حسن ایسا کہ جو سب کو نظرآنے کا نہیں
عشق اِتنا کہ مِرے دل میں سمانے کا نہیں
بات ہے اور زباں پر نہیں لانے والی
راز ہے اور کسی سے بھی چھپانے کا نہیں
جی میں آتی ہے کہ لَے اور اٹھا تا جاؤں
اور یہ گیت کسی کو بھی سنانے کا نہیں
آپ سودائی ہیں تو شہر میں وحشت کیجے
یہ اثاثہ کسی صحرا میں لٹانے کا نہیں
آپ ہی اپنے لیے گوشہءعا فیّت ہُوں
خود سے نکلوں تو کسی اور ٹھکانے کا نہیں
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...