھیں کی زبانی منورخان غافل کے حالات سنے تھے اور قلمی دیوان منگوا کر شائع کیا تھا‘‘۔سو مظفر علی سید کا یہ قیاس بھی درست نہیں کہ غافل کے انتقال کے بعد چونکہ دوستوں نے اُن کا کلام شائع کیا اس لیے میر کے مفروضہ اشعار بھی اس غزل کا حصہ بنادیے گئے۔
اب رہ گیا ایک شعر یعنی مقطع ،تو اس کے ضمن میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جیسے یہ غزلیں معروف ہوئیں اور لوگوں نے ہر دوغزلوں سے اپنی پسند کے اشعار لے کر آگے بڑھا دیے اور انھیں میر سے منسوب کردیا،یہی حال مقطع کا ہوا ۔عطا کاکوی نے لکھاہے کہ ’’ میر ‘‘کی جگہ ’’شوخ ‘‘ کا لفظ ہوگا جسے مقطع بنانے کے لیے میر سے بدل لیا گیا۔یعنی:

بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ شوخ
یاد آئی مرے عیسٰی کو دوا میرے بعد

اگرچہ اس زمین میں محمد یار خان رند،آتش ،غالب اور نجا نے کس کس شاعر نے شعر کہے ہیں لیکن مجھے یہ مقطع کہیں نہیں ملا۔البتہ میر تقی میر کے بیٹے میر کلو کے دیوان میں اس مضمون کا ایک شعر درج ہے اورمیرا خیال ہے کہ یہ شعر میر کلو (1783ء-1867ء) ہی کا ہے کہ جو عرش تخلص کرتے تھے ۔ان کے دیوان(مطبوعہ1875 )میں اس زمیں میں دو غزلیں ہیں۔ایک پندرہ اشعار کی اور دوسری دس کی۔پہلی غزل میں درج ایک شعر یہی مقطع ہے:

زندگی بھر نہ ملا، قبر پر آیا آخر
کی مرے در د کی عیسیٰ نے دوا میرے بعد

میر کے بیٹے میر کلو کے نام سے معروف تھے۔ نام کے ساتھ میر لکھنا ہی غالباً مذکورہ بالا شعر میں تحریف کا سبب بنا ہوگا ۔اب آتے ہیں ،اشرف علی خاں،خان دہلوی کی طرف کہ یہ مفروضہ غزل بعض لوگوں نے ان سے منسوب کر رکھی ہے۔پہلے ان سے منسوب اشعاردیکھیے جو شعری انتخاب ’’مجمع الاشعار‘‘(1872ء)اور’’غزل اثاثہ‘‘(2016ء ) میں شامل ہے:

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

کیا عجب مرقدِ لیلیٰ سے جو نکلے یہ صدا

میرے مجنوں! ترا کیا حال ہوا میرے بعد

تیز رکھنا سرِ ہر خار کو، اے دشتِ جنوں!

شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد

وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح

پہلے میں جاتا تھا اور بادِ صبا میرے بعد

منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مرغانِ چمن

ہر روِش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد

اس لیے کرتا ہوں میں چاک کفن کو اپنے

کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد

جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے

یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد

دل پہ اک سانپ سا لہراتا ہے مرقد پہ صنم

کون کھولے گا تری زلف دوتا میرے بعد

جا کے کہہ دیوے کوئی خاں کی زبانی اتنا

اب نہیں آتے ہو پھر آئو گے کیا میرے بعد

ایک اور قدیم شعری انتخاب’’ گل دستہ حفیظ اللہ خان‘‘(1882)میں غزلِ خان کے زیر عنوان شامل غزل میں باقی اشعار تو یہی ہیں لیکن ایک شعر اضافی ہے:

لاش مجھ کشتہء کاکل کی کوئی لٹکا دو
تا نہ ہووے کوئی محبوسِ بلا میرے بعد

یہ وہ مآخذ ہیں ،جن کی بنیاد پر عام شعری انتخابات میں یہ غزل اشرف علی خان سے بھی منسوب کر دی گئی ہے۔اس کا ایک سبب تو گانے والے احباب ہیں جو کسی کی غزل گاتے ہو ئے کسی اور کا شعر اس میں اپنی طرف سے یا کمپوزرو پروڈیوسر کی ایما پر گڑھ لیتے ہیں۔مثال کے طورپر عابدہ پرین نے سچل سرمست کی ایک کافی گاتے ہوئے اس میں غلام فقیر کی نظم’’ گھڑا‘‘(وے گھڑا تیکوں بھن سٹاں) سے چار مصرع گائے اور اس کی نشان دہی تک نہ کی۔یوں یہ مصرعے بھی سچل سرمست سے منسوب ہو گئے۔کئی ایک مثالیں اور بھی ہیں۔معلوم نہیں مہدی حسن نے اس غزل کو گاتے وقت اسے کہاں سے حاصل کیا تھا۔دوسری بات یہ کہ ایسے شعری انتخاب، جن کا اوپر ذکر ہوا، صرف یادداشتوں کی بنیاد پر ترتیب دیے جاتے ہیں یا پھر پہلے سے موجود انتخاب اٹھا کر ان سے اشعار چن لیے جاتے ہیں۔اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔آپ بازار میں دستیاب کسی بھی انتخاب کو دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان میں قریباً سو فیصد ایک جیسے ہی اشعار درج ہوتے ہیں ۔اس کا سبب یہی ہے کہ کمرشل بنیادوں پر کیا جانے والا کام ’’کاٹا اور لے دوڑی‘‘ کے مصداق ہی سامنے آتا ہے اور قریباً ہر مرتب چند کتابیں اٹھا تا ہے اور اپنا انتخاب ترتیب دے دیتا ہے۔اس بات کی تصدیق اس بات سے کی جاسکتی ہے کہ پہلے انتخاب ِ شعر میں جو شعر ٖغلط درج ہوا یا کسی کا شعر کسی اور شاعر کے نام سے منسوب ہو گیا ،باقی کے قریباً سبھی انتخاب اس غلطی کو دہراتے چلے گئے ۔اس غزل کے ضمن میں ہی دیکھ لیں کہ قریباً ایک ہی زمانہ میں ایک ہی نام یعنی ’’مجمع الاشعار ‘‘ سے موسوم کئی انتخابِ شعر مختلف پبلیشرز نے چھاپے ہیں اور یہ ریختہ پر موجود ہیں،یہ سارے ایک دوسرے کی کاپی معلوم ہوتے ہیں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے ان میں سے کچھ انتخاب مطبع نول کشور سے شائع ہوئے لیکن کسی نے خیال نہ کیا ایک غزل کئی شاعروں کے نام سے چھپ رہی ہے۔غافل کا دیوان بھی اسی مطبع سے شائع ہوا لیکن تو جہ کسی نے نہ کی۔ اشرف علی خان کا کلام’’دفتر ِگلزار‘‘ (قلمی نسخہ ) اور ’’خان سامان ‘‘(قلمی نسخہ )کے نام سے جمع کیا گیا تھا ۔ یہ قلمی نسخے رضا لائبریر ی رام پور میں محفوظ بتائے جاتے ہیں۔ان کے قلمی دیوان کے حوالے کے ساتھ اُن کا جومنتخب کلام مختلف تذکروں میں شامل ہے، اس میں اس زمین میں لکھی گئی ان کی غزل کے یہ اشعار درج ہیں۔لالہ سری رام نے اپنے تذکرہ’’ خم خانہ ء جاوید ’’ جلد سوم میں اشرف علی خان کے تین شعر اس غزل سے درج کیے ہیں:

رہی کچھ تھوڑی سی وحشت کی ہوا میرے بعد
پہلے میں وحشی ہوا قیس ہوا میرے بعد

تو ابھی سے تو نہ اُس بت کی طر ف داری کر

مجھ سے ہو جائیو، اے دل! تو جدا میرے بعد

اس برائی کے سزاوار ہمیں ہیں پیارے
گالیاں کس کو سنائو گے بھلا میرے بعد

افسر صدیقی امروہی نے اپنی کتاب ’’تلامذہ ء مصحفی‘‘ میں اشرف علی خان کے دو شعر نقل کیے ہیں۔ایک شعر تو وہی ہے جو اوپر کے اشعار میں دوسرے نمبر پر ہے ۔اس کے ساتھ انھوں نے ان کا مقطع درج کیا ہے:

جاکے کہہ دیوے کوئی خاں کی زبانی اتنا
اب نہیں آتے ہو ،پھر آئو گے کیا میرے بعد

یہ دونوں حوالے اس لیے اہم ہیں کہ ان اصحاب نے اشرف علی خان کے قلمی دیوان سے یہ اشعار نقل کیے ہیں ،جو سٹیٹ لائبریری حیدرآباد بھارت اور رضا لائبریری رام پور میں موجود ہیں۔ان حوالوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اشرف علی خان سے منسوب اس غزل میں مقطع کے سوا دو شعر ہوس کے اور باقی غافل کے ہیں۔میر اور اشرف علی خان سے منسوب یہ غزل ایک اور قدیم شعری انتخاب’’نغمہ ء دل کش ‘‘ میں ہوش کے نام سے درج ہے۔جس میں شامل چار اشعار ہوس کے ہیں اور باقی پانچ غافل کے۔ مقطع ہوس کا ہے جس میں معمولی تبدیلی کی گئی ہے:

اس جہاں سے جو میں اٹھ جائوں گا افسوس، اے ہوش!
خاک چھانے گی بہت بادِصبا میرے بعد

میں نے ہوش تخلص رکھنے والے قریباً تمام شعر ا کا کلام تلاش کرنے کی حتی المقدور کوشش کی مگر صرف حکیم نیاز احمد ہوش کا دیوان مل سکا ہے اور اس میں یہ غزل تو کجا اس زمیں میں بھی غزل موجود نہیں۔دوسرا لگتا یہی ہے کہ یہ انتخاب بھی صرف یادداشت کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے کیوں کہ اس انتخاب میں شامل ہر غزل مقطع کی بنیاد پر شاعر سے منسوب ہے یعنی غالب نے کہیں اسد تخلص کیا اور کہیں غالب تو یہاں یہی درج ہے کہ غزلِ اسد ،غزل ِ غالب۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرتب نے کس قدر محنت کی ہوگی۔پس طے ہوا کہ میر تقی میر ،اشرف علی خان اور ہوش کی مفروضہ غزل میں پانچ شعر منور خان غافل کے،دو شعر مرزا تقی ہوس کے اور ایک شعر یعنی مقطع میر تقی میر کے بیٹے میر حسن عسکری المعرف میر کلو عرش کا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استفادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ریاض الفصحا:مصحفی
۲۔آبِ بقا:نشتر لکھنوی
۳۔خم خانہ ء جاوید:لالہ سری رام
۴۔دیوانِ غافل: منور خان غافل
۵۔انتخابِ ہوس:سید سلیمان حسین
۶۔ہوس،شخصیت و فن: آغا حید رحسن عابدی
۷۔مجمع الاشعار: نادرحسین خان
۸۔گل دستہ حفیظ: حفیظ اللہ خان
۹۔نغمہ ء دل کش:مکھن لعل
۱۰۔تلامذہ ءمصحفی: افسر صدیقی امروہوی
۱۱۔تحقیقی مطالعے:عطا کاکوی
۱۲۔انتقادیاتِ ادب: نیازفتح پوری
۱۳۔بحرالفصاحت:حکیم نجم الغنی
۱۴۔گل دستہ ء امانت: امانت لکھنوی
۱۵۔دیوانِ مصحفی،جلد پنجم
۱۶۔کلیاتِ میر
۱۷۔خوش معرکہ ء زیبا:سعادت خان ناصر
۱۸۔غزل اثاثہ: محبو ب ظفر
۱۹۔دیوانِ عرش(میر کلو عرش)
۲۰۔ریختہ ڈاٹ کام

Related posts

2 Thoughts to “ایک غزل: فسانے سے حقیقت تک ۔۔۔۔۔ خورشیدربانی”

  1. Musa kalim dotani

    بہت خوب۔۔۔ خورشید ربانی صاحب
    کیا تحقیقی اور تنقیدی مضمون لکھا ہے۔ جس میں تدوینی زاویوں پر بھی روشنی ڈالی گئ ہے۔ ماخذات سے رجوع کرتے وقت جس تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس مضمون سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ اور ہمارا آج کا نام نہاد ناقد اور محقق جس تساہل پسندی کا شکار ہے۔ اس کی مذمت خوب صورت انداز میں کی گئ ہے۔ ہم جیسے طالب علموں کے لیے تحقیق کی راہیں روشن کا بہت شکریہ۔۔۔ سلامت رہیں۔ شاد آباد رہیں۔۔۔۔ آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید موضوعات پر تحقیق کرنے والے اگر قدیم ادب کو بھی تحقیقی نگاہ سے دیکھیں گے تو بہت کچھ نیا آ سکتا ہے۔

  2. Musa kalim dotani

    بہت خوب۔۔۔ کیا تحقیقی اور تنقیدی مضمون لکھا ہے۔ جس میں تدوینی زاویوں پر بھی روشنی ڈالی گئ ہے۔ ماخذات سے رجوع کرتے وقت جس تنقیدی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس مضمون سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ اور ہمارا آج کا نام نہاد ناقد اور محقق جس تساہل پسندی کا شکار ہے۔ اس کی مذمت خوب صورت انداز میں کی گئ ہے۔ ہم جیسے طالب علموں کے لیے تحقیق کی راہیں روشن کا بہت شکریہ۔۔۔ سلامت رہیں۔ شاد آباد رہیں۔۔۔۔ آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید موضوعات پر تحقیق کرنے والے اگر قدیم ادب کو بھی تحقیقی نگاہ سے دیکھیں گے تو بہت کچھ نیا آ سکتا ہے۔

Musa kalim dotani کو جواب دیں جواب منسوخ کریں