غزل بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت زیرِ لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا بے ارادہ لمس…
Read More