شہاب صفدر ۔۔۔ خوشبو سی پھیل جاتی ہے سارے میں گفتگو

خوشبو سی پھیل جاتی ہے سارے میں گفتگو جس کُنج بھی کریں ترے بارے میں گفتگو یہ سوچ کر ہیں عُمر کے اس موڑ پر خموش اب فائدے میں ہے نہ خسارے میں گفتگو وہ لب دکھا رہے تھے کسی خواب کی بہار وہ آنکھ کر رہی تھی اشارے میں گفتگو الفاظ اور معنی میں حائل ہے موجِ رنگ اٹکی ہوئی ہے ایک نظارے میں گفتگو خوش لہجہ ہم کلام ہوا تھا کوئی شہاب محفوظ ہے وہ دل کے شمارے میں گفتگو

Read More

ممتاز راشد لاہوری ۔۔۔ اردو ماہیے

جذبات کا دریا ہے وصل کے موسم میں __ ہمدم نے پکارا ہے ……………… برسات کے میلے میں مل کر ہم دونوں __ بھیگیں کے اکیلے میں ……………… جینا بھی دُوبھر ہو خدشہ رہتا ہے __ دوری نہ مقدّر ہو ……………… حالات کی گھاتیں ہیں کچھ بھی تو بس میں نہیں __ تقدیر کی باتیں ہیں ……………… ایذائیں سہتے ہیں اُن کے تغافل پر __ہم کُڑھتے رہتے ہیں ……………… کچھ کھاتے کھولے ہیں صبر ہی کرتے رہے __تنگ آکر بولے ہیں ……………… وحشت کا عالم ہے اخراجات بہت__ تنخواہ بہت…

Read More

حمید حیدر اعوان ۔۔۔ صحرا میں قافلے کے نشاں ڈھونڈتا رہا

صحرا میں قافلے کے نشاں ڈھونڈتا رہا بچھڑے تھے کس جگہ میں کہاں ڈھونڈتا رہا دشمن نے کند تیر سے بدحال کر دیا اور میں کہ تیز دھار سناں ڈھونڈتا رہا احساس، بندگی کا اُسے دیر سے ہوا غافل، سکون پیشِ بُتاں ڈھونڈتا رہا تسخیرِ کائنات کے جذبے سے لیس تھا پیری میں بھی وہ تاب و تواں ڈھونڈتا رہا حیدر جو با وفا تھے وہ سولی پہ چڑھ گئے میں عشق میں بھی سود و زیاں ڈھونڈتا رہا

Read More

ممتاز راشد لاہوری ۔۔۔ اقبال راہی کی نذر

دلوں پر کر رہے ہیں بادشاہی ہمارے محترم اقبال راہی سدا سے سوچ ہے ان کی فلاحی بہت سے کام ہیں ان کے رفاہی یہ ذہن و دل کو رکھتے ہیں منور مِٹاتے ہیں یہ سینوں کی سیاہی کھلا ہے آستانہ اِن کے دل کا نہ قدغن ہے نہ ہے کوئی مناہی جواباً بانٹتے ہیں مسکراہٹ کوئی جتنی بکے واہی تباہی قیادت میں اِنہی کی سربکف ہیں سُخن کی فوج کے اکثر سپاہی حقیقت میں یہی ہیں مغلِ اعظم حقیقت میں یہی ظِلِّ الٰہی عطا ان کو ہوئی ہے ایسی…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ ہر ایک لحظہ رُخِ داستان بھی بدلے

ہر ایک لحظہ رُخِ داستان بھی بدلے وہ بات بات پہ اپنا بیان بھی بدلے ہمارے سر سے کبھی غم کا آسماں نہ ہٹا بدل کے دیکھ لی بستی ، مکان بھی بدلے کبھی یہ وہم ہوا سنگ اُٹھائے پھرتی ہے کبھی یقین کہ یہ آسمان بھی بدلے اُس ایک شخص نے بدلا ہے میرا منظر زیست پھر اس کے بعد زمین و زمان بھی بدلے بدل کے رکھ دوں سوالِ حیات رخشندہ مگر یہ کمرۂ امتحان بھی بدلے

Read More

دانش عزیز ۔۔۔ مقدمہ

عجب بھگدڑ ہے، شُورش ہے دماغ و قلب اْلجھے ہیں یہ آنکھیں ہاتھ اور بازو سبھی کیوں سہمے سہمے ہیں اِنہیں کیا خوف لاحق ہے زمینِ دل پہ ہر جانب اگرچہ ہْو کا عالم ہے مگر یہ شور کیسا ہے یہ منظر حشر جیسا ہے بگل بجتا ہے اور جیسے بدن کے سارے اعضا کو کڑا اِک حکم ملتا ہے نظر نیچی رہے تیری سِلے ہوں ہونٹ آپس میں کوئی ہچکی، کوئی سسکی، کوئی آواز بھی ابھرے نہ ہونٹوں کو دلاسے کا تیقن ہو فقط خاموشی، چاروں سَمت خاموشی قطار…

Read More