سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سُر میں ہے رنگ دھنک کا تیرے نام
جنگل جنگل اُڑنے والے سب موسم
اور ہَوا کا سبز دوپٹہ تیرے نام
ہجر کی شام، اکیلی رات کے خالی دَر
صبحِ فراق کا زرد اُجالا تیرے نام
تیرے بنا جو عمر بتائی ، بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصّہ تیرے نام
ان شاعر آنکھوں نے جتنے رنگ چُنے
ان کا عکس اور مرا چہرا تیرے نام
دکھ کے گہرے نیلے سمندر میں خاور
اس کی آنکھیں ایک جزیرہ تیرے نام
Related posts
-
مظفر حنفی ۔۔۔ سند باد کی واپسی
فوم ربر کے ایوانوں سے سر ٹکرا کر، لوہے کے تپتے بازاروں سے گھبرا کر، اپنی... -
مظفر حنفی ۔۔۔ مدافعت میں بھی تلوار اگر اٹھاتا ہوں
مدافعت میں بھی تلوار اگر اٹھاتا ہوں تو بے قصور کہاں ہوں کہ سر اٹھاتا ہوں... -
مظفر حںفی ۔۔۔ کبھی تو صدقہ مرا خاک سے اتارا جائے
کبھی تو صدقہ مرا خاک سے اتارا جائے مجھے بلندیِ افلاک سے اتارا جائے ادھر بھی...