بدن بیکل نہ گردش میں لہو ہے یہ کیسا خوف میرے چار سو ہے ابھی جو دور ہے وہ روبرو ہے جو پہلو میں ہے اس کی جستجو ہے تمہارے دم سے میری زندگانی تمہارے دم سے میری آبرو ہے سمندر سے الجھتی ہے ہمیشہ یہ کتنی لا اُبالی آب جو ہے وہ تو ہے جو پسِ پردہ کھڑا ہے وہ میں ہوں سرپھرا جو کوبکو ہے ہماری بات کوئی کیا سنے گا بڑی پھیکی ہماری گفتگو ہے ہمارے دل میں ہے تصویر تیری ہماری آنکھ میں بھی تو ہی…
Read MoreDay: نومبر 27، 2024
ریاض خیر آبادی
توبہ کر کے آج پھر لی ریاض کیا کیا کمبخت تو نے کیا کیا
Read Moreافضل گوہر
چندلوگوں کی محبت بھی غنیمت ہے میاں شہر کا شہر ہمارا تو نہیں ہو سکتا
Read Moreشاہد اشرف
پھول اتنے ہیں سنھبالے نہیں جاتے مجھ سے اور کانٹے بھی نکالے نہیں جاتے مجھ سے
Read Moreاسحاق وردگ
ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا وہ اک بندہ خدا ہونے سے پہلے
Read Moreصغیر احمد صغیر ۔۔۔ وقت پڑنے پہ اگر کام نہ آئے دنیا
وقت پڑنے پہ اگر کام نہ آئے دنیا ایسی دنیا ہے تو پھر بھاڑ میں جائے دنیا نہ بنی تھی یہ کسی کی نہ ہے بننے والی پھر بھی ہر شخص یہ کہتا ہے کہ ہائے دنیا پارسا ہوں کہ گنہگار میں سب جانتا ہوں میرے بارے میں مجھے کچھ نہ بتائے دنیا سچ بتاتے ہوئے خاطر میں نہیں لانے کا جس قدر چاہے بھلے شور مچائے دنیا کوئی خواہش کوئی لالچ نہ ہوس ہے دل میں ہم فقیروں پہ عبث سر نہ کھپائے دنیا ما سوا لَھوْ و لَعِب…
Read Moreسارا شگفتہ ۔۔۔ خالی آنکھوں کا مکان
خالی آنکھوں کا مکان مہنگا ہے مجھے مٹی کی لکیر بن جانے دو خدا بہت سے انسان بنانا بھول گیا ہے میری سنسان آنکھوں میں آہٹ رہنے دو آگ کا ذائقہ چراغ ہے اور نیند کا ذائقہ انسان مجھے پتھروں جتنا کس دو کہ میری بے زبانی مشہور نہ ہو میں خدا کی زبان منہ میں رکھے کبھی پھول بن جاتی ہوں اور کبھی کانٹا زنجیروں کی رہائی دو کہ انسان ان سے زیادہ قید ہے مجھے تنہا مرنا ہے سو یہ آنکھیں یہ دل کسی خالی انسان کو دے…
Read Moreمستحسن جامی ۔۔۔ بکھرا ہوا وجود منظم کرے کوئی
بکھرا ہوا وجود منظم کرے کوئی احساں یہ مجھ نحیف پہ پیہم کرے کوئی دو چار دن کا گریہ نہیں عمر بھر کا ہے میری طرح سے آنکھیں ذرا نم کرے کوئی تنہا دلوں کی ویسے بھی رکھتا خبر ہے کون اک بے نوا کے رنج ہیں کیا غم کرے کوئی محبوب کے مزاج کا ہر رنگ منفرد شائستگی سے یار کو برہم کرے کوئی جو تجھ سے دْور ہو وہ کہاں صبر کر سکے تجھ سے بچھڑ کے کیسے نہ ماتم کرے کوئی دنیائے ہست و بود کا ہر…
Read Moreاحمد جلیل ۔۔۔۔ امجد اسلام امجد کی یاد میں
امجد اسلام امجد کی یاد میں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ ڈوب گیا منزلوں کا اشارہ ڈوب گیا علم و فن کا غرور تھا امجد فن کا وہ استعارہ ڈوب گیا اس کے فن پارے روشن و رخشاں روشنی میں وہ سارا ڈوب گیا اس کے کردار ہیں امر سارے خود اجل سے وہ ہارا ڈوب گیا دیکھتا تھا وہ ساحلوں سے جسے اس بھنور میں کنارا ڈوب گیا جیت ، امید اور رجا کا نقیب موت سے وہ بھی ہارا ڈوب گیا آسمانِ ادب کا ماہِ منیر آج امجد ہمارا…
Read More