اور تو کچھ نہیں اِدھر میرا
اِک گزارا ہے خواب پر میرا
میں خبرگیریوں کے نرغے میں
دُور بیٹھا ہے بے خبر میرا
ہے یونہی صرفِ کارِ بے مصرف
یہ زرِ عمر بیشتر میرا
میں تو تیری رضا میں راضی ہوں
تُو ذرا خود خیال کر میرا
راہ ڈھلوان، پائوں لرزیدہ
رائگانی کا ہے سفر میرا
آہ، اے خوشبوئے گُلِ نورس!
تجھ سے رشتہ ہے سانس بھر میرا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...