نجیب احمد

آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا ایک دن ، رات ڈھلے یومِ حساب آئے گا مطمئن ایسے کہ ہر گام یہی سوچتے ہیں اس سفر میں کوئی صحرا نہ سراب آئے گا یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزرے گی عمر جب کاٹ چکوں گا تو شباب آئے گا کب مری آنکھ میں خوں رنگ کرن اُترے گی رات کی شاخ پہ کب عکسِ گلاب آئے گا زرد مٹی میں گھلی سبز توانائی نجیب اب ذرا آنکھ لگی ہے تو یہ خواب آئے گا

Read More

تجزیہ ۔۔۔۔ جاں نثار اختر

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن پھر بھی جب پاس تُو نہیں ہوتی خود کو کتنا اُداس پاتا ہوں گم سے اپنے حواس پاتا ہوں جانے کیا دهن سمائی رہتی ہے اک خموشی سی چھائی رہتی ہے دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی میں تجھے چاہتا نہیں لیکن پھر بھی رہ رہ کے میرے کانوں میں گونجتی ہے تری حسیں آواز جیسے نادیدہ کوئی بجتا ساز ہر صدا ناگوار ہوتی ہے دل کی دھڑکن بھی بار ہوتی ہے ان سکوت آشنا ترانوں میں میں تجھے چاہتا نہیں لیکن پھر بھی شب…

Read More