رخشندہ نوید ۔۔۔ دو غزلیں

زمانے کا غلط انداز کیوں ہے یہاں ہر شخص دھوکے باز کیوں ہے کسی نے کیا مجھے پھر سے پکارا ترے جیسی کوئی آواز کیوں ہے میں روزانہ بہت جلدی سے سوئی سہانا خواب جانے شاذ کیوں ہے محبت کیا سپردِ خاک کر دوں؟ بھٹکتی روح بے پرواز کیوں ہے نہ رکھنا آیا جب دل ہی کسی کا تو پھر اس افسری پہ ناز کیوں ہے کئی برسوں سے یکباری نہ پوچھا کوئی تم سے بھلا ناراض کیوں ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی سرسوں کے مانند پھر سے پیلی ہوئی تو…

Read More

محمد ارشاد ۔۔۔ ہر چند ظفر کا ہے وسیلہ تو سفر بھی

ہر چند ظفر کا ہے وسیلہ تو سفر بھی رہ بھول گئے گھر کی رہا یاد نہ گھر بھی جس پُل سے گزرنا ہے وہ تلوار کی ہے دھار یکساں ہیں چپ و راست اِدھر اور اِدھر بھی احوال سنائیں کسے کیا آب و ہوا کے ٹِک پائے بگولے نہ ٹھہر پائے بھنور بھی یہ دفن بگولے میں تو وہ غرق بھنور میں ہے خشک جو دامن تو بھی کیا ، کیا ہے جو تر بھی نایاب نہیں عدل و مساوات جہاں میں جتنی ہے دُمِ فیل ہے اتنی دمِ…

Read More

فرہاد ترابی ۔۔۔ ریشم و اطلس و کم خواب نہیں دیکھتے ہیں

ریشم و اطلس و کم خواب نہیں دیکھتے ہیں ہم پہ الزام ہے ہم خواب نہیں دیکھتے ہیں جب وہ آتا ہے سرِ شام لبِ بام کبھی آسماں! ہم ترا مہتاب نہیں دیکھتے ہیں آپ اسے کچھ بھی کہیں آپ کی مرضی ہے جناب ٹھان لیتے ہیں تو اسباب نہیں دیکھتے ہیں یہ الگ بات کہ ہنستے ہوئے ٹالا ہے اسے دل پہ کیا گزری ہے احباب نہیں دیکھتے ہیں بستیاں جن کی ہوں دریا کے کنارے فرہادؔ گھر بناتے ہوئے سیلاب نہیں دیکھتے ہیں

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے

غزل کا مطلع سنوار لیتے ہیں آؤ بالوں سے بالیوں سے سجیلے ماتھے کے سرخ ٹیکے سے اور ہونٹوں کی لالیوں سے پُرانے کیمپس کے پیڑ ہاتھوں کا لمس پانے کے منتظر ہیں وہ شخص چھُو چھُو کے سبز کرتا تھا پھول جھڑتے تھے ڈالیوں سے یہ رسمِ تازہ گلاب پاشی بھی چیر دیتی ہے گُل کا سینہ کہ پھول مٹی میں رول دیتے ہیں لوگ چُن چُن کے تھالیوں سے مجاورانِ مزارِ اُلفت سے لوگ پوچھیں گے دفن کیا ہے ؟ تو پیر و مرشد! میں کیا بتاؤں گا،…

Read More