سننے والوں میں اِتنا پردہ ہے کوئی سنتا نہیں کسی کا شور
Read MoreDay: فروری 15، 2025
رانا سعید دوشی ۔۔۔ اہتمام
اہتمام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمالے! او جمالے! وہ بھوری بھینس جس نے مولوی کو سینگ مارا تھا گلی سے کھول کر ڈیرے پہ لے جا شکورے! بھینس کی کھُرلی کو رستے سے ہٹا دے پھاوڑے سے سارا گوھیا میل کے کھیتوں میں لے جا نذیراں! جا ذرا ویہڑے میں بھی جھاڑو لگا دے سُن! یہ ساری چھانگ بیری کی اُٹھا لے جا جلا لینا، غلامے یار! یہ…….. کیکر کے کنڈے…….. چھوڑ…….. میں خود ہی اُٹھا لوں گا تُو ایسا کر…….. حویلی میں جو ”موتی“ اور ”ڈبُّو“ پھر رہے ہیں ان کو سنگلی…
Read Moreظفر اقبال
پناہ چاہتا ہوں اور ظلم توڑتے ہیں زمیں سمجھتا ہوں اور آسماں نکلتا ہے
Read Moreرضی اختر شوق ۔۔۔ کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں
کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے درمیاں ایک طرف میں جاں بہ لب ، تارِ نَفس شکستنی بحث چھڑی ہوئی اُدھر، چارہ گروں کے درمیاں ہاتھ لئے ہیں ہاتھ میں، پھر بھی نظر ہے گھات میں ہمسفروں کی خیر ہو، ہمسفروں کے درمیاں اُسکا لکھا کچھ اور تھا، میرا کہا کچھ اور ہے بات بدل بدل گئی، نامہ بروں کے درمیاں جامِ صفال و جامِ جم، کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے اور بکھر بکھر گئے ، کُوزہ گروں…
Read More