جب قریہ قریہ گرم لہو کی دھار گئی
اک وحشت خیز صدا سینوں کے پار گئی
اک درد کی گونج سے دل کا مکان لرز اٹھا
اور سناٹے کی چیخ سرِ بازار گئی
اک مات کو جیت بنانے گھر سے نکلے تھے
پر دشت ِ سفر کی وحشت ہم کو مار گئی
اب شامیں صبحوں کی دہلیز پہ بیٹھی ہیں
اب اس بستی سے چڑیوں کی چہکار گئی
جب جا کے اُفق کی جھیل میں سورج ڈوب گیا
تب شہر بہ شہر ستاروں کی للکار گئی
کل رات کے پچھلے پہر کی سرد ہوا خالدؔ
میرے سینے میں ہجر کا درد اتار گئی
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...