جی چاہتا ہے اور اندھیرا دکھائی دے۔۔۔ لیاقت علی عاصم کی سیرِ شب اور ہم

 

از: حامد یزدانی

کینیڈا کی معروف ماہرِ رقص خاتون شینن لٹسن برگر اب کے اپنے آبائی انتہائی سرد شمالی صوبے سسکیچوان گئیںتو وہاں انھیں گراس لینڈ زنیشنل پارک کی سیرِ شب کا موقع بھی ملا۔ گراس لینڈز پارک کینیڈا کے ان چودہ پارکوںمیں سے ایک ہے جنھیں سرکاری طورہر ’’ڈارک سکائی ریزرو‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ گراس لینڈزکینیڈامیں اس نوعیت کاسب سے بڑا نہ سہی، سب سے تاریک آسمان کا حامل پارک ضرور ہے۔ ۷۲۹ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہُوا یہ وسیع میدان انسانی آبادی اور اس کے اثرات سے میلوں دُور واقع ہے۔ شینن نے دیکھا کہ شام چھ بجے تاریکی آہستہ آہستہ تا حدِ نگاہ پھیلے میدان میں اپنے پرَ پھیلانے لگی تھی۔ مصنوعی اور شہری روشنیوں کی آلودگی سے پاک یہ قدرتی منظر دیکھتے ہی دیکھتے گہرا ہوتا چلا جارہا تھا۔ پھر ستاروں کی ایک ہلکی سی تہ نمودار ہوئی جو تھوڑی ہی دیر میں خوب روشن ہو گئی۔ پھر اس کے پیچھے ایک اور تہ اُبھرتی ہوئی دکھائی دی اور پھر۔۔۔ اس کے اوپر ایک اور۔۔۔اور اس سے اوپر ایک اور۔۔۔شینن ستاروں کی پچاس تہیں گننے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ وسیع تاریک میدان پر چھائے گہرے نیلے آسمان سے تہ در تہ ستارے گویا دمکتی جھالروں کی طرح نیچے لٹک رہے تھے۔ لق و دق خاموشی اور بے کراں تنہائی کے اس خواب ناک منظر میں پرندوں کی چہکاریں اور جھینگروں کی آوازیں،پسِ منظر موسیقی کا کردار ادا کر رہی تھیں۔حقیقی رات کاقدرتی حُسن بہ یک وقت اپنی تمام تر جاذبیت، حُسن اوردہشت کے ساتھ جلوہ گر تھا۔
شینن واپس شہر ٹورانٹو پہنچیںتو گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھی اپنی کتابوں کی ا لماری کی طرف لپکیں، جہاں یارک یونیورسٹی کے انگریزی ادبیات کے پروفیسر کرسٹوفر ڈیوڈنی کی تصنیف ’’ شب آشنا: اندھیرا چھاجانے کے بعد دنیا کی سیر‘‘ اُٹھائی۔شینن نے ورق گردانی کرتے ہوئے محسوس کیا کہ کرسٹوفرنے اپنی کتاب میں جس فرضی رات کا ذکر کیا ہے، اس کے کئی منظر وہ ابھی ابھی گراس لینڈز پارک میں سیرِ شب کے دوران میں دیکھ کر آرہی تھیں۔ سانس لیتے ہوئے، دمکتے ہوئے،لبھاتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے زندہ مناظر؛ زندہ اور شفاف رات۔ انھوں نے کتاب ختم کی اوراس کے مندرجات کو اپنی آنکھوں اور احساس کے حالیہ تجربے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک تخلیقی رقص یعنی ’’رقصانہ ‘‘تیار کیا ’’دُنیا : اندھیرا چھانے پر‘‘ جس کی نمائش کچھ روز قبل ٹورانٹو کے واٹر فرنٹ تھئیٹرمیں ہوئی۔شینن کے اس تخلیقی تجربے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ کرسٹو فر ڈیوڈنی نے اپنی اعزاز یافتہ منفرد تصنیف کی بنیاد اعترافیہ انداز میںممتاز امریکی شاعر رابرٹؔ فراسٹ کی ۱۹۲۸ءمیں لکھی گئی دل کش نظم ’’Acquainted with the Night‘‘( شب آشنا)کے ان مصرعوں پر استوار کی تھی:
I have been once acquainted with the night
I have walked out in rain and back in rain
I have walked the furthest city light
کرسٹوفر اور شینن کا پیغام یہی ہے کہ ’’ آئیں ،اُس اصل اور حسین رات کو ڈھونڈیں،جسے ہم کہیں کھو چکے ہیں‘‘۔جیسے ہی میں نے اپنے ان دو کینیڈین ہم وطنوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے رات کے کھوج کا عزم کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دنیا کے مختلف خطّوں اور زمانوں کے کتنے ہی فن کاراپنے اپنے غُرفہ ٔ شب سے نظارۂ شب میں مگن ہیں،مگر کچھ ہی دیوانے ایسے ملے جو جھروکوں سے نکل کر رات کے دل میںاُتر جانے کی ہمت رکھتے تھے۔ حقیقی رات کی تلاش میںجو میرے ہم قدم ہو ئے یا جن کا میں ہم قدم ہوا، اُن میں سے ایک نام میرے احساس کے بہت ہی قریب دھڑکتا رہا اور وہ نام تھا: لیاقت علی عاصم۔ اس قربت کی فوری وجہ یہ احساس تھا کہ مجھ سے بہت سے دوسرے محبینِ شب کی طرح عاصم صاحب بھی اس کاروانِ شب کے زندہ دل مسافر نکلے، وہ بھی شام سمے اپنے شانے کو دن کے بوجھ سے آزاد کرکے راحت محسوس کرتے ہیں:
بوجھ تھا اک صبح کے آنے سے دن

شام آئی، گِر گیا شانے سے دن
انھیں اپنے شہرِ حال سے یہ گلہ بھی رہا کہ اِدھر شام ڈھلی اور اُدھر:
محفلیں ختم ہوئیں، حلقہ ٔ احباب گیا
اور شہر کے ایک گوشے سے دھیمی دھیمی سی شکایت اُبھرتی سنائی دیتی:
اب تو یہ شہر سرِ شام ہی سو جاتا ہے
اور اس شہر کے باسیوں کے حوالے سے عاصم صاحب کا مشاہدہ کہاں تک ہے ، وہ خود بتاتے ہیں:
ہم نے وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جو دن ڈھلتے ہی

ایسے سو جاتے ہیں جس طرح کہ مر جاتے ہیں
چلیے صاحب! مر جانے پر بھی کچھ اعتراض نہیں، بس:
موت منظور ،مگر نیند تو آئے پہلے
اب ایسے زندہ دل و ضمیر کا کیا کِیا جائے جنھیں نیند آتی ہی نہیں۔ ایسے شب زندہ دار یا تو اللہ کے ولی ہوتے ہیں یا ہجر زدہ عاشق یا پھر شاعر جو حقیقت کو خوابوں میں ڈھالنے پر مصر ہوتے ہیں، جنھیں یقین رہتاہے کہ:
ڈوبے گا آفتاب مِری خواب گاہ میں
اب خواب گاہ میں یہ آفتاب ڈوبتا ہے توسارے کا ساراماحول خوابیدہ ہونے لگتا ہے، حتیٰ کہ :
جاگتے تھے تِری تصویر کے امکاں جن میں

اب تو وہ رنگ بھی دیوار میں سو جاتے ہیں
اوررنگ سو جانے کے بعد پھر شاعر دیکھتا ہے کہ:
دیوار و در میں کچھ نہیں تنہائی کے سوا
انسان کا دل بھی عجیب شے ہے، محفل ہو تو تنہائی چاہتا ہے اور تنہائی میسّر آجائے تو محفل کا طلب گار ہو جاتا ہے۔ جب گھر کے درودیوار کیا، یادوں کی تصویر کا رنگ ِ امکان بھی سو جاتا ہے تو خیال آتا ہے کہ شاید چار دیواری سے باہر سکون آور محفل ہو مگر اندر ہی اندر کوئی ڈرانے بھی لگتا ہے:
بڑا اَندھیر ہے، باہر نہ جاؤ
اُسی وقت وہیں کوئی یوں بھی اُکسا رہا ہے:
آ، نکل جائیں شبِ وہم و گماںسے آگے
عجیب کشمکش ہے۔ کیسی الجھن ہے! ۔۔۔۔مگر سفر آمادہ دل کب ٹھہرتا ہے، اسے تو ازل ہی سے بے تابی نصیب ہوئی ہے۔ ہرہر لمحہ ایک نئی جہت کا شوق، ایک نئے زمانے کی دُھن:
ہر لمحہ ایک اور زمانے کی دُھن میں ہوں
آیا ہوں جب سے میں، کہِیں جانے کی دُھن میں ہوں
لیکن کہاں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں۔ دل کی بے چینی قدموں کی ہمت بن جاتی ہے اور ایک اور اَن جانی منزل کی جانب سفر آغاز ہو جاتا ہے۔ایک ایسی منزل، جہاں پہنچ کر ازل کا ہجر ختم ہو جائے مگر تنہائی ختم نہ ہو۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے! اِسی سوچ میں گُم رابرٹ فراسٹ، کرسٹوفر ڈیوڈنی، شینن لٹسن برگر اور لیاقت علی عاصم کے ساتھ کب میںاپنے خواب خواب گراس لینڈز پارک پہنچ گیا، مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔داخلی دروازے ہی پر رات ہم سے پوچھتی ہے، کیا ہم ایک دوسرے سے پہلے مِل چکے ہیں؟ مجھے تو کچھ سوجھتا نہیں ،ہاںعاصم صاحب جواب دیتے ہیں:
ہم تم ستارہ وار ملے تھے زمین پر

شاید یہ آسمان سے پہلے کی بات ہے
داخلے کی اجازت مل جاتی ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان کی گہری سیاہی مائل چادر ہمارے سروں پر تنی ہے، دور دور تک، جہاں تک ہماری بینائی کی دست رَس ہے، وہاں تک، اور اس چادر سے آویزاں جگمگاتے ستاروں کی جھالریں ڈھلک ڈھلک پڑ رہی ہیں۔ تہ در تہ ، لڑی لڑی جھولتے ستارے،رات اور ہم ۔ لطف کی بات یہ کہ ہم سب یہاں ہیں، اکٹھے ہیں اور تنہائی بھی ہے۔ عجیب بات ہے ناں۔ عاصم صاحب کو اس پر کچھ حیرت نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں:
یہ کوئی بھیڑ نہیں، مجمعِ تنہائی ہے
اور میری حیرت کو درخورِ اعتنا نہ جانتے ہوئے اپنی ہی دُھن میں کہے جاتے ہیں:
ستارے تو نکلتے ہیں، یہ تنہائی تو ہوتی ہے

کوئی آئے نہ آئے ،بزم آرائی تو ہوتی ہے
ستارہ آرا اِس بزم میں کبھی توہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ ستارے اتنے قریب ہیں کہ بس ہاتھ بڑھائیں گے اورانھیں چھو لیں گے، اور کبھی لگتا ہے کہ یہ ناممکن ہے ۔ اسی کشمکش میں دلِ حسرت زدہ کہہ اٹھتا ہے:
ستارے ٹوٹ کے دامن میں آ نہیں سکتے!
دل حسرت میں جانے کیا کشش تھی کہ یک دم ایک ستارہ نیلگوں فلک سے دامنِ دل کی طرف لپکنے لگتا ہے:
ہاتھ بے ساختہ پھیلا دیے اُس کی جانب

اور کیا کرتا میں ٹوٹے ہوئے تارے کے لیے
اب دل میں اُمید زندہ ہو جاتی ہے اور کوئی کہتا ہے:
ابھی تو بس اِک ستارے ہی سے نظر لڑی ہے، دلِ فسردہ!
ابھی تو اس نیلگوں مکاں میں بہت دریچے پڑے ہوئے ہیں
جی ہاں، یہ تو شب یافتگی کا پہلا مرحلہ ہے۔وقت کی چاپ کا احساس تک بھی نہیں۔ رات بھیگ چکی ہے۔ وقت پوچھیے بھی تو جواب آتا ہے:
بند ہے آج بھی گھڑی شاید

رات کے بج رہے ہیں پونے دو
گھڑی چاہے بند ہو، وقت تو بہر حال چل رہا ہے اور منزل۔۔۔اگر کوئی ہے تو ،بہت دور ہے۔زمین سے آسمان تک اور آسمان سے زمین تک سفر در سفر۔دریچہ دَر دریچہ، راہ دَر راہ۔ دیکھیے تو:
زمیں سے تا بہ فلک راستہ بنا ہوا ہے
اپنے ارد گرد نگاہ کرتے ہیں تو کوئی دِیا نہیں، کوئی چراغ نہیں۔ کوئی مصنوعی کرن نہیں ،جو ہے، سب اصلی ہے، فطری اور قدرتی ہے ، معصوم ہے، خالص ہے۔ خالص اور سچا اندھیرا۔ایک شفاف اور کھری تاریکی جو دن کے تصنع اور اس کی روشنی کی آلایش سے قطعی پاک ہے۔ ایسی نعمت کو کون جھٹلائے!کہتے ہیں نعمتیں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اسی لیے عاصم صاحب بڑے اعتماد سے کہتے ہیں:
یہ بد دعا نہیں ہے کہ ہو تُو بھی بے چراغ

جِی چاہتا ہے اور اندھیرا دکھائی دے
کیوںکہ دن کا دھندلاشیشہ قدرت کے وہ حقیقی رنگ اجاگر نہیں کرپاتا جو رات کے شفاف آئینے میں جلوہ گر ہوتے ہیں:
جو روشنی میں تِرے خدوخال میں گُم تھے

دکھا دیے ہیں وہ سب رنگ تیرگی نے مجھے
بصارت کو رات میں صرف سیاہی دکھائی دیتی ہے مگر بصیرت کو فطرت کی ایسی رنگا رنگی کا میلہ دکھائی دیتا ہے جس میں محفل اور تنہا ئی اپنے انفرادی وجود اور اپنی حدود کی ظاہری قیود سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ اردگرد سے بے پروا، شب زندہ دار درویش کی طرح ایک دھمال کی وارفتگی میں کھو جاتی ہیں، کائنات کے محور میں تکوین کے مدار پردائرہ دائرہ گھومتی چلی جاتی ہیں۔ ہوش میں آنے پر اکثر کچھ یاد نہیں رہتا ۔ہاں ارد گرد کھنچا دائرہ کچھ احساس سا جگاتا ہے کہ:
ہمارے ساتھ کوئی رقص کر چکا ہے یہاں

ہمارے گرد کوئی دائرہ بنا ہوا ہے
کس نے کس کے ساتھ رقص کیا، کیوں کیا،کب تک کِیا؟ کسی پر کچھ کُھلتا نہیں۔ ازل کے رموزسے اَسرا و معراج کے اَسرارتک کائنات کا رقص الست کی کس تال پر ہوا، سب بھید رات نے اپنے سینے میں چھپا رکھے ہیں۔ رات تاریکی کی چادر اوڑھے خدا مست صوفی کی طرح مست ہے۔ اپنی بُکل ہر کسی کے سامنے کھولتی نہیں۔ سو رات بھی چپ ہے اور ہم مسافرانِ شب بھی خاموش ہیں اور یوں:
دونوں جانب کی خاموشی

بات مکمل کر دیتی ہے
بات مکمل کرنا اب ضروری بھی ہے کیوںکہ صبح کے اجالے کے ساتھ اس مجمعِ تنہائی کو منتشر ہو جانا ہے :
صبح دم کُوچ کا ارادہ ہے

بات کرلو کہ رات جاتی ہے
رات کے دل پزیر مناظر سے ہم کلامی میں رات کب بیت گئی، کچھ احساس ہی نہیں ہوا۔ذہن سوچ رہا ہے:
رات گزری مگر کہاں گزری!
خیر وہ تو بھلا ہو لیاقت علی عاصم صاحب کا، جو ’’ میں صاحبِ کمال ہوں عہدِ زوال کا‘‘ اعلان کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں:
جمع سب رات کا شیرازہ کرو، صبح بخیر
دل پھر بھی اس ملاقاتِ شب کے اختتام کی حقیقت کو قبول کرتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کا کہنا ہے کہ:
اِس ملاقات کا انجام نہیں ہے کوئی
سو صبح ہوتے ہوتے یہ خواب خواب ملاقات بھی بکھرہی گئی۔ ہر سفر ختم ہوجاتا ہے اور ہر آغاز اپنے انجام سے آشنا ہو کر رہتا ہے۔ لیاقت علی عاصم کہتے ہیں:
رات اک خواب بکھر جاتا ہے ان آنکھوں میں

صبح اک پھول سجا لیتا ہوں بستر کے قریب
سوچتا ہوں، خواب کے اس بکھرتے پھول کی خوشبو بھی یہاں کتنوں کو نصیب ہے ! اور ہو بھی کیسے سکتی ہے ،یہ کوئی معمولی اور عارضی خواب تو ہیں نہیں:
ہمارے خواب ہیں صدیوں کی داستان لیے
داستان اور رات کا رشتہ کون نہیں جانتا ۔ الف لیلہ کی حکایات سے لے کر عالمی جنگوں کی روایات تک دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ، شانے سے شانہ ملائے ۔اورپھریہ صدیوں کی داستاں دامن میں سمیٹے خواب کِن خوش نصیب آنکھوں کے حصے میں آتے ہیں ! کون جانے۔ہماری آنکھوں کو خواہش کی توفیق ملتی تو ایسی خوش نصیبی کی خواہش ضرور کرتیں۔

Related posts

3 Thoughts to “جی چاہتا ہے اور اندھیرا دکھائی دے۔۔۔ لیاقت علی عاصم کی سیرِ شب اور ہم”

  1. Dr Shabbir Ahmad Qadri

    jhuputay jab raton ki sehkaari ki shakl ikhteaar kartay hain to hassas dilon par jo guzarti hay ,wohi jantay hain , aap nay jo sair-e-shab kay dilkash manzar dikhay hain wo mashoorkun aour dil faraib hayn , aap ka tarz-e-tahreer man khichwan hay , ba’z jumlay ”jaan lawa” hain un ki daad qubool farma’yn , koe aour .manzar , koe aour fun para

    1. Hamid Yazdani

      ڈاکٹر شبیر احمد قادری صاحب۔ ممنونِ توجہ ہوں۔ لیاقت صاحب کی شاعری عاجز کی تحریری کوشش آپ کو پسند آئی۔ میں خوش ہوں۔ اس تحریر میں کمال تو لیاقت صاحب کی شاعری کا ہے اور پھر نوید صادق بھائی کی محبت کی انہوں نے لکھنے کا موقع عطا کیا ’’کارواں‘‘ کے لیے۔ حوصلہ افزائی لیے شکر گزار ہوں آ پ کا۔

  2. Zia Turk

    ماشاءاللہ،
    برادر مکرم نوید صادق!!
    کیسا عمدہ کام کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔!! مجھے جہاں آپ کی اس کارگزاری پر از حد مسرت ہے، وہیں شرمسار ہوں کہ جب آپ نے مجھے اس خاص نمبر کے لیے لکھنے کا امر فرمایا تو میں کچھ ناگزیر اور بسیار توجہ طلب امور کے باعث تعمیل نہیں کر پایا۔۔۔
    سچ کہوں، تو از بس منفعل ہوں اور عفوودرگزر کے لیے خواستگار بھی۔۔
    بہت محبت، تہ دل سے دعائیں

Dr Shabbir Ahmad Qadri کو جواب دیں جواب منسوخ کریں