زمیں سنولا گئی تھی، آسماں گہنا گیا تھا
قلم گم ہو گیا تھا اور دہن پتھرا گیا تھا
ہم اپنے منتشر سامان پر بیٹھے ہوئے تھے
نئی ترتیب کا پیغام غالب آ گیا تھا
بس اتنا یاد ہے ہم بالکونی میں کھڑے تھے
اور ان دیکھی زمینوں سے بلاوا آ گیا تھا
ہم اک بارہ دری کی سیڑھیوں پر سو گئے تھے
اور اک دریا ہمارے خواب سے ٹکرا گیا تھا
الجھ پڑتا تھا، اکثر بے سبب، بے وقت ہم سے
نظرانداز رہنے سے بدن سٹھیا گیا تھا
Related posts
-
سید آل احمد ۔۔۔
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے... -
حفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا... -
مرزا غالب ۔۔۔ جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا...